ہیلو!۔۔۔ہیلو۔۔؟ ہیلو۔۔ووو!
شہیر ولا اس وقت بھانت بھانت کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ ایسے میں عشال زرتار دوپٹہ اوڑھے شہیر کومسلسل کال کررہی تھی۔ دوسری طرف سے کبھی نیٹ ورک بزی جانے لگتا تو کبھی، کال پک ہوتے ہی رابطہ منقطع ہو جاتا، اس پر ٹینزی نورین اور آبریش نے اس کے کمرے میں وہ دنگل مچایا ہوا تھا کہ اللہ کی پناہ!
رات کو عشال کا نکاح تھا، اور سطوت آراء نے صبح سے ہی اسے اپنے طور پر مایوں بٹھا دیا تھا۔ اگرچہ رخصتی دس ماہ بعد تھی، مگر لڑکیوں کو تو بس بہانہ چاہیے تھا، ہلا گلا کرنے کا۔
آغاجان نے گانے باجے سے سختی سے روک دیا تھا، ورنہ ٹینزی اور نورین نے تو بہت کچھ پلان کررکھا تھا۔مگر انجوائے منٹ پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اور وہ دل کھول کر قہقہے لگارہی تھیں۔
کیسی ہو، دلہن صاحبہ؟۔
بالآخر شہیر سے رابطہ بحال ہوہی گیا تھا۔
کہاں ہو؟ صبح سے کال کررہی ہوں!
عشال نے چھوٹتے ہی کہا تھا۔
ارے۔۔۔ ارے۔۔۔؟ آرام سے؟
بزی تھا یار۔
شہیر نے مسکراتے لہجے میں اسے جواب دیا۔
ایسی بھی کیا مصروفیت؟ ایک کال سننے کی فرصت نہیں جناب کو؟ پتہ ہے، ماما جان بھی تمہیں ٹرائے کرتی رہی ہیں، کرکیا رہے تھے تم؟
شہیر کی آواز سنتے ہی اس کا موڈ بحال ہوگیا تھا۔
ایکچولی ہم یہاں اسٹڈی ٹور پر ہیں، تو کسی وقت سگنل پرابلمز ہوجاتی ہے، سیلاب نے یہاں بری طرح اودھم مچارکھا ہے، قدرتی آفات کے سامنے دوسری تیسری دنیا کا کوئی لحاظ نہیں۔
شہیر نے تفصیل سے بتایا۔
یعنی تم نے وہاں بھی اپنا کام شروع کردیا؟
عشال کے چہرے پر مسکراہٹ چھائی تھی۔
میں اکیلا نہیں ہوں، مجھ جیسے یہاں اور بھی ہیں۔
شہیر نے کسرنفسی سے کام لیا۔
اوکے۔۔۔! کب تک پہنچ رہے ہو؟
عشال نے وہ سوال کیا، جس کے لیے وہ نجانے کب سے فون کی جان کورورہی تھی۔
آں۔۔۔! فی الحال تو نہیں آسکوں گا!
شہیر نے کھسیا کر جواب دیا۔
شہیر۔۔۔۔؟۔
صدمے سے عشال بیہوش ہونے کو تھی۔
اوہو۔۔۔! اتنا چیخو مت۔۔۔؟ میرا کان بند ہوگیا ہے۔
شہیر نے اس کے بھرپور احتجاج پر جواب دیا۔
ہرگز بھی مت کہنا کہ تم نہیں آرہے، ورنہ میں نکاح کے پیپرز سائن نہیں کروں گی۔
اس نے نروٹھے پن کی حد کردی۔
یہ دھمکی ہے یا انویٹیشن؟
شہیر نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کی غرض سے پوچھا۔
دونوں!
عشال نے تڑسے جواب دیا۔
ایسا کرتے ہیں۔۔۔، تم فی الحال نکاح کرلو، شادی میں میں ضرور آؤں گا۔ انشاءاللہ!
شہیر کے لہجے میں شرارت تھی۔
تم زندگی کے اتنے اہم موڑ پر مجھے تنہا چھوڑ دوگے؟
میری نئی زندگی کی شروعات ہے، شہیر!
عشال کے لہجے میں شکوہ اور اداسی گھلی۔
Dont be imotinol! یار
اپنی پارٹنر کی شادی کیسے مس کرسکتا ہوں میں؟
دیکھو! ابھی تو صرف نکاح ہے ناں؟ تمہارے سر پر قرآن کا سایہ کرنے والے میرے ہی ہاتھ ہوں گے۔ یہ وعدہ ہے میرا تم سے۔۔۔۔!
