(Last Updated On: )
سرینہ سرینہ شکر ہے تم ٹھیک ہو ورنہ میں نے تمہیں اتنا مارنا تھا کے کبھی بھی چھٹی کرنے کا نہ سوچتی۔پریسہ اس پر چڑھ دوڑی۔ارے پری کیا ہوا ۔وہ نہیں آیا۔میرا تو کوئی ارادہ نہیں تھا تم نے فون پر فون کر کے پاگل کیا ۔نہ تو آج کوئی کلاس ہے نہ ہی کوئی ایونٹ۔تو کیوں بلوایا ہے ۔سرینہ تنگ آکر گھاس پر بیٹھ گئی ۔اس کو کہاں آنا ہے اس کو نیند پیاری ہے ۔کتنے بے مروت ہو تم دونوں آج میری سالگرہ ہے اور تمہیں یاد نہیں ۔سرینہ کو اسکے انداز پر ہنسی آئی لیکن سنجیدہ ہو کر بولی۔سالگرہ تو سب کی ہوتی ہے اس میں کیا نیو بات ہے ۔
پریسہ صدمے سے اس کو دیکھنے لگی اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔
کتنی بدتمیز ہو اور ایک وہ جس نے ابھی تک وش نہیں کیا ۔ویسے تمہیں بتانے کا کیا فائدہ میں تم دونوں کے برتھ ڈے کتنی دھوم دھام سے مناتی ہوں اور تم کو زرا نہیں خیال ہماری دوستی کو تین سال ہو گئے ہیں ۔بٹ یوگایز آر سیلفش
سرینہ کو دل کھول کر قہقہہ لگانے کا دل تھا لیکن ضبط کر کے اس نے بہلول کو میسج کیا ۔
اچھا اچھا رو تو نہ یار۔چلو ایک اچھا سا ڈینر ہوٹل کرواؤ پھر میں تمہیں کچھ دوں گی ۔پریسہ نے اسے ایسے دیکھا جیسے تھوڑی دیر میں اس کی جان نکال دے گی ۔ارے کھا جاؤ گی کیا آج؟ پریسہ مان گئی اور وہ ہوٹل میں پہنچ گئے ۔
پریسہ ٹیبل آرڈر کرنے لگی تو منیجر نے بتایا کے ان کے نام کا پہلے سے بک ہے پریسہ نے حیرانگی سے سرینہ کو دیکھا سرینہ نے کندھے اچکائے
اچھا ٹھیک ہے
بڑی عجیب بات ہے نا ہم لوگوں نے بک کروایا نہیں اور ٹیبل پہلے سے بک تھا ۔وہ بھی میرے نام پر
اف پری اب کچھ آرڈر کرو۔بعد میں سوچنا ۔سرینہ نے مینیو کارڈ اٹھایا ۔اچانک میوزک کی آواز پر دونوں چونک گئی اور دیکھ کر دنگ رہ گئی وہ بہلول ہاتھ میں فلاورپکڑے مسکراتے ہوئے آ رہا تھا ۔ایک پل کے لیے سرینہ کا دل دھڑک اٹھا جو ہمیشہ بہلول کو دیکھ کر ہوتا تھا ۔وہ تھا ہی ایسا ہنڈسم چارمنگ اسکے بھورے بال سٹائل سے بنےاسکی ہیزل آنکھیں اک خاص چمک رکھتی تھی ۔مسکراتے وقت بائیں گال پر ڈمپل کچھ الگ قسم کی اٹرکشن تھی
ہائے گرلز وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
تم کیا کسی کے ولیمے پر آئے ہو پریسہ بولی
بہلول ناسمجھی میں اسے دیکھا ۔کیا مطلب؟
مطلب اتنا تیار ہو کر آئے ہو
بھئ تمہاری سالگرہ تھی کچھ تو اہتمام ہونا چاہئے تھا اچھا یہ تم نے بک کروایا
جی ہاں
سرینہ آپ کیوں آئی آج آپ کا گھر پر منگیتر آنے والا تھا؟
اسکی بات پر سرینہ کا دل ٹوٹا پر ضبط کر کے بولی۔
بھالو کے بچے منگیتر ہے شوہر نہیں جس کے آنے سے گھر رک جاؤں
اور ویسے بھی پری کا برتھ ڈے ہے
اوفو چلو اب کچھ کھاتے ہیں پریسہ جھنجھلا کر بولی
مجھے بات کرنی تھی سرو ساتھ میں ہے تو کیا ہوا وہ بھی دوست ہے
