عین نے فارس شاہ کو دیکھتے خط کی اگلی لاٸن پے نظر دوڑاٸی۔
ہم۔۔۔۔ جانتے ۔۔۔۔ہیں۔۔۔ آپ۔۔۔ہم سے۔۔ بہت۔۔۔محبت کرتے۔۔ہیں۔۔ ہم۔۔۔آپ کی محبت کی ۔۔قدر بھی کرتے ہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ہم۔۔۔ آپ سے۔۔۔ شادی۔۔۔ ؟؟
عین کی زبان لڑکھڑاٸی۔
اور ڈبڈباٸی آنکھوں سے فارس کو دیکھا۔
جس کے چہرے پے چٹانوں جیسی سختی تھی۔
عین نے نظریں دوبارہ خط پے دوڑاٸیں۔
شادی۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ کر سکتے۔۔۔۔!!
آپ۔۔ ہمارے لیے۔۔۔ سب سے۔۔ اچھے دوست ہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ ہماری۔۔۔ محبت۔۔۔ نہیں۔۔۔ !!
عین کا ل بہت زوروں سے دھڑک رہا تھا۔
ہم آپ سے نہیں۔۔۔ فارس۔۔۔ سے۔۔۔۔ مححببببت۔۔۔ کرتے۔۔۔ہییں۔۔۔!!
بندھ باندھے آنسو گالوں پے گرنے لگے۔
ہمیں۔۔۔ غلط ۔۔۔مت سمجھیے۔۔۔ گا۔۔۔۔!! وہ اب باقاعدہ روتے ہوۓ پڑھ رہی تھی۔
ہم۔۔۔ سب کے سامنے۔۔۔ یہ بات۔۔۔نہیں۔۔۔ کہہ سکتے۔۔۔!! لیکن۔۔۔آپ سمجھیں۔۔۔ ہمیں۔۔
"میں۔۔ آپ سے نہیں۔۔۔ فارس سے پیار کرتی ہوں۔
"پلیز۔۔۔!! میری اور فارس کی زندگی سے نکل جاٸیں۔”
کہتے ہوۓ عین کی آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگیں۔
فقط۔۔۔ فارس کی نور العین۔۔۔۔
آخری لاٸن میں اپنا نام پڑھ کے وہ نفی میں سر ہلاتی فارس شاہ کو دیکھے گٸ۔
جو لب بھینچے بنا پلک جھپکے اسی کو دیکھ رہا تھا۔
اٹھ کے اس کے پاس آیا۔ اور جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے خط کھینچا۔
وہ سہمی کچھ بولنا چاہتی تھی۔لیکن الفاظ ساتھ ہی نہیں دے رہے تھے۔
کیوں۔۔۔؟؟ کیوں کیا ایسا۔۔۔؟؟ تمہارے۔۔۔۔اس ۔۔۔بھونڈے مذاق نے۔۔۔ میرے ۔۔بھاٸی کی جان لے لی۔۔۔!!
فارس کی آنکھیں لال انگارہ ہونے لگیں۔
فارس نے اسے ایک بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کھینچا تو وہ کچی ڈالی کی طرح اسکے سینے سے جا لگی۔
وہ ناز ک اندام اس چوڑے قد و قامت کے شاہکار مرد کے آگے چھوٹی سی چڑی ہی لگ رہی تھی۔
جب۔۔۔ عفان سے محبت تھی ہی نہیں۔۔۔ تو اس کے ساتھ یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟؟
جواب دو۔۔۔۔ !! فارس اس پے چلایا۔
نن۔۔۔۔نننہیں۔۔۔۔!! وہ بمشکل ہچکیوں سے بولی۔
کیا۔نہیں۔۔۔۔؟؟ میرے سامنے اب۔۔مزید کوٸی جھوٹ نہیں۔۔ ! تمہیں کیا لگا۔۔۔؟؟ تمہاری محبت میں گرفتار ہو کے تم سے شادی کی ہے میں نے۔۔۔؟؟
طنز کے تیر چلاتا وہ عین کے دل سے ریت کی طرح پھسلتا جا رہا تھا۔
نفرت کرتا ہوں۔۔ میں تم سے۔۔۔ شدید نفرت۔۔۔!!
