وہ اپنی ماں کے رویے سے پریشان ہو چکا تھا اور بغیر بریک فاسٹ کئیے وہ آفس آپہنچا تھا، مگر اب کام سے بھی دل اجاڑ ہو چکا تھا۔
موم ایسا کیسے سوچ سکتی ہیں؟ کیا واقع ہی سب ہمارے رشتے کو لے کر ایسا ہی سوچتے ہیں؟ وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب فہد آفس کا دروازہ کھولے اندر آیا۔
کیا ہوا ہے میرے بھائی؟ اتنا پریشان کیوں ہے؟
کچھ نہیں۔۔۔۔۔ تو بتا کیا آج کوئی میٹنگ تو نہیں ہے؟ پلیز ابھی کسی میٹنگ کو اٹینڈ کرنے کے قابل نہیں ہوں میں۔۔۔۔
کیوں کیا ہوا ہے؟
یار موم جاہتی ہیں کہ میں اپنی زندگی کے بارے میں سوچوں۔۔۔۔
ہوں۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے، میرے خیال سے رخصتی ہو جانی چاہیے تم لوگوں کی۔۔۔
موم میری دوسری شادی کی بات کر رہی ہیں یار۔۔۔۔
واٹ!!! دوسری۔۔۔ لیکن کیوں؟
انہیں لگتا ہے زرفشاں میرے لئیے صحیح جوڑ نہیں ہے۔۔۔۔ وہ بہجے دل سے بولا تھا۔
اور تجھے کیا لگتا ہے؟؟
میرا چھوڑ۔۔۔۔۔ تیری بھابھی کو بھی یہی لگتا ہے۔ وہ مجھ سے طلاق چاہتی ہے۔
میں یہ ماننے کو تیار نہیں، کہ وہ ایسا چاہتی ہوں گی۔
لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ میں ابان لغاری ہوں جو اپنی چیزوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔۔۔۔ خیر تو بتا کیا کہنے آیا تھا؟
عاشی کا فون آیا تھا، وہ بتا رہی تھی کہ سب لوگ شاپنگ پر چل رہے ہیں اور وہ سب تیرے ساتھ ہی جارہے ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ میں بھی آؤں، تو میں بس تیرے سے یہی بات کرنے آیا تھا۔
وہ چاہتی ہے، کہ یہ سب تو چاہتا ہے؟ ابان نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
یار تو دوست ہے، سمجھ جا نا۔۔۔۔۔۔ وہ التجا لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
_________________
زری اب تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ اتنی مشکل سے تو بھائی مانے ہیں۔ ماہی اور عاشی زری کے کمرے میں موجود تھیں۔
ماہی تم سمجھ نہیں رہی، امی اکیلی ہوجائیں گئی۔
چچی اکیلی کیسے ہوں گئ بھلا، موم، ڈیڈ اور یہاں تک کہ آغا جان بھی گھر پر موجود ہیں۔
شاباش زری اٹھو اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا، جلدی سے تیار ہو جاؤ، ورنہ میں سمجھوں گی کہ تمہیں میری خوشی سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔
ایسا نہیں ہے یار، مجھے نئے کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے، میرے پاس ایک دو نئے سوٹ ہیں۔ پچھلی عید کا سوٹ بھی ہے جو کہ صرف دو مرتبہ ہی پہنا ہے۔
تمہیں کچھ نہیں بھی لینا، پھر بھی جلدی سے تیار ہوجاؤ، بھائی آتے ہی ہوگے۔
ہم بھی ریڈی ہوتے ہیں وہ دونوں اپنے کمرے کی طرف چل دی۔۔۔
___________________
بھائی! آپ نے گاڑی کیوں روک دی؟ ماہی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ جبکہ زری اور عاشی بیک پر، کہ اچانک راستے میں ابان نے گاڑی روک دی۔
کچھ دیر انتظار کرو، بس فہد آتا ہی ہوگا۔
واہ فہد بھائی بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔۔۔۔۔ کسی کے تو دل کی مراد پوری ہو گئی ہے۔۔۔۔۔ ماہی نے پیچھے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
عاشی اترو۔۔۔۔۔ ابان فہد کی گاڑی کو آتا ہوا دیکھ چکا تھا اسی لیے عاشی سے بولا۔
عاشی بنا کچھ بولے فہد کی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
