سنٹورس مال پہنچ کے وہ ان دونوں سے معذرت کرتی فروا کو لے کے الگ ہوگئی تھی ۔۔۔ناہل بدمزہ ہوہا مگر شہرین نے شکر ادا کیا ( نا جانے کیوں وہ اس سے انسکیور ہو رہی تھی ۔۔)
دوگھنٹے مال میں خوار ہونے کے بعد آخر کار شہرین کو مشکل سے ایک جوڑا پسند آیا تھا ۔۔۔”ڈل پنگ کلر کا لہنگا جس پر خوبصورت سٹون ورک ہوہا تھا گھیرے پر چوڑی مہرون خوبصورت نگوں کی پٹی تھی ۔۔۔بلا شبہ وہ ایک خوبصورت جوڑا تھا۔۔۔میچنگ میں شیروانی پسند کرنے بعد ناہل اسے فوڈ سیکشن کی جانب لے گیا تھا ۔۔جہاں شہرین کو اسکے کچھ یونیورسٹی کے دوست مل گئے جن میں زیادہ تر لڑکے ہی تھے ۔۔۔ان سب چہک چہک کے باتیں کرتے ہوئے وہ ناہل کو یکسر فراموش کر بیٹھی ۔۔۔سامان وہ پہلے ہی پارسل کروا چکے تھے ۔۔
باتوں باتوں میں ان سب کا آوٹنگ کا پلان بھی بن گیا ناہل سخت بدمزہ ہوہا جب شہرین نے اسے بھی چلنے کی آفر کی ۔۔۔
“میں ضرور چلتا مگر شادی کے کارڈز سلیکٹ کرنے جانا ہے۔۔۔تم جاو انجوائے کرو “۔۔۔بروقت اسے بہانہ سوجھا تھا ۔۔
“ہمم شادی کے کارڈز ذیادہ امپارٹنٹ ہیں ٹھیک ہے پھر تم اپنی اس کزن کے ساتھ چلے جانا”.۔۔۔اترا کے کہتی وہ اسنے ناک سکوڑا تھا ۔۔۔اورپھر ناہل کو بائے بولتی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہ جا وہ جا. ۔۔۔”توبہ!!” ۔۔۔اسکے جاتے ہی ناہل نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔فورا سے نایاب کا نمبر ملایا ۔۔۔(جو اسنے آتے ہوئے نایاب سے لیا تھا )
“ہیلو کیا ہوہا ؟؟۔۔۔دوسری بیل پر کال اٹھاتے ہی وہ بے زاری سے بولی ۔۔۔وہ فروا کے ساتھ کراکری دیکھ رہی تھی ۔۔
“کہاں ہو تم لوگ اوپر فوڈ سیکشن کی جانب آو” ۔۔۔وہ آڈر دیتے بولا ۔۔
“میں کیوں آوں تمہارے ساتھ تو شہرین ہے نا”۔۔۔وہ اکتا کے بولی ۔۔
“وہ چلی گئی ہے تم آو “۔۔۔ وہ بضد ہوہا
“مگر میرے ساتھ تو میری دوست بھی ہے” ۔۔۔وہ جھنجھنلا ہی گئی بےتکی ضد( بھلا وہ کیوں اسے بلا رہا ہے ۔۔)
“میں کیا آدم حور ہوں جو تمہاری دوست کو کھا جاو گا اسے بھی لے آو” ۔۔۔رعب سے حکم صادرکر کے اسنے ٹھک سے فون رکھ دیا ۔۔وہ جو جواب میں کچھ تیکھا سا کہنے کا ارادہ رکھتی تھی” ٹوں ٹوں” کی آواز سن کے اسکا بی پی ہی شوٹ کر گیا ۔۔۔فروا اسکے قریب آئی تو وہ غصے سے فون کو گھور رہی تھی ۔۔
“کیا ہوہا کیوں بےچارے فون کو ڈرا رہی ہو “۔۔ فروا کو کیا پتہ تھا کہ وہ کس مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہی ہے ۔۔۔
“اب اتنی بھی بری شکل نہیں ہے فون ڈرے مجھ سے” ۔۔وہ کاٹ کھانے کو دوڑی تو فروا دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔”ایزی ایزی” ۔۔۔اسنے دونوں ہاتھ مصلحتاً اوپر اٹھائے ۔۔۔”کیا ہوہا جو پھولن دیوی بنی ہو؟” ۔۔۔۔۔
“سمجھتا کیا ہے خود کو؟ مجھے آڈر دے رہا ہے” ۔۔۔غصے میں فون پرس میں زور سے پھینکا ۔۔۔
“کون دے رہا ہے آڈر؟” ۔۔۔فروا مسکراہٹ دبائے سنجیدگی سے بولی۔۔تو وہ بھی گہری سانس لیتی نارمل ہوئی ۔۔
“وہ ناہل کا بچہ مجھے بول رہا ہے کے اپنی دوست کو لے کر فوڈ سیکشن کی جانب آو” ۔۔۔
“افف اللہ مجھے لگا جانے کیا ہو گیا” ۔۔۔فروا نے تنے اعصاب ڈھیلے کیے ۔۔۔اور چونک کے اسے دیکھا ۔۔۔”وہ ہینڈسم سا لڑکا جو تمہارے ساتھ تھا ۔۔۔”
“ہاں وہی “۔۔۔وہ تنگ کے بولی
“کتنی کوئی گدھی ہو تم اتنا ہینڈسم لڑکا تمہیں بلا رہا ہے اور تم غصہ کر رہی ہو” ۔۔۔۔انتہائی کوئی بدزوق لڑکی ہو فروا اسکی موٹی عقل پے ماتم کرتی اس بازو سے پکڑ کر گھسیٹ رہی تھی ۔۔۔اور وہ شدید غصہ صبط کرتی کھینچی چلی جا رہی تھی ۔۔۔
فوڈ کارنر پر وہ انہیں جلدی ہی مل گیا تھا ۔۔۔فروا پرجوشی سے اسے ملی تھی ۔۔۔وہ تینوں ایک ٹیبل پر سلیکٹ کر کے بیٹھ گئے تھے ۔۔۔
فروا اور ناہل مزے سے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔وہ اکتائی سی بیٹھی تھی ۔۔۔
“آپ لوگ کیا لیں گی کچھ آڈر کروں آپ کے لیے “۔۔۔ناہل نے رسم مہمان نوازی نبھانی چاہی ۔۔۔۔وہ چپ تھی اسے برا بھی لگ رہا تھا ۔۔
