عشق ذات کی اندھیری رات میں بکھرے ستاروں کا کام کرتا ہے۔۔۔۔عشق جب ابن آدم پر نازل ہو جائے تو روم روم سے محبوب کی خوشبو پھوٹ پڑتی ہے اور انگ انگ ایسے دمکتا ہے جیسے صحرا کی تپتی دوپہر میں سورج کی روشنی ریت کے ذرات پر پڑتی ہو تو جگمگ جگمگ سا نظارا ہو ۔۔
عشق نور بن کر اترتا ہے۔۔۔۔ عاشق پر قوس قزاح بن کر بکھرتا ہے اور پھر روح تک سترنگی ہو جاتی یے۔ ۔۔
اور حیدر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔۔
مالا کا عشق اسکی زندگانی کی ادھوری راہوں کو منزل کی نوید سنا رہا تھا۔ مالا کی سانسیں تاریک راہوں پر دیے جلا رہی تھیں۔۔۔۔حیدر اب مالا کا تھا اور مالا صرف اس کی تھی۔ عاشق کیلیے وصل محبوب سے بڑی کوئی نوید نہیں ۔۔
“سنتے ہیں جی! ”
مالا نے مسکراتے ہوئے کہا تو حیدر نےآنکھیں کھول دیں۔ اسے پوری طرح جاگنے میں کچھ لمحے لگ گئے۔
“ہیں کیا کہا تم نے؟ ”
“میں نے کہا سنتے ہیں جی”
“اللہ خیر کرے یہ سنتے ہیں جی؟ خیر تو ہے نا۔۔۔”
حیدر نے دبے شرارت بھرے لہجے میں کہا تو مالا چڑ کر بولی “اچھا سنیں! خود ہی کہا تھا آپ جناب سہاگ رات کے اگلے دن سے شروع کرنا۔۔۔مگر لگتا ہے کہ آپ کو راس نہیں آنی۔۔۔لہذا بغیر کسی تردد کے کہے دیتی ہوں۔۔۔۔جلدی اٹھ جائیے کیونکہ شام کو آپ نے ایک عدد دعوت ولیمہ کا بھی اہتمام کر رکھا ہے۔ اور دلہا اگر سوتا ہی رہے گا تو لوگ دلہن کو مشکوک نظروں سے دیکھیں گے”
مالا کی بات سن کر حیدر نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔ اچھا تو یہ بات ہے۔ ۔اور ویسے جس اہتمام سے تم نے سنتے ہیں جی کہنے کی کوشش کی ہے مجھے لگ رہا جلد ہی میرے کان “منے کے ابا” سن رہے ہوں گے۔
اس بار مالا کیلیے ہنسی روکنا مشکل ہو گیا۔
ان دونوں کی ہنسی میں ایک مدہم سا سُر تھا۔۔۔جس کا سرور صرف محبت کرنے والے دو دل ہی محسوس کر سکتے تھے۔۔
حیدر مالا کو پارلر چھوڑ کر خود تیار ہونے واپس گھر آگیا۔تیار ہو کر اسے مالا کو پک کرنا تھا۔ پھر وہاں سے
فوٹو شوٹ کروا کر دونوں کو شادی ہال پہنچنا تھا۔
پارلر میں ایک دھن چل رہی تھی “سجنا ہے مجھے سجنا کیلیے”!!!
