اس گھر میں کون کون رہتا ہے ؟؟؟
“سحرش نے سوچا اسی سے پوچھ لے ہٹلر صاحب تو ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیں کجا کہ میری بات کا جواب۔۔”
۔اس نے نفرت سے سوچتے ہوئے سر جھٹکا۔۔۔۔۔ “بی جان اور صاحب جی ہی رہتے ہیں اکلوتی بہن کی شادی ہوگئ تو وہ چلی گئیں ۔۔۔۔
ہمممم سحرش نے ہنکارا بھرا ۔۔۔”
ٹھیک ہے تم مجھے بی جان کے پاس لے چلو ؟؟؟
“جی اچھا ۔۔۔۔”
ملازمہ نے تابعداری سے کہا ۔۔۔
لاونج عبور کر کے وہ ایک روم کی طرف بڑھی ملازمہ نے دروازہ نوک کر کے کھولا اور اندر چلی گئ سحرش بھی اسی کی تقلید میں چل رہی تھی
” بی جان یہ آپ سے ملنا چاہتیں ہیں…..”
ملازمہ نے بی جان کو بتایا: بی جان نے سر کے اشارے سے اس کی بات کا جواب دیا تو ملازمہ کمرے سے نکل گئ جبکہ سحرش وہیں کھڑی رہی۔۔۔۔۔
بی جان چکن کے سفید کپڑوں میں ملبوس، ہاتھ میں تسبیح لئے بیڈ پر بیٹھی ہوئ پر وقار لگ رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔
تسبیح ختم کر کے انکھوں سے لگائی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسے دیکھا:
آو بیٹی یہاں آو وہاں کیوں کھڑی ہو؟؟؟؟
بی جان نے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں اسے بلایا:
سحرش دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی آئی اور بیڈ پر بیٹھ گئ اور سر جھکا کر سلام کیا:
“خوش رہو آباد رہو ۔۔۔۔۔۔”
بی جان اس کے اس انداز پر نہال ہوگئیں ۔
“مجھے بتایا تھا جہانگیر نے … بچہ میں تو بس یہ ہی کہوں گی کہ صبر کرو۔۔۔۔۔۔۔”
سحرش کو انکی بات سن کر کرنٹ لگا ۔۔۔۔۔
“کیا اس شخص نے بتا دیا کیا چلو اچھا ہے مجھے نہیں بتانا پڑا اب یہ مجھے میرے گھر جانے دیں گی۔۔۔۔۔”
ابھی وہ واپس جانے کے لئے ان سے کہتی ہی کہ بی جان کی اگلی بات پر اسے لگا جیسے یہ محل اس پر اگرا ہو ۔۔۔۔۔
بہت ظالم ماں باپ ہیں تمھارے کیا کوئی اپنی اولاد کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے ؟؟؟
جی؟؟؟؟؟ سحرش نے نا سمجھی سے انھیں دیکھا :
ہاں بچہ ۔۔۔ ۔۔۔
“اب یہ تمھارا ہی گھر ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میرے ہونہار بچے نے تمہاری عزت بچانے کیلیے تم سے نکاح کیا۔۔۔۔ ”
“مجھے فخر ہے کہ اس نے تمھیں اپنی عزت بنایا ہے ۔۔۔۔۔”
ابھی سحرش انکی بات کی تردید کرتی کہ ملازمہ آگئی:
“آئیے بی جان میں اپکو وضو کروا دوں نماز کا ٹائم ہوگیا ۔۔۔”
سحرش غائب دماغی سے کمرے سے باہر نکلی چلتے چلتے وہ ٹیرس کی جانب نکل آئئ۔۔۔
“یہ کیا کہہ رہیں تھیں بی جان کیا بتایا اس شخص نے میرے بارے میں ، اپنے کرتوتوں کا پردہ رکھنے کے لئے میرے والدین کو برا کردیا ”
سحرش کا دماغ سوچ سوچ کر ماوف ہونے لگا تھا اسکا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی جہانگیر اس کے سامنے ہو اور وہ اسکے ٹکرے ٹکرے کردے۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد گاڑی کے ہارن کی آواز پر واچ مین نے گیٹ کھولا تو سفید رنگ کی کرولا اندر آئی اور پورچ میں اکر کھڑی ہوگئ ۔۔۔۔
جہانگیر گاڑی سے نکل کر لاونج میں آیا تو سحرش کو اپنے سامنے پایا، وہ غضب ناک تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔۔
“کیا بکواس کی ہے تم نے بی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
جہانگیر نے اگے بڑھ کر اسکے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے کھینچتے ہوئے اپنے روم میں لایا جہاں وہ قیام پزیر تھا :
