دروازے پر دستک ہوئی تو برہان احمد نے اُس لڑکی کو اندر آنے کا کہا۔
وہ لڑکی آرام سے چلتی ہوئے آئی اور بیٹھ گئی۔ اپنا بیگ ساتھ والی کرسی پر رکھا۔ اُس نے نظریں جھکا لیں۔
” مس عبیر احسان، کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ بہت خوبصورت ہیں؟”
برہان احمد میں اپنی نئی کلائنٹ سے کہا ۔
” جانتی ہوں، یہ وہ احساس ہے جو مجھے بار بار دلایا جاتا ہے۔ کبھی تعریف کے طور پر ۔۔۔ اور کبھی تنقید کے طور پر۔ یہی احساس مجھے لے ڈوبا۔۔۔ کاش میں بھی اپنی بہن کی طرح سانولی ہوتی۔ کاش میں بھی ایک گمنام لڑکی ہوتی۔ کاش مجھے کوئی نہ دیکھتا ۔۔۔ کاش مجھے کوئی پسند نہ کرتا۔۔۔ سدرہ جیسے اپنا ایب سمجھتی ہے وہی اُسکی خوبی ہے ”
آنے والی لڑکی ٹرانس میں بولنے لگی۔
برہان احمد اُسے دیکھتا رہا۔
” دھوکا کھایا ہے؟” برہان سارا معاملہ سمجھتے ہوۓ بولا۔
” ہاں، بہت دلفریب دھوکا۔۔۔ نکاح کے نام پر لٹ گئی میں۔ میرے چار سال کھا گیا وہ فریبی۔”
عبیر نے کہا۔
” اعتبار کیوں کیا تھا؟” برہان نے پوچھا۔
” گفتار کا غازی تھا۔۔۔ باتوں میں آگئی۔۔۔ لفظ نکاح کے نام پر میرے جذبات سے لطف اندوز ہوتا رہا۔۔ لیکن اب میں سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں۔کیا وہ واقعی مجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہے یاں؟؟”
عبیر نے کہا۔
” عزت تو بچا رکھی ہے نا اپنی؟” برہان نے سیدھا سوال کیا۔
” اللہ نے عزت بچا لی۔۔۔ یوں کہیں اللہ نے عزت رکھ لی۔۔۔ ورنہ میں نے لٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔ اور نہ اُسے لوٹنے میں۔”
عبیر نے کہا۔۔۔ پھر ساری کہانی سنا دی۔
” ہممم، آپ کو ماننے کے لیے زہر خانے لگا تھا۔۔۔ اپنے والدین کے سامنے اُن کو شادی کے لیے ماننے کی وجہ سے زہر کیوں نہیں کھائی اُس نے؟ جن کے سامنے زہر کا ڈراما کرنا چاہئے تھا اُن کے سامنے تو نہ کیا ۔۔ اکلوتا بیٹا تھا۔۔۔ والدین کیسے نہ راضی ہوتے جان بچانے کے لیے۔۔۔ ”
برہان احمد نے کہا۔
عبیر سوچنے لگی۔۔۔
( واقعی۔۔۔ وہ کر سکتا تھا یہ ڈراما۔۔ اپنے ماں باپ کے سامنے۔۔۔ مجھ کمزور کے سامنے کرنے کی کیا ضرورت تھی )
” کیسے خیال آیا ۔۔ کے وہ فریبی ہے۔” برہان احمد نے پوچھا۔۔۔
” جب بھائی کی شادی کی تاریخ رکھی گئی۔۔۔ تب خیال آیا۔۔۔ علی جیسا کمزور لڑکا اپنی بات منوا کر رہا۔۔ وہ تو فولادی شخصیت کا مالک تھا۔۔۔ کیسے کمزور پڑ گیا۔۔۔ ”
عبیر نے کہا۔
” جو والدین۔۔۔ اپنے بچوں کی جائز آزادی سلب کر دیتے ہیں۔۔۔ تو بچے لوگوں کو پہچاننے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔۔۔ آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔۔ پہلے آپ کو آزادی نہ دی گئی۔۔۔ پھر اچانک آزادی ملی تو حد سے زیادہ۔۔۔ توازن نہ رکھ سکے آپ کے والدین ۔ توازن بگڑ گیا۔۔۔ اسی لیے آپ پہچان نہیں پائیں۔”
برہان احمد نےکہا۔۔
” اچانک سے اتنی آزادی ملنا۔۔ واقعی توازن نہ رہا۔”