“نہیں کھا نا یہاں نہیں کھاہیں گے ۔۔وہ فروا بتا رہی تھی کے یہاں کا ایک ڈھابہ بہت مشہور ہے وہاں کی چکن کڑاھی بہت مزے کی ہوتی ہے ۔۔ ہم تو وہیں جا کے کھاہیں گے” ۔۔۔وہ اشتیاق سے فروا کی جانب مڑی ۔۔۔ناراصگی جیسے بھول گئی ۔۔۔”فروا ہمیں لے چلو وہاں پے. ” ۔۔
“نایاب فاروق ایک مشہور بیکری کی آنر ایک مشہور بوتیک کی آنر ایک عام سے ڈھابے میں لنچ کریں گی ۔۔۔چچ چچ کیا دن آگئے ہیں امیروں کے “۔۔۔فروا افسوس سے بولتی نفی میں سر ہلا رہی تھی. ۔۔ناہل نے دلچسپی سے نایاب کو دیکھا ۔۔۔(اب کیا جواب دے گی )
“بکواس کرنا جب بھی کرنا. ۔۔میں بھی انسان ہوں میرا بھی دل ہے میرا بھی دل کرتا ہے کے اچھا کھانا کھاوں۔۔۔۔مجھ سے ان بڑے بڑے ہوٹلوں میں فصول قسم کے کھانے نہیں کھا ئے جاتے فرواااا مجھے لے چلو وہاں”۔۔۔۔آخر میں اسنے فلمی ہیرونز کی طرح مصنوعی آنسو صاف کرتے ہوئے دوہائی دی ۔۔۔تو فروا ہسنے لگی ۔۔۔ناہل مہبوت سا اسے دیکھے گیا ۔۔۔
“اچھا اچھا اب زیادہ ڑرامے کرنے کی صرورت نہیں ہے لے کے چلتی ہوں وہاں پے “۔۔۔فروا اترا کے بولی تو ان تینوں نے ایک دوسرے کودیکھا اور پھر تینوں ساتھ میں ہنسے تھے ۔۔۔تھوڑی دیر میں وہ اسی ڈھابے پر بیٹھے چٹاچٹ چکن کڑاہی نوش فرما رہے تھے ۔۔۔عمدہ اور لذیز چکن کٹراہی اوپر سے سستی ۔۔۔ناہل کے لیے یہ سب بہت نیا تھا ۔۔۔وہ کافی انجواے کر رہا تھا ۔۔۔ان دونوں نے اسے ایک پل لے لئے بھی محسوس نہیں ہونے دیا تھا کے وہ پہلی بار ان کے ساتھ آیا ہے ۔۔۔
ڈھابے کے باہر ایک چھوٹی سی لوکل مارکیٹ بھی تھی ۔۔۔وہ دونوں اسے لے کر وہاں شاپنگ کرنے بھی گئیں تھیں ۔۔۔ایک عمدہ اور بھر پور دن اس نے ان دونوں کے ساتھ گزارا تھا ۔۔۔واپسی پر فروا اپنی گاڑی میں چلی گئی تھی ۔۔۔نایاب اسکے ساتھ آئی تھی ۔۔۔
“تو اب ہم دوستی کر سکتے ہیں” ۔۔۔گاڑی چلاتے ہوئے ناہل نے اسے پوچھا تو وہ چونک کے اسکی جانب مڑی ۔۔۔
“دوستی کیوں تم پہلے سے میرے کزن ہو” ۔۔۔
“ہاں پر دوست ہونا زیادہ اچھا ہوتا ہے” ۔۔۔ناہل نے یو ٹرن لیتے اس سے پوچھا تو وہ مسکرائی (بس ہلکا سا) ۔۔
“میری نظر میں ہر رشتہ اہم ہے ۔۔۔ہر رشتہ اپنی جگہ زبردست ہے دوست الگ ہوتا ہے ۔۔مگر کزن کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔۔۔اس سے آپ پہلے ہی خون کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں ۔۔اور خون کے رشتے سے زیادہ مضبوط رشتہ کون سا ہوتا ہے “۔۔۔وہ نرمی سے بول رہی تھی ۔۔(ناہل سے شاید پہلی بار).. وہ مسکرایہ ۔۔۔”یہ لڑکی کسی کو بھی لاجواب کر سکتی ہے”۔۔۔اسنے سر جھٹکا ۔ “اچھا تو کزن صاجبہ اب ایسے ہی رہنا ۔۔۔واپس اجنبی مت بن جانا”. ۔۔۔
“اچھا جی کزن صاحب “۔۔۔نایاب بل آخر کھل کے مسکرائی ۔۔
“ویسے مجھے وہ والا ٹاہیٹل ذیادہ پسند آیا تھا “۔۔ ناہل آنکھوں ميں شرارت لیے بولا تو وہ چونک کے سیدھی ہوئی ۔۔
“کون سا ٹاہیٹل؟؟؟”
“مرزا غالب کے چھٹے صالے ولا “۔۔۔وہ یک دم سے بولا تواسنے تنبیہی نظروں سے اسے گھورا ۔۔ اور دونوں ایک ساتھ ہنسے تھے ۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔۔۔سمینہ گھن چکر بنی ہوہیئں تھیں ۔۔دادو ملازموں کی جان نکال رہی تھیں ۔۔۔جب تک کوئی کام انکے مطابق نہیں ہوتا تھا وہ کسی کو ہلنے تک نہیں دیتی تھیں ۔۔۔۔۔ناہل شہرین کاڈراہیور بنا ہوہا تھا.۔۔۔اور وہ اسے جی بھر کر خوار کر رہی تھی ۔۔۔کل انکی پری ویڈنگ سرمنی تھی ۔۔۔جسکا نام سنتے ہی نایاب بے ہوش ہوتے ہوتے بچی یہ کون سی سرمنی تھی بھلا ۔۔۔(شہرین اور اسکے اترنگے شوق ۔۔۔ )
ابھی وہ تھکا ہارا لوٹا تھا آتے ہی صوفہ پے دھپ سے گرا تھا ۔۔
‘بہت تھک گئے کیا؟؟” ۔۔۔آواز پے وہ آنکھیں ملتا اٹھ بیٹھا ۔۔وہ سامنے صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔۔آنکھوں میں شرارت لیے وہ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔پلم کلر کے لان کے جوڑے میں فریش لگ رہی تھی ۔۔۔بال آدھے کیچر میں بندھے۔۔۔ڈوپٹہ ہمیشہ کی طرح سر پر تھا.۔۔