اسکے چہرے کو اپنے چہرے کے قریب کیے اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ وہ غصے سے پھنکارا۔
اور وہیں عین کی بس ہوٸی۔
گرفت زرا سی ڈھیلی ہوٸی تو جھٹکے سے خود کو چھڑایا۔ اور دور پیچھے ہٹی۔
آپ۔۔۔ پاگل۔۔۔ ہو گٸے ہیں۔۔۔ ہمممم۔۔ہم۔۔نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔!! ڈرتے ڈرتے وہ پیچھے ہوتی جارہی تھی۔
اور فارس سینے پے ہاتھ باندھے اسکے ڈر کا مزا لے رہا تھا۔
اچھھھاااا۔۔۔۔ تو میں پاگل ہوں۔۔۔؟؟
پر اسرار انداز میں اسکی جانب قدم بڑھایا۔
پلیز۔۔۔۔کچھ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔کیا ہم۔۔۔ نے۔۔۔! وہ روتی روتی ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ جا لگی۔
اسے آج فارس سے صحیح معنوں میں ڈر لگ رہا تھا۔
ابھی فارس کچھ کہتا کہ یکدم سے لاٸیٹ چلی گٸ۔
اور اندھیرے سے تو ایسے ہی گھبراتی تھی۔ اب اسکا حال ایسا تھا کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔
نہ وہ آگے جانےکی نہ وہ پیچھے ہونے کی۔
یہ اچانک لاٸیٹ کو کیا ہوا۔۔۔؟؟
زیان اور دعا جو آج کی بابت لان میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ حویلی کو اندھیرے میں ڈوبتا دیکھ حیران ہوٸے۔
شاید۔۔۔ لاٸیٹ۔۔۔ چلی گٸ ہے۔۔۔؟
دعا حیرانی سے بولی۔
لیکن۔۔۔ پوری حویلی۔۔ میں یو پی ایس سسٹم ہے۔۔۔ تو۔۔۔۔؟؟
دونوں نے ایک دوسرے کو حیرانی اور پریشانی سے دیکھا۔ انہیں کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔
رونوں اندرونی حصے کی جانب بڑھے۔
زیان نے موباٸیل کی ٹارچ لاٸیٹ آن کی۔
فارس بھی اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا۔ لاٸیٹ کے اچانک چلے جانے سے وہ بھی حیران تھا۔
عین کی گہری سانسوں سے وہ اندازہ کر سکتا تھا۔ کہ وہ کہاں ہے۔ اور بیک کھڑکی سے چاند کی آتی مدھم روشنی بھی اسے عین تک پہنچانے میں کا آمد ٹابت ہورہی تھی
اس سے پہلے کہ وہ عین کے پاس جاتا۔ کمرے کی کھڑکی سے ایک ہیولہ اندر داخل ہوتا دکھا۔
فارس کو وہ ہیولہ نظر نہ آیا فارس کی اسکی طرف پیٹھ تھی۔باہر کی چاند کی روشنی میں عین نے وہ ہیولہ دیکھ لیا۔ اس ہیولے نے پیچھے سے فارس پے وار کرنا چاہا۔
لیکن عین اچانک فارس کی جانب بڑھی ۔ اور اسے بیڈ کی طرف دھکا دیا۔
فارس کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ اسی اثنا میں چاقو کا ایک سرا عین کی بازو کو چھو کے گزرا۔ عین کی سسکی نکلی۔