عبیر بولی۔ وہ باتیں کھوئے کھوئے انداز نے کرتی جا رہی تھی۔
” میں یہ بھی کہہ رہا کے وہ آپ سے کبھی شادی نہیں کرے گا۔۔۔ عین ممکن ہے کے وہ آپ سے شادی کر لے اب۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ” برہان احمد کہتے کہتے رک گئے۔
” لیکن؟” عبیر نے پوچھا۔
” لیکن آپ کو پل پل ذلیل کریگا۔۔۔ شادی کے بعد۔۔ اگر میری بات غلط ثابت ہوئی تو میں یہ منصب ہی چھوڑ دونگا ہمیشہ کے لیے۔ ۔۔۔ عبیر احسان۔۔۔ کیا تم ساری زندگی کے لیے ذلیل ہونے کو تیار ہو اس شخص کے ہاتھوں؟؟؟؟”
برہان احمد میں ٹیبل پر دونوں ہاتھ مارتے ہوئی عبیر کی انکھوں میں دیکھتے ہوئی سوال کیا
” نہیں نہیں۔۔۔ مجھے ۔۔۔ ذلیل نہیں ہونا۔”
وہ بولی۔
” تو اب وہ رشتا بھیجے گا۔۔۔ مگر آپ نے انکار کرنا ہے۔۔۔ وہ راستہ روکے گا ۔۔۔ آپ نے اُسے نظر انداز کرنا ہے۔۔۔ اُس شخص کو اپنی زندگی سے نکال دیں۔ جہاں والدین کہتے ہیں۔ وہاں شادی کر لیں۔”
برہان احمد نے کہا۔
” اُسے بلاک کر دوں؟” عبیر نے پوچھا۔
” ہاں ۔۔۔ بلاک ہر جگہ سے۔” برہان نے کہا۔
” نمبر بدل دوں؟” وہ بولی۔
” ابھی نہیں۔۔۔ ابھی اُسے بلاک کے احساس میں رہنے دو۔۔۔ پھر کچھ عرصے بعد نمبر بدل دینا۔”
برہان نے کہا۔
پھر وہ مسلسل برہان احمد سے دو ماہ تک سیشن لیتی رہی۔
اُس کی آنکھیں اور دماغ ۔۔۔ آہستہ آہستہ کھلنے لگے ۔۔۔
_____________
یہ ایک سُہانی صبح تھی۔
اُس نے پردے ہٹائے۔۔۔ اور مسکرا کے لان میں لگے پھولوں کو دیکھنے لگی۔
سعیدہ اُسے جگانے آئی تو دیکھا وہ پہلے سے جاگ گئی ہے۔
” ماشاء اللہ ۔۔۔ میری بچی آج سویرے جاگ گئی۔” سعدیہ نے پیار سے کہا
” امی۔۔۔ وہ جو رشتا آیا تھا میرے لیے ۔۔۔ جو ابا کو پسند تھا ۔۔ اُس کا کیا ہوا؟”
عبیر نے پوچھا۔
” کیا ہونا تھا۔۔۔ تم نے کہا لڑکا شکل سے کچھ خاص نہیں۔۔ تو ہم نے ٹال دیا یہ کہہ کر لے پہلے سدرہ کا رشتا ہو جائے۔۔۔ لڑکے والے ابھی بھی انتظار کے ہیں۔”
سعدیہ نے کہا۔
” اُن کی ہاں کر دیں۔” عبیر نے کہا تو سعدیہ کو یقین نہیں آیا۔
” واقعی عبیر؟ دل سے کہہ رہی ہو؟” سعدیہ نے کہا۔
” ہاں امی۔۔۔ دل سے۔۔۔ ” عبیر مسکرائی اور سعدیہ کے گرد اپنی باہوں کہ حصار بناتے ہوۓ کہا۔
پھر کیا۔۔۔ لڑکے کی ماں بھاگم بھاگ آئی۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہوا۔
علی اور حریم کی شادی کے دس دن بعد ہی عبیر کی شادی طے پائی۔
سدرہ اندر ہی اندر جلنے لگی۔ مگر دل سے چاہتی تھی کے عبیر اپنے گھر کی ہو جائے تو اسکے لیے رشتے آئیں۔ اس لیے چپ تھی۔
نکاح کا وقت آن پہنچا۔۔۔ شادی سے ایک دن پہلے دولہے والے احسان احمد کے گھر آگئے اپنے خاص رشتے داروں سمیت۔
چالیس کے قریب لوگ تھے۔ سب خوش تھے۔
اور سب سے زیادہ عبیر احسان خوش تھی ۔ اپنے فیصلے پر۔۔۔
لیکن ۔۔۔ اچانک ہی ایک خاتون آگئیں اپنے شوہر سمیت۔ وہ دونوں میاں بیوی دولہے کے قریبی رشتے دار تھے جن کو آنے میں دیر ہوگئی تھی۔ لیکن عین نکاح سے لمحہ پہلے پُہنچ گئے۔