“ہاں یار شہری نے تھکا دیا بہت ۔۔۔پتہ نہیں کس گدھے نے اسے بول دیا کے اسکی اسکن ڈل لگ رہی ہے.۔۔۔اور شامت میری آئی ہے ۔۔۔پانچ گھنٹے حوار ہوہا ہوں” ۔۔۔وہ سر ایک طرف ڈھلکائے اداسی سے بولا تو توجہ سے سنتی نایاب کی آنکھیں چمکیں ۔۔۔
“افف میرے اللہ !!یہ ظلم کس نے کر دیا اسکے ساتھ ۔۔۔اسکے منہ پے بول دیا کے اسکن ڈل لگ رہی پے ۔ شکر کرو ناہل اسے ہارٹ اٹیک نہیں آیا ورنہ ابھی تم ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہوتے “”۔۔۔وہ سنجیدگی سے اک غیر سنجیدہ بات کر رہی تھی ۔۔۔ناہل بے اختیار ہنسا تھا
“ہنسو مت لڑکے کل تمہاری پری ویڈنگ سرمنی ہے ۔۔جاو تم بھی جا کے پالر سے منہ رگڑوا کے آو ورنہ یہ نہ ہو کے کل تم اپنی ہونے والی خوبصورت بیوی کے پہلو میں لنگور لگو.۔۔اور وہ محاورہ سچ ہو جائے حور کے پہلو میں لنگور “”۔۔۔ وہ اسےبڑی بوڑھیوں کی طرح مفید مشوروں سے نواز رہی تھی ۔۔۔اور ہنس ہنس،کے دوہرا ہو رہا تھا ۔۔۔مگر آخری بات پر وہ چونک کے سیدھا ہوہا ۔۔
“لڑکی کیا تم نے مجھے ابھی لنگور کہا” ۔۔۔ اسنےسوالیہ آبرو اٹھا کے اسے گھورا۔۔
“توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے لنگور کو لنگور بولا تو برا منا گیا” ۔۔۔وہ افسوس سے بولتی صوفے سے اٹھی چپل پہنے اور دوڈ لگا دی ۔۔۔ناہل کو جب سمجھ آیا کے وہ اسے لنگوربول کے گئی ہے وہ اسکے پیچھے بھاگا ۔۔۔” نایاب کی بچی بتاتا ہوں میں تمہیں لنگور بولا مجھے صبر کرو زرا “۔۔۔وہ زور سے چلایا ۔۔۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتی اوپر کو بھاگی اور ناہل کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنے کمرے میں گھسی لاک لگایا ۔۔۔اور اکھڑی سانس بحال کی ۔۔۔
وہ اسکے کمرےکا دروازہ دھڑا دھڑ پیٹ رہا تھا ۔۔۔ وہ سر پھینک کی ہنستی جا رہی تھی ۔۔۔”نایاب میں کہہ رہا پوں دروازہ کھولو “۔۔۔۔وہ چلایا. ۔۔
“نہیں کھولو گی”” ۔۔۔وہ بھی چلائی ۔۔
“تم!!” ۔۔۔اسنے غصے سے پیر پٹحے تھے ۔۔۔”تم ہاتھ لگو میرے بتاتا ہوں تمہیں “۔۔۔ غصے سے بھناتا وہ دھپ دھپ کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
نایاب کے قہقے نے اسکا دور تک پیچھا کیا تھا ۔۔۔وہ کمرے میں آیا ۔ دھپ سے کاوچ پر بیٹھا ۔۔۔غصہ مسکراہٹ میں ڈھلا ۔۔۔”آئے ٹرولی لو ہر(i truly love her)” ۔۔۔اداسی سے بڑبڑایا ۔۔۔اور آنکھیں بند کرتا لیٹا سر پشت سےٹکایا تو اسکی خوبصورت ہنسی کانوں میں گھلتی چلی گئی ۔۔۔۔(شادی سے کچھ دن پہلے پہلی محبت ۔۔۔اب اسکے خوار ہونے کی باری تھی )۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ان دونوں کی پری ویڈنگ سرمنی تھی ۔۔۔جو ناہل کے گھر ہی رکھی گئی تھی ۔۔۔باہر لان میں سارا انتظام خود نایاب نے کیا تھا ۔۔ خوبصورت سنہری لاہٹس اور واہٹ للی فلاورز سے سجا لان بےحد شاندار لگ رہا تھا ۔۔۔محتلف وہیٹرز ہاتھوں میں لوازمات کے تھال لیے یہاں وہاں جاتے دیکھائی دیتے تھے ۔۔۔
وہ تیار ہو کے نیچے آئی تو صحن میں رنگ وبو کا سیلاب امڈ آیا تھا ۔۔۔شوخی سے جلوے بکھیرتی حسیناہیں ۔۔۔جن کا میک اور لباس دیکھ کے لگتاتھا کے مقابلہ حسن یہیں منقعند ہونا ہے ۔۔۔اسنے نفی سے سے ہلا کے آسمان کی جانب دیکھا( ان سب کا کچھ نہیں ہو سکتا) وہ سر جھٹک کے اپنی سبز آنکھوں کو پورےصحن میں فروا کی تلاش میں گھمانے لگی ۔۔۔(وہ اپنی ہی کولیکشن کے ایک سہنری جلمل گاؤن میں ملبوس تھی ۔۔۔آستین پوری تھیں ۔۔۔ڈوپٹہ اور پاجامہ کالے رنگ میں تھا ۔۔۔ڈوپٹہ ہمیشہ کی طرح سر پر تھا.۔۔بال فرنچ ناٹ میں بندھے تھے ۔۔۔آنکھوں پے ہلکا ساسہنری آئی لاہنر اور ہونٹھوں پر ہلکی ریڈ لپ اسٹک )۔۔۔وہ عام دنوں کی نسبت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔تھوڑی دور اسے فروا نظر آئی تو بے احتیار مسکرا اٹھی ۔۔وہ ہاتھ ہلاتی اسی کی جانب آ رہی تھی ۔۔۔ اسنے کالے رنگ کا شفون کا گھٹنوں تک آتا گھیرے دار فراک پہن رکھا تھا ۔۔۔وہ بھی کافی اچھی لگی تھی ۔۔۔