بھائی اس حساب سے تو پھر مجھے پیچھے بیٹھنا چاہیے اور زری کو آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ وہ شوخی سے بولی تھی۔
تم اپنے حساب رہنے دو اور خاموشی سے بیٹھو۔۔۔
__________________
وہ پانچوں بہت بڑے مال میں موجود تھے۔
تم دونوں اپنی پسند اور میچنگ کے حساب سے دیکھ لو جو لینا ہے۔ اور عاشی اس لنگور کا صحیح سے خرچہ کروانا۔۔۔۔ وہ سب ابان کی بات پر مسکرا دیے۔
ماہی اب جلدی سے تم لوگ بھی کچھ پسند کرو۔۔۔ بھائی ٹینشن مت لیں، صرف مجھے پسند کرنا ہے، آپ کی بیگم کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پچھلی عید کا جوڑا زیب تن کریں گئی۔
ماہی کی بات پر ابان نے زری کی طرف دیکھا تھا جو ماہی کی بات سن کر ادھر ادھر دیکھنے لگی تھی۔
اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ یہ لڑکی بہت معصوم ہے، مگر دماغ دل کا ساتھ دینے سے انکاری تھا ۔
میم! یو نینڈ اینی ہیلپ؟؟
بھائی آپ زری کے ساتھ مل کر اپنے لیے کچھ پسند کریں، میں نیو ڈیزائن دیکھ لو۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ ہم یہی ہیں۔ بس ذرا جلدی کرنا۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
وہ اسے لیے بوتیک میں گھس گیا۔۔۔۔
سر میں آئی ہیلپ یو؟
نئی کولیکشن دکھائیں۔
سر میم کے لیے؟؟
جی۔۔۔۔ زری کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
زری دوسری طرف مڑ گئی، جہاں برائیڈل کولیکشن موجود تھی۔
زری کی نظر مہرون اور گولڈن امتیاز کے رنگ کے لہنگے پر ٹھہر گئی۔
ابان بغیر زری کی ہاں یا نا کے دو ڈریسز پیک کروا چکا تھا، جیسے ہی وہ مڑا، زری ابھی تک اسی ڈریس کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
وہ سمجھنے سے انکاری تھا کہ یہ لڑکی چاہتی کیا ہے ایک طرف وہ اس سے، اس کی زندگی سے دور ہونا چاہتی ہے۔ تو دوسری طرف اس کی آنکھوں میں ایسا کیا ہے، جو بے چین کر دینے کے لیے کافی ہے وہ یہ سوچتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔
ایسے ارمان ان لڑکیوں کے ہوتے ہیں جو گھر بسانا چاہتی ہوں نہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بات ادھوری چھوڑ گیا تھا۔
ہمیشہ کی طرح وہ ستمگر اپنی ستمگری دکھانا نہیں بھولا تھا۔
ستم پر شرطِ خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی
کہ اک تلوار اپنے اور ،میرے درمیا ں رکھ دی
یہ پوچھا تھا کہ مجھ سے جنسِ دل لے کر کہاں رکھ دی
بس اتنی بات پر ہی کاٹ کر اس نے زباں رکھ دی
پتا چلتا نہیں اور آگ لگ جاتی ہے تن من میں
خدا جانے کسی نے غم کی چنگاری کہاں رکھ دی
زمانہ کیا کہے گا آپ کو اس بدگمانی پر
میری تصویر بھی دیکھی تو ہو کر بدگماں رکھ دی
میرے حرفِ تمنا پر چڑھائے حاشیے کیا کیا
ذرا سی بات تھی تم نے بنا کر داستاں رکھ دی
________________
ہم بھی یہی چاہتے ہیں، لیکن تمہاری ماں کے رویے سے نہیں لگتا کہ وہ ایسا چاہتی ہو گی۔
آغا جان میرے خیال سے میری رضامندی کافی ہے؟ وہ اپنی بات پر زور دیتا ہوا بولا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر عاشی رخصتی والے دن ہی ہم زری کی بھی رخصتی رکھ دیتے ہیں۔
آغا جان مجھے آپ سے کچھ اور بھی کہنا ہے۔
ہاں کہو میرے بچے، تم نے آج اپنے آغا جان کو خوش کردیا ہے۔ آج جو کہنا ہے کہو۔۔۔۔