بہلول پریسہ کو دیکھتے بولا۔
سرینہ چونکی. کون سی بات بلاول؟ پریسہ بولی
وہ۔۔وہ۔کتنا مشکل کام ہے ۔بہلول جھنجھلا کر بولا
کیا بات بھالو؟ پریسہ حیرانگی سے بولی
بلاول اچانک پریسہ کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھا جیب سے مشہور برانڈ cartier
کارنگ باکس نکالی اس میں خوبصورت سی انگوٹھی
Pari will you marry me
بلاول کی آواز نے پریسہ کی کانوں میں رس گھولا وہی سرینہ کے کانوں پر گرم سیسہ گھسایا تھا
پریسہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا
Oh my God behlul. Are you crazy
یس فوریو۔
بلاول اور پریسہ ایک دوسرے میں گم تھے انہیں سرینہ نظر ہی نہیں آئی۔اسکو تکلیف تھی ناقابل برداشت موت سے تھوڑی کم لیکن بہت تھی۔
بولو پری مجھ جیسا دیوانہ قبول ہے تمہیں آئی ریلی لو یو
اف کیسے کوڑے جیسے الفاظ تھے بظاہر تو بہت میٹھے تھے مگر پری کے لئے سرینہ کو لگا بے دردی سے اس کے دل پر وار کر رہا ہے
پریسہ کو دیکھا جو بہت خوشی سے بہلول کو دیکھ رہی تھی اور بہلول اس کے جواب کے انتظار میں تھا. بولو پری
Yes yes yes
اب خوش مسٹر میں تم جیسے لوزر کے لیے پوری زندگی بتانے کے لئے تیار ہوں ۔ پری اترا کر بولی
بس اب برداشت ختم سرینہ وہاں سے اٹھی اور واش روم کی طرف بھاگی وہ دونوں اتنے خوش تھے سرینہ کو بھاگتے نہیں دیکھا ۔
وہ جیسے واش روم پہنچی کسی کو نہ پا کراس کا ضبط ٹوٹا وہ دل کھول کر روئی۔اتنا کے وہ کبھی اتنا نہیں روئی جب اسکی منگنی وسیم سے ہوئی تھی پھر وہ ایک دم چونکی کے میں کیوں رو رہی ہوں اسکے لئے جو سرے سے میرا تھا ہی نہیں میں تو کسی اور سے منسوب ہوں تو مجھے درد کیوں ہو، رہا ہے ۔
جب میری شادی اس سے ہونی نہیں تھی میں نے پھر اسے اپنے دل میں کیوں رکھا آج وہ کسی کا ہونے جا رہا ہے وہ بھی میری جگری دوست جو ہر مشکل میں ساتھ دیتی ہے ۔مجھے تکلیف نہیں ہونی چاہیے اسے ایک دن کسی کا تو ہونا ہی تھا ۔لیکن بلاول اسکی سانسوں میں بسا اسکی محبت نہیں عشق تھا ۔اسکا جنون تھا ۔پر اب فائدہ اسے الله سے کوئی شکوہ نہیں تھا کیونکہ محبت کا گناہ اس نے کیا تھا ۔اپنی نظر کو بچا کر نہ رکھا
اچانک فون کی آواز پر اس نے دیکھا پریسہ کالنگ اس نے گلا کنگھارا اور اٹھا لیا۔ہیلو
ہیلو کی بچی کہاں مر گئی ہو۔میں اور بھالو اتنے پریشان ہیں کدھر ہو؟
یار وسیم کی کال آ گئی تھی اب واش روم میں ہوں وہ بمشکل ہی بول پائی۔۔۔جلدی آو بہلول بہت غصہ ہے اسے تماری فکر ہونے لگی ہے
سرینہ دل میں بولی نہیں چاہے مجھے اسکی فکر پاس رکھے اچھا آتی ہوں ۔تم لوبرڈز کو اکیلے آرام نہیں ہے جو مجھے کباب میں ہڈی بنا، رہے ہو ۔ویسے بھی بہلول کو اعتراض تھا میرے ہونے پر
