اسنے اپنی بے قرار نگاہیں کلائی میں بندھی گھڑی پر ڈالی اور دوسری نگاہ سامنے دروازے پر دوڑائی۔انتظار کا لمحہ طویل ہوتا جا رہا تھا اور وقت کے ساتھ اسکے دل کی دھڑکنیں بے حد تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔مضطربانہ انداز میں دائیں ٹانگ ہلاتے ہوئے اسنے دوبارہ گھڑی کو دیکھا ۔انتظار کی شدت میں مزید اضافہ ہوا تھا۔وہ اس سے اٹھارہ سالوں بعد ملنے والا تھا ۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ جب وہ اسے دیکھیگا تو وہ اسے پہچان بھی پائیگی یا نہیں ۔جب وہ اسے دیکھیگا تو اسکے لئے اسکا پہلا لفظ کیا ہوگا؟ شاید وہ اس سے ناراض ہوگی کہ اتنے عرصے تک وہ اسے ڈھونڈ نہیں پایا۔وہ اسے شکورہ کریگی کہ اتنے سالوں تک وہ اذیت میں رہی، وہ اسکا انتظار کرتی رہی اور وہ سکون سے اپنی زندگی گزارتا رہا۔وہ یہیں تھی۔افہام کے گھر… مگر اسے کبھی احساس نہیں ہو پایا۔مگر کوئی بات نہیں… اب وہ مزید اسے ان لوگوں کے پاس نہیں رہنے دیگا… وہ اسے مزید اذیت سے پُر زندگی گزارنے نہیں دیگا۔اس سے اسکی پھپو کو چھینا گیا تھا ۔تو اب وہ اپنی پھپو کو واپس لے آئیگا۔۔۔۔
دروازہ دھیمی آواز کے ساتھ کھلا اور وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔ہموار قدموں سے چلتی جویریہ اندر داخل ہو رہی تھی ۔اسکا چہرہ بے تاثر تھا اور انداز سپاٹ۔حسن مجتبٰی کے لب بے اختیار کپکپائے ۔ہاتھوں کی لرزش کم کرنے کے لئے اسنے سختی سے مٹھیاں بند کیں۔اسنے اپنی طرف آتی جویریہ کو دیکھا اور اسکے سامنے کا منظر یکدم دھندلا ہوا۔
عام سی شلوار قمیض میں ملبوس جویریہ گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھی اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے اسے کہہ رہی تھی کہ وہ ہر مشکل وقت میں اسکے ساتھ رہیگی ۔کالج یونیفارم میں ملبوس جویریہ کا ہاتھ تھامے وہ اسکے ساتھ اسکول جا رہا تھا ۔وہ اسکے نرم بال بکھیرتی بے اختیار ہنس رہی تھی ۔اسکی شفاف ہنسی اسے اپنے ارد گرد کسی ساز کی طرح رقص کرتی محسوس ہوئی۔پھر خفا خفا سی جویریہ ممی کی ڈانٹ کے بعد سیڑھیوں پر بیٹھی رو رہی تھی اور وہ اسکے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے اسے مسلسل چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا ۔اسکی سسکیوں کی آواز اسے فضا میں گھلتی محسوس ہوئی۔
حسن مجتبٰی نے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت سے اپنی نم آنکھیں رگڑیں اور سامنے دیکھا۔وہ اسکے سامنے کھڑی تھی ۔بالکل اسکے قریب اور تصور سے حقیقت بن کر ۔وہ جذبات کے بوجھ سے کانپتے لبوں کو بھینچتے ہوئے آگے آیا اور جویریہ کے دونوں کندھوں کو تھامتے ہوئے اسے نرمی سے اپنے ساتھ لگا لیا۔
