(Last Updated On: )
ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے مریم،اس ایڈیٹر نے ابھی تک کوئی رانطہ نہی کیا۔۔۔۔کہیں وہ تمہاری کہانی چرا تو نہ لے گئی؟”
“نہی نہی ،چاچا جی نے کسی بھروسے والی خاتون کو ہی میری کہابی تھمائی ہوگی
اور ویسے بھی یہ جو قلم والے لوگ ہوتے ہیں نا،بہت مصروف ہوتے ہیں،جب بھی فرصت ملے گی کر لے گی رابطہ۔۔۔”
مریم نے مندی خیالات کو جھٹکا اور نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی
رکوع و سجدہ تو طویل ہو ہی چکے تھےپر ہر نماز میں قنسو بہانا بھی اط جیسے اسکی ذمہداری تھا
دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو پہلے کہانی کیلئے اور پھر اپنی محبت کیلئے التجا کی
“یارب ایک اہکی چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے،سنا ہے ہوتا صرف وہی ہے جو اپکی چاہت ہے ۔۔۔۔تو پھر میں یہ دعا ہرگز نہی کروں گی کہ مجھے میری چاہت عطا کردیں
مگر دعا کا زاویہ موڑ کر اس سمت لے جاوں گی کہ اپ مجھے اپنی چاہت عطا کردیں
تو پھر بنا لیں اسے اپنی چاہت جو میری چاہت ہے،اگر کوئی عیب ہے اس میں تو اسے بےعیب کردیں
اگر کوئی خطا ہوئی تو درگزر کر دیں ،اگر وہ ابتری ہے تو اسے بہتری کر دیں،اور پھر آپ اسے مجھے عطا کردیں”
آنسو جاری ہی تھے کہ پھر بولی
“میرے دل میں دھڑکن کی طرح جو بستا ہے اسے اصل میں میری دھڑکنوں کے قریب کردے،۔۔۔۔وہ کہ گیا ہے آس پاس ہی رہے گا،یا تو مجھے اس سے ملا دیں یا اسکے دل میرے سامنے آجانے کا ارادہ ڈال دیں،اگر اپ وہ مجھے عطا کردیں گے تو ساری عمر مجھے یونہی سجدے میں جھکا پایئں گے”
“اللہ جی مجھسے اگرکوئی میرے محبوب کے صدقے میرا سارا جہان بھی مانگے تو میں لمھہ بھر بھی نہ سوچوں گی۔۔
جانتے ہیں مینے یہ بات کیوں کہی؟ کیوں میرے علم میں ہے کہ اپکا بھی ایک محبوب ہے،،جسکی محبت میں آپنے یہ سارا جہان ہی بنا ڈالا۔۔۔۔تو کیا اگر میں آپکے محبوب کے صدقے اپنا محبوب مانگوں تو عطا نہیں کریں گے؟
اسے میرے حق میں بہتر کر کے میرے نصیب کا حصہ بنا دیں”
ہر با کی طرح دعا کے اوقات میں اضافہ ہوا رو امی آن کھڑی ہوہئں
“صرف دعا مانگو مریم۔۔۔اس رب کے ہیچھے نہ پڑو”
” دعا تو دستک ہے امی اور مسلسل دستک سے دروازہ کھل ہی جاتا ہے۔۔۔۔،میں کیسے دستل دینا بند کردوں یہ سوچ کر کہ شائد میرا رب کہیں اور مصروف ہے؟۔۔۔۔”
مریم نے امی کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا
“دستک ضرور دو مگر دیکھو دروازہ نہ توڑ دینا۔۔۔۔مجھے تمہارے ہاتھوں کی دستک پر اب شک ہونے لگا ہے,”
امی نے کہا تو مسکراہٹ بےساختہ لبوں پر پھیل گئی
“نادان سی میری اگر دروازہ توڑنے کی مجال ہوتی تو دستک کی کیا ضرورت تھی،؟چلیں رہنے دیں اس معاملے کو ،یہ میرا اور میرے اللہ جی کا معاملہ ہے۔۔۔۔اپ اپنے معاملے سلجھایئں بس۔۔!”
