ابراہیم آئینے کے سامنے اپنے بال بنا رہا تھا۔ جب ضویا کمرے میں داخل ہوئی پہلے سے بھی زیادہ دل میں اتر جانے والے دل کش انداز میں۔۔ ابراہیم نے ضویا کے دونوں ہاتھ تھامے اور بالکل سامنے کھڑے ہو کے پوچھا۔
“چلوں سب تو کلیر ہو گیا اب یہ بتائیں اُس دن درگاہ میں میرے دیکھنے پردہ کیوں ہٹایا تھا۔”
“وہ میں آپکو دیکھنے سے ہٹایا آپ کو کیسے پتہ۔”
“میں پوچھ رہا ہو تم سے”
” کیونکہ آپ کی آنکھوں نے کہا تھا ضویا ہمارے بیچ یہ پردہ کیسا۔ بس اسلئے”
‘ماشااللہ۔۔ تم کو آنکھیں بھی پڑھنا آتی ہے۔”
“صرف آپ کی۔۔”
ابراہیم نے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ضویا و اپنے نزدیک کیا اور جُھک کر آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔۔ جن آنکھوں سے اسکو عشق ہوا تھا۔۔ ضویا نے ابراہیم کی اس حرکت پر سینے پر دونوں ہاتھ راکھ کر پیچھے کو دکھیلا۔
“آپ صبح ہی صبح کافی شریر ہو رہے ہیں۔ میں بابا جان کو بتاؤں گی۔”
“چلوں مل کے بتاتے ہیں ۔”
“شرم تو نہیں آئے گی۔”
“نہیں۔۔شرم کیسی بیوی ہو میری کوئی امینوں پر کھیلتی کودتی کوئی لٹکی تو نہیں”دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دئیے۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
چراغوں کی لوح حویلی کے آنگن میں ہر طرف بکھری ہوئی تھی۔ اندھیرے میں جگنوں ٹمٹما رہے ہو جیسے۔ اور چراغوں کو جلاتی شانی اپنی دھن میں مگن تھی کسی نے پیچھے سے آکے شانی کا دامن کو جلنے سے بجایا۔ شانی نے ایک دم سے پیچھے مڑکے دیکھا اور بے اختیار منہ سے نکلا۔۔
“آپ۔۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں کسی نے دیکھ لیا تو۔؟اگر اماں آگئی تو۔۔؟ اگر چوہدرائن نے دیکھ لیا تو ۔؟ مجھےکبھی حویلی نہیں آنے دیں گی ایک احسان کریں یہاں سے چلے جائے۔۔ پلیز آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔”
“شش۔۔ ایک لفظ اور نہیں۔” اور ہونٹوں پہ انگلی رکھ دی۔ شانی کی آواز ساتھ ہی گم ہو گئی. اور وہ اس کے پاس آیا۔ اور پاس آیا۔ توبولا۔
“میں تم سے وعدہ کرنا چاہتا ہوں شانی۔۔ میں ساری زندگی تمہارے ساتھ رہوں گا تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا جو تم چاہو گی وہ کروں گا ساری زندگی تمہارا اسیر بن کر رہوں گا بولوں کیا تم کو منظور ہے۔” شانی کے ہونٹوں پر ابھی تک مہتاب کی انگلی تھی۔
شانی نے اپنے کپکپاتے ہونٹ وا کرنا چاہئے تو اماں نے آواز دے دی۔
“شانی اُٹھ جا پُتر کی ویلا ہو گیا ہے کالج نہیں جانا۔” اور منہ سے چادر ہٹا دی۔شانی ایک دم سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
“ہائے اللہ یہ سب خواب تھا۔۔ اُفف۔”