“پھپو! آئی رئیلی مسڈ یو! ان اٹھارہ سالوں میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب ہم نے آپ کو یاد نہیں کیا۔میں، ممی اور پری ایک پل کے لئے بھی یہ نہیں بھول پائے کہ آپ ہماری فیملی ہیں اور ایک دن آپ ضرور واپس لوٹینگی۔” اسے ساتھ لگائے اسکے سر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھے وہ بھرائی آواز میں کہہ رہا تھا ۔” آئی ایم سوری پھپو! ہم نے آپ کو ڈھونڈنے میں اتنی دیر کر دی ۔ویری سوری! اور…. اور… آئی لو یو پھپو! ”
جویریہ کے انداز میں کوئی گرم جوشی نہیں تھی۔وہ اسکا ہاتھ ہٹاتی پیچھے ہوئی۔
“مجھے حمزہ واپس اپنے گھر چاہیے ۔” اسنے اس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔حسن مجتبٰی کی آنکھوں میں گہری حیرت آئی۔وہ اپنی باتوں کے جواب میں اس سے یہ جملہ سن کر حیران نا ہوتا تو اور کیا کرتا؟
“پھپو! ہم آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔مجھے آپ سے بہت کچھ کہنا ہے ۔” اسنے نرمی سے کہا۔
” وکی! میں یہاں باتیں کرنے نہیں آئی۔میں اس وقت تم سے اپنے بیٹے کے لئے ملنے آئی ہوں ۔اسلئے فضول وقت ضائع مت کرو۔” اسکی نرمی کا جواب اسنے کرختگی سے دیا۔
حسن کی گہری بھوری آنکھوں میں گہرا ملال نمودار ہوا ۔اسے صرف حمزہ کی ہی فکر تھی۔اس نے ایک دفعہ بھی پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟
” آپ پوچھینگی نہیں کہ میں کیسا ہوں؟ ممی ٹھیک ہیں یا نہیں؟ پری کتنی بڑی ہو چکی ہے؟ اتنے سال ہم نے آپ کے اور پپّا کے بغیر کس طرح گزارے؟ آپ نے ہمیں کتنا یاد کیا؟” وہ لرزتی آواز میں اس سے سوال در سوال کرتا گیا۔
جویریہ نے گہری سانس لے کر اپنے بے اختیار امڈ آنے والے آنسوؤں کو باہر آنے سے روکا۔
” اگر تمہیں وقت ہی ضائع کرنا ہے تو میں کریم یزدانی کو بتا دیتی ہوں کہ انکے اکلوتے بیٹے کے لاک اپ میں ہونے کی وجہ حسن مجتبٰی ہے اور وہ فہد ندیم کا بیٹا بھی ہے جو آج کل پوری شدت سے انکی کمپنی الٹنے کی کوشش کر رہا ہے ۔” اسنے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ۔
حسن بے اختیار دو قدم پیچھے ہوا تھا ۔جیسے اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سب الفاظ جویریہ کی زبان سے سن رہا ہے ۔اسکی بھوری آنکھیں ضبط سے سرخ پڑنے لگیں ۔
” پھپو…. پھپو آپ؟ آپ ایسا کہہ رہی ہیں؟ آپ مجھ پر پپّا کے قاتل کو فوقیت دے رہی ہیں؟ آپ مجھے….” اس نے بے یقین لہجے میں کہتے ہوئے شہادت کی انگلی سے اپنی جانب اشارہ کیا ۔”آپ مجھے دھمکی دے رہی ہیں؟ آپ یہ سب کسی دباؤ کی وجہ سے کہہ رہی ہیں نا؟ مجھے بتائیں کہ کون آپ کو مجبور کر رہا ہے؟ میں اسے دیکھ لونگا۔ایک دفعہ آپ نام بتا دیں ۔”اسنے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا۔
“اسٹاپ اٹ وکی!” اسنے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔”میں تمہیں تین گھنٹے کا وقت دے رہی ہوں ۔تین گھنٹے کے بعد مجھے حمزہ اپنے سامنے چاہیے ورنہ نتیجے کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔”اسنے وکی کے زرد پڑتے چہرے سے بمشکل نگاہ ہٹائی۔