” یہ کیا منصور بھائی۔۔۔ آپ اس لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی کر رہے ہیں؟ جانتے ہیں یہ لڑکی کیسی ہے؟ سجیلا۔۔۔ اپنے بیٹے کی زندگی برباد کرنی ہے کیا؟”
وہ خاتون بولی ۔۔۔ وہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ شہیر شیرازی کی ماں تھی۔
” سیرت یہ کیا کہہ رہی ہو ؟” دولہے کی ماں بولی۔
” سیرت سچ کہہ رہی ہے سجیلا بہن، یہ لڑکی واقعی اچھی نہیں ہے۔ یہ ایک بدکردار لڑکی ہے جس نے پچھلے چار سال سے میرے بیٹے شہیر کو اپنے عشق کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ اسی لیے شہیر شادی نہیں کر رہا.”
شہیر کے والد وقاص شیرازی نے کہا۔
” آپ دونوں اپنی بکواس بند کریں۔” سعدیہ چیختے ہوئے بولی۔
” جب بیٹی کو لگام نہیں نہیں دینگے آپ لوگ تو لوگ تو باتیں کریں گے ہی۔”
سیرت بیگم نے کہا۔۔۔ اور سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا احسان احمد اور سعدیہ کے سامنے۔
باتیں بڑھتی گئیں۔ وہ بولتے گئے۔
عبیر نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
نکاح نہ ہو سکا۔۔۔ سب واپس چلے گئے۔
ہاتھ آئی ۔۔۔ رسوائی ۔۔۔
______________
مہینہ گزر گیا۔
گھر میں موت کا سا سنّاٹا تھا۔
اتنی ذلت۔۔۔ اتنی رسوائی ۔۔۔ یہ تو گھر پر ہوا۔۔۔ اگر شادی حال میں ہزاروں مہمانوں کے سامنے ہوتا تو۔۔۔ لیکن بدنامی تو بدنامی تھی۔
اگلے دن لڑکے کی شادی اُسے شادی ہال میں اپنی ایک کزن سے ہی ہوگئی تھی۔
عبیر نیم پاگل ہوگئی تھی جیسے۔ ہر وقت ایک غیر مرئی نکتے کو تکے جاتی۔ کچھ نہ بولتی۔۔۔
حریم کا سہارا تھا۔ ورنہ حریم نہ ہوتی تو وہ مر جاتی۔
احسان احمد نے سرا الزام سعدیہ کی پرورش پر ڈال دیا۔
حریم بھی بیچ میں پھنس گئی۔
احسان احمد اُسے کہتے کے حریم کی وجہ سے عبیر نے یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔
علی نے اسے مارا۔۔۔ بہت مارا۔۔۔ جب باہر والوں کی باتیں سن کر آیا۔
” میری سات نسلوں کی توبہ جو اپنی بیٹی کو آزادی دی تو۔۔ پڑھایا تو۔۔۔ ” وہ دیوانہ وار کہتا جاتا۔
حریم کو خوف تھا کے کہیں علی خود کو مار نہ سے ڈپریشن میں۔
احسان احمد آفس نہ گئے۔ گھر پر کسی زندہ لاش کی مانند پڑے رہے۔
سعدیہ بار بار دیکھتی کے سانس لے رہے ہیں یاں نہیں۔
سدرہ بھی سکتے میں تھی۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھا کے عبیر کسی سے ملنے اُس کے گھر تک گئی تنہائی میں۔۔۔ اُسے دکھ ہو رہا تھا ۔۔ اپنا ۔۔ اپنے باپ کا ۔۔۔ اور عبیر کا۔۔۔ وہ حسد کرتی تھی۔۔ لیکن ایسا کبھی نہ چاہا تھا۔
” سعدیہ۔۔۔ ”
احسان احمد نے پُکارا۔
” جی” سعدیہ پاس آئی۔
” عبیر کا سامان باندھو۔”
احسان احمد کی بات پر سعدیہ کا دل دہل گیا ایک پل کو۔
” کیوں؟ کہاں جان ہے عبیر نے؟”
سعدیہ نے خشک لبوں اور زبان پھیرتے ہوئے پوچھا۔
” گاؤں لیکے جارہا ہوں اُسے۔ تم بھی چلو اُس کا نکاح ہے۔۔ سرور کے ساتھ۔”
احسان احمد نے کہا۔