آغاجان میں چاہتا ہوں کے آپ ابھی زری سے کچھ نہیں کہیں گے اور نا ہی اس بارے میں موم سے کوئی بات کریں گے، ڈیڈ اور چچی کو اس بارے میں بے شک بتا دیں، لیکن زری کو یہ بات ابھی نہیں معلوم ہونی چاہیے۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے جیسا ہمارا پوتا چاہتا ہے سب ویسا ہی ہوگا۔ آغاجان خوشی سے بولے تھے۔
آغاجان عاشی کی مائیوں والی رات آپ کو اپنی پوتی کو منانا ہے۔
وہ ہماری بات نہیں ٹالے گی۔۔۔
آغاجان خدا کرے آپ کا اعتماد برقرار رہے وہ طنزیہ مسکرایا تھا۔۔۔۔۔
_________________
محبت بھی کتنی عجیب ہے، انسان کے جذبات کو ایک پل میں کیا سے کیا کردیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب انسان کو محبت ہوتی ہے تو وہ اپنی اردگرد کی دنیا سے لاعلم ہو جاتا ہے، لیکن میرا ماننا ہے جب انسان محبت میں پڑھتا ہے تو وہ اپنی اردگرد کی دنیا میں اور زیادہ انٹرسٹ لینے لگتا ہے وہ دنیا کو اور اس دنیا میں بسنے والے لوگوں کو تب ہی تو پہچانتا ہے۔
زندگی انسان کو بہت کچھ دیتی ہے خوشیاں دیتی ہے تو غم بھی دیتی ہے، بس انسان کو خدا پر یقین کامل ہو، تو وہ کچھ بھی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس نے لکھنے کے بعد ڈائری بند کر دی تھی اور اٹھ کھڑی ہوئی تھی، اس کا رخ کچن کی طرف تھا۔
وہ کافی بنانے میں مصروف تھی جب اسے اپنے پیچھے ابان کی آواز سنائی دی تھی۔
ایک کپ کافی کا مل سکتا ہے؟ وہ ایسے بولا تھا جیسے ان میں کافی اچھے تعلقات ہوں۔
اس کی کافی تقریبا بن چکی تھی اور وہ شاپنگ سے کافی تھکی ہوئی تھی، اس میں اور کھڑے رہنے کی سکت نہ تھی۔
وہ مڑی تھی اور اپنا بنایا ہوا کافی کا مگ اس کی طرف بڑھایا تھا، جسے وہ تھم چکا تھا۔
وہ اسے کافی دیے کچن کے دروازے کی طرف بڑھی تھی، جب وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔
میں نے یہ تو نہیں کہا، کہ تم کافی مت پیو، بس اپنے لیے بھی مانگی تھی۔ کیا تمہیں میرا کافی مانگنا اتنا برا لگا ہے کہ تم بغیر کافی لیے جا رہی ہو۔؟
وہ محبت سے بولا تھا، ایک پل کو زری کا دل کیا کہہ دے اس لہجے پر ایک کیا؟ پوری رات کافی بنا بنا کر دینے کو تیار ہوں۔
نہیں۔۔۔ مجھے اب کافی کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بنا کوئی تاسر دیے بولی تھی۔
بدلہ لے رہی ہو؟ اس کافی کا جو پینے سے میں نے انکار کیا تھا۔
ہوں۔۔۔۔۔ بدلہ!!! وہ طنزیہ مسکرائی تھی۔
بدلہ لینے کے لیے کیا مجھے ایک کافی ملی تھی؟ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ابان لغاری اگر زرفشاں کو تم سے بدلہ لینا ہوتا تو ان پانچ سالوں کا لیتی جن میں تم ساتھ چھوڑ گئے تھے، اگر بدلہ لینا ہوتا تو ان اذیتوں کا لیتی جو تمہارے بغیر تو برداشت کی ہی تھیں لیکن تمہارے ہونے سے بھی برداشت کرنی پڑ رہی ہیں، اگر بدلہ لینا ہوتا تو ان طنزیہ باتوں کا لیتی جو خنجر کی طرح زرفشاں کے دل پر لگتے ہیں۔۔۔۔۔ بولنے سے اس کا حلف خوشک ہوا تھا۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑے فریزر کی طرف بڑھا تھا۔
اس نے اسے شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تھا جو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی ابان ہے جس کے الفاظ ہمیشہ درفشاں کے دل کو زخمی کر دیتے تھے۔ نہیں آج تو وہ کوئی اور ہی ابان لگ رہا تھا۔
اس نے پانی پی کر گلاس سلیپ پر رکھ دیا۔
وہ اس کی بات کو نظرانداز کیے کافی کا مگ زری کی طرف بڑھا چکا تھا۔