” آپ کو یاد ہے پھپو! ایک دفعہ آپ نے کہا تھا کہ آپ جہاں بھی رہیں ہمیشہ میری جنگ میں میرے ساتھ رہینگی۔مگر آپ… آپ تو مجھے ادھورے راستے پر چھوڑ کر جا رہی ہیں ۔آپ کے لئے وہ حمزہ اہم ہے، کریم یزدانی اہم ہے، اسکا بزنس ایمپائر اہم ہے ۔مگر آپکے سامنے میری کیا حیثیت ہے؟ پپّا کے خون کی کیا وقعت ہے؟ جن لوگوں نے ہمارا خاندان تباہ کیا آج آپ انکے ساتھ کھڑی ہیں ۔میں آپ سے کچھ نہیں چاہتا. مجھے آپکی مدد نہیں چاہئے ۔مجھے بس اپنی پھپو واپس چاہیے ۔اپنی جویریہ پھپو! جن کے لئے میں اہم تھا۔جو مجھ سے محبت کرتی تھیں ۔مجھے اپنی وہی پھپو واپس چاہیے ۔”اسکا لہجہ بکھرا ہوا تھا ۔جویریہ کا یہی دل چاہا کہ وہ آگے بڑھ کر اس ٹوٹے بکھرے وکی کو اپنے گلے سے لگا لے مگر اگلے ہی لمحے اسنے اپنے جذبات پر قابو پا لیا ۔
” کیسی جنگ اور کون سی پھپو وکی؟ میں اس وقت صرف حمزہ کی ماں ہوں ۔اٹھارہ سال پہلے میں نے اپنے سارے رشتوں کو زندہ قبر میں اتار دیا تھا۔اسی قبر پر کھڑے میں نے اپنی باقی زندگی گزارنی ہے۔آج میرے پاس صرف حمزہ ہے۔میں تمہارے لئے، تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر اسے کھونا نہیں چاہتی۔”وہ اپنے سارے دکھوں کو چھپائے کہہ رہی تھی ۔حسن اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا ۔وہ آج بری طرح ٹوٹا تھا۔جویریہ بدل چکی تھی ۔اسکے سامنے کھڑی وہ عورت اسکی پھپو نہیں تھی ۔وہ صرف اور صرف حمزہ یزدانی کی ماں تھی۔
” میں تم سے صرف یہی چاہتی ہوں کہ میری زندہ رہنے کی اکلوتی امید مت چھینو۔مجھے میرا حمزہ واپس دے دو۔ورنہ جویریہ آج دوسری دفعہ مر جائیگی ۔” وہ کہتی ہوئی مڑ گئی۔دروازے کی طرف جاتے ہوئے اسکے قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی اور گال پر آنسو بہہ رہے تھے ۔
“حمزہ آج شام تک آپ کے پاس ہوگا۔”دروازہ کھولنے کے قبل اسنے وکی کی آواز سنی تھی۔وہ بغیر مڑے کمرے سے باہر نکل گئی۔
– – – – – – – – – – – –
ڈی ڈی کمپنی کے چھٹے فلور پر واقع اس کمرے میں گہرا اندھیرا تھا ۔اندھیرے کو چیرتی پنسل ٹارچ کی روشنی اس وقت ایک کمپیوٹر کی کی بورڈ پر پڑ رہی تھی ۔سیاہ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس افہام حیدر کمپیوٹر کے سامنے کھڑا تھا۔اپنے سیاہ لباس میں وہ ایک ہیولا سا محسوس ہوتا تھا ۔اسکرین سے نکلتی روشنی اسکے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔اسکے انداز سے جلد بازی اور پریشانی صاف ظاہر تھی۔بے چینی سے انگلیاں کی بورڈ پر ٹائپ کرتا وہ بار بار اپنی ریڈیم ڈائل والی گھڑی کو دیکھ رہا تھا ۔اس سناٹے میں وہ اپنے دل کی تیز رفتاری سے چلتی دھڑکنوں کو محسوس کر سکتا تھا ۔اسنے اپنی شہادت کی انگلی سے ماؤس پر کلک کیا۔اسکرین پر مال وئیر ڈاؤن لوڈنگ لکھا آنے لگا۔وہ اب سیدھا کھڑا ہو گیا تھا ۔بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسنے اسکرین پر نظر ڈالی۔ابھی مکمل ڈاؤن لوڈ ہونے میں اور وقت لگنا تھا۔دائیں ہاتھ کی مٹھی کو بار بار کھول کر بند کرتے ہوئے اسنے گہری سانس لی۔بند دروازے کو دیکھتے ہوئے اسے یہی لگ رہا تھا کہ ابھی کوئی دروازہ کھول کر آ جائیگا اور وہ پکڑا جائیگا۔اس مرحلے پر آنے کے بعد وہ اب پھنسنا نہیں چاہتا تھا ۔اسے معلوم تھا کہ اس کمپیوٹر میں محفوظ ڈیٹا پر ہی ساری کامیابی منحصر تھی۔اسنے دوبارہ اسکرین کو دیکھا۔٪٩٨ ڈاؤن لوڈ ہو چکا تھا ۔اضطراری کیفیت میں مٹھیاں بند کرتے ہوئے وہ کمپیوٹر پر جھکا اور اپنا دایاں ہاتھ ماؤس پر رکھ دیا ۔یکدم پوری عمارت سائرن کی آواز سے گونجنے لگی تھی ۔مگر افہام حیدر یونہی جھکا کھڑا رہا۔اسکی جیب میں رکھا موبائل وائریٹ ہوا۔ایک ہاتھ ماؤس پر رکھے دوسرے ہاتھ سے اسنے کان میں لگا بلو ٹوتھ آن کیا۔
“سر! چیف ابھی سکستھ فلور پر آ رہے تھے ۔میں نے تیسرے فلور پر فالس الارم بجا کر کچھ دیر کے لئے انکی توجہ اس طرف کر دی ہے ۔آپ جتنی جلدی ممکن ہو وہاں سے نکل آئیں ۔اس کے بعد میں کچھ نہیں کر پاؤنگا۔” دوسری جانب سے دبی دبی سرگوشی سنائی دی ۔
“اوکے! میں بس نکل رہا ہوں ۔”اسنے جواب دے کر بلو ٹوتھ آف کیا اور اسکرین کو دیکھا۔
مال وئیر انسٹالڈ کے الفاظ چمکتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں فتح کی چمک آئی تھی۔کمپیوٹر آف کرتے ہوئے اسکے چہرے پر کامیابی کا یقین عیاں ہو رہا تھا ۔اسنے اپنے حصے کا کام کر دیا تھا اور اب اس وائرس کی مدد سے انابہ بآسانی کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا کو ہیک کر سکتی تھی۔کمپنی کے راز بہت وزن رکھتے تھے ۔وکی اپنے پپّا کا انتقام لے سکتا تھا ۔وہ اپنی مقبوضہ جائداد واپس لے سکتا تھا اور ساتھ ہی اسکی زندگی کی سب سے بڑی خوشی انابہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا سکتا تھا ۔میز پر رکھی پی کیپ پہن کر وہ آہستگی سے دروازہ کھولتا کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔
– – – – – – – – –
اپنی میز کے سامنے بیٹھی انابہ کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا رکھا تھا اور وہ کی بورڈ پر جھکی ٹائپنگ کر رہی تھی۔اسکے چہرے سے دبا دبا جوش ظاہر ہو رہا تھا اور اسکی حرکات و سکنات سے یہی لگتا تھا کہ اسنے کوئی عظیم معرکہ سر کر لیا ہو۔اسکے قریب کھڑا حسن مجتبٰی البتہ بور سا ہو کر اسکرین کو دیکھ رہا تھا جس پر ایلگوردم لکھے نظر آ رہے تھے اور وہ اسکی سمجھ کے باہر تھے۔
“انابہ! کتنی دیر لگیگی؟”اسنے اکتا کر پوچھا۔
“بس پانچ منٹ میں ہمارا کام ہو جائیگا۔” اسنے یونہی ٹائپنگ کرتے ہوئے جواب دیا ۔
“تم نے ایک گھنٹے سے مجھے پانچ منٹ کا کہہ کر یہاں کھڑا کیا ہوا ہے ۔” وہ بے اختیار جھلایا تو وہ چونکی۔