فارس نے عین کی جانب یکھا جو اس کے اوپر گری پڑی تھی۔
نور۔۔۔۔ نور۔۔۔؟؟ فارس نے اسے پکارا۔
لیکن وہ درد برداشت کرتے کچھ بول نہ پاٸی۔
فارس کی نظر کھڑکی کی جانب اٹھی۔ جہاں سے ایک ہیولہ باہر کی جانب جاتا دکھاٸی دیا۔
فارس نے عین کو اٹھایا۔ اور کھڑکی کی جانب بڑھا۔ لیکن وہ ہیولہ اندھیرے میں کہیں غاٸب ہو چکا تھا۔
اتنے میں لاٸٹ آن ہوٸی۔
فارس نے پلٹ کر عین کو دیکھا۔ وہ ایک بازو پکڑے بیٹھی تھی۔ جہاں سے خون نکل رہا تھا۔
فارس انہی قدموں پے واپس لوٹا۔
اور اسکی بازو دیکھی۔ وہ چلا نہیں رہی تھی۔
بس گھٹی گھٹی آواز میں رو رہی تھی۔ اسکا چہرہ آنسوٶں سے بھیگ چکا تھا۔
فارس اپنے غصے میں وہ احساس بھی بھول گیا تھا۔ جو عین کے لیے اس کے دل میں جڑ پکڑتا جا رہا تھا۔
فوراً سے اسکی بازو کو کٹ والی ساٸیڈ سے اپنی طرف کیا۔ جہاں سے اسکی بازو بھی پھٹ چکی تھی۔ فارس اسے مزید چیرتا چلاگیا۔
عین نے درد برداشت کرتے حیرت سے اسے دیکھا۔
یہہہہہ۔۔۔ آپپپ کیا۔۔۔؟؟ اسے شرمندگی ہوٸی۔
چپ رہو۔۔۔۔!! غصے سے ڈپٹ دیا۔
فرسٹ ایڈ باکس سے روٸی اور سپرٹ سے اسکے زخم کو صاف کرنے لگا۔
مت۔۔۔کریں۔۔۔ درد۔۔ ہو رہا ہے۔۔۔۔!! عین نے بازو چھڑانی چاہی۔
لیکن فارس کی آہنی گرفت سے چھڑا نہ سکی۔
زخم کا معاٸنہ کیا۔
زیادہ گہرا کٹ نہ تھا۔ فارس نے دل ہی دل۔میں شکر۔ادا کیا اور اسکے زخم۔کی ڈریسنگ کرنے لگا۔
پلیززززززز۔۔ نہ کریں۔۔۔۔!!
عین پھر سے درد سے بلبلااٹھی۔
اگر درد کا اتنا ہی احساس ہو رہا ہے۔۔ تو کیوں۔۔ بہادر بنی آگے آٸی تھی۔۔۔؟؟
فارس نے اسکا دھیان بٹانا چاہا۔
وہ۔۔ آپ کو مارنے۔۔۔۔۔ !!
آنسو بہاتی وہ بولنے لگی۔
تو مارنے دیتی۔۔۔ تمہیں تو شکر کرنا چاہیے۔۔۔ !! فارس نجاے اسے کیا باور کرانا چاہ رہا تھا۔۔۔؟؟
عین نے اسے حیرت سے دیکھا۔
آپ۔۔۔کو۔۔کچھ ہو۔۔ اس میں ہمیں کیوں خوشیہگی۔۔؟؟ عجن نے پلکیں جھپکاتے معصومیت سے پوچھا۔
تم۔۔۔ واقعی اتنی۔۔معصوم ہو۔۔ یا بنتی ہو۔۔۔؟؟
فارس نے ایک اور طنز کیا۔
آپ۔۔ ۔۔ کا احسان اتارا ہے۔۔۔۔!!
دھیرے سے کہتی وہ فارس کو شاک لگا گٸی۔
کیا مطلب۔۔۔؟؟ وہ فرسٹ ایڈ باکس اٹھاتے رکا تھا۔
آپ نے بھی تو آج ہماری جان بچاٸی ۔۔۔۔ تو بدلہ میں ہم نے۔۔۔۔!!
اپنا بازو دیکھتی وہ دھیرے دھیرے کہتی فارس کو پھر سے آگ لگا گٸ۔
اپنی بکواس بند کرو۔۔۔ !! عین نے اس شخص کو حیرت سے دیکھا۔
کسی خوش فہمی میں نہ رہنا۔۔۔۔
تمہیں۔۔۔ بچایا اس لیے کہ۔۔۔ تمہیں ۔۔موت بھی میرے ہاتھوں آنی ہے۔۔۔ سمجھی۔۔۔!!