اتنے میں ہی فون کی گھنٹی بجی ،وہ بھاگ کر گئی جیسے کسی نے صور پھونک دیا ہو
بھاگ کے گئی اور فون اٹھایا
“السلام علیکم۔۔۔کیا حال ہیں؟”
دوسری جانب سے کسی خاتوب کی اواز آئی تو چونکتی ہوئی نظریں واپس جگہ پر آیئں
“وعلیکم السلام ،الحمدللہ۔۔۔کیا مریم سے بات ہو سکے گی؟”
یقینناً یہ اس ایڈیٹر کی فون کال تھی کو مریم کی لگھی کہانی کی اشاعت چاہتی تھی
بات چیت طے ہوئی اور چار دن کے بعد کی تاریخ اس خاتون ایڈیٹر نے مریم کو اہنے آفس آنے کی دے دی
وہ چار دن اس خوشی کے عالم میں ھزرے کہ خضر بھی اب یاد کرنے پر ہی یاد آتا
ہاں مگر نیند کو لانے کیلئے سونے سے پہلے اسکی یاد کی محفل سجانا ہی بہترین بہانا ہوا کرتی تھی
****** “””””””” ******* “”””””” ******
“مریم تیار ہو؟ چلو اب چلیں۔۔۔۔۔کہیں تاخیر سے پہنچے تو انہیں برا نہ لگ جائے۔۔”
بھائی نے مریم سے کہا جو اتوار ہونے کے سبب اج گھر پر ہی تھا
مریم نے بھی افراح تفری مچائی اور بھائی کے پیچھے گھر سئ نکل آئی
وہاں پہنچی تو افس کی عالیشان عمارت سیکھ کر آنکھیں جام ہی رہ گیئں
اندر جا کر تعارف کروانے پر انتظار کرنے کا حکم ملا
پندرہ منٹ انتظار کے بعد اس سویرا نامی خاتون نے مریم کو اپنے کمرے میں طلب کیاجو کہ بھائی کی قمیص کا کونہ پکڑے بیٹھی تھی
اپنا نام سنا تو مجال تھی جو اٹھ جائے۔۔۔۔بھائی اٹھا تو اسی طرح اسکی قمیص کا کونا پکڑے پیچھے چل دی
حال چال پوچھنے کے بعد ایڈیٹر نے نے کہا
“مینے جذبوں سے بھری ایسی تمسیل نگاری پہلے نھیں دیکھی۔۔۔۔عشق ہوا کی دھول ہے،
اڑتی ہوئی ،اسے شیشے میں قید کرنا ناممکن کے مترادف ہے۔۔۔
بہت کم لوگ ہیں جو عشق کو سمجھ پارے ہیں اور پھر اسے عالیشان سیاشی کی منند قلم میں بھر پاتے ہیں،
اس کہانی کا ایک ایک لفظ میرے دل میں گھر کر چکا ہے،اور اب میں بےتابی سے تمہاری اجازت کی منتظر ہوں”
وہ کہتے کہتے رک گیئں ,بھائی اور مریم دونوں کے چہرے فق تھے
اس قدر تعریف کی امید تو وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔۔۔بھائی صاحب بولے
“جی، کیسی اجازت میڈم؟”
بھائی کے پوچھنے پر ایڈیٹر صاحبہ کا مسکرانا واجب تھا،وہ جانتی تھی جس اجازت کی وہ بات کر ریی ہیں ،دونوں بھائی بہن کے حوش اڑا دے گی
“تو بات کچھ یوں ہے کہ اجازت نامہ یہ رہا۔۔۔”
ایک کاغظ کا ٹکڑا بھائی کے سامنے کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔۔۔۔
تو بات کچھ یوں ہے، کہ اجازت نامہ یہ رہا۔۔۔۔اک کاغظ کا ٹکڑا بھائی کے سامنے پیش کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحبہ نے فرمایا
“اس میں درج ہے کہ اپ اس کہانی یعنی “بےنام محبت” کی مصنفہ ہیں، محترمہ مریم۔۔۔ہمارے یعنی اردو کہانی پلیٹ فارم کی ایڈیٹر سویرا کے ساتھ مل کر اپنی اس بیش قیمت داستان محبت کو اشاعت کے اعلی درجے پر پہنچانا چاہتی ہیں
اور ایک مکمل کتاب کی شکل دے کر اپنے اس ناول کو لوگوں ،بلکہ دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہیں “
“نیز اشاعت کے بعد کچھ معروف لکھاریوں ٓکے فیصلے پر اس ناول کو ملک بھر کے ادیبوں کے سامنے پیش کیا جائے گا،جسکا پورا خرچہ ہمارا پلیٹ فارم اٹھائے گا۔۔۔۔نا صرف یی بلکہ “بے نام محبت” کی کامیابی کے بعد اپکو انعام کا حقدار بھی بنایا جائے گا۔۔۔”
اجازت نامہ پڑھنے کے بعد تو دونوں کے چاروں طبق روشن ہو گئے۔۔۔۔۔سانس لینے کی مہلت لی اور پھر کہا
“میم کہانی فقط چند حصوں پر مشتمل ہے ،پھر اتنے احسانات سے آخر کس طرح نوازہ جا سکتا ہے؟”
مریم نے سوال کیا
“محترمہ مریم ،ہمارا یہ پیٹ فارم آپ جیسے نئے لکھک چننے کیلئے ہی بنایا گیا ہے،
اور میبے اپکی کہانی پڑ ھ کر جو کچھ محسوس کیا وہ قبل تعریف تھا۔ یہ اجازت نامک اسی لئے آپکو دیا جا رہا ہے کہ اگر آپ مطمئن نہ ہوں تو دستخط نہ کیجئے اور اپنی کہانی ہم سے لے جایئے
مگر اپکی رضامندی کے بعد اس اجازتنامے پر درج ہر وعدہ وفا کیا جائے گا۔۔۔!”
سویرا خان کی بات سن کر وہ دونوں کچھ مہلت لے کر گھر آگئے۔بات کی تفصیل جب امی اور بابا کو معلوم ہوئی تو پہلے پہل تو ان دونوں کو بھی یقین نہ آیا۔۔۔۔پھر حوش سنبھالتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مریم کو یہ قدم اٹھانے دیا جائے، لکھاری ہونا اپنے آپ میں ایک بڑا اعزاز تھا اور بابا جانی اپنی بیٹی کو ہمیشہ عزت کے اونچے مقام پر ہی دیکھنا چاہتے تھے
ارادے طے ہوجانے کے بعد اب اگلے روز پھر اسی ایڈیٹر کے پاس جانا تھا،رات کے کھانے میں امی نے بریانی بنائی اور مریم کی اس جیت کی نظر کردی !
******* “”””””””” ******** “””””” *****