کمرہ میں آتے ہی اس نے اپنا آپ چھڑایا اور دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر زور سے پیچھے دھکیلا:
“ہاتھ مت لگانا آئیندہ مجھے۔۔ “سمجھ آئی تمھیں؟؟
“اس نے انگلی اٹھا کر وارن کیا ۔۔۔۔”
جہانگیر کو سمجھ نہیں آرہا تھا آخر اسے ہوا کیا ہے۔۔۔۔۔
کیا ہوا کیوں چیخ رہی ہو اس طرح تمیز نہیں ہے تمھیں؟؟؟؟
“نہیں ہے تمیز ۔۔۔۔۔جیسے تم خود ہو اسی طرح تم سے بات کرہی ہوں گھٹیا انسان۔۔۔۔۔ ”
اپنی لینگویج درست کرو تمھیں بتایا ہے نہ میں اس لہجہ کا عادی نہیں ہوں؟؟
جہانگیر کو بھی غصہ آگیا تھا جبھی کڑے تیوروں سے اسے گھورا ۔۔۔۔ -۔۔۔۔۔
“میں بھی تمھاری بے دام غلام نہیں ہوں ۔۔کہ جو تم کہو وہی میں کروں ۔۔۔۔۔ ”
خود اپنا گناہ چپھانے کیلئے میرے والدین پر الزام لگا دیا ۔۔۔۔۔”
ترکی بہ ترکی کہا گیا :
اسکی بات سن کر وہ طیش میں اگیا: اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے اسے قریب کیا۔۔۔۔
کیا گناہ کیا ہے بولو ؟؟؟
جہانگیر نے ڈھارتے ہوئے اس سے پوچھا:
ایک پل کو تو وہ بھی کانپ گئی تھی لیکن جلد ہی اپنے آپ کو سنبھال کر بولی:
” مجھے اغوا کر کے یہاں لائے اور اوپر سے کہہ رہے ہو کیا گناہ کیا ہے تم جیسا گھٹیا انسان میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔۔۔۔۔”
ابھی تم نے میر گھٹیا پن دیکھا ہی کب ہے بولو تو ابھی دکھا دوں ؟؟؟
جہانگیر نے سرد لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہا:
سحرش کا سر چکراگیا اس کی ہٹ دھرمی اور بے باکی دیکھ کر-
“اپنی لمٹ میں رہو۔ تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ گرے ہوئے نکلے ہو۔۔۔”
جہانگیر پتا نہیں کیوں اس کی بتمیزی برداشت کر رہا تھا کسی کی جررت نہی ہوتی تھی اس سے اونچی آواز میں بات کرنے کی لیکن اس بار وہ خاموش تھا ۔۔۔۔۔۔ اس کا جواب بھی خود جہانگیر کے پاس نہیں تھا۔۔۔۔۔
جہانگیر کی خاموشی نے سحرش کی ہممت بڑھائی ۔۔۔۔
اپنی بی جان کو بتاو کے تم کتنے ہو نہار اور عزتوں کے رکھ والے ہو ؟؟؟؟” ورنہ میں خود تمہاری اصلیت بتاوں گی “۔
سحرش تو آج جان لینے یا دینے پر تلی ہوئی تھی اتنے دنوں سے جو لاوا اس کے سینے میں پک رہا تھا آج پھٹ پڑا ۔۔۔۔
اچھا کیا ہے میری اصلیت ذرا مجھے بھی تو پتا چلے ؟؟؟
جہانگیر نے استہزائیہ انداز میں پوچھا:
” اپنے گریبان میں جھانکو گے تو پتا چلے گا نہ جتنے معصوم نظر آتے ہو نہ اتنے ہی اند سے مکار ہو تم نے اپنی حوس پوری کرنے کیلئے مجھ سے نکاح کیا ہے اتنے گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
جہانگیر کی برداشت ختم ہوگئ تھی اس نے زور دار تھپڑ اسکے گال پر مارا – وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرا کر نیچے گری ۔۔۔۔۔
گرنے کی وجہ سے بال کھل کر منہ کو چھپا گئے تھے ۔۔۔۔
“اگر مجھے حوس ہی پوری کرنی ہوتی تو تم سے نکاح کا کھٹراک نہ پالتا ۔۔۔۔ بولو کب تمہارے قریب آیا ہوں ۔۔۔ تم اپنے باپ کا بویا ہوا کاٹ رہی ہو۔۔۔۔۔ اب ساری زندگی اپنے باپ کے گناہ کا کفارہ ادا کروگی ۔۔”
وہ یہ کہہ کے دروزے کو ٹھوکر مارتا ہوا نکلتا چلاگیا۔۔۔۔۔۔
سحرش کا ہونٹ پھٹ گیا تھا کونی پوری چھل گئ تھی سر زمین سے لگنے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی ۔۔۔۔
جس کو کبھی پھولوں کی چھڑی سے بھی نہ مارا ہو وہ اسکی پڑنے والی ضرب برداشت نہ کر سکی……..