اسٹوپڈ لڑکی میں مزاق کر رہا تھا تم مجھے پری سے زیادہ عزیز ہو ۔کیونکہ تم میری بڈی ہو ۔بہلول کی آواز پر سرینہ کا دل دھک اٹھا۔تو کیا اسکی آدھی بات بہلول نے سنی تھی ۔
بہلول نے فون بند کر دیا ۔اور سرینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔جب میں تمہیں عزیز ہوں تو میری آنکھوں میں اپنے لیے محبت کیوں نظر نہیں آئی۔بتاؤ بہلول
اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔اور آنکھوں کی سوجن کم کرنے کے لئے بیگ سے کنسیلر نکال کر لگایا ۔پھر کاجل لگا کر اپنے آپ کو دیکھا سانولی رنگت پرکشش بال شولڈر کٹ تھے لیکن پری کے سامنے کچھ بھی نہ تھی ۔پریوں جیسا حسن تھا گوری دراز قد خوبصورت کالے بال جو کمر تک تھے موٹی گرین آنکھیں وہ تو واقعی بہلول کے مقابلے کی تھی ۔اسی لئے اسے وہی ملا ۔کیونکہ سرینہ کے علاوہ وہ دونوں بہت امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔وہ جلدی سے باہر نکلی تاکہ مزید آنکھیں نہ برس پڑیں۔
___________________________
سرینہ ربانی اپنے ماں باپ کی سب سے بڑی بیٹی تھی اس سے چھے سال چھوٹی اسکی بہن بازلہ تھی یہ چھوٹا سا سفد پوش گھرانا تھا ۔سرینہ کے ابو ہنڈا کے شوروم میں مینیجر کے عہدے پر فائز تھے وہ بہت اصول پسند آدمی تھے ۔کوئی کام انکی مرض کے بغیر نہیں ہوتا تھا اس لیے اپنی بیٹی کی رائے لیے بغیر اسکی منگنی چچا کے بیٹے وسیم سے کر دی وہ سخت ضرور تھے مگر سرینہ سے بہت محبت کرتے تھے کیونکہ وہ تھی بھی فرمانبردار لیکن اس بار سرینہ سخت خلاف تھی ایک تو اس کی عمر سترہ سال اس نے پڑھائی پر توجہ دینی تھی اپنا کیرئیر بنانا تھا دوسرا وسیم کو چاچو کی نظر سے دیکھا تھا گو کہ وسیم اس سے پانچ سال بڑا تھا وہ چاچو نہیں وسیم بھائی بولتی تھی ۔اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا ۔وسیم نے بی اے کرنے کے بعد کال سنٹر میں جاب کر لی لیکن وہ اگے پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا خوش شکل نوجوان تھا ۔چار بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا ۔اس کا سرینہ پر دل آ گیا تھا تو رشتہ بھیج دیا ۔اور ربانی صاحب بھی یہی چاہتے تھے ۔اس لیے سرینہ کے احتجاج کے باوجود اس کی منگنی کر دی ۔سرینہ کو وسیم بالکل پسند نہیں تھا ۔منگنی کے بعد اور بھی برا لگنے لگا تھا ۔اس نے ایک شرط رکھی جب تک وہ پڑھائی مکمل نہیں کر لیتی کوئی شادی کا نام نہیں لے گا ۔ربانی صاحب کے لئے یہی بہت تھا کے ان کی بیٹی مان تو گئی ۔
پھر اس نے اف ایس سی کے بعد سی اے میں ایڈمیشن لیا وہاں پر کہانی بدلی جب اس کو i c a p
میں بہلول اور پریسہ ملے۔بلاول شاہ مشہور بیرسٹر عدیل شاہ کا اکلوتا بیٹا تھا ۔
