(4)
اس گاؤں میں جس کا نام یاد نہیں رہا پھر صاحب عالم نے کوچ کیا اور بہت زحمت اور تکلیف اٹھا کر پلا گاؤں تک پہونچے کیونکہ اس سے پہلے گاؤں سے پلا تک نہ کوئی لیکھ تھی نہ کوئی بٹیہ تھی، نہ پگ ڈنڈی تھی۔ جب آدمی ہی نہ ہوں تو لیکھ اور پگ ڈنڈی کس طرح بنتی ۔ صاحب عالم نے پلا کے کنارے پر قیام فرمایا اور اس شکاری راجپوت سنگھ کو بلوایا۔ اس راجپوت کا نام یاد نہیں رہا، اس لیے میں ضرورت کے لیے راجپوت سنگھ لکھوں گا کیونکہ اس کا جابجا ذکر آئے گا۔ راجپوت سنگھ حکم پہونچتے ہی حاضر ہوا۔ وہ بھی جنگلی بھاشا بولتا تھا۔ صاحب عالم نے اس سے کجلی بن کا حال اور شیر کے متعلق جو اس سے پوچھا تھا اس کا یہ جواب دیا۔
راجپوت سنگھ: جناب عالی بن کا نام کجلی بن نہیں ہے بلکہ گجلی بن ہے کیونکہ گج سنسکرت زبان میں ہاتھی کو کہتے ہیں۔ اس بن میں جو ہاتھی رہتے ہیں اس کا نام گجلی بن رکھا گیا تھا مگر بگڑ کر گجلی بن سے کجلی بن ہوگیا۔ ہمارا گاؤں ایک راجا کی حکومت میں ہے۔ ہم اپنے گاؤں کی پیداوار میں سے تھوڑی سی جنس دھان کی اس راجا کو اُگاہی کے طور پر دیتے ہیں سنا ہے وہ راجا تھوڑا سا روپیہ بادشاہ کو دیتا ہے۔
کجلی بن ہمارے اس گاؤں سے سات کوس دور ہے اور سینکڑوں کوس تک چلا گیا ہے۔ اس کے اندر بعض درخت دو دو ہزار برس کی عمر کے ہیں اور سال، ساگوان، ابنوس،ہلدو اور قسم قسم کے درخت جن کے تنہ ہاتھیوں کے کمر برابر اور ان سے زیادہ گولائی کے ہیں جن کے نام ہمیں معلوم نہیں ہیں۔ اور ان کی اونچائی لمبائی اتنی ہے کہ دیکھنے والا گمان کرتا ہے کہ ان کی پھننگیں اور چوٹیاں آسمان سے جا لگی ہیں۔ شیر، ریچھ، بندر، لنگور، ہاتھی، ساردھول، بھیڑیے، گیدڑ، لومڑی، ہرن، پاڑھے، چیتل،نیل گائے، بارہ سنگے، سور اور ہزاروں قسم کے چرند اس میں رہتے ہیں کہ راجا ہیر بکرماجیت کے زمانے سے لے کر اور مسلمان بادشاہوں کی عملداری سے اب تک عمارت کے کام کی لکڑی اس بن میں سے ٹھیکہ دار لوگ کاٹ کر بھیجتے رہے اور اب بھی بھیجتے رہتے ہیں مگر اس کا ایک کونا بھی خالی نہیں ہوا ہے۔ اس بن کے اندر جانا خطرے سے خالی نہیں ہے، آدمی اس کی سیر کرتا ہوا یا شکار پر داؤ کرتا ہوا چلا جاتا ہے اور شام ہو جاتی ہے اور پھر اسے پلٹنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ رستہ کا تو کوئی نشان ہوتا ہی نہیں ہے، اس لیے پھر کر کیونکر آئے۔ اندھیرا ہوتے ہی شیر اس کا شکار کرلیتے ہیں یا بھیڑیے اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے ہیں۔ یا ریچھ بندر اس کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں یا ہاتھی اسے کچل ڈالتے ہیں۔ لکڑی کاٹنے والے مزدور سو سو دو دو سو اکٹھے ہو کر کام کرتے ہیں، ایک جگہ ٹھیکیدار اپنا ڈیرا ڈالتا ہے اور ڈیرے کے آس پاس ایندھن انبار کرکے شام کے وقت اس میں آگ لگا دیتا ہے۔ بن کے جانور کیا ہاتھی کیا شیر سب آگ سے ڈرتے ہیں اور آگ دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ٹھیکیدار کے ساتھ ایسے بڑے بڑے مضبوط چھکڑہ ہوتے ہیں جن میں پچاس پچاس اور سو سو بیل جوتے جاتے ہیں اور ان چھکڑوں پر شہتیر اور موٹے موٹے لٹھے لاد کر دور دور لے جاتے ہیں۔ اس محنت سے بہت سے بیل مر جاتے ہیں۔ میں سو پچاس بار شکار کی وجہ سے بن میں داخل ہوا ہوں اور چالیس چالیس پچاس پچاس کوس تک اس کے اندر چلا گیا ہوں تو میں نے اس میں میدان بھی کف دست پائے ہیں۔ ندی نالے بھی زور شور سے بہتے دیکھے ہیں۔ چشمہ جھیلیں اور قدرتی تالاب بھی بہتے ہیں اور ان ندی نالوں پر مختلف قسم کے پرندے دکھائی دیے ہیں۔ یہ بھی میں نے جانچ کی کہ بن کی بسنے والی مخلوق نے بن کو اپنے لیے بانٹ لیا ہے۔ کہیں خصوصیت کے ساتھ ریچھ، کسی ٹکڑے میں بندر، کسی میں ہرن، کسی میں ہاتھی اور کہیں شیر رہتے ہیں ۔ تجربہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ جانور اپنی سرحد سے دوسرے جانوروں کی سرحد میں مصیبت پڑنے پر جا کر گھستے ہیں۔ مگر شیر ہر حصہ میں بن کے اور جانوروں کے ہر سرحد میں چلا جاتا ہے ۔ اس سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ سب جانوروں کا مہاراجا ہے اور سب جانور اس کی رعیت ہیں۔ جن علاقوں میں خاص کر شیرنیاں رہتی ہیں اور بچہ دیتی ہیں اور شیروں کے گرمی اور سردی کے رہنے کے جنگل مجھے اور میرے عزیزوں کو معلوم ہیں۔ ان اپنے عزیزوں میں سے فدوی ایک دو آدمیوں کو حضور کے ساتھ بھیج دے گا اور جب تک حضور شکار کھیلیں گے وہ حضور کے ساتھ رہیں گے۔ شیر کا شکار یہ غلام بھی کرتا ہے اگر حضور فرمائیں تو پہلے میں شکار کرکے اپنے کرتب دکھاؤں یا جب حضور اپنے قاعدے سے شیر کا شکار کر لیں تو غلام کو یاد فرمائیں غلام حاضر ہو کر اپنے شکار دکھائے۔ صاحب عالم نے خیال کیا کہ میں راجپوت سنگھ سے اگر یہ کہوں گا کہ تم شیر کا شکار دکھاؤ تو سمجھے گا کہ بادشاہ زادے کو شیر کا شکار نہیں آتا ہے، اس لیے کہا ہم اپنے طور پر شکار کھیلنا چاہتے ہیں، جب ہم شیروں کا شکار کر کے اپنا جی بھر لیں گے تو تمھیں بلا کر تمھاری ہنرمندی دیکھیں گے۔ البتہ تم اپنے دو تین آدمی رہبری کے لیے ہمارے ساتھ کردو۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...