مالا نے آئینے میں کھڑے ہو کر اپنا بھرپور جائزہ لیا۔ اس کے سراپے میں ایک مان تھا۔۔ایک عجیب سا غرور تھا۔۔۔ایک سہاگن کی طرح فاتح ہونے کا احساس۔۔۔ اب وہ حیدر کے دل کی مالک تھی۔۔اسکے جسم و جاں اب اسی کی ملکیت تھے۔۔۔اب وہ فاتح تھی ۔ اور حیدر ۔۔۔وہ تو اپنا دل۔۔۔اپنی محبت ۔۔۔اور اپنے ہر احساس کو مالا پر لٹا کر مفتوح تھا ۔۔۔۔مالا کے سامنے دل اور اپنے آپ ۔۔دونوں کو ہار چکا تھا۔۔۔
اپنے سراپے پر اک نظر ڈال کر مالا مسکرا دی۔
اتنے میں پارلر میں موجود لڑکی کہنے لگی “میڈم آئیے چینج کر لیجیے تاکہ آپ کا میک اپ شروع کیا جا سکے”
پارلر والی نے مالا کو جو سجایا تو حیدر بھی چند لمحے کیلیے دیکھتا ہی رہا۔۔ یہ بالوں میں چمکیلا سا کچھ تو پارلر والی نے ہی لگایا تھا مگر یہ مانگ میں ستارے کس نے بھرے تھے ۔۔۔یہ پلکوں پر کاجل تو میک اپ کرنے والی کا کمال تھا مگر آنکھوں میں جگنو کس نے بھر دیے ۔۔۔یہ چہرے پر میک اپ تو میک اپ آرٹسٹ نے ہی لگایا تھا مگر جلد پر یہ دمک کہاں سے آئی تھی؟ یہ ہتھیلی پر مہندی بھی پارلر والی کا ہی کمال تھا مگر ہاتھوں کی لکیروں میں حیدر کا نام کس کا معجزہ تھا ۔
مالا کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی اور دیکھنے والے کہہ رہے تھے کہ یہ آج دلہن کو اتنا روپ جو چڑھا ہے یہی سہاگن ہونے کی نشانی ہے۔۔۔
تقریب ختم ہوئی تو مالا کی والدہ نے حیدر سے اجازت چاہی کہ مالا کو اب پگ پھیرے کی رسم کے لیےساتھ لے جائیں مگر حیدر نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ صبح ہوتے ہی وہ اور مالا ان سے ملنے کیلیے آئیں گے۔
“مگر بیٹا یہ تو رسم ہے۔ نبھانی تو پڑے گی نا”
“آنٹی یہ دنیاوی رسموں کو میں نہیں مانتا۔ لیکن میرا وعدہ ہے کہ صبح ہوتے ہی مالا اور میں آپ کے پاس ہوں گے۔ ناشتہ ہم سب کے ساتھ ہی کریں گے”
حیدر نے کہا تو مالا کی والدہ چپ ہو گئیں۔
“یہ مجھے آج جانے کیوں نہیں دیا۔ ”
مالا نے مصنوعی خفگی سے پوچھا تو حیدر ہونٹوں میں ہنسی چھپا کر بولا “تمہارے لیے”
“میرے لیے مطلب؟ ” مالا نے حیرانگی کا اظہار کیا تو حیدر نے اسے اپنے پاس کھینچ لیا”ارے نئی نویلی دلہن۔۔۔اتنا سج دھج کر تیار ہو اور تعریف کرنے کیلیے دلہا ہی پاس نہ ہو۔۔۔یہ کہاں کا انصاف ہے۔؟ کیسے گزارتا آج رات تمہارے بغیر؟ ”
حیدر کی سانسیں مالا کی گردن سے ٹکرائیں۔ مالا بےخود سی ہو گئی۔۔۔اچھا تو یہ بات تھی۔۔بہت خود غرض ہو۔ مجھ سے بھی پوچھ لیا ہوتا”
“تم سے کیا پوچھتا۔۔ تمہاری آنکھیں تو صاف کہہ رہی تھیں کہ حیدر پلیز مجھے روک لو۔۔۔سچ کہوں ۔۔اب ایک لمحہ بھی تمہارے بغیر گزارنا مجھے قبول نہ ہو گا. اب تم سے دور رہنا ناممکن ہے میری پیاری سی مالا”
حیدر اسکی زلفوں میں کھونے لگا۔۔۔۔اور مالا کچھ اور مغرور ہونے لگی ۔ ۔۔۔