بہلول جب تین سال کا تھا اس کی ماں اس کے باپ کو چھوڑ کر اپنی محبت کے پاس چلی گئی ۔اور بہلول کے باپ نے دوسری شادی کر لی۔اسطرح انہوں نے بلاول کو نانو کے حوالے کر دیا ۔اور اپنا، کام کیپ ٹاون میں شروع کر دیا ۔حتی کے پاکستان میں ان کی بہت اہمیت تھی ۔مگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ چل پڑے ۔بہلول کی نانی اہنی بیٹی کی بیوقوفی کا کفارہاسکی پرورش تربیت میں کیا ۔ویسے بھی وہ بیٹی سے بہت مختلف تھی ۔نرم مزاج اسلامی اتنا پیسہ ہونے کے باوجود کوئی غرور نہیں تھا ۔وہ اپنے زمانے کی اچھی وکیل رہ چکی تھی ۔بلاول کے نانا بھی وکیل تھے ۔نانو کا رنگ بہلول نے اپنایا تھا ۔بہلول میں ہر لڑکی کے آئیڈل والی کوالٹی تھی ہر کسی کے ساتھ بہت اچھا تھا ۔اس میں بھی کوئی غرور نہیں تھا ۔اسکا ہر کوئی دوست تھا گھر کا مالی ڈرائیور چوکیدار سب کو بہلول سے محبت تھی ۔وہ تھا ہی ایسا جیسے دیکھ کر خود ہی پیار آ جاتا تھا
جس طرح سرینہ کو بھی آیا تھا ۔اچھے مزاج کی وجہ سے ۔سرینہ کی دوستی اس سے
ICAP
میں ہوئی تھی سرینہ کبھی دوستی نہیں کرتی اسکے بابا کو پتا چلتا تو اس کی شادی فوری کر دیتے لیکن اس دن واقعہ ہی ایسا ہوا تھا
سرینہ کو جوائن کیے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا ان کے پروفیسر نے ایک اسائنمنٹ بنانے کو کہا اور سرینہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے وہ اس معاملے میں ہمیشہ پھوہڑ تھی بے شک اس کا رزلٹ اچھا ہوتا تھا لیکن اس میں لیک اف کنفیڈ تھا پھر اس نے چھٹی کا سوچا تو اسے پتہ چلا وسیم آ، رہا ہے تو اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔آ گئی کے ایک دن کی ڈانٹ کھا لے گی ۔اس لئے نکل پڑی مگر دل میں بہت ڈر تھا ۔اسی پریشانی میں بہت تیزی سے سیڑھیاں اترتے کسی سے بری طرح ٹکرائی اگلا بھی جلدی میں تھا
Oppps i am sorry
اسکی فائل گر گئی تھی اس نے سرسری سےلڑکے کو دیکھا فائل اٹھا کر بھاگ کر کلاس پہنچی۔
سوری سر آئی ایم لیٹ؟
سر نے اسے دیکھا پھر مسکراکر بولے یس یو آر بٹ دس از، فرسٹ ٹائم کین کم ان ۔
اچھا بچہ لوگ اپنی بنائی اسائنمنٹ دے دیں آج میری میٹینگ ہے اگلے ہفتے میں آپ سے اسکی پر سنٹیشن دیکھوں گا چلو کوئی نہیں دوبارہ تیار کر لوں گی فی الحال یہ دے دوں۔اس نے فائل کھول کر دیکھا چیک کر لے کے کچھ مس نہ ہو ۔اس نے جیسے ہی فائل کھولی اسکا دماغ بھک سے اڑھ گیا ۔
اسائنمنٹ اکاونٹ سے ریلیٹٹ ہی تھی لیکن اسکو کھولنے کے لئے سامنے ایک گرین کلر کا چارٹ پیپر تھا ۔جس میں خوبصورت ہینڈرائٹنگ سے لکھا ہوا تھا بہلول شاہ۔
اومائی گارڈ یہ میں نے کیا کر دیا ۔فائل اس ہی کی تھی ۔اسکا نام لکھا تھا لیکن جب اس کے ہاتھ سے گری تھی اس نے پیپر اٹھائے جو بہلول نامی شخص کے تھے ۔جب سر سامنے آ تو مجبوراً انھیں دے دی لیکن وہ چاٹ پیپر نکال لیا جس پر بہلول نام تھا ۔