” سرور کے ساتھ؟؟ لیکن اتنا سب ہونے کے بعد؟ کیا سجاد بھائی مان جائیں گے؟”
سعدیہ نے پوچھا۔
” وہاں کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ میں نے سجاد سے بات کی ہے ۔ اُسے سب بتایا ہے۔ وہ راضی ہے عبیر کو اپنی بہو بنانے کے لیے۔”
احسان احمد نے کہا۔
” اور سرور؟”
سعدیہ نے پوچھا۔
” سجاد کہتا ہے اُسے راضی کر لیگا۔”
احسان احمد نے کہا۔
_______________
گاڑی گاؤں کی طرف روانہ تھی۔ ڈرائیور چلا رہا تھا ۔ آگے احسان احمد بیٹھے تھے۔
پیچھے عبیر اور سعدیہ۔
عبیر کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
کسی بت کی مانند ساخت تھی۔
سعدیہ بار بار اسے دیکھ رہی تھی۔
یہ کیا ہوگیا تھا پل میں۔۔۔ کیسے سارا شیرازہ بکھر گیا تھا۔
سعدیہ کی بنائی ہوئی جنت اُجڑ گئی۔
عبیر کو کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
گاڑی اب گاؤں کے کچے راستوں اور آگئی تھی۔
جس بیٹی کے لیے محلوں کے خواب دیکھے تھے۔ اُسے اب اپنے ہاتھوں سے زندہ درگور کرنے جا رہے تھے دونوں۔
رات ہو چکی تھی۔
دور سے رنگ برنگی قمقمیں نظر آنے لگیں۔
گاؤں والے پوری تیاری کیے بیٹے تھے۔
سرور کی دلہن شہر سے آرہی ہے۔
سادہ سے لوگ ۔۔۔ خوش تھے۔
زہرہ اداس تھی۔ لیکن فیاض خوش تھا کے سرور کی شادی ہو رہی ہے۔
سجاد حسین کے گھر تو جشن تھا۔ مکمل شادی والا ماحول۔
” لڑکیوں نے تو تین دن سے ڈھولک بجا بجا کر اور گانے گا گا کر خود کو ہلکان کیا ہوا ہے۔”
سکینہ سعدیہ سے گلے ملتی ہوئے خوشی سے بولی۔
ایک احساس تھا ۔۔ یہاں کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔ اس احساس نے سعدیہ کو حوصلا دیا تھا سب سے نظریں ملانے کا۔
لڑکیاں عبیر کو لے گئیں۔
مہندی لگائی۔ تیار کیا۔ حیران تھی شہر کی لڑکی دیکھ کر۔
” انی سوہنی۔۔۔ ” عبیر کی سماعتوں سے آوازیں ٹکرائیں۔
کافی گھنٹے سے باہر شور تھا۔ ناچ گانا۔ کھانا ۔۔یہاں محفل کے اختتام پر نکاح ہوتا تھا۔
محفل ختم ہوئی تو نکاح کے لیے سب اکٹھے ہوۓ۔
بالآخر۔۔۔ ” نکاح” ہوگیا۔۔۔
_____________
وہ اب اکیلے بیٹھی تھی۔ ہجوم ہی اتنی دیر سے کمرے میں تھا سکینہ نے سب کو نکال دیا۔
وہ کسی مجسمے کی طرح بیٹھی ہوئی تھی اب تنہا۔۔۔ سوچ رہی تھی ۔۔ اپنا گناہ۔۔۔
اور سرور ۔۔۔ اُسے تو کچھ نہیں پتہ۔۔۔ وہ سوال ضرور کرے گا ۔۔۔ کے اچانک یہ سب۔۔۔ کیا سجاد انکل نے اسے بتایا ہوگا؟ یاں نہیں۔۔۔
اگر نہیں بتایا تو ۔۔۔ زندگی تھوڑی آسان ہو سکتی تھی۔۔۔ اور اگر وہ سب جانتا ہے تو ۔۔۔ بس پھر ایک جہنم جھیلنی ہے اُسے۔
کیسے قبول کر لوں۔۔۔ زبان نے اقرار کر دیا ہے۔۔۔ مگر دل ۔۔۔ دل تو مر چکا ہے۔۔۔
نہ جذبات ۔۔۔ نہ احساسات ۔۔۔ اور یہ ماحول ۔۔۔ یہ انجانے لوگ۔۔۔ اتنے سارے لوگ ۔۔۔
کیسے گزرے گی۔۔۔ اس سے تو اچھا تھا ابا پھر سے مجھے کمرے میں قید کر دیتے ۔۔ ساری عمر اپنے گھر میں بیٹھا کر رکھتے ۔۔ یہ تو بہت بھیانک سزا دی ہے ابا نے مجھے۔۔۔ اتنی بھیانک۔۔
اور سرور ۔۔۔ وہ غنڈا ۔۔ موالی ۔۔۔ میرا نصیب ۔۔۔
