اسے اپنے چہرے پر کسی کا لمس محسوس ہوا تو وہ ایک دم سے تڑپ کے اٹھی۔
نہیں ۔ ۔ رُک جاؤ۔ ۔ ۔پلیز ۔ نہیں۔۔۔
اس نے اس کے ارادے بھانپتے ہوئے کہا ۔
اس نے اسکو بالوں سے اس زور سے پکڑا کہ اس کے منہ سے آہ نکلی ۔
مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔۔۔
اس کا فیصلہ صرف میں کرتا ہوں ۔ اور تم مجھے نہیں روک سکتیں۔ ۔
“راکھیل” ہو تم۔۔۔۔ میری بیوی نہیں ۔۔۔ سمجھی تم ۔۔۔ اور یہ تمہارا اپنا انتخاب ھے ۔
وہ اس کی حالت سے محظوظ ہورہا تھا ۔ اس نے اس کے بالوں کو چھوڑا اور اس کی گردن پر جھک گیا۔ اپنی غلیظ خواہش کی تکمیل کے بعد وہ اٹھا اور الماری کی طرف بڑھ گیا۔ الماری سے اس کے کپڑے نکال کر اس کی طرف پھینکے اور اسے تیار ہو کر باہر آنے کا کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔ ۔
وہ بوجھل دل سے اٹھی اور کپڑے لے کر واشروم چلی گئ ۔ آج صبح ہی اس نے الماری میں اس کے کپڑے سیٹ کروائے تھے ۔
وہ باہر کھڑا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا جب اس کی نظر اس کے قیامت خیز سراپا پر گئ۔
سفید رنگ کے سادھا سے کرتے اور سفید ہی کیپری میں میک اپ سے عاری چہرے کے باوجود اسے وہ کسی شہزادی سے کم نہ لگی۔
اس نے اپنے احساسات پر قابو پاتے ہوئے اسے سخت لہجے میں گاڑی میں بیٹھنے کا کہا ۔ اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ۔ حنا نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اس نے اسے لاک کر دیا ۔ اور گُھور کر اگلی سیٹ پہ آنے کا اشارہ کیا ۔ وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ تو گئ ۔ لیکن سوچتی رہی کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ھے ۔ جو یہ دشمن اس پر مہربان ھو کر اسے آؤٹنگ پر لے جا رہا ھے ۔
اس خاموشی کو جبار نے توڑا۔
“میں تمہیں تمہارے گھر لے کر جا رہا ہوں ۔۔کوئی ہوشیاری نہیں ۔۔ تمہیں وہاں اتنا ہی بولو گی جتنا میں نے کہا ہے ۔ کسی بھی قسم کی فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر تم نے کچھ غلط کہا تو میرے آدمی وہاں جگہ جگہ پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ وہ میرے ایک اشارے پر تمہارے چچا اور تمہاری بہن کو گولیوں سے چھلنی کر دیں گے ۔ اور اس سب کی زمہ دار تم ہو گی ۔
اس نے محض ہاں میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
جبکہ اس کے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے تھے ۔
جبار نے اس کے چہرے پر تشویش کے آثار ابھرتے دیکھ لئے تھے۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا ۔
“تمہاری چچی اللہ کو پیاری ہو گئیں ہیں”
اسے جرم کی دنیا میں قدم رکھے 21 سال ہو چکے تھے لیکن اسے کبھی بھی ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ اس کا کام ہی لوگوں کی جانوں سے کھیلنا تھا ۔
وہ حیرت سے اسے تکتی رہ گئ ۔ اتنی بُری خبر اسے یوں سننے کو ملے گی اس نے کبھی بھی سوچا نہیں تھا ۔ وہ سکتے میں چلی گئ ۔
اس کا گھر آ چکا تھا لیکن اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا تھا ۔ وہ اس کے تاثرات سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔
آج کئ دن بعد وہ اپنے گھر آئی تھی ۔لیکن اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ دوبارہ اس گھر میں جب آئے گی تو اپنی سب سے انمول دوست اور چچی کو کھو چکی ہو گی ۔
اس کی نظر جیسے ہی ماہ رخ پر پڑی تو وہ تیزی سے اس کی طرف لپکی ۔ لیکن ماہ رخ نے اسے زور دار دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا اور اپنی ماما کا چہرہ کفن میں چھپا دیا ۔
______________
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
_________________
“حنا” ۔۔۔چلی جاؤ یہاں سے ۔ دفع ھو جاؤ۔ میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاھتی۔ کوئی رشتہ نہیں تم سے ھمارا۔ جس دن تم اس گھر کو چھوڑ کے گئ تھیں اسی دن تمہارے سارے رشتے ختم ہو گئے تھے ۔ تم نے مجھ سے میری ماما کو چھین لیا۔ تم نے ان کی جان لی ھے۔ وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئیں ۔ تم میری ماں کو کھا گئی ۔ دفع ہو جاؤ ۔ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم میری ماما کو دیکھو ۔ چلی جاؤ حنا۔ چلی جاؤ ۔ مر گئی ہو تم ہمارے لئے
