اسے جیل سے رہا ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو چکا تھا ۔مگر وہ اپنے گھر نہیں گیا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ اسکا وجود اسکے اپنے گھر والوں کے لئے بھاری تھا۔حالانکہ اسنے جو کیا تھا وہ ان لوگوں کے لئے ہی کیا تھا۔مگر وہ لوگ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے ۔وہ لنگڑاتا اپنے گھر کے سامنے موجود ایک تنگ گلی میں پہنچا۔وہ تھوڑی دیر کھڑا دور سے اپنے چھوٹے سے گھر کو دیکھتا رہا جسکے دروازے پر کھڑی اسکی بیوی سبزیاں لے رہی تھی ۔وہ کافی بدل چکی تھی مگر اسے اب بھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔وہ اداسی سے مسکراتا واپس پلٹا۔اندھیری اور تنگ گلی کی دیواروں کا سہارا لیتا وہ آگے بڑھنے لگا تھا کہ کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“اسد خان!” کوئی اسکے پیچھے کھڑا اسکا نام لے رہا تھا ۔اسد خان کے چہرے پر دہشت ابھری۔اتنے سالوں بعد اس علاقے میں کون اسے پہچانتا تھا؟ وہ پیچھے پلٹا. سامنے کھڑے اس اجنبی شخص کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں حیرت ابھری ۔وہ اسے سرد تاثرات سے دیکھ رہا تھا اور آنکھوں میں بے رحمی تھی ۔
“تم نے میرے باپ کو کیوں قتل کیا تھا؟” وہ ٹھنڈے لہجے میں بولا ۔
“میں نے جو کیا تھا اسکی سزا بھگت چکا ہوں ۔اسلئے تمہیں بازپرس کا کوئی حق نہیں ہے۔” اسد خان سخت لہجے میں کہتا ہوا مڑا۔
وہ تیزی سے گھوم کر اسکے سامنے آیا اور اسکا کالر پکڑ کر اسے دیوار سے لگا دیا۔
” میں جو پوچھ رہا ہوں صرف اسکا جواب دو۔” اسنے اسکی گردن پر اپنی گرفت سخت کی۔
” جا کر میری کیس فائل پڑھ لو بچے۔”وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔
“اٹھارہ سال۔۔۔اٹھارہ سال تک میں نے انتظار کیا ہے ۔میں تمہاری زبان سے سچ سننا چاہتا ہوں ۔اسلئے مجھے بتا دو کہ میرے باپ نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟” اس دفعہ اسکی آنکھوں میں بے رحمی کے ساتھ کرب بھی اترا۔
” اٹھارہ سال میں نے جیل میں گزارے ہیں ۔میں تمہاری طرح کل کے لڑکے سے نہیں ڈرتا۔”اسنے کھانستے ہوئے کہا ۔اسکا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا اور اسے سانس لینے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی ۔
” اسد خان! تین دن ہیں تمہارے پاس ۔” اسنے اسکا کالر چھوڑا۔ وہ اپنی گردن مسلتا اور تیزی سے کھانسنے لگا۔
” تین دن کے بعد مجھے صرف سچ سننا ہے ۔”اسنے وارننگ دینے والے انداز میں کہا اور اُس اندھی گلی میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا غائب ہو گیا ۔
– – – – – – – – – –
‘ٹرتھ مرر’ کے نیوز روم میں ایک عجیب سی تناؤ بھری فضا قائم تھی۔شیشے کی چمکتی ڈیسک پر سیاہ سوٹ میں ملبوس حسن مجتبٰی کا عکس صاف نظر آ رہا تھا ۔اسکے آگے لیپ ٹاپ کھلا رکھا تھا۔اسکی گہری بھوری آنکھوں میں ایک تیکھا پن تھا جس سے مقابل خواہ مخواہ مرعوب ہو جاتا تھا ۔وہ اس وقت اپنے چہرے پر ایک تلخ سا تاثر لئے بر سرِ اقتدار پارٹی کے رہنما کا انٹرویو لے رہا تھا ۔اسکے سامنے بیٹھے ادھیڑ عمر کے شخص کی پیشانی پر ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں ہونے کے باوجود پسینہ تھا۔اپنے ہاتھوں کو مسلتا وہ اپنے اس لائیو ٹیلی کاسٹ ہو رہے انٹرویو میں نروس نظر آ رہا تھا اور اپنے غصے کو چھپانے کی کوشش میں قدرے ناکام بھی۔