فارس کے انتہاٸی غصے سے کہنے پے عین نے لب بھینچے۔
دروازے پے دستک نے دونوں کا دھیان بٹایا۔
فارس نے کمفرٹر کھول کے فوراً عین پے ڈالا۔
آنکھو ںہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کی تنبیہ کرتا وہ دروازہ کھولتا باہر آیا۔
دروازے پے زیان تھا۔
کیا ہوا۔۔۔؟؟ خیریت؟ اس وقت۔۔۔؟م
سوری بھاٸی۔۔۔ لیکن آپ کی خیریت پوچھنی تھی۔
زیان نے شرمندہ ہوتے کہا۔
کیا ہوا۔۔۔؟؟ فارس کے پوچھنے پے زیان نے ساری بات اسے بتاٸی۔
بھاٸی اندر آنے پے پتہ چلا۔ ساری حویلی میں لاٸٹس تھیں۔۔ سواٸے۔۔۔ آپ کے حصے۔۔۔ کے۔۔ چیک کیا تو۔۔ کی نے مین سوٸچ آف کر دیا تھا۔
ابھی آپ کے روم کی طرف آتے۔۔ کہ ایک ہیولہ آپ کے روم کی ونڈو سے نکلتا دیکھا۔
تو۔۔۔ اسی کے پیچھے چلا گیا۔۔
پھر۔۔۔؟؟ کون تھا۔۔۔؟؟ فارس کو عین کا زخی ہو ن یاد آیا۔
نہیں پتہ چلا ۔۔۔۔!! کہیں غاٸب ہی ہو گیا۔
مجھے آپ کی اور بھابھی کی ٹینشن ہوٸی۔۔۔۔ تو آگیا۔۔۔!
زیان نے تفصل۔دی۔۔
زیان۔۔۔۔!! اس نے مجھ پے وار کیا۔۔۔ لیکن ۔۔ نور بیچ میں آگٸ۔۔۔ فارس نے زیان کو ایسے بتایا جیسے اس میں فارس کا قصور ہو۔
کیا۔۔۔کیا۔۔مطلب۔۔بھاٸی۔۔؟؟ بھابھی ٹھیک۔۔۔؟
زیان پریشان ہوا۔
ہاں۔۔ یار۔۔۔ وہ ٹھیک ہے۔۔۔۔!! تھوڑا سی بازو پے چوٹ آٸی ہے۔۔۔
فارس نے ٹالنے والے انداز میں بتایا۔
لین۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔؟؟
فارس سوچ میں پڑ گیا
ابرار۔۔۔۔؟؟؟ زیان نے سوچتے کہا۔
نہیں۔۔۔ وہ تو زخمی حالت میں ہاسپٹل پڑا ہے۔ اور دو بندے اس پے نگرانی بھی کر رہے ہیں۔۔ !! وہ نہیں۔۔ ہے۔۔۔!!
پھر۔۔۔ یہ نیا۔۔ دشمن کہاں سے آگیا۔۔۔؟؟
زیان بھی پریشان ہوگیا۔
سیکیورٹی چیک کی۔۔۔؟؟
سب دیکھ کے آیا ہوں۔۔ سییکیورٹی والوں نے بھی کسی کو نہ باہر جاتے دیکھا۔۔ نہ اندر آتے۔۔۔!!
زیان نے مزید ڈیٹیل دی۔
جو بھی۔۔ ہے۔۔۔ وہ میرے پیچھے ہے۔۔۔۔!! خیر دیکھتے ہیں۔۔ گھر میں کسی سے فی الحال کوٸی زکرنہ کرنا۔۔!!
فارس اسے حوصلہ دیتا مسکرا کے بولا۔
بھاٸی۔۔۔ اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔ !! زیان نے بے اختیار بھاٸی کو گلے لگایا۔ تو وہ مسکرا دیا۔
کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ !! مجھے۔۔۔ فکر نہ کرو۔۔۔ جاٶ آرام کرو۔۔!!