“ارے آپ کھڑے کیوں ہیں؟ بیٹھ جائیں نا۔بس پانچ منٹ کی تو بات ہے ۔” اسنے بغیر اسکی طرف دیکھے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
وہ بیزار سے انداز میں ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔اور اپنی بھوری آنکھیں اس پر جما دیں جو صرف اسکے لئے، اسکے کہنے پر بغیر حقیقت جاننے کی کوشش کئے اتنی محنت کر رہی تھی۔انابہ سلمان نے آج اپنی پیشانی پر گرنے والے بالوں کو اٹھا کر پونی میں قید کیا ہوا تھا ۔اسکی شفاف اور کشادہ پیشانی اسکی ذہانت کی غماز تھی۔اسنے اس سے صرف ایک دفعہ مدد کرنے کو کہا تھا اور اسنے انکار نہیں کیا تھا ۔بغیر کسی غرض اور مفاد کے وہ صرف اسکے لئے اپنا وقت لگا رہی تھی ۔اس خطرناک سانحے کے باوجود اسنے اسکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا ۔حسن مجتبٰی اب اسکے ان کہے الفاظ سمجھنے لگا تھا۔اسے معلوم تھا کہ انابہ سلمان کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر کیوں چمک آ جاتی ہے۔وہ جان گیا تھا کہ وہ کیوں اسکے ساتھ کھڑے رہنا چاہتی تھی۔وہ جان گیا تھا کہ انابہ اسکے ساتھ چلنا چاہتی ہے ۔وہ اسکا ہاتھ تھامنا چاہتی تھی اور اب وہ اسکا ہاتھ جھٹکنا جرم سمجھنے لگا تھا۔وہ سوچنے لگا کہ وہ انابہ کو سب کچھ بتا دے، سب کچھ… اپنی زندگی کا ایک ایک باب اسکے سامنے کھول کر رکھ دے ۔اپنی غلطیاں، کوتاہیاں، جذبات سب کچھ… آبش ،کریم یزدانی، جویریہ پھپو، اپنے باپ کسی کے متعلق کچھ نا چھپائے ۔اور وہ سب کچھ کہہ دے جو وہ اس سے اب تک کہہ نہیں پایا تھا۔
“خوبصورت ہے نا؟” یکدم انابہ نے اس سے پوچھا اور وہ جو بے خیالی میں اسے دیکھے جا رہا تھا چونک گیا ۔
“کیا خوبصورت ہے؟” اسنے پوچھا۔
“میرا چہرہ۔” اسنے مسکرا کر کہا تو ہلکی سی مسکراہٹ اسکے لبوں کو بھی چھوئی اور اس نے اپنی نظریں کمپیوٹر اسکرین کی طرف کیں۔
“اس سوال کا مقصد؟ ”
” آپ مجھے اتنی دیر سے دیکھ رہے تھے ۔میں نے سوچا کہ کہیں مجھے نظر نہ لگ جائے ۔” اسنے شوخ لہجے میں کہا ۔
“میں کچھ سوچ رہا تھا ۔بھلا تمہیں کیوں دیکھنے لگا؟” اسنے اسے شرمندہ کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ انابہ ہی کیا جو حسن مجتبٰی کی کوئی بات اپنے دل پر لے۔
” اچھا تو بتائیں کہ مجھے دیکھتے ہوئے کیا سوچ رہے تھے؟ ”
” کچھ خاص نہیں… “اسنے دھیرے سے اپنا سر جھٹکا ۔اتنی آسانی اور جلدی کسی کے سامنے خود کو کھول کر رکھ دینا اسکے لئے بہت مشکل تھا۔”تم بتاؤ تمہارا کام ہوا؟”
“لگ بھگ..” اسنے کہتے ہوئے اسکرین کی طرف اشارہ کیا ۔جہاں فائل کاپی ہونے کی اطلاع آ رہی تھی ۔” افہام نے جو مال وئیر انسٹال کیا تھا اس وائرس نے کمپنی کے کمپیوٹر کے سارے ڈیٹا کو اچھے بچوں کی طرح ہمارے کمپیوٹر کو کاپی کرنے کی اجازت دے دی ۔تو بس ڈی ڈی کمپنی کے سارے راز اب اسکے اندر ہیں ۔” اسنے فخریہ انداز میں کہتے ہوئے لیپ ٹاپ میں لگے پین ڈرائیو کی طرف اشارہ کیا ۔
حسن نے ایک طویل سانس لی ۔” آج اگر میرے ساتھ… ”