شہیر نے اسے تسلی دینا چاہی۔
جانے دو بس۔۔۔!
عشال سے مزید کچھ نہ کہا گیا، آنکھیں بھیگنے لگیں، آواز رندھنے لگی۔
اسے سچ مچ رونا آگیا۔
اچھا بس! کوئی ایموشنل سین نہیں! ورنہ تمہارا اصلی چہرہ دیکھ کر مہمان ڈر ہی نہ جائیں؟
شہیر نے اسے چھیڑا۔
تم آجاؤ۔۔۔ایک بار! پھر پوچھوں گی تم سے۔۔۔۔!
ایکدم سے اس کا منہ پھولا تھا۔
جوابا شہیر کا زندگی سے بھرپور قہقہہ سنائی دیا تھا۔
فکر مت کرو، میں بھی تمہارے کچے پکے، اوٹ پٹانگ سے کھانے بہت مس کرتا ہوں۔۔۔!
شہیر کے لہجے میں ہنوز شرارت تھی۔
پتہ نہیں میں نے تمہیں کال کیوں کرلی؟
عشال نے پھنکتے ہوئے کہا اور کال بند کرنے کو ہی تھی کہ وہ بول پڑا۔
ارے۔۔۔! تم ناراض ہورہی ہو؟ چلو اچھا ہے، خرچہ بچ گیا۔
ورنہ میں تم سے تحفے کے بارے میں پوچھنے والا تھا۔
شہیر بہت دن بعد اس کے غصے کو انجوائے کررہا تھا۔
نہیں چاہیے مجھے کوئی بھی گفٹ!
جب تم خود نہیں آرہے تو، گفٹ کس کام کا؟
اور موبائل سطوت آراء کو جاتھمایا تھا۔
شہیر ایک بار پھر زور سے ہنسا تھا۔
ارے لڑکے؟ کیا بانولے ہوئے ہو؟
سطوت آراء کی آواز سنتے ہی اس نے ہنسی کو بریک دی تھی۔
کچھ نہیں امی! بس عشال سے بات ہورہی تھی۔۔۔۔ کتنا غصہ کرتی ہے، یہ لڑکی؟ اس کے میاں کا گذارا کیسے ہوگا اس کے ساتھ؟
شہیر نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
تم نے ضرور اسے تنگ کیا ہوگا۔ ورنہ وہ ایسی نہیں ہے۔۔۔۔
شہیر نے مزید کچھ نہیں کہا، جانتا تھا، اس کی والدہ نے اپنی تربیت پر بات نہیں آنے دینی۔
اچھا آپ بتائیں کس لیے مجھے یاد کررہی تھیں؟
اور پھر سطوت آراء تھیں اور ان کے شکوے۔
************
بابا۔۔۔؟ یہ سوپ!
ملازم نے ڈرتے جھجکتے اس کے کمرے میں قدم رکھا تھا۔
Get lost۔۔۔!
جوابا وہ اتنے ہی زور سے چلایا تھا۔ اور سائیڈ ٹیبل پر دھرا لیمپ اچھالا تھا۔
تم جاؤ!
عائشہ کو اسی ردعمل کی توقع تھی۔ چنانچہ وہ ملازم کے پیچھے ہی کمرے میں چلی آئی تھیں۔ فرش پر دائیں بائیں جھولتے لیمپ کو انھوں نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔
اس نے میری ساری زندگی کو حرام قرار دے دیا ماما!
وہ جیسے کسی ٹرانس میں بول رہا تھا۔ سر جھکائے۔
آج تک جو زندگی میں جیتا آیا ہوں، اگر وہ حرام ہے، تو یہ کس کا قصور ہے ماما؟
آج ایک طویل عرصے بعد وہ عائشہ کو ماما کہہ رہا تھا۔وہ بچپن کا طرز طخاطب استعمال کررہا تھا تو اس کا مطلب تھا، اس کے اندر کا بچہ اپنی ماں سے اپنی الھجن کا جواب چاہتا تھا۔
بولیں ماما؟
مجھے یہ زندگی دینے والے کون تھے؟
اس نے نظریں اٹھائیں تو ان میں شکوہ تھا۔
وہ کہتی ہے، میں گندگی ہوں، اور گندگی جانتی ہیں کیسی ہوتی ہے؟ ابشام زبیر جیسی، اس کی جسم میں بہتے خون جیسی، مجھے نہیں چاہیے، یہ زندگی۔۔۔۔۔،
وہ چلایا تھا۔
جس میں وہ نہیں!
I want her!
مجھے وہ چاہیے، کسی بھی قیمت پر!!!