فارس نے اسے تسلی دی تو اپنی روم کی جانب بڑھ گیا۔
وہیں کھڑے فارس نے جیب س موباٸیل نکالا ا ور ضروری کال کرنے کے بعد اندر آیا۔ نور کی طرف دیکھنا بھی گورا نہ کیا۔ اور ونڈو اچھے سے لاک کرتا وہ ساتھ بنے اپنے جم روم کی جانب بڑھا۔
عین کی سوچوں کا مرکز وہ خط تھا۔ جس کے الفاظ اسے بار بار اپنی آنکھوں کے آگے گھومتے دکھاٸی دے رہے تھے۔ وہ جانتی تھی۔ کہ وہ کچھ بھی کہے فارس نے اسکا یین نہیں کرنا۔۔۔ لیکن۔۔۔ وہاپنا یقین کیسے دلاٸیے یہی سوچتے اور اپنی تکلیف برداشت کرتے کرتے کب نیند کی وادیوں میں کھوٸی اسے پتہ ہی نہ چلا۔
کیا ہوا۔۔۔؟ اتنی رات کو آپ کیوں جاگ رہے ہیں۔۔۔؟ ۔۔؟؟
رات کے کسی پہر دردانہ کی آنکھ کھلی تو کبیر شاہ کو فون پے مصروف دیکھتے پوچھنے لگی۔
سو جاٶ۔۔تم۔۔۔۔!! غصیلے لہجے میں کہتے وہ دردانہ کو چپ کرا گٸے۔
بہت مسکل سے انکی آنکھ لگی تھی۔ ایک پل کے لیے بھی زہن ے ابرار نہیں نکلا تھا۔
اور کبیر شاہ نے انہیں جانے نہیں دیا تھا۔
اب تم۔بیٹھی کیوں آنسو بہ رہی ہو۔۔۔؟؟ لب بھینچتے وہ دردانہ تک پہنچے۔
آپ۔۔۔ کو پتہ ہے۔۔۔ ابرار ۔۔ہاسپٹل۔میں ہے۔۔ ااور آپ نے مجھے۔۔جانے نہیں دیا۔۔۔ کتنا دل دکھی ہے میرا۔۔۔!!
وہ رو دیں۔
آپ کے بیٹے نے جو کرتوت کیے ہیس ناں۔۔ اسکا یہی انجام ہونا تھا۔ بھگتے اب۔۔۔
موباٸیل پے کوٸی نمبر ڈاٸل کر رہے تھے کبیر شاہ۔
کیسے باپ ہیں آپ۔۔۔؟؟ زرا پرواہ نہیں۔۔ اکلوتا بیٹا ہے وہ ہمارا۔۔۔۔!! اور آپ۔۔ ایسے۔۔۔!!
وہ منہ پے ہاتھ رکھے سسکیں۔
تو کیا کروں۔۔؟؟ منع کیا تھا۔۔۔ لیکن نہیں سمجھا۔۔۔
بولا تھا۔۔ کہ اس۔۔عین کو اسکے حوالے کروں گا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔نہیں۔۔ اس نے تو اپنی کرنی تھی۔۔۔ کر لی اپنی۔۔ سارےکیے کراۓ پے پانی پھیر دیا۔۔۔
کبیر شاہ غصے اور دکھ سے بولے۔
بچہ ہے۔۔ وہ۔۔ ناسمجھ ہے۔۔۔۔!! دردانہ نے کھوکھلی دلیل پیش کی۔
ہاں۔۔ جی وہ بچہ۔۔۔ ہے۔۔۔کل فیڈر لا دینا۔۔ اسے۔۔!
بچہ ہے۔۔۔۔!! لڑکی مانگ رہا ہے۔۔ اور بچہ ہے۔۔۔۔!!