“اماں آج میں آلو والا پراٹھا ہی کھانا ہے۔” اور واش روم میں گھس گئی دل ابھی بھی زورں سے دھڑک رہاتھا۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
“چوہدرائن شانی کے لئے رشتہ آیا ہے۔ میں اُسے نہیں بتایا آپ کے پاس آئی ہو بتانے۔”
“کون لوگ ہیں کچھ پتہ ہے انکے بارے میں۔”
“وہ جی شہر میں رہتا ہے اور اپنی امی کو ساتھ لایا تھا پر شانی گھر پر نہیں تھی۔ ورنہ طوفان کھڑا کر دینا تھا اسنے۔”
“کس نے طوفان کھڑا کرنا تھا اماں۔” رشیدہ اور چوہدرائن تختے پر بیٹھی تھی۔۔ رشیدہ سے رازوں نیاز کررہی تھی کہ اچانک سے مہتاب اندد آگیا۔ جو اپنے کمرے میں جاتا جاتا شانی کا نام سن کے روک گیا۔
“کچھ نہیں باؤجی وہ تو۔ بس میں شانی کا بتا رہی تھی چوہدرائن کو بہت شیطان ہو گئی ہے۔”
“اچھا میں تو کچھ اور ہی سُنا ہے کوئی رشتہ آیا ہے شانی کے لئے۔”
رشیدہ اور چوہدائن نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔
“جی باؤجی آیا تو ہے جی۔ جو چوہدائن کہیں گی ویسا ہی ہوگا۔” اسی وقت چوہدرائن بولی۔
“تم کو کیا لینا دینا عورتوں کی باتوں سے۔”
“ماں جی میں کافی عرصے سے دیکھ ریا ہوں۔ جہاں شانی کی بات آتی ہے آپ مامعلہ رفع دفع کر دیتی ہیں۔ کس سے ڈر ہے آپ کو۔”
“مجھے کسی سے کیا ڈرنے کی ضرورت۔ تم نہ بس گھرکی باتوں میں ٹانگ مت آڑایا کرو جاؤں یہاں سے۔”
مہتاب کو ماں جی کا رویہ سمجھ نہ آیا اور اپنے کمرے کو چل دیا۔۔ پردماغ سوچا میں اُلجھا ہو تھا۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
کب سے غصے سے دماغ کھول رہا تھا۔ شانی اگر وہی ہوئی تو وہ کسی اور کی کیسے ہو سکتی ہے اس معاملے کو اسکو اتنا ایزی نہیں لیانا چاہیے تھا۔ اگر شانی نے بھی ہاں کر دی تو وہ کیا کر سکے گا۔ سوچتے سوچتے ایک خیال آیا تو شانی کے کالج کی طرف چل دیا۔ وہاں کالج کے ہیڈ سے ملاقات کی۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
شانی آسیہ کے ساتھ کالج کے باغ میں بیٹھی اپنا خواب سنا رہی تھی اور آسیہ منہ کھولے سُن رہی تھی۔
“شانی تو مان نہ مان پہلے تو باؤ جی کو تجھے سے محبت ہوئی اور ان کی محبت اتنی سچی تھی کے اب تم کو بھی انسے محبت ہوگئی ہے۔”
“کیا بکواس کر رہی ہو مجھے کوئی محبت وحبت نہیں ہوئی میں تو بس خواب سنا رہی ہو تو تعبیر بتا اسکی اگر آتی ہے۔”
“تو مان یا نہ مان فلموں میں تو ایسے ہی ہوتا ہے۔۔”
“تجھ سے نہ بات کرنا ہی فضول ہے میرا ہی دماغ خراب ہوا تھا جو تجھے بتانے بیٹھ گئی تھی۔ آتاجا تجھے کچھ ہے نہیں۔”
“یار اس دن دیکھا نہیں کسے تیری مدد کو پہنچے تھے۔ اور اس لڑکے کو پیٹ پیٹ کے بُھڑتا بنا دیا تھا۔ بیٹا اسی کو عشق کہتے ہیں یار مصیبت میں ہو تو دوسری کو خبر ہو ہی جاتی۔”
“ہاں وہی خبر جو پا ججی نے دی ہمارے عشق کا رپوٹر۔” شانی نے آسیہ کی بات پر جل کر کہا۔