وہ بندہ تو مجھے قتل کر دے گا ۔اور اس کے پاس تو میری فائل بھی ہے ۔آج تو سسپنڈ ہو ہی جاؤں گی سرینہ رونے والی ہو گئی ۔
اگلے دن سر نے چیک کی اور انھوں نے جس کی سب سے بہترین اسائنمنٹ بتائی وہ سرینہ کی تھی ۔سرینہ کو اچھو لگا کیونکہ وہ پانی پی رہی تھی ۔
واؤ سرینہ ۔۔امیزنگ آپ نے تو کمال کر دیا ۔سرینہ ڈرنے کے باوجود ہلکا سا مسکرائی ۔اور جس کی سب سے بری تھی وہ تھا بلاول شاہ۔ سرینہ گھبرا گئ سامنے دیکھا وہی ہیزل آنکھوں والا لڑکا جوبلو ٹی شرٹ پہنے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔سرینہ سمجھی اسکی آنکھوں میں غصہ ہے اب وہ حقیقت سب کو بتائے گا
ہائے الله کل بےعزتی کھا لیتی کیا ہو جاتا ۔
بلاول آپ کے پچھلے ریکارڈ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا آپ نے اتنی گندی اسائنمنٹ بنائی۔نہیں سر بنا تو اچھی رہا تھا پھر دنیا گھومنے لگی۔میں بھی گھومنے لگا اور سارے اسائنمنٹ گھوم کر خراب ہو گئے
اس کے جوک پر سب قہقہے لگا کر ہنسنے لگے سرینہ شرمندہ نظریں جھکائے بہلول نے اسے طعنہ مارا ہر۔
واٹ یہ کیا کہہ رہے ہو ۔
کچھ نہیں سر کبھی کبھی میرا دماغ خراب ہو جاتا ہے ۔ویسے بھی میں بور ہو گیا تھا شاندار کام کر کے سوچا اس دفعہ نیا کروں آپ نے جوس کا اشتہار دیکھا ہو گا پی کے کچھ نیا کرو میں نے بھی وہ جوس پی لیا۔ اس کی بات پر سب کی پھر ہنسی چھوٹ گئی ۔حتی کے سرینہ کی بھی ۔وہ بندہ واقعی بہت دلچسپ تھا
اومائی گاڈ ۔بہرحال آئیندہ کچھ نیا نہ کرنا۔ورنہ مجھے بھی کچھ نیا کرنا پڑے گا ۔سب پھر ہنسے۔
سرینہ نے شکر کا سانس لیا۔اس بندے نے آج مجھے بچا لیا ۔اور بڑے آرام سے ڈنٹ سن لی۔۔۔واقعی ہی اس سے اچھا آج تک میں نے دنیا میں نہیں دیکھا ۔سب کلاس سے باہر نکلے تو بلاول اپنی کتابیں رکھ رہا تھا سرینہ اس کے پاس آئی۔۔۔یہ آپ کے اسائنمنٹ وہ آہیستہ سے بولی۔ارے آپ مجھے اپنے اسائنمنٹ کیوں دے رہی ہیں
نہیں یہ آپ کی ہیں میری مجھے دے دیجئے ۔
نہیں بھئ میں اپنے اسائنمنٹ آپ کو کیوں دوں؟ میں نے اپنی بڈی کو دیکھنا ہے ۔؟
کیا؟
آپ میرے اسائنمنٹ اپنے دوستوں کو دکھائیں گے ۔؟وہ غم سے بولی اسے پتہ تھا یہ ضرور مزاق اڑائے گا ۔
نہیں میں تو اپنی نانو کی بات کر رہا تھا ۔وہ آج حیران ہوں گی آج میں نے کیا کر دکھایا اپنے سابقہ ریکارڈ توڑ کر نیا کر دیا ۔اسے لگا طنز کے تیر برسا رہا ہے ۔پلیز رکھے اپنا اسائنمنٹ میں ابھی سر کو بتا دیتی ہوں ۔کے یہ سب بائے مس ٹیک ہوا۔وہ جانے لگی ارے یہ کیا کر رہی ہیں ۔دیکھیں آپ نے محنت کی اور آپ کو ڈانٹ بھی پڑی۔
یہ میرے لیے کچھ نیا تھا ۔۔۔یہ کیا نیا نیا لگا، رکھی ہے وہ بری طرح جنھجلائی۔۔ارے یار سمجھ جاؤ گئی جب ساتھ رہو گی تو
بائے داوے ائم بہلول اس کا مطلب ہے ہر وقت مسکرانے والا یو نو
نہ بھی سمجھی تو تم نے ترکی ڈرامہ دیکھا عشق ممنون….