ایک تو نمر نہیں لگ رہا تھا۔ اوپر سے دردانہ شاہ کی باتیں وہ آپے سے باہر ہوگۓ۔
دردانہ شاہ نے خاوش رہنا ہی مناسب سمجھا۔
سلیولیس شرٹ پہنے اس وقت ہ جم میں کثرت کرتے خود کو تکلیف دے رہا تھا۔
اسکی رات کانٹوں پے بسر ہوٸی تھی وہ ایک لمحے کےلیے اپنے دماغ سے عفان کا خط نکال نہیں پا رہاتھا اور سب سے زیادہ تکلیف اسے اس بات کی ہوٸی کہ نور نے اسے کوٸی جسٹیفیکشن نہیں دی تھی۔ وہ چپ تھی۔۔
مطلب۔۔۔ خط۔۔اسی نے لکھا تھا۔
وہ مکے برساٸے جارہا تھا۔ اور پیسینے میں شرابور تھا۔
وہ۔۔ قاتل ہے۔۔میرے بھاٸی کی۔۔۔
اس کے لکھے خط نے عفان کو۔۔۔
لیکن۔۔۔ اس دل۔کا کیا کروں۔۔۔؟ یہ۔۔کیوں۔۔مجھے۔۔۔ اس کے حق میں گواہی دیے جا رہا ہے۔۔۔؟؟ فارس خود سے لڑ رہا تھا۔
میں نے تو اسے تکلیف دینے کےلیے یہ نکاح کیا ۔۔۔ پھر۔۔۔ اسکی تکلیف پے میرا دل کیوں کرب میں ہے۔۔۔؟؟
کیوں۔۔۔؟؟ کیوں۔۔؟؟ کیوں۔۔؟؟
وہ اپنے آپ سے لڑتا تھک گیا تھا۔ کہ تبھی جم کا دروازہ کھلا اور وہ نکھری نکھری سی سادہ ے سوٹ میں اندر داخل ہوٸی۔ اسکی پلکیں جھکی ہوٸیں تھیں۔
فارس نے اسے ایک نظر دیکھا۔
اور اگلے ہی لمحے رخ موڑ لیا۔
کیوں آٸی ہو یہاں۔۔؟؟ ٹاول گردن میں ڈالے ہ اپنا پسینہ صاف کرتا کرخت لہجے میں بولا۔
آپ۔۔۔سے۔۔کچھ کہنا ہے۔۔۔!!
بہت ہمت کرتی وہ بولی۔
فارس نے سوالیہ نظریں اس پے گاڑیں۔
وہ۔۔۔۔ وہ۔۔خط۔۔۔ ہم نے نہیں لکھا۔۔۔۔!!
بالآخر ہمت کرتے وہ بول ہی دی۔
فارس کی خاموشی پے اس نے نظر اٹھا کےا سے دیکھا۔ اسکی آنکھو ں میں کیا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پاٸی۔۔۔۔
شاید۔۔ بے یقینی۔۔۔۔۔؟؟
میرا۔۔۔ یقین کریں۔۔ آپ کوٸی بھی قسم لے لیں۔۔۔ سچ میں۔۔۔ ہم نہیں ۔۔جانتے۔۔۔ وہ۔۔کہاں۔۔۔ سے آیا۔۔۔؟
وہ کہتے ہوٸے آگے بڑھی۔
عفان کی ڈیتھ کے وقت اسکی مٹھی میں تھا۔
فارس نے بنا پلک جھپکے اسے دیکھتے کہا۔
but i swear…
وہ ہم نے نہیں۔۔لکھا۔۔۔۔ عین کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
یعنی۔۔۔ تمہارے کہنے کامطلب۔۔ہے۔۔۔ تم۔۔مجھ سے محبت ۔۔ نہیں کرتی۔۔۔؟؟
فارس نے اسے الجھایا۔
نہہہیں۔۔ ! دل تو اس بات پے دھڑکا لیکن۔۔۔ نہ ہی کہنا اسے مناسب لگا۔
جبکہ فارس کے لیے اپنی فیلنگز سے وہ خود بھی اجان تھی۔
ایک بار ۔۔پھر سوچ لو۔۔۔۔!!