ماما وہ میری کیوں نہیں ہوسکتی؟
وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔
اور عائشہ اس سے کہیں زیادہ!
عائشہ نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگا لیا اور اس کے بالوں میں دھیرے سے ہاتھ چلا نے لگیں۔
میری جان! اس کی دنیا ہمارے جیسی نہیں، ہمارے لیے یہ گندگی ہی زندگی ہے، ہم اس جوہڑ سے باہر نکل کر صرف روندے جائیں گے۔ ہماری بقاء ہماری ہی کلاس یاپھر۔۔۔۔۔۔!!اسی گندگی میں ہے۔
ہم چاہیں بھی تو اس حصار کو نہیں توڑ سکتے۔
عائشہ کے لفظ سفاک سہی، لہجہ لیکن نرم تھا۔ وہ اپنی واحد متاع کو لاحاصل ضد سے دور لےجانا چاہتی تھی۔
میں اسے چاہتا ہوں ماما!
اس نے ایک بار پھر بے بس سی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
چاہتے ہو یا حاصل کرنا چاہتے ہو؟
عائشہ نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر آنکھوں میں جھانکا۔
دونوں!
شامی نے برجستہ کہا تھا۔
یہ دو الگ الگ باتیں ہیں شامی!
عائشہ نے اسے سمجھانا چاہا۔
اسے چاہ کر، حاصل نہ کرنا، مجھے جینے نہیں دے گا۔
شامی نے ترسے لہجے میں جواب دیا۔
تو پھر سب کچھ قسمت پر چھوڑ دو۔ اگر وہ تمہاری destiny ہے تو، ہر راستہ اسے تم تک لے کر آئے گا۔
عائشہ نے اسے تسلی کے ساتھ ساتھ سمجھانا چاہا۔
نو ماما! مجھے صرف خود پر یقین ہے، اور اگر مجھے قسمت سے بھی لڑنا پڑا تو میں لڑ جاؤں گا۔لیکن ایک چانس ضرور لوں گا۔
شامی نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔۔
اور عائشہ چپ کی چپ رہ گئی تھی۔
*************
صارم ولد برہان درانی، آپ کو عشال بنت زبرجرد انصاری، بعوض دولاکھ حق مہر اپنے نکاح میں قبول ہے؟
جی۔۔۔! قبول ہے!
صارم کے تین لفظ کہتے ہی، مبارک سلامت کا شور سا برپا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے عشال کی دھڑکنیں بے طرح دھڑکی تھیں۔ اک عجیب سی شورش جذبات میں برپا ہوئی تھی۔ وہ خود پر حیران تھی کہ بس ایک ساعت پہلے، جس نام پر روح و دل خاموش تھے، اب ایک سیکنڈ بعد۔۔۔۔دونوں دغا دے گئے تھے۔ وہ اجنبی، جس کی شریر آنکھیں بولتی سی محسوس ہوتی تھیں۔۔ اب یکایک، جسم و جاں کا مالک بن بیٹھا تھا۔
وہ لاشعوری طور پر صارم کو ہی سوچے جارہی تھی کہ، یکلخت نورین نے اسے بھینچا تھا۔
مبارک۔۔۔۔!مبارک۔۔۔۔!
آئی ایم سو ہیپی فور یو!
اس نے عشال کی پسلیاں تک ہلا ڈالی تھیں۔
آہ۔۔۔! چھوڑو بھی؟
بے اختیار وہ کراہ کر رہ گئی تھی۔
اچھا بس کرو یہ ڈرامے! چلو اچھی سی سیلفی ہوجائے۔
نورین نے اس کا گلال ہوتا چہرہ دیکھ کر فورا موبائل اونچا کیا تھا۔
عشال نے اپنا چہرہ اس کے نزدیک کرلیا تھا۔
نورین نے دو چار خوبصورت سے پوز لے کر انھیں سیو کیا اور پھر عشال کی ایک دو تصویریں اکیلے میں بھی لی تھیں۔
یہ۔۔۔۔۔تمہارے ان کے لیے!
کیا۔۔۔۔؟
نورین کے انکشاف پر عشال بھول گئی تھی کہ وہ دلہن ہے۔
کیا مطلب “کیا”؟
نورین نے اس کی حیرت اور معترض نگاہوں کا نوٹس نہیں لیا تھا۔
اب وہ ما شاءاللہ، قانونا اور شرعا میرے بہنوئی ہیں، ان کی یہ چھوٹی سی فرمائش تو پوری کی ہی جاسکتی ہے۔
نورین نے موبائل سے تصویر سینڈ کرتے ہوئے بے نیازی دکھائی تھی۔
تم ناں۔۔۔۔؟ بہت بدتمیز ہو!