ترکی کا ڈرامہ دیکی عشق ممنون
اس میں وہ ہیرو تھا بہلول خیر میں زیادہ ہینڈ سم ہوں ۔اسکی نیلی آنکھیں ہیں ۔میری ہیزل۔نانو تو کہتی ہیں وہ زیادہ پیارا ہے لیکن اس کے کرتوت میرے جیسے بالکل بھی نہیں ۔وہ اتنا باتونی تھا کے سرینہ کو الھجن کے ساتھ ہنسی آئی۔
ائم سرینہ ربانی
اچھا وہ اسلام آباد میں تمارا ہوٹل ہے سرینہ؟ واؤ اب تو میری عیش ۔چلو بھئ اب تم مجھے ادھر لے جانا۔
اف اللہ ضروری ہے کہ میرے نام سے ہوٹل میرا ہو۔میں ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہوں ۔اوہو چلو کوئی بات نہیں خیر آو میرے ساتھ کیا ساری باتیں کلاس میں کریں گے؟
اس نے زندگی میں پہلی بار کسی لڑکے سے تفصیلی بات کی تھی ۔اور اس طرح جانا کتنا عجیب لگے گا ۔
اب ہم دوست ہیں اپنی کامیابی کی خوشی میں مجھے ٹریٹ دے دو
قسم اےگھر جا کے ویسے بھی نانو کے سڑے کریلے کھانے ہیں ۔سوری الله جی میں جانتا ہوں ہر نحمت کا شکر ادا کرتا ہوں لیکن آپ کو پتہ ہے ہاؤ مچ آئی ہیٹ کریلے ۔چلو بھئ کس چیز کا انتظار ہے مجھے اچھا سا برگر کھلواؤ۔وہ بولا۔
مجبوراً سرینہ کو اس کے ساتھ چلنا پڑا اور باتوں ہی باتوں میں پتہ نہیں وہ ایک دوسرے کے اتنے اچھے دوست بن گئے اور سارا کمال بہلول کا تھا ۔اس کی شخصیت میں ایسا چارم تھا کہ ہر بندہ اس کا دوست بن جاتا تھا اسی طرح سرینہ بھی اس سے بری طرح متاثر بہت اچھا ہے sense of humour ہوئی ۔۔۔۔آپ کا
وہ دونوں کینٹین میں تھے بہلول برگر کھاتے ہوئے مسکرایا
مجھے لگا میرا سنس ہی نہیں ہے ۔۔اینی ویز تھینک یو
سرینہ ہنس کر بولی آپ کے امی ابو کے لیے خوب انجوائے منٹ ہو گا
ایک رنگ بہلول کے چہرے سے آیا لیکن اس نے کمال مہارت سے کنٹرول کیا ۔میں نانو کے ساتھ رہتا ہوں ۔اور آپ کے امی ابو کہاں ہیں؟
بہلول کو ایک بار پھر سوالوں کا سامنا کرنا پڑا ۔وہ ہميشہ کی طرح کڑوا گھونٹ پی کر مسکرا کر بولا
ڈیڈ میری سٹیپ مام کے ساتھ کیپ ٹاون ہوتے ہیں اور میری مدر کا مجھے نہیں پتہ بس اتنا پتہ ہے
She got married to her boyfriend when i was young.
سرینہ کو دکھ ہوا لیکن حیرانگی ہوئی۔اتنا دکھ بھی وہ کمال مہارت سے چھپا لیتا ہے ۔ورنہ اسکی جگہ کوئی اور ہوتا رو رو کر پاگل ہو جاتا ۔اس لیے بنا ہمدردی دکھا کر بولی اچھا آپ میں کچھ نیا ہمسٹر بھالول۔۔۔۔۔بہلول ہنس پڑا میرا نام بہلول ہے بھالول نہیں ۔
آج سے بھالو یو نو وہ جو جانور ہوتا ہے سفید سا۔بہلول ہنس پڑا
لگتا ہے آپ کو میرے جراثم لگ گئے ہیں
پھر تو مجھے لائف بوئی کا استعمال کرنا ہو گا ۔۔وہ منہ بسور کر بولی پھر دونوں ہنس پڑے ۔۔۔ٹھیک ہے مس سرو ۔کل ملاقات ہو گی ابھی مجھے نانو کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے
تمہیں ضرور ملواؤں گا وہ اپنے نام پر مسکرا کر اٹھ گئی ۔