فارس اسکے قریب آیا۔۔۔ اور گھمبیر لہجے میں اسکی آنکھو ں میں دیکھتے پوچھا۔
نہیں۔۔۔ کرتے۔۔۔۔!! عین نے نظریں نیچی کرتے کہا۔ جبکہ دھڑکنو ں کا شور اسے واضح سناٸی دے رہا تھا۔
اچھا۔۔ تو چلو۔۔میرے ساتھ۔۔۔!! فارس نے اسکا ہاتھ تھاما۔ اور اوپر چھت کی جانب لے گیا۔
اور اسکا آرٹ روم کھولا۔
عین کا دل۔لرزا۔ وہ اسے یہاں کیوں لایا تھا۔۔؟؟
ادھر ادھر دیکھتے وہ آگے بڑھا۔
اور کچھ پرانی پینٹنگز کو اٹھا کے ساٸیڈ پے کرتا وہ ایک کپڑے میں بند پینٹنگ کو سامنے لے آیا۔
عین کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔
اسے اپنی آنکھوں پے یقین نہ آرہا تھا۔
فارس اسکے چہرے کے بدلتے رنگ بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔
پینٹنگ سے کپڑا ہٹا۔ اور وہ پینٹنگ سامنے آگٸ۔
عین کی آنکھیں بھیگ گٸیں۔
اب بولو۔۔۔۔؟؟ کیا کہو گی۔۔۔؟؟ فارس نے پینٹنگ اس کے سامنے کی۔
ہاں۔۔ یہ وہی پینٹنگ تھی۔ جو اس نے عفان کے لیے بناٸی تھی۔ اسکو سوچ کے۔ اسکی تصویر۔۔۔
اسے سرپراٸز گفٹ کرنے کے لیے۔۔۔
لیکن جب پینٹگ بن گٸ۔اور اسے عین نے خود دیکھاتو حیران رہ گٸ۔
وہ عفان نہیں فارس کی تصویر تھی۔۔۔
ہاں عفان کی آنکھیں تو بھوری تھیں۔
اور پینٹنگ میں کھڑے شخص کی إنکھیں گرین۔
وہ عفان نہیں فارس تھا۔
اور یہ سب کیسے ہوا۔۔۔؟؟ عین خود بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔
دل کے پردے میں عفان کی جگہ فارس چھپ کے بیٹھا تھا۔ اسے کیا خبر تھی۔۔؟؟
کیا اب بھی یہی کہو گی۔۔۔؟؟ کہ تمہیں ۔۔مجھ سے پیار نہیں۔۔۔؟
فارس کی آواز اونچی ہوٸی۔
وہ خط جھوٹا ہے۔۔۔
پینٹنگ کو ایک ساٸیڈ پے پھینکتے وہ عین کی طرف بڑھا۔
کیا یہ پینٹنگ بھی جھوٹی ہے۔۔۔؟؟
وہ خط تم نے نہیں لکھا۔۔۔
کیا یہ پینٹگ بھی تم نے نہیں بناٸی۔۔۔؟ بولو۔۔ جواب دو۔۔۔؟
فارس نے اسے بولنے پے اکسایا۔
ہاں۔۔ ہاں۔۔ یہ پینٹنگ ۔۔۔ ہم نے بناٸی ہے۔۔۔ ہم۔۔۔ ہم نہیں۔۔جانتے۔۔۔ کیسے۔۔بن گٸ۔۔۔؟؟ نہیں جانتے۔۔ کہ کیسے۔۔۔ آپ ہمارے ۔۔خیالوں۔۔میں آگٸے۔۔۔؟؟
ہاں۔۔۔نہیں جانتے۔۔۔کہ آپ سے۔۔ کتنا پیار کرتے ہیں۔۔۔؟؟
لیکن۔۔۔۔ یہ سچ ہے۔۔وہ۔۔ خط۔۔ہم نے نہیں لکھا۔۔۔!!
روتے ہوۓ وہ اپنی محبت کا اظہار بھی کر گٸ تھی۔فارس تو شاکڈ ہی رہ گیا تھا۔
وہ منہ نیچےکیے روٸے جارہی تھی۔
اگر یہ پینٹنگ تم نے بناٸی ہے۔۔ تو وہ خط بھی تم نے ہی لکھا ہے۔۔۔۔!!
