(Last Updated On: )
اسے تو وعدۂ فردا کا ہی بہانہ بہت ہے
ہمیں بنام وفا اس نے آزمانا بہت ہے
نئے سفر پہ چلے ہو، اسے اتارتے جاؤ
تمہارا پیرہن زندگی پرانا بہت ہے
دیارِ غیر میں کیوں خفتیں سمیٹنے جاؤں
مرے لیے مری مٹی کا یہ ٹھکانا بہت ہے
میں اپنی ارض حسیں سے سلوک جیسا کروں
مجھے ہے اس سے محبت، یہی بہانہ بہت ہے
عدو سے دوستی کر لی تو کیا برائی ہے اس میں
مگر یہ کار سیاست منافقانہ بہت ہے
مجھے بھی عرش کے آدرش سے اترنا پڑے گا
کہ میری وقت کا معیار درمیانہ بہت ہے
میں اس سے صلح بھی کر لیتا، کچھ بعید نہیں
مگر وہ اپنے رویے میں درمیانہ بہت ہے
٭٭٭