رونے کی وجہ سے اس کی آواز بہت اونچی ہو گئ تھی ۔
مجھے ایک دفع ان کو دیکھنے دو پلیز۔۔ میں چلی جاؤں گی ۔ دوبارہ کبھی نہیں آؤں گی ۔
حنا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
لیکن ماہ رُخ نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے بازو سے پکڑا اور دروازے کی طرف کھینچنے لگی ۔
وہاں بیٹھی عورتوں نے بھی چہ میگوئیاں کرنا شروع کر دیں ۔
سنا ہے یہ لڑکی گھر سے بھاگ گئ تھی کسی لڑکے کے ساتھ ۔ جس کے صدمے میں اس کی چچی چل بسی۔ بھائی کی بیٹی تھی لے کر پالی تھی لیکن اس نے کوئی صلہ نہ دیا ۔ اور سب کا منہ کالا کر کے چلی گئ ۔ ایسی لڑکیوں کو اس معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ بدکردار ہے یہ لڑکی ۔
اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ یہ سب مزید سنتی۔ وہ گھر سے باہر نکل آئی ۔ لیکن اسے جبار کہیں بھی نظر نہ آیا تو وہ سڑک کی طرف چل دی ۔ اس کے کانوں میں سب کی سماعت ٹکرا رہی تھی ۔
“بدکردار ہے یہ لڑکی ”
“میری ماما کو کھا گئ”
“مر گئ ہو تم ہمارے لئے ”
اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے وہ بالکل سڑک کے درمیان چل رہی تھی ۔
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ رہا تھا۔
اس کا قصور نہ ہونے کے باوجود بھی اسے ہی برا بنا دیا گیا ۔ یہ کیسا معاشرے ہے جہاں کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر کسی پر بھی الزام لگا دیا جاتا ۔
مجھے جینے کا کوئی حق نہیں۔۔ ؟؟؟
وہ خود کو کوس رہی تھی اچانک کسی خیال کے تحت وہ سامنے سے آنے والی گاڑی کی طرف بھاگی۔۔
اس شخص نے جلدی سے بریک لگا کر اسے بچایا ۔ اور گاڑی سے اتر کر زوردار طمانچہ اس کے منہ پر دے مارا ۔ وہ جبار تھا۔ ۔ ۔
تم جبار کی ملکیت ہو ۔۔۔ جب تک میں نہیں چاہوں گا تم مجھے چھوڑ کے کہیں نہیں جا سکتیں۔ ۔
تمہارا میں وہ حشر کروں گا کہ دوبارہ تم ایسی حرکت کا سوچو گی بھی نہیں ۔ اس نے اسے بازو سے دبوچتے ہوئے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ پٹخ دیا۔ ۔ ۔
اس نے اپنے خاص آدمی کو حنا کو اس کے چچا کے گھر لے جانے کا کہا اور چلا گیا۔ ۔ ۔ جبار کو معلوم نہیں تھا حنا کے گھر والوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ ۔ ۔اسے اس کے آدمی سے پتا چلا تھا کہ حنا گھر سے نکل کر روتی ھوئی سڑک کی طرف جا رہی ہے ۔
وہ کچھ اور ہی سمجھ کر سب کام کاج چھوڑ کر بھاگا آیا ۔
اسے گاڑی میں بیٹھانے کے بعد اس نے بیک ِمرر میں نظر اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر ڈالی اور رعب دار آواز میں بولا۔
“یہ اپنا رونا دھونا بند کرو ۔ مجھے رونے والے لوگ پسند نہیں ”
وہ اتنی بے بس ہو گئ تھی کہ وہ رو بھی نہیں سکتی تھی ۔ وہ اپنی چچی کا آخری بار چہرہ بھی نہ دیکھ پائی اور ان سے لپٹ کے رو بھی نہ سکی ۔۔۔۔
اس نے گھر پہنچتے ہی اسے سٹور روم میں لے جا کر زمین پر پھینکا ۔ اور اونچی آواز سے دھاڑا۔
تم اپنی سزا خود تجویز کرو گی یا میں کروں ؟؟؟
کوئی جواب نہ پاکر وہ اسے کمرے میں بند کر کے چلا گیا ۔
اس نے سٹور روم کی لائٹ کا کنیکشن بند کر دیا اور نوکروں کو اسے کھانا اور پانی دینے سے روک دیا ۔
جب بھی جبار کا دل اس کے لئے نرم ہوتا اس سے کوئی نہ کوئی غلطی سر زد ہو جاتی۔
وہ اپنے گھٹنوں میں منہ دئیے روتی رہی ۔ اسے اندھیرےسے بہت ڈر لگتا تھا لیکن وقت نے اسے ھمیشہ کے لئے تاریکیوں میں دھکیل دیا تھا۔ پہلے تو اس کے دل میں آزادی کی ہلکی سی امید باقی تھی ۔ لیکن اب سب کچھ ختم ہو گیا تھا اس کی چچی اسے چھوڑ گئ تھی اس کی بہن اس کا منہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔ اور وہ اپنے چچا سے ملنا نہیں چاہتی تھی ۔ وہ اپنے چچا کا سر نہیں جھکانا چاہتی تھی۔
اب اس کی زندگی کیا موڑ لے گی ؟؟؟ کیا وہ اس قید سے نکل پائے گی یا نہیں ؟؟؟ یہ قدرت کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...