اگلی صبح مالا حیدر کے ساتھ اپنے والدین سے ملنے گئی۔ناشتہ کرنے کے بعد سب بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے۔ کہ وہیں حیدر کو کلینک سے ایک اہم کال آ گئی۔ کوئی ایمرجنسی تھی۔ حیدر نے مالا کے والدین سے معذرت کی۔ “آنٹی بحثیت ڈاکٹر ایمرجنسی پر پہنچنا میرا فرض ہے۔ میں مالا کو آپ کے پاس چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ شام میں پک کر لوں گا۔”
حیدر نے اجازت لی اور چلا گیا۔
مالا کو اپنا ہی گھر اجنبی سا لگ رہا تھا۔ یہی گھر جو دو دن پہلے تک اسکا تھا اب وہاں وہ ایک مہمان تھی۔
“مالا بیٹا تم تھک گئی ہو گی۔ اپنے کمرے میں جا کر آرام کر لو” اسکی والدہ نے کہا تو مالا اپنے کمرے میں چلی آئی۔ ایک ایک لمحہ کاٹنا مشکل ہو رہا تھا۔ حیدر کے بغیر جیسے مالا بھی بےقرار تھی۔ مالا کمرے میں آ کر سو گئی۔ نجانے کب تک سوتی رہی۔ خود ہی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ گھڑی پر پانچ بج رہے ہیں۔تھکان کی وجہ سے ہی شاید کسی نے اسے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا کہ جی بھر کر نیند پوری کر لے۔تبھی اس کی کام والی ماسی نے آکر اطلاع دی کہ مالا بی بی گیٹ پر آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔ میں نے تو اندر بلایا تھا مگر انہوں نے کہا کہ آپ کو ہی باہر بلا لوں۔ ”
مالا نے بھنوئیں اچکائیں۔ اس سے ملنے کون آ سکتا تھا۔ “کون ہے؟ امی کو بتایا تم نے؟ ابو کہاں ہیں؟ ”
بی بی جی ۔۔۔بڑی باجی تو نماز پڑھ رہی ہیں ۔ آپ کو پتہ ہی ہے کہ عصر پڑھ کر وہ ایک گھنٹہ وظیفہ کیا کرتی ہیں اور اس دوران انہوں نے منع کیا ہوا ہے کہ انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا۔۔ اور آپ کے ابو جی مسجد گئے ہیں نماز پڑھنے ۔تو میں آپ کو اٹھانے ہی آ رہی تھی۔ مگر آ کر دیکھا کہ آپ جاگ ہی رہی ہیں تو بتا دیا۔ ”
“ہونہہ تم چلو میں آتی ہوں” مالا نے بال باندھے اور اٹھ کر باہر چل دی۔
مالا نے دروازہ کھولا تو دم بخود رہ گئی۔ وہاں احمد کھڑا تھا۔ مالا نے تیوری چڑھائی “تم؟ تم یہاں کیا کرنے آئے ہو”
احمد نے ایک نظر اس پر ڈالی ۔۔۔۔۔ اسکے منہ پر میک اپ کی باقیات۔۔۔ہاتھوں میں مہندی اور کلائیوں میں چوڑیاں تھیں ۔۔۔وہاں مالا نہیں ایک سہاگن کھڑی تھی جس کا سہاگ اب کوئی اور تھا۔
“مالا پلیز میری بات سن لو بس ایک بار۔ پھر میں چلا جاؤں گا۔ ہمیشہ کیلیے”
” تم ہمیشہ کیلیے جا چکے ہو احمد۔ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی۔ میں تمہاری کچھ نہیں لگتی۔ اب میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ جس کے دل اور زندگی میں تم دور دور تک کہیں بھی نہیں ہو۔ اور نہ ہی کبھی ہو سکتے ہو۔لہذا چلے جاؤ پلیز۔ خواہ مخواہ کسی نے دیکھ لیا تو بات بڑھے گی”
“مگر کیا تم ایک لمحے کیلیے بھی نہیں جاننا چاہو گی۔ کہ میں کہاں تھا؟ ”
“نہیں احمد۔۔ میں نہیں جاننا چاہتی۔ تم جہاں بھی تھے تمہیں فون کروانے سے پہلے سوچنا تھا نا”
“فون؟ کون سا فون؟ ” احمد نے حیرانی سے پوچھا
