(Last Updated On: )
اس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا
ریت سے جھلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
آخرش وہ اور اس کی بوریا ہی رہ گئے
دل کی طغیانی نے شاہ و شہ نشیں کو دھو دیا
دل میں اس کی شکل کے سو عکس اب بنتے نہیں
ایک ہی آنسو نے چشم بے یقیں کو دھو دیا
دھوپ کو ابر مقدس ارغوانی کر گیا
بوسۂ باراں نے ہر شے کی جبیں کو دھو دیا
ظلم برپا تو ہوا لیکن کہاں برپا ہوا
میری غفلت نے کسی کی آستیں کو دھو دیا
جسم پر چھائی ہوئی شہوت کے ابر نار کا
قہر وہ برسا کہ ہر نقش حسیں کو دھو دیا
٭٭٭