“قیصر زماں صاحب! اس پل کے ٹوٹنے سے جن لوگوں کی جانیں گئی ہیں انکی قیمت کس طرح ادا کریں گے آپ؟” حسن مجتبٰی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو باہم ملا کر کوہنی ڈیسک پر رکھی اور ابرؤوں کو سکیڑے سنجیدگی سے پوچھا۔
“ہمیں ان معصوم لوگوں کی موت کا افسوس ہے اور اس سلسلے میں ہم سے جو ہو سکتا ہے وہ ہم کر رہے ہیں ۔حکومت اس معاملے میں کلی طور پر متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور جلد از جلد ملزمان پر کاروائی کی جائے گی ۔” اسنے ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
“اوہ کم آن! اب یہ ساری پرانی باتیں آپ لوگ کب تک دوہراتے رہینگے؟ ہر بار ہر حادثے، ہر سانحے یا ہر غلطی کے بعد آپکے ان رپیٹیڈ ڈائلاگ سے عوام تھک چکی ہے ۔آخر کب تک آپ تسلیاں اور دلاسے دیتے رہینگے؟ ان پیار بھری تھپکیوں سے آپ جاگتی عوام کو سلا نہیں پائینگے۔حکومت نے جو غلطی کی ہے اسے قبول کر کے اسے اسکا مداوا کرنا ہوگا ۔”وہ اپنے ازلی ٹھنڈے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
” اب آپ سکھائینگے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ “وہ بھڑک گیا۔
” بالکل نہیں ۔حکومت کرنا آپ جیسے بڑے لوگوں کا کام ہے ۔ہمارا کام تو بس آپکی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے ۔”وہ کہتا ہوا ہلکا سا مسکرایا۔مگر اسکی اس مسکراہٹ میں بھی بے حد تلخی تھی۔”چلیں اس پل والے معاملے پر میں انتظار کروں گا کہ آپ کیا قدم اٹھاتے ہیں؟”
“آپ اپنے شو پر مہمانوں کو بلا کر اسی طرح بے عزت کرتے ہیں؟ ”
” جی نہیں میں بس سوال پوچھتا ہوں ۔آپ کو ان سوالات کا جواب دینے میں تو اپنی بے عزتی نہیں لگنی چاہیے ۔آف کورس عوام نے پورا اعتماد کر کے آپ کو آپ کی سیٹ پر بٹھایا ہے ۔”
” میں اب مزید آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔”
” جناب بس ایک آخری سوال ہے ۔ آر ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق آپ کی پراپرٹی میں پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اور جہاں تک میری معلومات کہتی ہے کہ اس اضافے کا سیدھا تعلق برج کنسٹرکشن سے ہے کیونکہ اس برج میں اتنا بجٹ لگایا ہی نہیں گیا جتنا پاس کیا گیا تھا ۔اسکے متعلق آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ “وہ اسکی جانب دیکھتا سرد انداز میں بولا۔
قیصر زماں کے چہرے کا رنگ پل بھر میں بدلا۔اس انٹرویو میں آنے سے پہلے ہی اسنے سوالوں کو ڈسکس کر لیا تھا۔ اسنے خاص طور پر اسی سوال کے پوچھنے سے منع کیا تھا ۔
وہ بغیر جواب دئیے کھڑا ہو گیا ۔
” قیصر صاحب! یوں آپ انٹرویو درمیان میں چھوڑ کر نہیں جا سکتے ۔”
مگر وہ کچھ کہے بغیر سرخ چہرے کے ساتھ سامنے موجود چیزوں کو ٹھوکر مارتا اسٹوڈیو سے باہر نکل گیا تھا ۔
“ابھی آپ میرے ساتھ آئینے کی طرح شفاف سچ کو دیکھ چکے ہیں۔حکومت سے ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ اس طرح کے سارے رشوت خور وزراء پر سخت کارروائی کریں تاکہ ہماری ریاست ایک کرپشن سے پاک ریاست بن سکے۔باقی خبروں کے لئے ٹرتھ مرر کے ساتھ بنے رہیں ۔اب مجھے دیجئے اجازت ۔خدا حافظ ۔”ایک پروفیشنل مسکراہٹ لبوں پر سجائے اسنے سر کو ہلکا سا خم دیا اور اٹھ گیا تھا ۔
اب ایکنر نیوز بلیٹن پڑھ رہا تھا ۔
وہ نیوز روم سے نکلتا باہر آ گیا ۔ٹائی کی ناٹ کو ڈھیلا کرتا وہ صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا ۔
” حسن! ابھی مخالف پارٹی کی میرے پاس کال آئی ہے۔اور وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں ۔” فیصل اسکے ساتھ بیٹھتا ہوا بولا۔