عبیر رونا چاہتی تھی لیکن رو نہیں پا رہی تھی۔
کیسا لگتا ہے۔۔۔ ایک نا پسندیدہ شخص کا انتظار ۔۔۔
کافی دیر سے وہ سرور کے انتظار میں بیٹھے رہی۔ پھر آنکھ لگ گئی۔
دیر بعد دروازہ کھلا تو وہ جاگ گئی۔۔ لیکن سوتی بنی ۔۔ اٹھی نہیں۔۔
اُس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔ اسے دیکھنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔
شہر میں کسی سے کر دیتے نکاح ۔۔۔ کسی بڑے عمر کے شخص سے ۔۔۔ کسی سے بھی ۔۔۔ مگر ابا یہ نہ کرتے ۔۔۔ اس شخص کے حوالے نہ کرتے۔ ابا گاؤں میں نہ پھینکتے مجھے ۔۔۔ ابا سزا کی بجائے معاف بھی تو کر سکتے تھے ۔۔ ابا یہ کیا کیا۔۔۔ ابا مجھے برباد کے دیا۔
وہ دل ہی دل میں احسان احمد سے مخاطب تھی کہ سرور نے گلا کھنگھارا
” جانتا ہوں۔۔۔ تم جاگ رہی ہو ”
وہ بیٹھ کر جوتے اتارتا ہوا بولا۔
سرور کی آواز سنائی دی۔
اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
وہ اٹھ کر سیٹھی بیٹھ گئی۔
وہ اُس کے قریب بیٹھ کے اُسے غور سے دیکھنے لگا۔
عبیر کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
وہ سرور کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی۔
” شہیر شیرازی نے چھوڑ دیا کیا؟”
سرور کے اس سوال اور عبیر کو لگا کے کمرے کی ساری چھت اُس پر آن گری ہے۔
اُس نے بے اختار نظریں اٹھا کر سرور کو حیرت سے دیکھا۔
” میں بیوقوف نہیں ہوں ۔۔۔ سب سمجھ چکا ہوں۔۔۔ کے اچانک احسان چاچو کو میرا خیال کیسے آگیا اپنی اُس بیٹی کے لیے جس کو وہ محلوں کا حقدار سمجھ رہے تھے آج سے چار سال پہلے ۔۔۔ جب میرے ماں باپ نے تمہارا ہاتھ مانگا تھا اُن سے۔”
سرور کے اس انکشاف پر وہ حیران ہوئی۔
” اب تم مجھے بتاؤ۔۔۔ کیا مجھے خوش ہونا چاہیے؟؟؟ اُس لڑکی سے شادی پر۔۔۔ جیسے میں اپنی آنکھوں سے اپنے ہی استاد کے ساتھ کافی بار بند کلاس روم میں دیکھ چکا ہوں۔۔۔”
سرور نے معنی خیز انداز میں کہا۔
( یعنی یہ سب جانتا تھا۔۔۔ اُس وقت سے ہی۔۔۔)
عبیر نے سوچا۔
” تمہیں لگ رہا ہوگا کہ تمہاری قسمت خراب ہے۔۔۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ میری قسمت خراب ہے ۔۔۔”
وہ اپنی جیب سے سگریٹ نکالتا ہوا بولا ۔
عبیر کی یہ حالت تھی ۔۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔
سرور نے سگریٹ کا کش اندر لے جا کر دھواں باہر نکال کر عبیر کے چہرے پر پھونک ماری۔
عبیر نے حقارت سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
اب وہ تکیہ ایک کہنے پر لگائے نیم دراز ہو کر اُسے دیکھ رہا تھا۔ عبیر کو اُس کے دیکھنے سے الجھن ہو رہی تھی۔
” بتایا نہیں تم نے ۔۔۔ کیوں چھوڑا اس نے تمہیں؟”
سرور نے پوچھا۔ وہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا رہا تھا۔
” اُس نے نہیں ۔۔۔ میں نے اسے چھوڑا تھا۔”
عبیر نے ہمت کر کے کہا۔
” یہ ہوئی نا بات ۔۔۔” سرور نے پھر سے پھونک ماری۔
” Will you please stop this?”