“اچھا ایک بات بتاؤ۔۔”
“ہاں پوچھوں”
”اگر باؤجی اپنی مرضی سے شہر کی لڑکی سے شادی کر لے گے تجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔؟” آسیہ کے سوال سے کچھ تو دل کو ہوا اور خیال سا دل کو چھو کو گزرا “میں کرتا ہو نہ تم سے پیار۔۔” مگر ان سب خیالوں کو دماغ سے جھٹک دیا اور مصنوعی سی ناراضگی طاری کر کے بولی۔
“لو بھلا مجھے کیوں فرق پڑنا ہے فرق تو چوہدرائن جی کو پڑے گا بیٹا ہاتھ سے جو نکل جائے گا۔”
“دفعہ ہو شانی کسی کام کی نہیں ہے تو۔ نہ تو اپنے کالج میں لڑکے ہوتے ہیں اور پنڈ کے لڑکوں کو دیکھنے کا میرا دل ہی نہیں کرتا۔ میری اتنی خواہش تھی کو اصلی والی لو سٹوری دیکھوں اپنی آنکھوں سے۔۔جیسے حویلی کی ایک لڑکی کے بارے میں تھی۔”
“حویلی کی کونسی لڑکی کی لو سٹوری ہے۔” اسی ٹائم دونوں کی نظر اپنا گلا کھنکارتے مہتاب پر پڑی تو دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ تو دونوں کے رنگ ہی اُڑ گئے اور ایک ساتھ بولی۔ “آپ یہاں۔۔” مہتاب نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ رکھے تھے اور کندھے اوچکا کر باور کروایا کے وہ سب سن چُکا دونوں نے آؤدیکھا نا تاؤ وہاں سے بھاگ نکلی۔۔۔مہتاب اپنی دلکش سی مسکراہٹ لئے ان کی حرکت کو دیکھ رہا تھا۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
“بے جی میرا دل کرتا ہے اپنی شانزہ کے لئے مانی کا ہاتھ ویر جی سے مانگ لوں اگر بیٹا ہوتا تو مریم میری ہی تھی کیوں ویرجی منظور ہے آپکو۔”شانزہ کے عقیقہ کی تقریب منقد کی گئی تھی سب حویلی میں جمع تھے تو ضویا نے بڑے مان سے اپنے بھائی کے آٹھ سالا بیٹے کا رشتہ مانگا تو سب کی خوشی کا کوئی ٹھیکانا نہیں تھا۔ ضویا نے مانی کو اپنی گود میں لے کر پوچھا “مانی تم شانزہ سے شادی کرو گے۔؟”
مانی صاحب نے ایک نظر اپنی بُھوا کو دیکھا اور ایک نظر پاس سوئی پڑی شانزہ کو دیکھا اور بولا۔
“بُوا یہ تو بہت چھوٹی ہے یہ دلہن کیسے بنے گی جیسے آپ بنی تھی۔ یاد ہے آپ کو میں کتنا رویا تھا۔”
“اور تیرے باپ نے سب کو رولایا تھا۔” چوہدری اکبر نے اپنے پوتے کی معصوم سی بات پر مسکراتے ہوئے بیٹے کو دیکھا جسے تب سے اب تک اسی طرح چڑاتے تھے۔
“ابا جی ایسے نہ کہا کرو سب کے سامنے اور میں جزباتی ہو گیا تھا اپنی بہن سے دوڑی کے خیال سے” اور ضویا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
“اللہ خوش رکھے۔۔”
مانی شانزہ کے پاس گیا اور پیار سے اسکے روئی جیسے گلابی گالوں کو چھو کر بولا۔
“بھوا یہ میری دلہن بنے گی تو آپ اسکو حویلی میں چھوڑجانا میں اس کو سکول کا سارا سبق یاد کروا دوں گا۔” اسکی مصوم سی خوائش پر سب کا قہقہ ایک ساتھ بلند ہوا۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