” وہی جس میں اس لڑکی نے مجھے کہا تھا کہ میں الماری میں رکھی مالا کو بھول جاؤں۔تو تم بے فکر رہو احمد۔۔ میں بھول گئی ۔ میں نے تمہارا حکم مان لیا۔ اب تو جان چھوڑو میری ” مالا نے ہاتھ اسکے آگے جوڑ دیے تو احمد کنگ سا ہو گیا۔۔ اس نے ایسا کوئی فون مالا کو نہیں کروایا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں جھکڑ سے چلنے لگے۔
“مالا میں چلا جاتا ہوں۔ بس اتنا بتا دو کہ تمہیں اس فون کال پر لڑکی نے یہی کہا تھا کہ الماری میں رکھی مالا کو بھول جاؤ”
“پلیز احمد۔۔اب کوئی نیا جھوٹ نہ گھڑ لینا۔ تمہیں اچھی طرح سے پتہ ہے کہ اس لڑکی نے یہی کہا تھا۔ مالا کی بات صرف تمہارے اور میرے درمیان تھی۔ کسی اور کو پتہ بھی کیسے چلی۔ تم بے وفا تھے احمد۔۔۔دور ہو جاؤ۔۔ اللہ کا واسطہ ہے نکل جاؤ میری زندگی سے۔ یہاں اب تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے۔۔ میں صرف حیدر کی ہوں۔ اور ہمیشہ اسی کی رہوں گی۔۔غور سے دیکھو مجھے ۔۔کیا تمہیں میری آنکھوں میں اسکا انتظار نظر نہیں آتا۔۔۔یہ دیکھو میری ہتھیلی۔۔۔ یہاں۔۔ یہاں دیکھو۔۔۔یہ مہندی دیکھو۔۔اسی کا نام لکھا ہے۔۔۔۔یہ میری آنکھیں۔۔۔ان میں دیکھو۔۔۔ان میں صرف اسی کیلیے محبت ہے.تمہیں کہیں بھی اپنی اپنی کوئی چھاپ نظر آتی ہے کیا؟ دیکھو تو میں پوری کی پوری حیدر کی پرچھائی بن چکی ہوں۔ میں اسکی سہاگن ہوں۔۔۔اور وہی اب میرا محبوب۔۔تم کہاں ہو احمد؟ شاید ماضی کے کسی ورق میں جو میری زندگی کی کتاب سے کب کا پھٹ چکا۔ چلے جاؤ پلیز”
احمد جس کا دل پہلے ہی کٹ رہا تھا۔ اس کے لیے اب مزید وہاں کھڑا رہنا دوبھر ہو گیا۔ مالا کے الفاظ نہیں ۔۔کوئی سیسہ تھے۔۔جو اس کے کانوں میں اتر رہے تھے ۔ اس کے رگ و پے میں جیسے زہر اتر رہا تھا۔
اس نے بس اتنا ہی کہا “مالا مجھے معاف کرنا۔ آئیندہ تمہیں مجھ سے شکایت نہیں ہو گی.خداحافظ۔۔ اللہ تمہیں حیدر کے ساتھ یوں ہی خوش اور آباد رکھے”
احمد مڑا اور واپس چلا گیا۔ مالا نے اسے جاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ بس دروازہ بند کیا اور اندر آگئی۔۔۔
اور یہ بند دروازہ آج بارہ سال بعد کھلا تھا۔۔۔
بارہ سال بعد اسکی احمد سے دوبارہ ملاقات ہوئی تھی۔ مگر آج بھی وہ اتنی ہی شدت سے احمد سے نفرت کرتی تھی جتنی شدت سے اس نے بارہ سال پہلے احمد کو الوداع کہا تھا۔
ان بارہ سالوں میں زندگی کتنا بدل گئی تھی۔اب مالا کی آنکھوں میں جگنوؤں کی جگہ بجھے ہوئے دیے تھے۔ اس کے چہرے پر دمک کی جگہ ویرانی نے لے لی تھی۔ اور اسکی مسکان میں بھی ایک درد تھا۔
مالا جب بھی اداس ہوتی ۔ گھر کے پاس ہی بنے گراؤنڈ میں آکر بیٹھ جاتی۔ شادی کی پہلی سالگرہ تھی جب حیدر اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے گیا اور جب پٹی اتاری تو وہ ایک نئے گھر میں کھڑی تھی۔ وہی گھر جس کی اسے خواہش تھی۔ گھر کے باہر ہی گراؤنڈ تھا۔ حیدر نے ہی اسے یاد دلایا تھا کہ اب موٹے ہونے پر وہ دونوں اپنی اپنی توند نکال کر اس گراؤنڈ میں واک کر سکتے ہیں ۔ اور مالا کتنی ہی دیر ہنستی رہی تھی۔۔۔