عبیر کو اُس کی پھونک مارنے والی حرکت پر غصّہ آگیا
” آواز نیچے ۔۔۔ دلہن ہو۔۔۔ اگر دل میں شرم نہیں ہے تو تھوڑی سے اداکاری ہی کر لو شرمانے کی۔۔۔ مجھے شرماتی ہوئی دلہن اچھی لگتی ہے۔”
وہ بولا تو عبیر کا دل کٹ کر رہ گیا۔
( اب اس انسان سے بھی مجھے تانے سننے پڑیں گے؟ کاش قسمت اتنا ساتھ تو دے دیتی میرا ۔۔۔ اسے کچھ معلوم نہ ہوتا۔ ۔۔ میں کم اس کم اس کے سامنے تو سر اٹھا کر جی لیتی۔۔۔)
عبیر کو اپنا دکھ ہو رہا تھا۔
” میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔”
وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
” مجھے تم سے کوئی صفائی نہیں چاہیے۔۔۔ کیوں کے مجھے تمہاری ذات میں نہ کل دلچسپی تھی نہ آج ہے اور نہ کبھی ہوگی۔۔۔ بس اب گلے پڑا دھول ہے تو بجانا پڑے گا ساری عمر۔۔۔ ”
وہ بیزاری سے بولا۔
عبیر کو وہ اس وقت زہر لگ رہا تھا۔ جتنا وہ باہر سے خوبرو تھا ۔۔۔ اتنا ہی اس کی باتیں کڑوی۔
” نیند آرہی ہے مجھے۔” وہ بیزاری سے بولی۔ تھکی ہوئی تھی ۔ اُسے واقعی نیند آرہی تھی۔
” اور کو بندہ بشر کی نیند اڑ گئی ہے تمہارے حسن کو دیکھ کے اس کا کیا؟”
سرور نے جان بوجھ کر اُسے ڈرانا چاہا ۔۔۔ اور وہ ڈر بھی گئی۔
” تم نے کہا ۔۔۔ تمہیں میری ذات میں کوئی دلچسپی نہیں۔” عبیر اپنی دھڑکنوں کو قابو کرتی ہوئے بولی۔
وہ اسے غور سے دیکھنے لگا پھر قریب ہوا۔
” مذاق کر رہا تھا ۔ عادت ہے مذاق کی۔” وہ اُس کے وجود کو دوپٹے سے آزاد کرتا ہوا بولا۔
عبیر کی سانس نا ہموار ہونے لگی۔
” م ۔۔ م ۔۔ مجھے ہاتھ مت لگانا۔” عبیر نے کہا۔
” چپ رہو۔” اب وہ اُس کے جوڑے کے پن نکال رہا تھا۔
” چھوڑو ۔۔۔ میں کر لونگی۔” عبیر نے اس کا ہاتھ روک دیا اور اپنے بال آزاد کیے۔۔ اُس کے بھورے بال اس کے دائیں شانے پر بکھر گئے۔
” چار سال ۔۔ الو بناتا رہا وہ شخص تمہیں۔۔۔ ہے نہ؟” وہ اب اُس کے جھمکے اُتار رہا تھا۔
” میں نے کہا مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔” اُس نے روکنے کی کوشش کی تو سرور نے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
” کہا نا ۔۔۔ چپ رہو۔زیادہ بولنے والی لڑکیاں نہیں پسند مجھے۔” سرور نے سختی سے کہا اور اُس کے گلے کو ہار سے آزاد کیا۔
عبیر کا بس نہیں چل رہا تھا کے کہیں غائب ہو جائے۔
” یہ لیپا پوتی صاف کرو۔” وہ ٹشو کا ڈبہ اُس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ لیپا پوتی شاید وہ میک اپ کو کہہ رہا تھا۔ عبیر تو یہی سمجھی۔
اُس نے ٹشو لیکے لپسٹک صاف کی۔ اور تو بس کاجل ہی لگا ہوا تھا۔ گاؤں میں کسی کو میک اپ نہیں آتا تھا۔ اور خود کرنے والے اُس کے حالات نہیں تھے اُس وقت۔