” پلیز! “اسنے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔” یہ سب مت کہیں کہ اگر آج میں آپ کے ساتھ نا ہوتی تو آپ یہ سب نہیں کر پاتے ۔آپکی زبان سے یہ سب سننا میرے لئے بہت آکورڈ ہوگا۔” اسکے چہرے پر سرخی چھائی۔
“مگر مجھے اپنی بات تو پوری کرنے دو۔” وہ جیسے اسکے سرخ چہرے پر حیران ہوا۔
” میں آپکی زبان سے اپنے لئے تھینک یو جیسا لفظ یا اپنی تعریف بالکل نہیں سن پاؤنگی۔پلیز مجھے شرمندہ نہ کریں ۔آپ نے کبھی میری تعریف نہیں کی ہے اسلئے آج بھی نہ کریں۔ میں اسی کی عادی ہوں ۔” اب اسنے اپنے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈھک لیا تھا۔اسکے خجل سے انداز پر حسن نے ایک بے ساختہ قہقہے کا گلا گھونٹا۔
” انابہ تم سن تو لو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔”اسنے محفوظ ہوتے ہوئے کہا ۔
انابہ بے ہنوز اپنا چہرہ چھپائے رکھا ۔
” میں کہہ رہا تھا کہ آج اگر میرے ساتھ افہام نا ہوتا تو نہ جانے میں کیا کرتا ۔” اسنے کہا تھا اور انابہ نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے ۔اسکی بڑی بڑی آنکھوں میں بے شمار حیرت تھی۔” اگر وہ نا ہوتا تو میں وہ سب کبھی نہیں کر پاتا جو کرنا چاہتا تھا ۔میں اللہ کا دل سے شکر گزار ہوں کہ اسنے مجھے افہام جیسا دوست دیا۔”وہ کہتا گیا۔
” کک… کیا افہام؟”وہ ہکلائی۔
“ہاں! تم نے کیا سمجھا تھا؟”اسنے کہا۔”اسکے بغیر تو یہ حاصل کرنا نا ممکن تھا۔” اسنے پین ڈرائیو نکال کر اسکا سفید کور لگایا۔
“اور..اور میں؟ میں نے اتنی محنت کی اسکا کیا؟ “اسنے شکایتی انداز میں کہا ۔
” ہاں تم نے بھی محنت کی مگر افہام کے مقابلے میں وہ کچھ نہیں ہے ۔اور ابھی تو تم نے بتایا کہ تمہیں اپنی تعریف اچھی نہیں لگتی ۔سو لیٹ اِسکِپ دس۔” وہ بے پروا سے انداز میں شانے کو جنبش دیتا کھڑا ہو گیا ۔” اوکے خدا حافظ ۔تم اپنے گھر چلی جانا۔مجھے آفس میں ابھی کام ہے۔”وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔
بیوقوفوں کی طرح منہ کھولے بیٹھی انابہ نے پہلا اپنا منہ بند کیا اور دانت پر دانت جماتے ہوئے خود کو کوسا۔اف اسنے اسکے بارے میں کیا سوچا ہوگا؟ خفت زدہ انداز میں اسنے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔پھر اسنے بیگ کا پہلا چین کھولا اور اسکا ہاتھ اندر کسی چیز سے ٹکرایا تھا۔اسنے دو انگلیوں کی مدد سے اسے باہر نکالا۔اور اپنے ہاتھ میں موجود اس تھینک یو کارڈ کو دیکھ کر ایک دلکش مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر آ گئی۔اسنے کارڈ کھولا۔”ہر اس چیز کا شکریہ جو تم نے اب تک میرے لئے کیا ہے ۔میں چاہ کر بھی وہ سب تمہیں واپس نہیں کر سکتا۔” حسن مجتبٰی کی خوبصورت رائٹنگ میں لکھا وہ چھوٹا سا جملہ انابہ سلمان کے دل کو چھو گیا تھا ۔
– – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...