”آسیہ عاشی کے بارے سنا تو نے”
“ہاں آج ہی ماسی شکورہ مٹھیائی لے کر آئی تھی۔ مجھے بہت افسوس سا ہوا کے اتنی بڑی عمر کے آدمی سے نکاح پڑھا دیا اسکے باپ نے زبردستی۔ اور ماسی بتا رہی تھی اسکا کسی کے ساتھ چکر تھا جس کا اسکے ابو کو پتہ چل گیا تھا کھیتوں میں پکڑی گئی تھی۔”
“اللہ رحم کریں سب کے حال پر کیا ملتا ہے یہ سب کر کے رکھا ہی کیا ہے عشق محبت میں مل جائے تو بدنامی نہ ملے ذلت الگ سے۔ پورے گاؤں میں جتنی اسکی ٹور تھی رشک آتا تھااس پر مجھے۔ ہر مہنگے سے مہنگا سوٹ اسنے پہنا تیار ہر وقت رہنا۔ دنیا کی ہر چیز اسکے ابو نے لا کر دی جسے دیکھ کر میرا دل کرتا تھا میرے بھی ابو ہو مجھے بھی اتنا پیار کرے میری بھی ہر فرمائش پوری کرئیں۔ پر ذرا عزت نہ رکھی پورا گاؤں باتیں کر رہا ہے۔۔۔ حق ہا اللہ سونے رشتے دے تو نصیب بھی سونے دے ورنہ کسی کا کوئی فائدہ نہیں۔”
“آمین۔۔چل یار کل آخری پیپر ہے تیاری بھی کرنی ہے۔”
★★★★★★★★★★
“چوہدری اکرام جٹ ہوں میں اور جو چاہتا ہوں کر کے رہتا ہوں۔ مجھے ہر حال میں وہ زمین چاہیے وہ زمین صرف اور صرف میری ہے۔ اور کسی کی نہیں ان بیگ برادران میں تو میں پھوٹ ڈلواؤں گا کیسے ذلیل کر سکتے ہے مجھے بھڑی پنچائت میں۔” چوہدی اکرام غصہ سے پاگل ہو رہا تھا۔ جو زمین اسنے خریدنی چاہی وہی بیگ برادرن نے اپنی گنے کی فصلوں کی پیدا وار بڑھنے کے لیے خرید لی تھی۔ زیادہ داموں میں معمالا پنچائت تک گیا کیونکہ اکرام کے گنڈوں نے دھمکایا تھا وہ زمین نہ خریدے ورنہ اچھا نہیں ہو گا پر رفیق بیگ نے ایک نہ سنی اور معاملا سارا پنچائت تک لے آیا اور سب کا فیصلہ رفیق بیگ کے حق میں تھا۔ جس نے پہلے ہی یہ زمین کا بیانہ ادا کر دیا تھا۔ پر اکرام کو اس زمین پر مل لگانی تھی ہر حال میں۔ کیونکہ اس نے پیسہ کھایا تھا۔ اسکے کے لئے جان مال سے زیادہ اہم ہو گئی تھی یہ بات۔۔۔ ورنہ سارا پیسہ واپس کرنا پڑتا اور نقصان ہوتا الگ۔ پنچائت سے تو چپ کر کے واپس آگیا تھا۔ پر غصہ اور تذلیل برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
“میں چھوڑوں گا نہیں تم کو رفیق۔ خاندان ختم کر دوں گا میں تمہارا جتنی بے عزتی میری کی ہے تمہاری یہی سزا ہونی چاہئے۔”
مہتاب کی فیکٹریوں کا کام اپنے اختتام پر تھا۔ اور گاؤں کے لوگوں کا جوش اور ولولہ اپنے عروج پر تھا۔ ہر کوئی خوش تھا کے ان کی فصلوں کو اب بہترین داموں میں خریدہ جائے گا۔ قرضے اتر جائیے گے ان کے سروں سے۔۔۔اور کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے گا انکی بہن بیٹیوں کو۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...