اسکی پیشانی پر بل نمودار ہوئے، لب بھنچے اور وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔
“انہیں کال کر کے صاف انکار کر دو۔”
“میں نے کہا مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ تمہاری طرح انکی جنگ بھی کرپٹ حکومت سے ہے۔اسلئے پارٹی کے صدر تم سے ذاتی طور پر ملنا چاہتے ہیں ۔”
“جیسے میں انہیں جانتا ہی نہیں ۔یہ سارے سیاستدان ایک طرح کے ہوتے ہیں ۔اگر کل کو انہیں حکومت ملی تو وہ بھی یہی کرینگے۔انہیں پیغام دے دینا کہ اگر ہمت ہے تو ‘لیٹس فائنڈ ٹرتھ وِد حسن’ پر آئیں ۔میں بالمشافہ بات کرنے کے لئے تیار ہوں ۔”اسکی بھوری آنکھوں کا تیکھا پن مزید گہرا ہوا۔
” یار! تمہیں ڈر نہیں لگتا ۔ہر ایک سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوتے ہو۔حکومت نہ صحیح کم از کم اپوزیشن کو تو اپنے ساتھ رکھو۔”
” تم کس کے اسسٹنٹ ہو؟ “وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا ہو گیا ۔
” بھائی تمہارا ہی اسسٹنٹ ہوں ۔”
“تو پھر میں جتنا کہہ رہا ہوں اتنا ہی کرو۔” وہ سنجیدگی سے کہتا نیوز روم کی طرف بڑھ گیا تھا ۔ابھی اسے مزید ایک اسٹوری پر کام کرنا تھا۔
– – – – – – – – – – –
رات کی مناسبت سے پہنے گئے سیاہ لمبی فراک پر اسنے دوپٹہ کندھے کے بائیں جانب ڈالا ہوا تھا۔خوبصورت سی بڑی بڑی غلافی آنکھوں والی آبش کریم سب کی توجہ کا مرکز تھی۔وہ ہاتھ میں اورنج جوس کا گلاس پکڑے اپنی دوستوں کے ہجوم میں کھڑی تھی ۔اس وسیع لان میں چلنے والی پارٹی مزید لمبی ہوتی جا رہی تھی ۔اسکے کلچ میں پڑا موبائل بار بار وائبریٹ ہو رہا تھا ۔مگر وہ اسے مکمل نظر انداز کر رہی تھی۔
“یار! وہ تمہارا کزن کب سے کار میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔یا تو چلی جاؤ یا پھر اسے ایک گھنٹے کے بعد آنے کے لئے کہہ دو۔” لان کے باہر کسی کام سے گئی سامعہ نے واپس آ کر کہا۔
اسنے بے نیازی سے اپنے کندھے جھٹکے ۔”اسے ڈیڈی نے کہا ہے کہ مجھے لے کر ہی واپس آئے ۔سو اسے چاہے جتنی دیر رکنا پڑے وہ رکیگا۔”
” بیچارہ۔۔۔”سامعہ کو افسوس ہوا.
” آبش! کیا وہ تمہارا فیانسی ہے؟ “عاشی نے تجسس سے پوچھا۔
آبش کے منہ میں موجود اورنج جوس کا ذائقہ یکدم کڑوا ہوا۔
“کیا وہ شکل سے آبش کریم کا فیانسی لگتا ہے؟ “اسنے نزاکت سے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
” خیر شکل سے تو وہ کافی اچھا ہے ۔”عنبر نے ایمانداری سے کہا۔
” اچھا ہے بھی تو کیا فرق پڑتا ہے؟” اسنے جوس کا گھونٹ لیا۔
“ہاں تو میڈم کو کس کے ہونے سے فرق پڑتا ہے؟” عاشی نے معنی خیز انداز میں اسے دیکھا۔
آبش کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔اسکے ذہن میں کسی کا سراپہ ابھرا تھا۔دوسرے لمحے اسنے اپنا سر جھٹکا۔
“مجھے نہیں معلوم ۔ابھی شاید میں خود شیور نہیں ہوں۔” اسکے لہجے میں بھی خوبصورتی اتر آئی تھی۔
” یار کچھ احوال و کوائف تو بتاؤ جناب کے۔”وہ سب مزید متجسس ہوئیں ۔
“اٹ اِز سیکرٹ!” اسنے مسکرا کر کہا ۔
“اچھا کم از کم یہ تو بتا دو کہ تمہاری اس سے ملاقات کس طرح ہوئی تھی؟ ”
” ہاں یہ بتا سکتی ہوں ۔”اسنے گلاس کے کناروں پر انگلی پھیری ۔”ہم ایک ایگزیبیشن میں ملے تھے۔اسکے ہاتھ میں کافی کا کپ تھا۔میں اس سے غلطی سے ٹکرائی اور اسکی سفید شرٹ پر کافی نے نقش و نگار بنا دئیے۔وہ مجھ پر ناراض ہوا۔مجھے سخت سست کہا اور پھر وہ تو چلا گیا اور میں وہیں اسکے ٹرانس میں گھری کھڑی وہ گئی ۔۔سو فلمی نا۔۔۔” وہ دھیرے سے ہنسی ۔
وہ سب بھی اسکے ساتھ ہنسنے لگی تھیں ۔
– – – – – – – – –