” اُسے مار کر بھگایا تھا میں نے یونی ورسٹی سے۔ دھمکی دی تھی کے آئندہ نظر آیا تو ۔۔۔” وہ اُسے حصار میں لیتے ہوئے بولا تو عبیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی۔
” ت ۔۔ ت ۔۔ تم نے؟؟ نکالا تھا اسے یونی ورسٹی سے؟” عبیر نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
” ہاں ۔۔ کیسے برداشت کرتا۔۔ اُس جیسے گھٹیا انسان کو اتنی پاک مقدس جگہ پر۔۔۔ جہاں علم سکھایا جاتا ہے۔ ” وہ بھی عبیر کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
ہر پر وہ نیا انکشاف کر رہا تھا۔۔۔ عبیر احسان کو حیران پر حیران کیے جا رہا تھا۔ پھر اچانک اُسے ہوش آیا۔ ” چھوڑو مجھے۔” وہ اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی لیکن مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔
” عبیر احسان۔۔ نہیں بلکہ ۔۔۔عبیر سرور۔۔۔ سرور سجاد کسی کا حق مارتا نہیں۔۔۔ اور اپنا حق چھوڑتا نہیں۔ ” وہ کہتا ہوا اُس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ پھر اُس کے لبوں نے عبیر کے چہرے کا طواف شروع کر دیا تو عبیر کو وہ لمحہ یاد آیا ۔۔۔ وہ کمزور لمحہ ۔۔۔ جب یہی سب شہیر شیرازی ناجائز طریقے سے کے رہا تھا۔۔۔ اور وہ ہونے دے رہی تھی۔۔ پھر آج اپنے شرعی شوہر کو کیوں روکنا چاہ رہی تھی۔
” اُمید کرتا ہوں کے وہ تعلق صرف فون کال تک ہی محدود رکھا ہوگا تم نے۔ اور تمہیں چھونے والا میں پہلا مرد ہوں۔” وہ اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولا تو عبیر کو روح تک لرز گئی۔۔۔
( اگر اسے پتہ چل گیا تو؟؟) ہر بیوی کی طرح فطری طور پر اس خوف نے گھیر لیا تھا ایک ہی پل میں۔
اُس کا گلا خشک ہوگیا اس تصور سے ہی۔ اُس نے آنکھیں میچ لیں۔ سرور کی جسارت بڑھتی گئی۔
” پانی” اُس نے ہولے سے کہا۔ سرور نے اسے چھوڑ دیا۔ اور باہر چلا گیا مٹکے سے پانی لانے
عبیر نے اپنے گلے پر ہاتھ پھیرا
( نہیں نہیں ۔۔۔ اسے کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے ہماری ملاقاتوں کا۔۔۔ یہ ۔۔ یہ شخص مجھے جان سے مار دیگا۔۔۔ نہیں بلکہ مجھے تانے دے سے کے مارے گا۔)
عبیر کا چہرہ فک ہو گیا تھا
وہ پانی لے آیا۔
عبیر نے ایک ہی سانس میں پی لیا۔۔۔ مگر وہی تشنگی۔
” بھول جاؤ اسے۔” سرور نے گلاس واپس رکھتے ہوئے کہا۔