عشال اتنا ہی کہہ سکی۔
ہاں ہوں! مجھ سے نہیں ہوتیں تم جیسی تمیزداریاں!
نورین نے شرارت سے اسے دیکھا تھا۔
اس سے پہلے کہ ان میں مزید بحث ہوتی، نورین کا سیل بول پڑا۔
ایک منٹ! اشعر کی کال ہے۔
نورین نے کال ریسیو کرتے ہوئے عشال کو مطلع کیا تھا۔
ہاں اشعر! بولو؟
شامی نے سوسائیڈ اٹیمپ کیا ہے۔۔۔۔، وہ بھی عشال کی وجہ سے!
اشعر نے کہا تھا، نورین کے ہاتھ میں فون کپکپا کر رہ گیا تھا۔
مگر۔۔۔نہیں! وہ آگے بھی کچھ کہہ رہا تھا۔
یونی میں آج یہی کہانی گردش کررہی تھی۔ پورا ڈیپارٹمنٹ عشال اور ابشام زبیر کے بارے میں عجیب عجیب کہانیاں بیان کررہا ہے۔۔۔۔۔ بڑی گڑبڑ ہوگئی ہے نورین!
اشعر کا لہجہ بتا رہا تھا، کہانی صرف اتنی ہی نہیں تھی۔
**************
شہیر نے اس کے بند پپوٹوں کو اوپر کرکے چیک کیا، پھر نبض پر ہاتھ رکھا،دھڑکن کی رفتار سست تھی۔ لیکن خطرناک نہیں، ویسے بھی شہیر اسے انجکشن دے چکا تھا۔
اس کی ٹھنڈی ہتھیلیوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر وہ انھیں رگڑ رہا تھا۔چند ہی منٹ بعد اس کے وجود میں دھیمی سی جنبش ہوئی تھی، اور وہ غنودگی میں کراہی تھی۔
عشال اب بہتر ہے!
شہیر اٹھ گیا تھا۔
ضیاءالدین صاحب کے چہرے سے تفکر کے آثار قدرے کم ہوئے تھے۔
پھر وہ سطوت آراء سے مخاطب ہوا۔
ماما آپ عشال کا خیال رکھیے گا۔ یہ اس وقت مینٹلی پریشر میں ہے۔
سطوت آراء نے آہستگی سے سر ہلا دیا تھا۔ اور فکرمندی سے عشال کے قریب بیٹھ گیئیں۔
بابا! ایسا کیا ہوا تھا کہ عشال کی یہ حالت ہوگئی؟
شہیر نے اس کے کمرے سے باہر آتے ہی، ضیاءالدین صاحب سے سوال کیا۔
عشال کے لیے ایک رشتہ آیا ہے!
ضیاءالدین صاحب نے کسی تاثر کے بغیر اس کے گوش گذار کیا۔
کس کا؟
شہیر اندر ہی اندر ٹھٹکا۔
وقار درانی!
ضیاءالدین صاحب نے آرام سے کہہ دیا۔
کیا؟ و۔۔۔و۔۔وقار درانی؟
شہیر کو اپنی سماعتوں پر شک گذرا تھا۔
ہاں! وقار برہان درانی!