مگر اسے نایاب بہت خوبصورت لگی تھی ۔۔۔۔اسنے ڈھیر ساری تعریف بھی کی تھی ۔۔۔وہ باتیں کرتیں کارنر پر لگے ایک ٹیبل پر بیٹھ گئیں ۔۔۔
“یار کتنی کنجوس ہو تم اتنے خوبصورت ڈریسز ہیں تہماری کولیکشن کے مگر مجال ہے کبھی مجھ غریب کو گفٹ کیے ہوں”” ۔۔۔فروا اسکے خوبصورت جوڑے کو دیکھتی کلس کر بولی۔۔۔
“کتنی کوئی ڈرامے باز ہو ابھی پچھلے منتھ ہی تو میں نے ایک جوڑا گفٹ کیا تھا تمہیں”” ۔۔۔نایاب نے اسے افسوس والی نظروں سے گھورا ۔۔۔
“بس ایک جوڑا “۔۔۔فروا نے ناک سکوڑا ۔۔جیسے ایک جوڑے کا کوئی مول ہی نہیں ۔۔۔
“دیا تو تھا نا” ۔۔۔نایاب نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔۔
“تم سے بحث کرنا مطلب حود کے پاوں پر کلہاڑی مارنا “۔۔۔فروا تپ ہی گئی تھی ۔۔۔
“تو میں نے کب منتیں کی ہیں تمہاری کے مجھ سے بحث کرو” ۔۔۔ نایاب نے ہونہہ کر کے شانے اچکائے تو فروا دانت پیس کے رہ گئی اس سے پہلے وہ حساب برابر کرتی نایاب کی کوئی کزن ان دونوں کی جانب چلی آئی ۔۔۔نایاب اسنے ملنے کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
“اسلام علیکم کیسی ہو نایاب” ۔۔۔وہ بسما تھی مسکرا کر نایاب سے ملی ۔۔
“وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں بسما آپی” ۔۔۔وہ بسما کے گال سے گال مس کرتی مسکرا کر بولی ۔۔۔ تو وہ دونوں بیٹھ گئیں ۔۔
“واہ یار جب سے مشہور ہوئی ہو عید کا چاند ہو گئی ہو ۔۔۔ہم غریبوں کو تو بھول ہی گئی ہو” ۔۔۔بسما اسے شکایتی نظروں سے دیکھ کر بولی تو وہ شرمندگی سےمسکرائی ۔۔۔
“ارے نہیں ایسی بات نہیں ہے بس زرا مصروفیت ذیادہ ہے ۔۔۔ایک تو بوتیک اور پھر بیکری دونوں کام ہینڈل کرنا آسان نہیں” ۔۔۔
“چلو کوئی بات نہیں اب مل گئی ہو تو تھوڑی دیر میرے ساتھ بیٹھ جاو آخر اتنی معروف شحصیت کے ساتھ بیٹھنے کا شرف تو حاصل ہو “۔۔۔۔۔بسما نے محبت سے اسے دیکھ کر کہا ۔۔
“اتنی بھی مشہور نہیں ہو یار تم دونوں تو مجھے آسمان پر بیٹھا دیتی ہو” ۔۔۔وہ بولتے ہوئے رکی ۔۔۔اور فروا کی جانب مڑی ۔۔۔جو کہنی میز پر ٹکائے اس پر تھوڑی جمائے منتظر سی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔”اوہ سوری میں تو تم لوگوں کو ملوانا بھول ہی گئی” ۔۔۔وہ اپنے ست پر ہلکی چت لگاتی مزید شر مندہ ہوئی ۔۔
“کوئی نہیں میں اپنا تغارف حود کروا دیتی ہوں”۔۔۔فروا نے اسے دیکھ کے منہ بنایا اور بسما کی جانب مڑی ۔۔۔”ماں بدولت کو فروا کہتے ہیں اس بدذوق لڑکی کی واحد دوست” ۔۔۔۔فروا نے گردن آکڑائی ۔۔۔تو بسما مسکرائی ۔۔۔
“یہ تم نے ٹھیک کہا ہے تو یہ انتہائی بد ذوق لڑکی ہے ۔۔۔ورنہ ہمارا اتنا ہینڈسم کزن کوئی اور نہ لے اڑتا “۔۔۔بسماء نے ٹھنڈی آہ بھری اور ایک نظر اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے مسکرا کر باتیں کرتے ناہل پر ڈالی ۔۔۔۔نایاب نے بھی گردن گھما کے ایک نظر اسے دیکھا تھا بیلک کلر کے تھری پیس پہنے ۔۔۔بال جیل سے سیٹ کیے وہ کافی لڑکیوں کا دل “توڑ” رہا تھا…..
“ہاں ہے تو بہت ہی ہینڈسم ۔۔۔اور نیچر بھی بہت اچھی ہے. مگر جہاں نایاب جیسی بورنگ اور کھڑوس لڑکیاں کزن ہوں وہاں یوں ہی باہر والے لے جاتے ہیں ہینڈسم لڑکے” ۔۔۔فروا کو بھی نایاب کی عقل پر افسوس ہوہا ۔۔۔۔نایاب نے ان دونوں کی بات پر حاطر خواہ غور نہیں کیا۔۔
“نایاب کی بچی میں تو چلو منگنی شدہ ہوں تم نے کیوں جانے دیا اسے”۔۔۔بسماء نے بھی تاسف بھری سے ایک نظر نایاب پر ڈالی پھر ناہل پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتے مزید بولی۔۔ “ہائے دیکھو تو۔۔ہر لڑکی پلٹ کر دیکھ رہی ہے اسے”.۔۔۔بسما کو شہرین کی قسمت پر رشک سا ہوہا ۔۔۔
اور بسما کی بات کا،مطلب سمجتھے ہی نایاب کا دماغ بھک سے اڑا. ۔۔۔”چپ کرو تم دونوں وہ صرف میرا کزن ہے ڈیٹس اٹ “۔۔۔ وہ حسب عادت بھڑک اٹھی ۔۔”اسکی شادی بھی ہوںے والی ہے اور شہرین ہے بھی خوبصورت ہے.”۔۔۔آحر میں ذرا تفاحر سے بولی ۔۔
“بہت خوبصورت ؟؟؟”۔۔۔بسماء نے سوالیہ آبرو اٹھا کے اسے دیکھا.