( اُسے بھول چکی ہوں۔۔۔ مگر قسمت بھولنے نہیں دیتی۔ ہر موڑ پر اس کی وجہ سے رسوا ہو رہی ہوں۔ ) عبیر نے دل میں کہا۔ وہ بتی گل کر چکا تھا۔اب اندھیرے میں اس اور قابض ہو چکا تھا۔ عبیر کو سب یاد آنے لگا ۔۔ شہیر کی باتیں۔۔۔ گیارہ بجے والی کال ۔۔ کال پر اُس کی محبت بھری باتیں۔۔۔ محبت کی باتیں آہستہ آہستہ نازیبا الفاظ میں ڈھلتی چلی گئیں۔ محبت بھری گفتگو کو کمال مہارت سے وہ غیر اخلاقی گفتگو کی طرف لے جاتا تھا۔ سوچ کر اُس کا دل پتھر کا ہونے لگا تھا۔
(اتنی بڑی غلطی۔۔۔ اتنا بڑا گناہ۔۔۔ چار سال۔۔۔ ایک بے بنیاد تعلق کو نے کیسے گھسیٹتی رہی۔۔۔کیوں گھسیٹتی رہی) وہ انھیرے میں سوچ رہی تھی۔ سرور اپنا حق وصول کر رہا تھا۔ کافی دیر مزاحمت کے بعد اُس نے خود کو سرور کے سپرد کر دیا۔۔۔
________________
صبح کسی نے بہت برے طریقے سے دروازہ پیٹنا شروع کیا تو وہ ہڑبڑاتی ہوئی اٹھی۔
” کیا ہوا ؟؟؟ کیا ہوا؟؟ اٹھو ۔۔۔ دیکھو باہر کچھ ہوا ہے۔”
اُس نے سرور کو جھنجھوڑتے ہوئے اٹھانے کی کوشش کی جو گھوڑے گدھے بیچ کے سو رہا تھا۔
” کیا ہے سونے دو۔” سرور نے تکیہ میں منہ چھپا لیا۔
دروازہ مسلسل بج رہا تھا۔ ابھی روشنی بھی ٹھیک سے نے پھیلی تھی۔
” اٹھو ۔۔۔ دیکھو باہر کچھ ہوا ہے۔ کوئی زور زور سے دروازہ بجا رہا ہے۔” عبیر نے اُس کے منہ سے تکیہ کھینچتے ہوئے کہا۔
” کچھ نہیں ہوا۔۔۔ عادت ہے ان کی۔”
وہ بیزاری سے اٹھا اور دروازہ کھولا۔
” کسكي موت آگئی ہے؟” سرور نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔
” وہ۔۔۔ بھابھی کے لیے چائے لائے ہیں ہم ”
اُس کی سولہ سال کزن کنزا بولی ۔۔۔ اُس کے ہاتھ میں چائے کی کیتلی تھی اور باقی لڑکیوں کے ہاتھوں میں کپ تو کچھ کے ہاتھ نے پراٹھے۔یعنی کے چھے سات لڑکیوں کی فوج تھی۔
” کیا بیہودگی ہے یہ؟ ابھی گاؤں کے کتے بھی سو رہے ہیں۔۔۔ اور تم سب جاگ گئیں۔۔ چین نہیں تم کو؟ کوئی تمیز ہوتی ہے۔ کوئی وقت ہوتا ہے۔” سرور نے کہا۔
عبیر اٹھ کر سامنے آئی۔
اُس نے گہرا سانس لیا۔
” اس لیے دروازہ ایسے بجایا جا رہا تھا؟”
عبیر نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اُسے لگا احسان احمد چل بسے اس لیے ایسے دروازہ پیٹا جا رہا تھا ۔
باہر سردی کے باعث دُھند تھی جس میں سورج روپوش تھا۔
” بھابھی ۔۔ ہم آپ کے لیے چائے ناشتہ لائے ہیں”
لڑکیوں کی وہ فوج سرور کو پرے دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
” قسم لے لیں بھابھی جو ہمیں نیند آئی ہو تو ۔۔ صرف اس پریشانی سے کے دیر نہ ہوجائے ہمیں ناشتہ بنانے میں۔” کنزا پرجوش ہو کے بولی۔
” دفاع ہو جاؤ سب۔۔۔ ساری نیند خراب کر دی میری ۔۔۔ ” سرور نے غصے سے کہا۔
” تو آپ جائیں دوسرے کمرے میں سو جائیں۔ ہمیں بھابھی سے باتیں کرنی ہیں۔ ” نوری نے کہا۔
سرور سر پکڑ کر رہ گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...