اور آپ نے اسے آنے دیا؟
شہیر کے اندر کی کھولن کو راستہ نہیں مل رہا تھا۔
ہاں! نہ صرف اسے گھر بلایا ہے، بلکہ اسے ہاں بھی کہنے والا ہوں۔
ضیاءالدین صاحب دھماکے پر دھماکہ کررہے تھے۔
عشال کی اس حالت کے باوجود؟
شہیر نے اس کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے سوال کیا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار ضیاءالدین صاحب کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔
ہاں! عشال کی اسی حالت نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں اس کی زندگی کو کنارہ دے دوں، اور اس وقت وقار درانی سے بہتر کوئی انتخاب ہوہی نہیں سکتا تھا۔ وہ ہمارے، عشال کے اور اپنے تمام حالات سے واقف ہے، عشال کو ساری زندگی اسے وضاحتیں نہیں دینی پڑیں گی۔
ضیاءالدین صاحب اپنے فیصلے میں اٹل دکھائی دیتے تھے۔
اور۔۔۔۔ صارم؟ صارم برہان کے بارے میں آپ نے کیا سوچا ہے؟ کیا عشال ایک چھت کے نیچے اس شخص کے ساتھ رہ سکے گی؟
شہیر کے لہجے میں تلخی کے ساتھ طنز بھی عود کرآیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آج بھی عشال کی منتظر آنکھوں کا خالی پن تھا۔ جس کے لیے وہ صارم برہان کو کبھی معاف نہیں کرسکتا تھا۔
یہ سب باتیں میں وقار سے طے کرچکاہوں۔۔۔۔ اس ہفتے وہ لوگ آرہے ہیں، کوشش کرو، عشال جلد ٹھیک ہوجائے۔
ضیاءالدین صاحب کہہ کر وہاں رکے نہیں تھے۔
شہیر بے بس سا اپنی ہتھیلی پر مکا مار کر رہ گیا تھا۔
*************
پارٹ:2
خط تنسیخ
انھی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں اسے زخم کیوں دکھاؤ
یہ جدائیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں
کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگاؤ
یہ جدائیوں کے راستے گئے بڑی دور تک
جو گیا پھر نہ آیامیری بات مان جاؤ
کسی بےوفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
احمد فراز)
ایک جھٹکے سے ضیغم کی آنکھ کھلی تھی۔ وہ کئی راتوں سے بےخوابی کا شکار تھا۔ سینے پر دھرے میگزین کو اس نے ایک بار پھر ہاتھ میں لے لیا تھا۔
ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، مسکراتا چہرہ۔۔۔۔،سرشاری، سرخروئی سے لو دیتی آنکھیں،اور ہوا میں لہراتا ایک ہاتھ۔۔۔!
کامیابی کا سرور، انسانوں کا بے کنار انبوہ!
بالآخر تم نےچاند کو مٹھی کرلیا، اور کیا ہے؟ جس کی طرف تمہاری نگاہ اشارہ کرے اور وہ تمہارے قدموں کی زینت نہ بنے؟
تم رفعتوں کی تجلی، میں زمین کا باسی!۔۔۔۔بہت چھوٹی چھوٹی چیزیں تمہیں بہلانے کو کافی ہیں۔۔۔۔،جاؤ! میں نے تمہیں دعا دی۔۔۔، خدا تمہارا دل اور نگر آباد رکھے۔۔۔۔!
وہ سر ورق پر لہراتے حسین چہرے سے مخاطب تھا۔
**************************
ضیغم نے آہستگی سے میگزین سائیڈ پر رکھ دیا، اور کمپیوٹر اسکرین روشن کی۔
وهو عليم بذات الصدور
(اور وہ سینوں کے اندر کی باتوں کا جاننے والا ہے)
جانتے ہو؟ یہ سینہ کیا ہے؟ ایک سمندر!
ضیغم کے کانوں میں آغا جان کے لفظ گونجے۔
“ایک ایسا سمندر۔۔۔۔جو اپنے اندر، کئی سمندر سمانے کی طاقت رکھتا ہے۔۔۔۔، یہ سینہ، رازوں کا امین بھی ہے، اور فتنوں کی آماجگاہ بھی۔
صدر اسلام میں منافقین کے سینے فتنے بویا کرتے تھے، یہی فتنے، مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے اور انھیں آپس میں الجھانے کے اسباب ہوا کرتے تھے۔
وہ مسلمانوں میں بس ایک شوشہ، ایک وسوسہ چھوڑ دیتے تھے اور تماشہ دیکھا کرتے تھے۔ ان کے دل مسلمانوں کا نفاق دیکھنے کے آرزومند تھے۔ ان کی نظریں تماش بین اور سینے فتنوں کی کھیتی تھے۔
لیکن اللہ؟
اس نے خود ہی کہہ دیا کہ ” وہ اللہ سے مکر کرتے ہیں اور اللہ ان سے بڑا تدبیر کرنے والا ہے، اور اللہ کی تدبیر کے سامنے ان کا مکر کچھ بھی نہیں۔”
تو میرے بچے! اللہ وحی کے ذریعے ان کے مکر و فریب اور فتنوں کو ناکام بناتا رہا۔
اور منافقین کی ہر ناکامی، ان کے سینے کے مرض کو بڑھاتی رہی۔
تم جانتے ہو؟ صرف منافقین کا سینہ فتنوں کی جگہ نہیں ہے، بلکہ ایک مومن کا سینہ بھی فتنے سے خالی نہیں۔ اور مومن کے سینے کا سب سے خطرناک فتنہ تکبر ہے، اور اس کے بعد۔۔۔، ریا کاری!