“ایسی ویسی بہت خوبصورت ہے ۔۔۔اتنی کے دیکھتی رہ جاو گی” ۔۔۔نایاب فحریہ انداز میں بولی تو ان دونوں نے اسے بری نظروں سے اسے گھورا ۔۔۔
“دیکھیں اس لڑکی کو ۔۔۔ایک لڑکی ہو کے لڑکی کی تعریف کر رہی ہے ۔۔۔۔زرا جو اسمیں جیلسی والا فیکٹر ہو.۔۔۔آپ ہی کچھ سمجھاہیں اسے” ۔۔۔فرا نے تنگ کے اسے دیکھا (وہ نفی میں گردن ہلاتی سخت اکتائی ہوئی لگتی تھی ) اور پھر بسماء کو التجائی نظروں سے ۔۔۔ اسنے گہری سانس لی ۔۔
“رکو زرا میں ناہل کو ہی یہاں بلاتی ہوں” ۔۔۔بسماء نے ناہل کو ہلکہ سا اشارہ دیا ۔۔۔تو وہ اپنے دوستوں سے معزرت کرتا ان تک آیا ۔۔۔
“ہائے بیوٹی فل گرلز کیا ہو رہا ہے ؟؟” ۔۔۔وہ مسکرا کے کہتا ایک کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا ۔۔۔اور جو نظر نایاب پر پڑی ۔۔۔۔۔تو دل کہ دنیا میں خشر برپا ہو گیا. ۔۔۔جو بسماء اور فروا کی زیرک نگاہوں سے بلکل نہ بچ سکا تھا ۔۔۔
“اہم اہم” ۔۔۔بسما نے گلا گھنگھارا تو ادھر ادھر دیکتھی نایاب نے ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھا ۔۔۔ناہل یک دم سیدھا ہوہا ۔۔۔
“ہم نے کیا کرنا ہے بھائی ۔۔۔نایاب تمہاری ہونے والی بیوی کی تعریف کر رہی تھی “۔۔۔ ۔۔۔بسماء نے مسکراہٹ دبائے اسے کہا جو بار نایاب کو” نہ ” دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا،۔۔۔(جو ناکام ہوتی تھی ۔۔۔)
“اچھا تو پھر کیا تعریف کی نایاب نے” ۔۔اسنے پرشوق نگاہوں سے نایاب کو دیکھا. ۔۔
“تعریف کیا میں تو انہیں سچ بتا رہی تھی ۔۔۔وہ خوبصورت ہے” ۔۔۔نایاب لاپرواہی سے شانے اچکاتی بولی ۔۔
“اسے تو رہنے دو” ۔۔۔بسما نے تنک کے کہا اور تیوری چڑھائے ناہل کو. “لڑکے تہماری کیا قریب کی نظر خراب ہے جو اتنی خوبصورت کزنز کے ہوتے ہوئے وہ شہرین پسند کی” ۔۔۔۔بسماء کی ایسی صاف گوئی پر نایاب سٹپٹا گئی ۔۔۔(ان بولڈ کزنز کے بیچ وہ ایسے ہی سینڈ وچ بن جاتی تھی) ۔۔۔ناہل کو نایاب کے ایکسپریشن محظوظ کر رہے تھے وہ جانتا تھا کے بسماء کا اشارہ کس کی جانب ہے ۔۔
“کیا کروں یار اس معاملے میں حاصہ ان لکی ثابت ہوہا ہوں.۔۔۔خوبصورت اور نایاب لوگ اب دیکھنے کو ملے ہیں” ۔۔۔وہ سخت افسوس سے بولا ۔۔۔۔۔۔
“بکواس کیوں کر رہے ہو شہرین سے خوبصورت کون ملے گا تمہیں” ۔۔۔نایاب فورا سے دانت پیستی بولی ۔۔
“ہمم خوبصورت تو ہے وہ.” ۔۔ناہل نے تاہیدی انداز میں سر ہلایا ۔۔۔”مگر تم سے کم” ۔۔۔(کرسی پے تھوڑا آگے ہو کے بیٹھا )۔۔۔فروا اور بسماء کی آنکھیں چمکیں ۔۔۔اورنایاب نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔۔۔(مگر فرق کسے پڑنا تھا وہ بولتا رہا ) ۔۔۔
“ایسے کیوں گھور رہی ہو ۔۔۔مانا کے وہ خوبصورت ہے مگر اسکی آنکھیں اتنی خوبصورت نہیں ہیں ۔۔۔تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں نایاب”. ۔۔”اتنی کے (سوچتا ہوہا ٹیک لگا کے بیٹھا آنکھیں پرسوچ انداز میں سکوڑیں۔۔۔) میں اگر شاعر ہوتا تو ایک دیوان تو لکھ ہی ڈالتا تہماری آنکھوں پر”” ۔۔۔
“اووووووو!!”۔۔۔بسماء اور فروا ایک ساتھ سر ہلاتی بولیں ۔۔۔نایاب کی یہاں بس ہوئی تھی.
“تمہارے یہ خیالات میں شہریںن کو لازمی بتاوں گی پھر دیکھنا کیسے تمہاری یہ دونوں آنکھیں سوجھی ہوئی ملیں گی” ۔۔۔ سحت غصے میں دبا دبا غرائی ۔۔۔
“میں کیا ڈرتا ہوں اس سے بتا دو” ۔۔۔ناہل نے ناک مکھی اڑائی
“تم!”۔۔۔نایاب نے بمشکل حود کو کچھ سخت کہنے سے روکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔”تم یہاں کر کیا رہے ہو جاو تمہاری ہونے والی بیوی آنے والی ہے اسکے ویلکم کی تیاری کرو۔۔۔ جاو یہاں سے نکلو “۔۔۔نایاب نے اسے صاف دفع ہونے کا بولا جو وہاں بیٹھے تینوں نفوس کی طبیعت پے کافی ناساز گزرا تھا.
