اس آدمی کو دیکھ کر انسپکٹر عاصم کو عجیب سا احساس ہو رہا تھا، جیسے وہ اسے جانتے ہوں وہ ایک ریستوران میں بیٹھے کافی پی رہے تھے کہ وہ آدمی اندر داخل ہوا۔ درمیانہ قد، گھنی مونچھیں، ہلکا ہلکا شیو بڑھا ہوا تھا، جسے دیکھ کر خواہ مخواہ چبھن کا احساس ہونے لگا تھا۔ بال ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ وہ آدمی ایک کونے والی میز پر بیٹھ کرکسی مشروب سے شغل کرنے لگا۔ انسپکٹر عاصم ذہن پر زور دینے لگے کہ یہ شخص کون ہے، لیکن انہیں یاد نہیں آ رہا تھا۔ وہ بے چین ہو گئے۔ کبھی کبھی دزدیدہ نظروں سے اس آدمی کا جائزہ بھی لیتے جا رہے تھے۔ وہ آدمی سارے ماحول سے قطع تعلق صرف مشروب پر توجہ مرکوز کیے بیٹھا تھا۔ مشروب پیتے پیتے اس آدمی نے گردن کو پہلے دائیں جانب جھکایا اور پھر بائیں جانب جھٹکا دیا، جیسے وہ گردن کی ہڈیاں چٹخا رہا ہو۔ اس کی یہی حرکت انسپکٹر عاصم کو یاد دلا گئی کہ وہ کون ہے۔
انسپکٹر عاصم سنبھل کر بیٹھ گئے۔ وہ اپنے اعصابوں میں تناؤ کی سی کیفیت محسوس کرنے لگے تھے۔ وہ آدمی اسٹینلے تھا۔ دشمن ملک کا ایجنٹ۔۔۔ جو مسٹراسٹیل کے نام سے شہرت رکھتا تھا۔ وہ جس ملک کا رخ کرتا تھا وہ ہنگامے جنم لیتے تھے اور وہ ایسے معاملات میں ہاتھ ڈالتا تھا، جو بین الاقوامی سطح کے ہوتے تھے۔ اسٹینلے کے اس ملک میں آمد کے پیچھے یقیناً کوئی بڑا مقصد ہی ہو گا۔ انسپکٹر عاصم اضطراب کے عالم میں انگلیوں کی مدد سے میز کی سطح کھٹکھٹانے لگے تھے۔ ان کے وجود میں تلاطم پیدا ہو گیا تھا۔ یہ تو محض ایک اتفاق ہی تھا کہ انسپکٹر عاصم نے اسے اس کی ایک عادت کی وجہ سے پہچان لیا تھا ورنہ وہ سوچتے ہی رہ جاتے کہ یہ آدمی کون ہے اور وہ چلا بھی جاتا۔
مسٹراسٹیل وہاں آدھے گھنٹے تک بیٹھا رہا۔ پھر وہ اٹھ گیا وہ موٹر سائیکل پر آیا تھا۔ انسپکٹر عاصم اس کے روانہ ہوتے ہی لپک کر باہر نکلے اور اپنی جیب میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کیا۔ ان لمحات میں بھی وہ کافی کے پیسے رکھنا نہ بھولے تھے۔ جیپ غرا کر شکاری کتے کی طرح سڑک پر لپکی۔ تعاقب شروع ہو گیا۔ انسپکٹر عاصم نے موٹر سائیکل سے کافی فاصلہ رکھا تھا اور جیپ کی رفتار بھی اتنی ہی تھی، جتنی اسٹینلے کی موٹر سائیکل کی تھی۔ اس طرح نہ فاصلہ بڑھ رہا تھا اور نہ گھٹ رہا تھا۔ اس درمیانی فاصلے کے بیچ اور بھی کئی گاڑیاں درمیانی رفتار سے رواں دواں تھیں۔ یہی وجہ ہے مسٹراسٹیل کو تعاقب کا احساس نہیں ہوا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے جیب کے ڈیش بورڈ کو کھولا اور ریوالور دیکھ کر ان کو طمانیت کا احساس ہوا۔ اس کی وجہ وہ سادہ لباس میں تھے اور جپ بھی ان کی ذاتی تھی، اس لیے وہ اطمینان سے تعاقب کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد انسپکٹر عاصم تھوڑے فکر مند ہو گئے، کیوں کہ ایسا لگ رہا تھا کہ مسٹراسٹیل کو تعاقب کا پتا لگ گیا ہے اور وہ اب مختلف سڑکوں پر موٹر سائیکل کو بے مقصد بھگا رہا تھا۔ جب مسٹراسٹیل کو یقین ہو گیا کہ جیپ اسی کے تعاقب میں ہے تو اس نے موٹر سائیکل کی رفتار میں اچانک ہی اضافہ کر دیا۔ انسپکٹر عاصم نے بھی احتیاط اور تعاقب کی مصلحت کو بالائے طاق رکھ ایکسیلٹر پر پیر کا دباؤ بڑھا دیا۔ اب جیپ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح موٹر سائیکل کے پیچھے جھپٹ رہی تھی۔ اسٹیرنگ وہیل پر ان کے ہاتھوں کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ ہاتھوں کی نبضیں ابھر آئی تھیں۔ موٹر سائیکل کا رخ مضافات کی جانب تھا۔ ادھر ٹریفک بھی نہیں تھا، البتہ شہر کی روشنیاں اور اسٹریٹ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اندھیرا بہت زیادہ تھا۔ صرف ان دونوں گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی روشنیاں وہاں نظر آ رہی تھیں۔ موٹر سائیکل اور جیپ کا درمیانی فاصلہ کچھ کم ہوا تو انسپکٹر عاصم نے ریوالور پکڑ کر مسٹر اسٹیل کی جانب ایک فائر جھونک دیا۔ ویرانہ فائر کے دھماکے سے گونج اٹھا تھا، مگر گولی کسی اور جانب نکل گئی تھی۔ مسٹراسٹیل صاف بچ گیا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے پے در پے تواتر کے ساتھ تین فائر اور دے مارے۔ اس مرتبہ ایک گولی نے اپنا ہدف ڈھونڈ لیا۔ وہ موٹر سائیکل کے پچھلے ٹائر میں جا دھنسی۔ ٹائر بھی دھماکے سے پھٹا۔ موٹر سائیکل لہرائی اور اس کا توازن بگڑ گیا اور وہ سڑک سے نیچے اتر گئی۔
جب انسپکٹر عاصم وہاں تک پہنچے تو انہوں نے جیب کی ہیڈ الائٹس میں ہی دیکھ لیا تھا کہ موٹر سائیکل گری ہوئی ہے اور مسٹر اسٹیل غائب تھا۔ موٹر سائیکل کا پچھلا پھٹا ہوا ٹائر ابھی تک گھوم رہا تھا۔ انسپکٹر عاصم کے حواس پوری طرح بیدار تھے اور وہ کسی بھی ناگہانی اور اچانک مصیبت سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ وہاں درختوں اور جھاڑیوں کی بہتات تھی۔ کچھ دیر تک وہ مسٹر اسٹیل کو اندھیرے میں تلاش کرتے رہے۔ پھر انہوں نے ایک طویل اور گہری سانس لی۔ صاف ظاہر تھا کہ مسٹر اسٹیل اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اب تک تو وہ نہ جانے کہاں سے کہاں جا پہنچا ہو گا۔ یہ سوچ کر انسپکٹر عاصم کے اعصابوں کی اکڑن ختم ہو گئی اور وہ واپس جیپ کی طرف چل پڑے، لیکن وہ اس بات سے قطعی طور پر بے خبر تھے کہ ان سے کچھ فاصلے پر گھنی جھاڑیوں کی اوٹ سے انہیں دو بڑی بڑی اور انتہائی سرخ آنکھیں گھور رہی ہیں۔ یہ دہکتی ہوئی انگارہ آنکھیں کسی انسان کی ہرگز نہیں تھیں۔ اس جگہ دھیمی دھیمی غراہٹ بھی ابھر رہی تھی، غیر انسانی غراہٹ۔ اس نے ایک ہاتھ بڑھا کر سامنے کی جھاڑیاں ہٹائیں۔ اب انسپکٹر عاصم اسے صاف نظر آ رہے تھے۔ وہ جیپ کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔ اس نے بھی انسپکٹر عاصم کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ جیسے ہی جیپ اسٹارٹ ہوئی وہ ویرانہ ایک ہول ناک اور نکیلی دھاڑ سے لرزہ بر اندام ہونے لگا۔ انسپکٹر عاصم کا جسم اس دھاڑ سے سن پڑ گیا تھا۔