ضیغم چپ چاپ انھیں سن رہا تھا۔ آغا سمیع الدین کو سننا ہمیشہ سے ہی اسے پسند تھا۔ ان کا لفظ لفظ بے شک روح میں اتر جاتا تھا۔
” یہ دو فتنے ہر لمحہ، سانس کی طرح مومن کے سینے میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، اور مومن ہر لمحہ ان سے نبرد آزما رہتا ہے، یہ دو فتنے، اس کے چور دشمن ہیں۔
اور اللہ کے رسول نے اسی لیے کہہ دیا کہ مومن کی تین سختیوں میں سے ایک سختی آزمائش بھی ہے، وہ ہمیشہ ہر لمحہ آزمایا جاتا ہے، یہ ممکن نہیں، کہ تم اللہ سے محبت کا دعوی کرو اور آزمائے نہ جاؤ؟ جانتے ہو، ہمارے رشتے، تعلق داریاں اور محبتیں بھی آزمائی جاتی ہیں، تم بھی آزمائے جارہے ہو، لہذا اپنے سینے سے کبھی غافل مت ہونا۔ جب تک تم اس سے آنکھ ملاتے رہوگے، مطمئن اور شاد رہوگے۔ یاد رکھنا، جس دن تم نے اپنے دل سے نظر پھیر لی، تم نفسیاتی الجھاؤ کا شکار ہو جاؤ گے۔
غنائم کے معاملے میں بھی پہلے اپنے قلب کو ٹٹولو! اپنے سینے کو کھنگالو،
انھوں نے ضیغم کے دل کے مقام کو شہادت کی انگلی سے ٹھونکتے ہوئے کہا۔
اپنے سچ کو پہچانو۔۔۔ اور اس کا سامنا کرو!!!
اس کی سوچ کے بند دریچے کھل رہے تھے، تب ہی عشال نے دستک دی تھی۔
مخل ہوسکتی ہوں؟ آغا جان!
اور وہ واقعی مخل ہوئی تھی، بہت سی چیزوں کو مختل کیا تھا اس کی بے جا آمد نے۔۔۔۔،
عشال!!!!
اس کا دھیان بھٹک کر عشال کی طرف چلاگیا۔ آغا جان سے اس نے جس عشال کا ذکر سنا تھا، وہ اس سے قطعی مختلف تھی۔۔۔۔ یا ہوگئی تھی! اس کے جانے کے بعد آج پہلی بار فرصت سے ضیغم اسے سوچ رہا تھا۔ عجیب لڑکی تھی، سات برسوں میں ضیغم نے اسے کسی سے رابطہ کرتے نہیں دیکھا تھا۔ نہ ہی ہاتھ اٹھاتے ہوئے۔۔۔۔!
اچانک کسی چیز نے ضیغم کے دماغ میں کلک کیا تھا۔
اب وہ رک نہیں سکتا تھا۔
**************
عشال صبح کی نماز ادا کررہی تھی۔ معمول کے مطابق سلام پھیر کر جاءنماز سمیٹ دی۔ اب اس نے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
وہ اٹھ کر ایک بار پھر بالکونی میں چلی آئی۔ صبح کا چہرہ ابھی ملگجا سا تھا۔ سمندری ہوا نے اس کے چہرے کو چھوا، چند لمحے گہرے سانس لینے کے بعد وہ قلم کاغذ سنبھال کر بیٹھ گئی۔
وھوعلیم بذات الصدور
اور وہ سینوں کے اندر کی باتوں کا جاننے والا ہے۔
عشال نے ایک نظر قلم کو دیکھا، اسے انگلیوں میں گھمایا، اور پھر نوٹس کھنگالنے شروع کیے، مگر ذہن ہنوز صاف سلیٹ تھا۔
وہ پچھلے کئی روز سے یہاں سے آگے نہیں بڑھ پارہی تھی۔
کیوں پرودگار؟ ایک ایک کرکے مجھ سے ساری نعمتیں چھنتی چلی جارہی ہیں؟ جینے کو کوئی تو بہانہ چاہیے؟ کیا آغا جان کی یہ آخری خواہش بھی خواہش ہی رہ جائے گی؟
اف۔۔۔۔!!!
اس نے قلم کاغذ پر چھوڑا، جہاں ادھورے لفظ بکھرے تھے، اور سر ہاتھوں پر ٹکا دیا۔
خیالات میں عجب انتشار سا برپا تھا۔
آج کا دن مشکل تھا۔ آج کا دن پھر ضائع ہونے والا تھا۔ قلب و جاں اپنے مقام پر ہوتے بھی کیسے؟
آج پھر اس کی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا۔
*************************
شام اپنی تمام تر رنگینی کے ساتھ شہیر ولا پر جھک آئی تھی۔ اور شہیر ضیاء کے ضبط کے سارے بندھن آزمانے ایک بار پھر اس کی نشست گاہ میں موجود تھی۔
آپ تاریخ بتادیں، ہم بارات لے أئیں گے۔ مزید تکلفات کی ضرورت نہیں!