فارس نے اسے بازو سے پکڑ کے جھنجھوڑا۔
وہ نفی میں سر ہلاتی رہی۔
اور۔۔ میں فارس شاہ ۔تم سے وعدہ کرتا ہوں۔۔ تم خود اس بات کا سب کے سامنے اعتراف کرو گی۔۔۔ اور بتاٶ گی سب کو۔۔۔ سب کچھ۔۔۔!! اور اس دن۔۔۔ تمہیں۔۔ میں اپنے ہاتھوں سے موت کی نیند سلاٶں گا۔
قہر برساتا وہ عین کو جھٹکے سے چھوڑتا وہاں سے جا چکا تھا۔
اور عین وہیں کھڑی روتی رہ گٸ۔ کیا قسمت نے کھیل کھیلا۔
جو نہ مل سکے وہی بے وفا۔۔۔
یہ بڑی عجیب سی بات ہے۔۔
جو چلا گیا مجھ چھوڑ کے
وہی آج تک میرے ساتھ ہے۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل تیار ہوچکی تھی۔ دعا عین کو لینے آٸیلیکن عین روم میں نہیں تھی۔
اور نہ ہی فارس۔۔۔ یہ صبح صبح کہاں چلے گٸے۔۔۔؟
سوچتے وہ باہر نکلی تو فارس کو سیڑھیاں اترتے دیکھا۔
اور فارس بھاٸی۔۔۔ آپ۔۔ چھت پے ہیں۔۔؟ اب آپ کا وثٹ کر رہے ہیں۔۔ ناشتے پے۔۔۔ آپی کہاں ہیں۔۔؟؟
کہتے ساتھ عین کا پوچھا۔
اوپر ہے۔۔۔ ! مختصر جواب دیتا وہ روم میں چلا گیا۔
دعا تھوڑی حیران ہوٸی۔ پھر کچھ سوچتے ہوٸے اوپر کی جاب بڑھی۔
عین کا آرٹ روم کھلا تھا۔
دعا نفیمیں سر یلاتی اندر چلی گٸ۔
آپی۔۔یار۔۔کیا صبح صبح۔۔۔ یہاں آکے بیٹھ گٸ ہو۔۔۔؟
چلو نیچے۔۔۔!! عین جو فارس کی پینٹنگ روتے ہوٸے چھپا رہی تھی۔ دعا کی آواز پےپلٹی۔
اور مسکراٸی۔
ہم۔۔۔س آرہے تھے۔۔ دعا۔۔۔!! آنسو چھپانے کی کوشش کی لیکن دعا کی نظروں سے نہ چھپ سکے۔
کیا ہوا۔۔۔ آپ رو رہی ہیں۔۔۔؟؟ بہن کے آنسو صاف کیے۔
نہیں۔۔۔ بس۔۔۔ یوںہی۔۔۔کچھ پرانی یادیں۔۔۔ یاد آگٸیں۔۔۔
نظریں چراتے ٹالتے کہا۔
دعا نے آگے بڑھ کے عین کو گلے سے لگایا۔
دع کے گلے لگے عین کو بہت حوصلہ ہوا۔
اے اللہ آپ جانتے ہیں۔۔ ہم بے قصور ہیں۔۔ آپ ہی ہماری مدد کریں گے۔۔ ہمیں آپ پے پورا یقین ہے۔۔۔ اور ایک نہ ایک دن ضرور سچاٸی فارس شاہ کے سامنے آٸے گی۔
فارس شقہ کا دلمیں لیتے اسکی دھڑکنیں پھر سے تیز ہونے لگیں۔
وہ پگلی کیا سمجتی۔۔۔۔؟؟ کہ وہ جسے اپنے دل کی اس حالت کا علم نہیں وہ اسکا فارس سے عشق ہے۔۔۔ وہ دل جو اس کے نام سے شور مچاتا ہے۔ اسکی سنگت پے اسکا کیا حال ہوگا۔۔۔؟؟
یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔۔۔
دوسری طرف فارس اپنے آپ کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرتا عین سے اقراِ جرم کروانے کا طریقہ سوچ رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا۔ کہ گھروالے اسے غلط سمجھیں۔ وہ چاہتا تھا عین سب کے سامنے اظہار کرے کہ وہ فارس سے محبت کرتی ہے اور اسی محبت نے عفان کی جان لی ہے۔۔ اسکے لیے اسے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے وہ ہر حد سے گزر جانے کو تیار تھا۔
لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا۔
اسکی یہ شدت اسکے جنوں کے آگے منہ کے بلگرنے والی تھی۔
عین سے محبت کا اظہار کرواتے کراتے وہ خور اس سے جنونی عشق کر بیٹھا تھا۔
اور اس بات سے وہ جان بوجھ کے آنکھیں بند کیے ہوا تھا۔
اب دیکھنا تھا۔
کہ کون جیتتا ہے۔۔۔؟
فارس کی ضد یا اسکا عشقِ جنوں۔۔۔۔؟؟؟