اسے بہلول بہت اچھا لگا سب سے الگ سا مگر اس نے خود کو جھٹکا ۔یہ کیا ہو گیا مجھے؟ بابا مجھے مار دیں گے ۔مجھے اس سے دور رہنا چاہئے ۔تم ہر وقت سنجیدہ کیوں رہتی ہو۔؟
اس لیے کے سنجیدگی اچھی چیز ہے ۔۔ہوتی تو ہے لیکن ان کے لیے جن کے بال سفید ہوں ۔جن کو چلنے میں مسلہ ہو جن کی نظر کمزور ہو ۔
آپ میں یہ سب ہیں تو سچ بتانا کہیں سچ میں ینگ بن کے پڑھنے آئی ہو ۔بتا دو میں ایویں ہی خود سے بیس سا بڑی سے فلرٹ کر رہا ہوں ۔اسکی بات پر سرینہ تب گئ۔میں تمہیں بڈھی لگتی ہوں اور فلرٹ کا بچو سوچنا بھی مت۔میں انگیجڈ ہوں ۔۔۔وہ ایک دم چپ ہو گیا ۔
اچھا واؤ آپ انگیجڈ ہیں؟
ہاں سرینہ اب یہ کہنے پر پیچھتائی۔
کون ہے وہ بےچارہ وہ اب دوبارہ مزاق کے موڈ میں آ گیا ۔
کزن
اچھا ایک بات تو بتاؤ بہلول
اس نے ناک پہ آتی ہوئی گلاسس کو آنکھوں پر لے کر بولی۔
وہ سر نے کہا کہ مجھے اس ہی کی اسائنمنٹ بنا کر دو اور وہ بھی کسی کمپنی کے سی او کے نظریات لکھنے ہیں مطلب یوناناایکسپرینس جنھوں نے سی او کیا ہو۔
لو اس میں کیا مشکل ہے ۔؟
اف الله تم نے دیکھی نا میری اسائنمنٹ مجھ سے نہیں ہو گا میری جگہ تم لے لو ۔۔۔۔۔سوری میں نے ایک دفعہ کر دیا تمہاری بھلائی کے لیے
میں بھی جا سکتا ہوں تمارے ساتھ بٹ سوری میں جاتا ہوں تم یہ کر سکتی ہو۔۔۔۔۔اف کیسے دوست ہو تم بھالو پلیز نا مجھے کچھ بھی نہیں پتہ ۔۔۔۔پھر یہ پروفیشن کیوں جوائن کیا؟
میری مت ماری گئی تھی وہ جلکر بولی۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے ہیلپ کروں گا ۔انسٹر کشنز دوں گا لیکن سارا کام تمیں کرنا ہو گا. بولا ڈن؟
او کے ڈن۔
آہستہ آہستہ بہلول کی باتیں اسکی موجودگی کی عادی ہو رہی تھی ۔جب بہلول ن آتا تو اسکو بے چینی شروع ہو جاتی تھی ۔دن اس کا خراب گزرتا تھا ۔وہ اب اچھے نمبر لینے لگی تھی ۔اور اس کا کنفیڈنٹ لیول آ گیا تھا ۔زندگی اب صحیح معنی میں اچھی اور خوبصورت لگنے لگی تھی ۔۔۔بہلول کب اسکے دل میں آ بسا پتا نہیں چلا لیکن کب بسا جب اس کے ہاتھ میں وسیم کی آنگوٹھی تھی جو وہ بالکل نہیں پہنتی تھی وہ اس دن پر پچھتا رہی تھی جب اس نے بہلول کو بتایا ۔شاید اسے نہ پتا ہوتا تو وہ اسے چاہتا ۔گو کے یہ غلط تھا مگر سرینہ کو اس کی پروا نہیں تھی ۔اسی لئے وہ ہر نماز میں اسے مانگنے لگی۔جو نماز سے بھاگتی تھی اب پانچ وقت کی نمازی بن گئی ۔منت کے روزے بھی رکھنے لگی۔ایک دن تو وہ پورا دن عصر سے مغرب تک سجدے میں رہی۔امی کواس کی حالت پر حیرانگی ہوئی
جھٹکے بھی دیے مگر وہ نہیں ہلی۔انہیں لگا اسے کچھ ہو گیا ہے ۔جب مغرب ہوئی تو اس نے بتایا کے وہ کسی منت کے لیے سجدے میں تھا ۔امی نے پوچھا بھلا کیوں؟ انہیں سرینہ کچھ مشکوک سی لگی۔۔۔امی اپنے اچھے مستقبل کے لئے ۔اس نے پوری بات نہیں بتائی ۔لیکن یہ سچ ہی تھا کے مستقبل کے لئے دعا تھی ۔انسان کو عشق پاگل کر دیتا ہے ۔محبت میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ۔