ان تمام اذیتوں کا حساب میں تمہیں اپنی دسترس میں لینے کے بعد دینا چاہوں گا۔
وہ یہ کہہ کر کچن سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
عشق ہے اور وہ بھی لا حاصل
کام بچوں کے بس کا تھوڑی ہے
وہ میری دسترس میں ہے لیکن
مسئلہ دسترس کا تھوڑی ہے۔
_____________________
لڑکیوں تم لوگ ابھی تک تیار نہیں ہوئی، سارے مہمان آ پہنچے ہیں اور تم لوگ ہو کے ایسے ہی بیٹھی ہو، چلو جلدی کرو۔۔۔۔۔۔ آمنہ بیگم انہیں تیار ہونے کا کہتی نیچے کی طرف بڑھ گئیں۔
آج عاشی کی مہندی کا فنکشن تھا، جو کہ گھر میں ہی رکھا گیا تھا۔
زری تم بھی جاؤ اور تیار ہو جاؤ، یا پھر ایسا کرو تم اپنا سارا سامان لئیے یہیں پر آجاؤں، ہم سب مل کے تیار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ ماہی بولی تھی۔
میں پہلے امی اور آغا جان کو دیکھ آؤں، پھر اس کے بعد تیار ہو جاؤں گی۔۔۔۔ تم لوگ جلدی کرو۔ وہ یہ کہ کر کمرے سے نکل گئی۔
ویسے تمہارا بھائی بہت لکی ہے جسے اتنی پیاری بیوی ملی ہے۔ جو کہ صرف شکل و صورت سے ہی نہیں بلکہ دل کی بھی بہت پیاری ہے۔
ہاں!!!! میں جانتی ہوں، بس موم بھی جان جائیں جلد ہی۔۔۔۔ وہ بڑبڑائی تھی۔
کیا؟
کچھ نہیں۔۔۔۔۔ جلدی کرو، ورنہ پھر سے موم آجائیں گی۔۔۔
_________________
وہ اپنی امی کے پاس سے ہو کر اپنے روم میں آئی تھی۔
جب کوئی اس کے روم میں داخل ہوا تھا۔
آغا جان آپ؟ میں آپ کے پاس ہی آنے والی تھی۔۔۔
واو آپ تو ریڈی ہو چکے ہیں۔ وہ ان کی طرف بڑھتی ہوئی بولی۔
زری! میرے بچے مجھے تم سے بہت اہم بات کرنی ہے۔
جی آغاجان کہیے میں سن رہی ہوں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے صوفے پر موجود تھے۔
آغا جان میں فی الحال ابھی رخصتی نہیں چاہتی، پلیز آغا جان ایک بار۔۔۔۔۔ صرف ایک بار میری بات سن لیں۔۔۔۔
میں نے آپ کا ہر حکم، ہر بات مانی ہے۔ لیکن اس بار پلیز اپنی زری کی سن لیں۔ مجھے تھوڑا سا وقت دے دیں آغا جان۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔۔ وہ آغا جان کی بات سننے کے بعد التجائی لہجے میں بولی تھی۔
___________________
رابیعہ بیگم کی رپورٹ کا رزلٹ آچکا تھا۔
جب سے اسے ڈاکٹر نے ان کے کینسر کے بارے میں بتایا تھا، تو اسے کافی دکھ ہوا تھا کیونکہ ان کا کینسر لا سٹیج پر تھا۔
اسے یہ بات زری کو بتانا دشوار لگ رہی تھی۔
آغا جان ابان کو زری کا جواب بتا چکے تھے اور ابان سے اس معاملے میں کچھ ٹائم بھی مانگ چکے تھے۔
ابان آغا جان کے سامنے تو کچھ نہیں بولا تھا، مگر جب سے اپنے کمرے میں آیا تھا، وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جانے کو تھا۔
وہ سمجھتی کیا ہے خود کو؟ کیا وہ مشرقی لڑکیوں کے طور طریقے بھول گئی ہے؟ وہ آغا جان کو انکار کیسے کر سکتی ہے؟
وہ کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
___________________
وہ اپنی لُک کو آخری ٹچ دینے کو تھی، جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی۔ وہ شیشے سے ہی دیکھ سکتی تھی کہ اس کے پیچھے کون ہے۔
تم اپنے بارے میں مجھ سے بھی پوچھ سکتی ہو
یہ تم سے کس نے کہہ دیا، ” آئینہ” ضروری ہے
اس کی آواز پر وہ پلٹی تھی۔ جو اس کے بہت نزدیک آ چکا تھا۔
وہ وائٹ شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا۔ وہ شلوار قمیض بہت کم پہنتا تھا، مگر جب پہنتا تھا تو اس پر خوب جچتی تھی۔