“جا رہا ہوں اتنا چڑ کیوں رہی ہو.۔۔۔میں نے تو سچ ہی کہا ہے” ۔۔۔وہ منہ بناتا اٹھا اور اسکے سر پر ہلکی سے چت لگائی ۔۔”۔وہ میری بیوی ابھی بنی نہیں ہے” ۔۔۔کہتا بھاگ گیا ۔۔۔نایاب کا دل کیا اس ناہل کو اٹھا کے کباڑی والے کو دے دے ۔۔۔دانت پیستی وہ ان دونوں کی جانب مڑی جو جانچتی نظروں سے اسے گھور رہیں تھیں۔۔۔”کیا ہے کیوں گھور رہی ہو تم دونوں مجھے”۔۔ ناہل کا غصہ ان پر نکلا ۔۔۔مگر وہ پیدائشی ڈیٹھ واقع ہوہیں تھیں ۔۔ویسے ہی گھورتی رہیں ۔۔۔
“کیا چل رہا ہے تم دونوں کے بیچ””۔۔۔بسماء نے آحر پوچھ ہی لیا ۔۔
“تم دونوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے” ۔۔۔بولتی رہو جو بولنا ہے. ۔۔وہ جھڑک کہتی وہاں سے واک آوٹ کر گئ ۔۔۔بسماء اور فروا نے ایک دوسرے کو قابل فہم نظروں سے گھورا ۔۔۔اور پھر کچھ سمجھ کے سر ہلایا.۔۔۔بات سمجھ میں آ گئی تھی ۔۔۔یک طرفہ محبت وہ بھی ناہل کی جانب سے ۔۔۔ آحر اسکا انجام کیا ہو گا ۔۔۔؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بفے ٹیبیل کی جانب کھانے انتظام چیک کرنے آیا تو وہ غصے میں بھناتی ہوئی اسکے سر پے آ پہنچی ۔۔۔۔
“کیا بکواس کر رہے تم وہاں پے ان دونوں کے سامنے؟؟ ۔۔۔سخت غصہ کاٹ کھانے والا لہجہ ۔۔۔سبز آنکھوں سے جیسے چنگاریاں پھوٹ رہیں تھیں۔۔۔ناہل نے بمشکل تھوک نگلاخود کو نارمل کیا ۔۔۔اور اسکی جانب گھوما ۔۔۔
“بکواس کیا کی؟؟ میں نے تو سچ کہا” ۔۔۔۔اسے پتہ تھا وہ تفتیش کرنے لازمی آئے گی ۔۔۔اسلیے وہ خود کو تیار کر چکا تھا ۔۔
“سچ مائے فٹ ۔۔۔کیا کہہ رہے تھے نایاب لوگ اب دیکھنے کو ملے ہیں ۔۔۔اور میری آنکھوں پے دیوان لکھو گئے تم ۔۔۔ایڈیٹ “!!۔۔۔مہمانوں کی وجہ سے وہ آواز آہستہ تھی مگر ۔۔۔کہر برساتی ۔۔
وہ مسکرایا سینے پے بازو باندھے اور ایک قدم اسکے قریب ہوہا.۔۔۔نایاب ویسے ہی اسے گھور رہی تھی ۔۔۔وہ تھوڑا جھکا. ۔۔اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔سبز آنکھیں ،شہد رنگ آنکھوں سے ملیں ۔۔۔نایاب کو اسکی آنکھوں میں کچھ تو عجیب لگا ۔۔۔اسنے فورا سے نگاہیں ہٹاہیں۔۔۔
“اب ایسے کیوں گھور رہے ہو”۔۔وہ مزید بھڑکی ۔۔۔وہ واپس سیدھا ہوہا ۔۔۔”میں نے وہ سب اس لیے کہا کیوں کے !!”۔۔۔۔
“کیوں ؟؟ “وہ یک دم بولی ۔۔
“میں نا تم سے “۔۔۔کہتے کہتے رکا تو نایاب نے بری نظروں سے اسے گھورا۔۔۔”کیا میں نا تم سے ؟؟؟ “وہ جھنجھلائی
میں نا تم سے. ۔۔اسنے مسکراہٹ دبائی ۔۔۔”چھوڑو تم غصہ کرو گی”۔۔کیالاپراوہ انداز تھا۔۔
“تم !!۔۔۔میں تمہارا سر ویسے بھی توڑ دو گی۔۔بتاو مجھے” ۔۔۔ وہ سخت غصے کو صبط کرتی انگلی اٹھا کے اسے وارن کر رہی تھی ۔۔۔وہ یک دم سنجیدہ ہوہا.۔۔۔
“تو پھر دل تھام کے سنو “۔۔۔وہ اسکے کان کے نزدیک جھکا۔۔۔(افف اسکے وجود سے اٹھتی مہک)۔۔۔نایاب کا دل زور سے دھڑکا ۔ ” میں نا تم سے!! ۔۔۔۔۔گھمبیر لہجے میں سرگوشی سے کہتا وہ اسکا سانس روک رہا تھا۔۔”کل کا بدلہ لے رہا تھا” ۔۔۔۔۔ مسکراہٹ دباتا وہ سیدھا ہوہا. ۔۔اور وہ جو توجہ سے اسے سن رہی تھی یک دم غصے سے بھنا اٹھی ۔۔۔۔۔۔شعلہ برساتی نظروں سے اسے دیکھا جو مسکراہٹ روکے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔پھر آنکھیں بند کر کے ڈھیروں غصہ اندر اتارا ۔۔۔ “تم گدھے نالاہق میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔۔یاد رکھنا “۔۔ اسے وارن کرتی پیر پٹحتی دوسری جانب مڑی تو فروا اور بسماء کو اپنے پیچھے کھڑا پایا۔۔۔مزید غصہ ۔۔۔
“سن لیا تم دونوں نے ۔۔یہ صرف اپنا بدلہ لے رہا تھا”۔۔۔۔وہ سخت غصے میں سر جھٹکتی وہاں سے چلی گئی تو وہ تینوں کھڑے رہ گئے۔۔۔فروا اور بسماء اسکے قریب آہیں ۔۔۔وہ مسکراتا اسکی پشت کو گھور رہا تھا ۔۔
“بڑی مشکل جگہ دل آیا ہے آپکا ۔۔۔یہاں دال گلنی مشکل ہے” فروا افسوس سے بولتی اس تک آئی ۔۔
“اور دل آیا بھی کب ہے جب محترم شادی کر رہے ہیں اب تو انکے عشق کی ٹائی ٹینک ڈوب کے ہی رہے گی” ۔۔۔بسماء نے مزید دل جلایا ۔۔۔
“یار کیا کروں برا پھسنا ہوں۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کرو۔۔۔ایک تو شادی ۔۔۔پھر ۔۔۔اس لڑکی سے تو بندہ اظہار بھی نہیں کر سکتا ۔۔۔ سرہی نہ توڑ دے” ۔۔۔۔وہ شدید بے بس لگتا تھا. ۔۔