شافعہ بیگم نے سپاٹ چہرے کے ساتھ مدعا بیان کیا تھا۔ مروت و اخلاق کی رمق بھی ان کے چہرے سے عاری تھی۔
وقار کا چہرہ ایکدم ہی سرخ پڑا تھا۔ خفت سے یا پھر شاید۔۔۔۔ کسی اور احساس سے۔۔۔۔۔، اس کی نظریں شہیر پر جمی تھیں، جسے دیکھ کر ہی اندازہ ہورہا تھا، وہ ضبط کے کن مرحلوں سے گذر رہا ہے۔
اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے اور چہرہ خاموش تھا۔
ضیاءالدین صاحب نے بغور ان کی بات سنی اور ایک نظر سطوت آراء کو دیکھا۔ وہ سنگل صوفے پر اس طرح بیٹھی تھیں گویا بم پر بیٹھی ہوں اور ذرا سی حرکت بھی کسی دھماکے کی وجہ بن سکتی ہو۔
آپ کے پاس انکار کا اختیار ہے، بہن!
اگر آپ کا دل آمادہ نہیں تو کوئی زبردستی نہیں ہے!
یقینی طور پر انھیں شافعہ بیگم کے الفاظ و انداز ناگوار گذرے تھے۔
ہانہہ۔۔۔! دل کی جانے دیں بھائی صاحب! شادی ہی تو طے کرنی ہے، پھر کیا فرق پڑتا ہے؟ یہاں دلوں کی پروا ہی کس کو ہے؟
شافعہ بیگم کے منہ سے طنز بھری ہنسی کے ساتھ یہ جملے ادا ہوئے تھے۔
اور ضیاءالدین صاحب ہرگز بھی ناسمجھ نہیں تھے کہ صورتحال کا اندازہ نہ لگا سکتے۔
لیکن ہمیں ہے، آپ اس وقت تشریف لائیے گا، جب آپ کے ذہن و دل اس رشتے پر آمادہ ہوں، آپ کو زحمت ہوئی اس کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں۔
شافعہ بیگم نے اٹھنے میں ایک لمحہ لگایا تھا۔ اور متفسر نگاہوں سے وقار کو دیکھا جو صوفے پر جیسے جم کر رہ گیا تھا۔
ایک منٹ ماما!
وقار نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔
سر! ماما کے رویے کی میں معافی چاہتا ہوں، فی الحال میں جارہا ہوں، لیکن۔۔۔۔۔اس وعدے کے ساتھ، کہ اگلی بار آؤں گا تو ماما کے ساتھ ان کے دل کو بھی آمادہ کر کے لاؤں گا۔ پلیز! تب تک میرے الفاظ کو ایک ضمانت سمجھیے گا۔
اتنا کہہ کر وہ ایک جھٹکے سے اٹھا تھا اور شافعہ بیگم کو پیچھے چھوڑ کر، باہر نکلتا چلا گیا تھا۔
ہاہ!
شہیر، غصیلی سانس خارج کرتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
ان لوگوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے آپ عشال کو!
اتنا کہہ کر وہ بھی ٹھہرا نہیں تھا۔
ضیاءالدین صاحب نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سطوت آراء نے دھیرے سے ان کے شانے پر ہاتھ رکھا، آپ انکار تو نہیں کریں گے ناں؟
ضیاءالدین صاحب نے جو تھوڑی سی ڈھارس محسوس کی تھی وہ سطوت آراء کے لفظوں نے زائل کردی تھی۔ نتیجتا ضیاءالدین صاحب ان پر ایک خشمگیں نظر ڈال کر رہ گئے۔
سطوت آراء کا ہاتھ بے اختیار کھنچا تھا۔
**************
آپ نے اچھا نہیں کیا ماما! صرف ان کے ساتھ نہیں، میرے ساتھ بھی!
وقار بے چینی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا سطوت آراء سے مخاطب تھا۔
کیا برا کیا؟ چلی تو گئی تھی، میں وہاں تک۔۔۔۔؟ سنو وقار! تمہارے لیے میں اتنا ہی کرسکتی تھی۔۔۔۔، ورنہ وہ لڑکی، وہ لوگ۔۔۔؟ میرے سینے کا ناسور بن چکے ہیں، میں معاف نہیں کرسکتی انھیں کبھی۔۔۔،
میری آنکھوں سے صارم کا درد نہیں جاتا!
