(Last Updated On: )
اس لیے آنکھ حسینوں سے چُرائی نہ گئی
بات دل کی کبھی چہرے سے چھپائی نہ گئی
وہ عمارت کبھی تعمیر نہیں ہو سکتی
جس کی بنیاد سلیقے سے اٹھائی نہ گئی
کیسے ممکن تھا تراشے ترے پیکر کے خطوط
تیری تصویر مصور سے بنائی نہ گئی
گو کہ اظہارِ محبت سے گریزاں ہی رہا
آتشِ عشق مگر پھر بھی چھپائی نہ گئی
راز سربستہ رہے اہلِ ستم کے اکثر
گرد تاریخ کے چہرے سے ہٹائی نہ گئی
کیوں بھرے شہر میں تنہا نہ دکھائی دیتے
جن سے کم ظرف زمانے سے نبھائی نہ گئی
عمر بھر کتنے حسینوں سے شناسائی رہی
آتشِ قلب و جگر پھر بھی بجھائی نہ گئی
ہم کو بے لوث محبت کی طلب مار گئی
آنکھ کم ظرف حسینوں سے لڑائی نہ گئی
نت نئے یاروں نے الزام لگا کر دیکھا
حسبِ منصوبہ مگر بات بنائی نہ گئی
چاہتے تھے کہ کریں خود کو نمایاں اخترؔ
دوستوں سے مِری دستار گرائی نہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