“تم پہلے یہ شادی تو کیسنل کرو کسی طرح ۔۔۔پھر نایاب کو ہینڈل کرنا آسان ہوگا”۔۔۔۔فروا کچھ سوچ کے بولی ۔۔۔بسماء نے بھی سر دھنا
“ہمم کرتا ہوں کچھ فل حال تو میرا دماغ ہی کام نہیں کر رہا “”۔۔۔وہ رو دینے کو تھا. ۔۔
“تمہارا دماغ تو پہلے سے بےکار ہے جو اس چلتی پھرتی فیشن کی دوکان سےشادی کی خامی بھری” ۔۔۔۔بسماء نے مزید لتاڑا ۔۔۔
“کیا آپ اس سے محبت کرتے تھے؟؟”. ۔۔فروا کا جزبہء دوستی فورا بیدار ہوہا۔۔۔(لڑکا اچھا تو کیا وہ چھان بین بھی نہ کرے ۔ )
“نہیں یار۔۔۔۔مجھے وہ بس اچھی لگی تھی ۔۔۔اسنے مجھے پروپوز بھی خود کیا تھا ۔۔۔ تب مجھے کوئی برائی نہیں لگی.۔۔۔تو ہاں کہہ دی”” ۔۔۔
“تو اب برائی نظر آ گئی” ۔۔۔فروا نے آنکھیں سکوڑ کر اسے دیکھا
“اسمیں براہیاں نہیں نایاب میں اچھاہیاں بہت نظر آہیں ۔۔۔اور بس محبت ہو گئی ۔۔یہ ناجانے پہلے کہاں تھی ۔۔۔پہلے ملی ہوتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی”” ۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا تو وہ دونوں بھی سنجیدہ ہوہیں ۔۔۔
“ہمم کرتے ہیں کچھ تمہارے بارے میں” ۔۔۔بسماء نے کچھ سمجھ کے سر ہلایا ۔۔۔وہیں کھڑے کھڑے تینوں نے نمبرز ایکسچینج کیے تھے اور کسی دن ملنے کا پلان بنایا ۔۔تا کے مسلے کا کوئی بہتر حل نکل سکے ۔۔
اتنے مہں شہرین کے آنے کا شور اٹھا تھا ناہل ان دونوں سے ایکسکیوز کرتا گیٹ کی جانب لپکا ۔۔۔۔حیرت کی بات تو یہ تھی کے وہاں میڈیا بھی آیا تھا ۔۔۔وہ دونوں تھوڑا آگے آہیں ۔۔
“یار یہ میڈیا کیوں آیا ہے “۔۔۔بسماء نے فروا کے کان میں گھس کے کہا ۔۔۔
“پتہ نہیں” فروا نے ایک نظر بسما کو دیکھ کے شانے اچکائے اور واپس بھیڑ کی جانب مڑی ۔۔۔”ارے یار یہ تو کوئی مشہور ڈاہیکٹر ہے ناں “”۔۔۔فروا کو ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص نظرآیا تو اسنے فورا بسماء کو اسکی جانب متوجہ کیا ۔۔۔
“رانا شفقت علی!! یہ کیا کر رہا ہے یہاں۔۔۔؟؟”” بسماء کو بھی تشویش ہوئی. ۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ اور بولتیں شہرین کی انٹری ہوئی ۔۔”۔سہنری رنگ کا گھیرے دار محتلف جالیوں والا فراک پہنے وہ سہج سہج کے چل رہی تھی ۔۔ ۔۔۔بالوں کا خوبصورت جوڑا بنا تھا ۔۔۔گلے میں ہیروں کا ہار تھا جو گلا ڈیپ ہونے کی وجہ سے بہت پرکشش لگ رہا تھا ۔۔۔آستین بلکل ہاف تھیں ۔۔۔اور خوبصورتی اسے کیا گیا ڈارک میک اپ اسے سچ ميں خوبصورت بلا بنا رہا تھا.۔۔۔۔فروا اور بسماء کا تو منہ ہی کھل گیا تھا اسے دیکھ کے ۔۔۔
“واو یار یہ تو سچ میں خوبصورت ہے”” ۔۔۔بسماء تو مسمراہز ہی ہوگئی ۔۔۔
“ہہونہہ چڑیل کہیں کی اپنی خوبصورتی کو کیش کروانا آتا ہے اسے “۔۔۔فروا نے ناک بھوں چڑھا کے سر جھٹکا۔۔۔اور پاس کھڑی بسماء کا کھلا منہ بند کیا ۔۔۔
“یار یہ معاملہ تو بہت مشکل لگ رہا ہے ۔۔۔یہ تو میری سوچ سے بھی ذیادہ خوبصورت نکلی ۔۔۔اب نایاب کا کیا ہو گا ؟؟”۔۔۔۔بسماء کو نئی پرپشانی نے آہ گھیرا ۔۔۔
“انتے اچھے میک اپ اور اتنے اچھے ڈریس میں تو بل بتوڑی بھی اچھی لگے” ۔۔۔فروا نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔۔پھر دور کھڑی نایاب کو دیکھا ۔۔۔”ایک میری نایاب ہے.۔۔۔جو بنا میک اپ کے بھی کتنی سحر زدہ لگتی ہے ۔۔۔کیا زبردست پرسنالٹی ہے ۔۔۔۔شہرین صرف خوبصورت ہے نایاب کی طرح سحر زدہ نہیں” ۔۔۔فروا دود کی کوڑی لائی تھی ۔۔۔بسماء نے اسکی بات سے اتفاق کرتے ہوئے زور سے سر دھنا ۔۔۔۔
“اچھا چھوڑو دیکھتے ہیں جا کے یہ ڈاہیکٹر اور یہ میڈیا یہاں کیوں آیا ہے” ۔۔۔فروا بسماء کا بازو پکڑے آگے بڑھی ۔۔۔”اور ناہل کو دیکھو زرا کیسے بچھ رہا ہے اس چڑیل کے آگے اسے تو میں بعد میں سیدھا کروں گی”۔۔۔فروا کی زبان حسب عادت نان اسٹاپ چل رہی تھی ۔۔۔۔بسماء مسکراتی پیچھے کھینچی چلی جا رہی تھی ۔۔۔۔اگر فروا کی لمبی زبان کو اگنور کر دیا جائے تو وہ کافی اچھی لڑکی تھی ۔۔۔۔بسماء دل میں یہی سوچ رہی تھی ۔۔۔وہ دونوں اسی ٹیبل کے گرد لگی کرسیوں پر بیٹھ گیئں جہاں نایاب بیھٹی تھی ۔۔۔وہ ادرگرد سے بے نیاز مسکرا کے ناہل اور شہرین کو دیکھ رہی تھی جو اب سٹیج پر جا چکے تھے ۔۔۔میڈیا کے نماہندےسٹیج کے گرد جمع تھے ۔۔۔۔اپنے جدید ترین آلات فوٹوگرافی کے ساتھ وہ شہرین کا انٹرویو لینے کے لیے بےتاب تھے ۔۔۔فروا اور بسماء بھی اسی جانب متوجہ ہوہیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توجہ سے سٹیج کے جانب دیکھتی نایاب کا فون بجا تو تو وہ سارے ہنگامے سے تھوڑا دور آئی ۔۔۔سٹیج پر شہرین کا انٹرویو چل رہا تھا ۔۔۔فون امپارٹنٹ تھا اسلیے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے سننا پڑا تھا. ۔۔
