(Last Updated On: )
اس ذہن سا دشمن کوئی ہو بھی نہیں سکتا
یوں سوچتا رہتا ہے میں سو بھی نہیں سکتا
ہنس دوں تو زمانہ مجھے مسرور ہی سمجھے
وہ لذت غم ہے کہ میں رو بھی نہیں سکتا
ہے پشت پہ بے چہرہ تہی دستوں کی اک بھیڑ
ہے راہِ طلب یوں کہ میں کھو بھی نہیں سکتا
اے باد صبا شب نے جو یہ داغ دیا ہے
اک قطرۂ شبنم اسے دھو بھی نہیں سکتا
میں … اور …یہ مفروضہ عقائد کا سفینہ
جو کھَے نہیں سکتا تو ڈبو بھی نہیں سکتا
اسلمؔ ہے یہی قید طلسمات کا اثبات
ہم چاہتے جو ہیں کبھی ہو بھی نہیں سکتا
٭٭٭