آج بھی وہ کسی مغرور شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ آج اسے دوسری بار کھلے بالوں میں دیکھ رہا تھا۔ اس کے بال کافی لمبے اور خوبصورت تھے، مگر اس سے زیادہ خوبصورت اس کے اوپر والے ہونٹ کا کٹاو تھا، جس پر ہلکی گلابی لپسٹک لگی تھی۔
وہ گولڈن شرارے پر نیلے رنگ کی کڑتی پہنے ہوئے تھی اور گولڈن ہی دوپٹہ ایک بازو پر لٹک رہا تھا۔
کوئی شک نہیں تھا کہ وہ معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی۔
وہ اسے اس طرح اپنے سامنے دیکھ کر پزل ہوئی تھی، مگر اپنی زبان کو بولنے سے روک نہ سکی تھی۔
آپ آغا جان سے میرا جواب سن چکے ہوں گے۔ میں جانتی ہوں میرے جواب سے آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہے لیکن____ وہ آگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں سے اس کا منہ دبوچ کر بند کر چکا تھا۔
وہ شروع سے ہی آغا جان کا بہت فرمابردار رہا تھا، اس بار بھی وہ آغا جان کے کہنے پر اسے ٹائم دے چکا تھا اور وہ یہاں اسے رابیعہ بیگم کی بیماری کے بارے میں بتانے آیا تھا۔ مگر زری کی بات پر اپنے غصے کو کنٹرول نہ کر پایا۔۔۔۔
تمہیں بہت شوق ہے نا علیحدگی کا، تو اپنے اس ناقص دماغ سے یہ خیال نکال دو کہ ابان لغاری تمہیں کبھی طلاق دے گا اور رہی بات رخصتی کی تو وہ کل ہی ہوگی، کیوں کہ ابان لغاری اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ وہ یہ کہ کر کمرے سے نکل گیا۔۔۔
وہ مجھ سے بے سبب الجھا نہیں تھا
وہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں تھا
بہت اعلی تھا ظرف اس کا لیکن
وہ میری ذات کو سمجھا نہیں تھا
وہ جتنی بے رخی سے چل دیا تھا
میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں تھا
____________________
مہندی کی یہ رات
آئ مہندی کی یہ رات
لائی سپنوں کی بارات۔۔۔۔
لغاری ہاوس میں خوشیوں کا سماں تھا اور ہر فرد خوش تھا۔ آمنہ بیگم نے اپنی چھوٹی بہن کو بھی شرکت کے لیے کہا تھا۔ جس پر انہوں نے آنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی بہن کے اصرار پر اپنے دونوں بچوں کو بھیج دیا تھا۔
مہندی پر زیادہ مہمان نہ تھے۔ سات آٹھ ٹیبل ہی تھے۔ جن پر مہمان موجود تھے۔
سمیعہ سٹیج سے اتری تھی اور سٹیج کے پاس ہی موجود ابان کی طرف بڑھی تھی جو کہ فون میں مصروف تھا۔
تم سب کے لیے تحفے لائے، لیکن تمہیں میں یاد نہیں تھی کیا؟؟ وہ شکایتی انداز سے بولی تھی۔
ایسا نہیں ہے، تم بتاؤ تمہیں کیا چاہیے؟
اب کیا فائدہ اب تم واپس تھوڑی جاؤ گے۔
لیکن گفٹ تو کہیں سے بھی لے سکتا ہوں نا۔۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر میرا یہ گفٹ تم پر ادھار رہا۔
وہ اس کی بات پر مسکرا دیا۔
زری سٹیج پر موجود تھی۔ اس کا دل پہلے ہی ان سب چیزوں سے اجاڑ ہو چکا تھا، انہیں یوں ہنستا دیکھ کر اور تپی تھی۔۔۔۔۔
وہ سمیعہ کے کہنے پر سٹیج کی طرف بڑھا تھا۔
وہ عاشی کے ساتھ آکر بیٹھا تھا۔ اور دوسری طرف زری موجود تھی۔
زری اگر تم رسم کر چکی ہو، تو میں بیٹھ جاؤں۔۔۔
زری نے نظر اٹھا کر اپنے سامنے موجود سمیعہ کو دیکھا تھا۔ جسے رسم سے کوئی سروکار نہیں تھا، بس اسے ابان کے ساتھ بیٹھنا تھا۔
زری نے ایک نظر کچھ فاصلے پر موجود ابان پر ڈالی تھی، اور بنا کچھ کہے سٹیج سے اتر گئی تھی۔۔۔۔
اتنا تو میرے حال پر، احسان کیا کر
آنکھوں سے میرے درد کو پہچان لیا کر
_______________________