“ہاں بولو شہروز کیا ہوہا؟؟”۔بتایا تو تھا کے ابھی کال مت کرنا میں مصروف ہوں گی”” ۔۔۔فون اٹھا تے ہی جھٹ سے بولی ۔جانے وہاں سٹیج پر کیا ہو رہا ہو گا ۔۔۔۔اسکے بوتیک سے فون تھا ۔۔۔فون کرنے والا اسکا مینجر تھا ۔۔۔
“سوری ٹو ڈسٹرب یو میم بٹ بات ہی ایسی تھی آپ کو فون کرنا پڑا” ۔۔۔وہ شرمندگی سے بولا تو نایاب کے ماتھے کے بل کم ہوئے ۔۔
“اٹس اوکے ۔۔۔بتاو کیا بات ہے “۔۔۔
“میم جو نیا آڑر آیا ہے ان لوگوں کو ڈیزاہنز میں کچھ تبدیلیاں چاہیں” ۔۔۔وہ جلدی سے بولا ۔۔
“تمہید کو کٹ کرو شہروز اور سیدھی بات بتاو مجھے” ۔۔۔۔جھنجھنلا کے کہتی اسنے ایک نظر دور سٹیج کو طرف دیکھا جہاں اب وہ ڈاہیکٹر میڈیا کے نماہندوں سے بات کر رہا تھا ۔۔۔
“میم وہ لوگ کچھ بولڈ ڈریسز ڈیزاہن کروانا چاہتے ہیں۔۔۔جو ڈیزاہنز آپ نے بھیجے ہیں وہ بھی اچھے ہیں مگر ان کو اپنی فلم کے لیے نیو فیشن ڈریسز چاہیں ۔۔۔اسلیے میں نے سوچا آپ سے پوچھ لوں “۔۔۔شہروز نے اب بنا تمہید کے بات مکمل کی ۔۔۔
“اوکے تو آڈر کینسل کر دو ۔۔۔اسمیں اتنا سوچنے والی کیا بات ہے” ۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولی تو شہروز غش کھا گیا۔۔۔
“مگر میم یہ ڈیل بہت بڑی ہے ۔۔۔منافع بھی بہت ہے”۔۔اسنے ایک آخری کوشش کی تھی اپنی الگ منطق رکھنے والی باس کو سمجھانے کی ۔۔۔
“مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کے ڈیل کتنی بڑی ہے ۔۔۔میں ویسے کپڑے کبھی ڈیزاہن نہیں کروں گی ۔۔۔۔ایڈوانس ہم نے ابھی لیا نہیں “۔۔۔تو ڈیل کینسل کرو۔۔۔۔اسنے قعطیت سے بولتے بات حتم کی ۔۔
“میم آپ کل تک سوچ لیں ۔۔۔شاید ابھی آپ مصروف ہوں اور سہی فیصلہ نہ کر پاہیں”۔۔۔۔شہروز کسی قیمت پر وہ ڈیل کیسنل نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔نایاب نے گہری سانس لی اور ڈاہیکٹر پے لعنت بھیجتی وہ پوری طرح شہروز کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔
“شہروز میرے اصول بلکل سیدھے ہیں جو کام نہیں کرنا مطلب نہیں کرنا ۔۔۔پھر اسکے لیے میں کل کا انتظار نہیں کرتی۔۔۔کیونکہ وہ کل کبھی نہیں آتا ۔۔۔اسلیے آپ ابھی اسی وقت وہ ڈیل کینسل کریں”۔۔۔۔اسکا لہجہ حتمی تھا ۔۔۔شہروز سمجھ گیا تھا کے اب وہ پیچھے نہیں ہٹے گی ۔۔۔
“اوکے میم ایز یو وش ۔۔۔مگر ڈیل اچھی تھی ۔۔۔ترقی مل جانی تھی ہمیں “۔۔۔وہ اداسی سے بولا تو وہ جو فون رکھنے کا ارادہ رکھتی تھی یک دم رکی تنے اعصاب ڈھیلے کیے. ۔۔شہروز کو سمجھانے کی صرورت تھی. ۔۔
“میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا شہروز ۔۔۔ترقی کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی ۔۔۔یہ صرف الله آپکو عطا کرتا پے ۔۔۔۔اسلیے انسانوں پے نہیں الله پر بھروسا رکھو۔۔۔ایسی کہیں ڈیلز آہیں گی ۔۔۔سب ہمیں ہمارے کام سے بھٹکانا چاہیں گے مگر ہیمں ثابت قدم رہنا ہے ۔۔۔شیطان کے بنائے گئے پھندے آپ کی گردن تک تب تک نہیں ہپنچ سکتے جب تک آپ خود اپنی گردن اونچی کر کے ان میں نہ ڈال لیں۔۔۔جس الله نے اب تک ترقی دی ہے وہ آگے بھی دے گا۔۔تم گھبراو مت ” ۔۔۔نایاب نرمی سے بولتی چپ ہوئی تو شہروز یک دم ہلکا سا ہو گیا ۔۔
“رہیلی میم آپ کی باتیں سن کے ہمت سی آ جاتی ہے ۔۔میم یو آر دی بیسٹ ۔۔۔ میں ابھی وہ ڈیل کیسنل کرتا ہوں ۔۔۔شیطان کے پھندے میں اپنی گردن میں کبھی نہیں ڈالوں گا””وہ پرجوش ہوہا تو نایاب نے مسکرا کے فون بند کیا ۔۔۔اور سر جھٹکتی واپس اس ہنگامے کی طرف آئی ۔۔۔جہاں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا ۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...