شافعہ اب رونے لگی تھیں،
وقار چند لمحے انھیں تکتا رہا، پھر بولا تو لہجہ حد درجہ کٹھور پن لیے ہوئے تھا۔
ٹھیک ہے، پھر صارم بھائی کادرد سینے سے لگا کر رکھیے۔۔۔ آپ!اور۔۔۔ آج سے بھول جائیں مجھے!
پھر وہ ٹھہرا نہیں تھا۔۔۔
شافعہ بیگم رونا بھول کر وقار کے قدموں کے نشان تلاشتی رہ گیئیں۔
*************
آبریش کو سمجھ نہیں آرہا تھا، کیا کرے؟ کیا کہے؟ گذشتہ رات سب ہی کی پریشانی میں گذری تھی۔ آج اس سے اس کی باقاعدہ کلاسز کا آغاذ تھا اور کسی نے اس کو پوچھا تک نہیں تھا۔
مجبورا وہ خود ہی تیار ہوکر شہیر کے پاس چلی آئی تھی۔
شہیر بھیا؟ مجھے انسٹیٹیوٹ چھوڑ دیں گے؟ پلیز؟
شہیر نے مڑ کر اسے دیکھا، بڑوں کی پریشانی کے کچھ اثرات نے اس کے نو عمر چہرے پر تاثر چھوڑا تھا۔ اپنے جھمیلوں میں اسے تو جیسے سب بھول ہی گئے تھے۔
تم تیار ہو؟
شہیر نے کچھ سوچ کر پوچھا۔
جی؟
اس نے مختصر جواب دیا۔
ٹھیک ہے، تم پورچ میں چلو، میں آتا ہوں۔
شہیر اسے جواب دے کر دوبارہ سے مصروف ہوگیا، وہ کہیں جانے کی تیاری میں تھا۔
آبریش دل میں ڈھیروں سکون محسوس کرتی پلٹ گئی۔
شہیر نے جوتے چڑھائے، گاڑی کی چابی اٹھائی اور کمرے سے نکل گیا۔
**************
ہائے۔۔۔۔۔!!
دور سے ہی آبریش کی دوستوں نے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا تھا۔
کتنی دیر لگادی یار تم نے؟ ہم تو سمجھے تھے، تم آج نہیں آؤگی؟
لیٹ تو میں ویسے ہی ہوگئی، لیکن تم نے یہ کیوں سوچا کہ میں نہیں آؤں گی، پہلی کلاس کیسے مس کرسکتی تھی میں؟
آبریش نے اعتراض کیا۔
میں نے سوچا، شاید تمہیں آج بھی پرمیشن نہیں ملی ہوگی، ماما کی طرف سے۔۔۔!
اس لڑکی کے لہجے میں طنز کی واضح جھلک تھی۔ جسے آبریش نظر انداز نہیں کرسکی۔
مطلب کیا ہے؟ تمہارا اس بات سے؟
ایک تو گھر میں ٹینشن، اوپر سے اس لڑکی کا انداز، آبریش کی قوت برداشت متاثر ہوئی تھی تو بڑی بات نہ تھی۔
صاف بات ہے، تمہارے گھر والے بہت ہی کنزرویٹو ہیں، انھوں نے تمہیں یہاں بھیج کیسے دیا؟
کچھ لوگ فطرتا، فتنہ پرداز ہوتے ہیں، وہ بھی کچھ ایسے ہی مزاج کی لڑکی تھی، جو آبریش کی ذات کو نشانہ بنا کر، بذلہ سنجی کا ثبوت دینا چاہتی تھی۔
میرے گھر والے کنزرویٹو ہیں یا نہیں، لیکن انھوں نے مجھے بات کرنے کی تمیز ضرور سکھائی ہے، جو شاید تمہیں کسی نے نہیں سکھائی۔
تم۔۔۔۔
بات بڑھتے دیکھ کر دوسری لڑکیاں بھی آگے آئیں
بس کرو۔۔۔ یار۔۔!! تم لوگوں نے تو لڑائی ہی شروع کردی، پلیز، ختم کرو، یار۔۔۔؟
میں نے کیا کیا ہے؟ بات پہلے وریشہ نے شروع کی تھی۔
آبریش نے جھٹ سے جواب دیا۔
مجھے نہیں پتہ تھا، تمہارا ٹیمپر لیول اتنا کمزور ہے؟
وریشہ نے بھی لٹھ مار انداز میں کہا۔
جوابا آبریش کچھ بھی کہے بغیر کلاس کی طرف بڑھ گئی تھی۔
آرٹ اسکول میں شروعات کچھ اچھی نہیں ہوئی تھی۔
*************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...