وہ خوشیوں بھرا گھر۔۔۔جہاں اب صرف ویرانی بستی تھی۔ آئی بی تو کب کی اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔ بوڑھی جان کتنے غم سنبھالتیں؟
تنہاء مالا کی زندگی میں بس ایک دوست بچی تھی جو اسکا غم میں واحد سہارا تھی۔نور ۔۔جس کی شادی اپنے ہی کلاس فیلو حمزہ سے ہو گئی۔ نور کا گھر مالا کے گھر سے دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ مالا کی خوش قسمتی کہ زندگی کی ان مشکل راہوں پر اسے نور جیسی سچی دوست میسر تھی۔ نور نہ ہوتی تو مالا نہ جانے کب کی ٹوٹ چکی ہوتی۔ اس زندگی کا بوجھ اکیلیے اٹھانے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔۔
“مالا کیا بدتمیزی ہے یہ؟ ”
نور نے اسکے سامنے ہو کر پوچھا تو مالا نے جواب دیا “کیا مطلب کیا بدتمیزی ہے؟ کیا کر دیا میں نے؟ ”
“زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں ہے. احمد سے کیا کہا ہے تم نے؟ ”
نور نے پوچھا تو مالا کے چہرے پر تناؤ آ گیا۔ “تم سے کچھ کہا اس نے کیا؟ ”
“کچھ نہیں کہا بابا۔۔بخش دو اسکو۔ میں نے اسے بلایا تھا دوبارہ پکنک کا پروگرام بنانے کا ارادہ تھا میرا۔ مگر اس نے صاف منع کر دیا کہ مالا کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔ پہلے بھی اس نے برا منایا ہے۔تم نے کہا ہو گا اسے کچھ۔ تبھی تو وہ اتنا صاف منع کر رہا ہے ”
” میں کیوں کچھ کہنے لگی۔۔ ارے اتنا شوق ہے تو بنا لے نا تمہارے ساتھ پکنک کا پروگرام ۔ میں نے تم دونوں کو جانے سے منع تھوڑی کیا ہے۔ میرا ہونا ضروری ہے کیا؟ ”
مالا نے کہا تو نور بولی “ہاں ضروری یے۔۔۔ذرا بتانا تو خاص طور پر پچھلے تین سال سے کون سا ایسا دن گزرا ہے جب ہم نے ایک دوسرے کے بغیر کوئی کام سرانجام دیا ہو ۔ ہر جگہ تمہیں ساتھ لیے پھرتی ہوں۔ اب تو حمزہ بھی کہتا ہے کہ لگتا ہے کہ تم نے زندگی گزارنے کی قسم مالا کے ساتھ کھائی ہے ۔ مجھے تو لفٹ ہی نہیں کراتی ہو۔”
نور نے نے دھیانی میں کہا تو مالا کے چہرے پر درد آ کر گزر گیا “صحیح ہی تو کہتا ہے۔ زندگی بھر کا ٹھیکہ تھوڑی ہے تمہارا۔ میری زندگی تو خراب ہے ہی۔ تم اپنی زندگی میرے لیے کیوں خراب کرتی ہو۔ ”
“افوہ مالا۔۔۔تم بھی نا۔۔۔خواہ مخواہ ہی سینٹی ہو جاتی ہو۔ میری اس پیاری سی دوست کیلیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔ انشااللہ یہ وقت بھی گزر جائے گا مالا۔ حوصلہ رکھو۔”
نور نے کہا اور مالا کو گلے سے لگا لیا۔ مالا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
اچھا بس۔ اب زیادہ نین بہانے کی ضرورت نہیں ۔ تم چل رہی ہو پکنک پر۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ تمہارا موڈ، فریش ہو جائے۔ اور پلیز اب کوئی پنگا نہ کرنا۔ ”
نور نے کہا تو مالا نے نہ چاہتے ہوئے بھی فرمانبرداری سے سر ہلا دیا۔