یک لخت ایک جانب کی جھاڑیوں میں زبردست ہلچل ہوئی اور ایک قومی الجثہ ہیولہ نکل کر ان کی جانب ہاتھ پھیلائے بڑھا۔ انسپکٹر عاصم نے اس طویل القامت خوفناک ہیولے کو دیکھا تو ان کے ہاتھ پیر یخ بستہ ہو گئے۔ لاشعوری طور پر انہوں نے ریوالور نکالا اور ہیولے کی جانب فائر جھونک دیا۔ دل میں چھید کر دینے والی ایک تیز اور عجیب سی چیخ ابھری اور ہیولہ اچھل کر زمین پر گرا۔ انسپکٹر عاصم نے وقت ضائع کیے بغیر جنونی حالت میں جیپ سڑک کے سینے پر چڑھا دی۔ عین اس لمحے ہیولہ دوبارہ اٹھا اور حیرت انگیز رفتار سے جیپ کے پیچھے دوڑا۔ ساتھ ساتھ وہ نکیلی آواز میں دھاڑ رہا تھا۔ اس کی رفتار دیکھ کر انسپکٹر عاصم کے دماغ بھک سے اڑ گیا۔ یوں لگتا تھا وہ بھاگ نہیں رہا، بلکہ اڑتا ہوا ان کی جانب لپک رہا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو چند ہی لمحوں بعد وہ جیپ کو پکڑے گا۔ انسپکٹر عاصم نے فل رفتار کر دی تھی۔ انہوں نے ونڈ اسکرین کے اوپر لگے ہوئے چوڑے بیک مرر میں ہیولے کو بھاگتے دیکھا۔ اندھیرے میں اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ کہ وہ کیا چیز ہے اور اس کا حلیہ کیسا ہے۔ یوں بھی انہیں اتنا ہوش کہاں تھا۔ ابھی تک انہیں صرف اپنی جان بچانے کی فکر لگی ہوئی تھی۔
انسپکٹر عاصم نے ایک ہاتھ اٹھایا اور ریوالور اپنے کندھے پر سے پیچھے موڑ کر گولی چلا دی۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے بھی شیشے میں دیکھا تھا۔ نشانہ غضب کا تھا۔ گولی ہیولے کے جسم کے کسی حصے میں جا کر پیوست ہو گئی۔ ہیولے نے پھر زور دار چیخ ماری۔ چیخ میں تکلیف کا عنصر نمایاں تھا۔ وہ لڑکھڑا کر گرا۔ اتنا وقت بہت تھا۔ جیپ آناً فاناً طوفانی جھکڑ کی طرح دور ہوتی چلی گئی۔ انسپکٹر عاصم کو اتنا ہوش نہیں تھا کہ وہ اس ہیولے کا حشر دیکھتے۔ یہی بہت تھا کہ وہ موت کے حلق سے واپس آ گئے تھے۔ وہ بہرحال انسان ہی تھے۔ اس قدر جان لیوا اور بھیانک صورت حال میں نڈر سے نڈر انسان کا پتا پانی ہو جائے۔ جیپ شتر بے مہار کی طرح واپس شہر کی جانب دوڑ رہی تھی۔
انہوں نے دور آ کر بھی اپنے عقب میں ایک طویل چیخ سنی۔ جس نے ایک سرد ترین لہر ان کے بدن میں دوڑا دی۔ انسپکٹر عاصم اپنے شہر کے حالات سے پوری طرح واقف تھے۔ کچھ عرصہ سے شہر میں گاہے بہ گاہے پراسرار اموات ہو رہی تھیں۔ انتہائی شقی القلبی سے انسانوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ اکثر لاشیں دو ٹکڑوں میں ہی ملتی تھیں۔ جیسے دو ہاتھیوں نے اپنی سونڈوں سے ان انسانوں کو جکڑ کر مخالف سمتوں میں کھینچا ہو۔ پہلے پہل یہی خیال کیا گیا کہ یہ کوئی جنونی گروہ ہے۔ جو محض جنون میں مبتلا ہو کر وحشیانہ طریقے سے قتل کرتا پھر رہا ہے، مگر قتل والی جگہوں پر ایسے عجیب و غریب نشانات بھی پائے گئے، جیسے وہ کسی جانور کے پنجوں کے ہوں۔ تب سے یہ وارداتیں پر اسرایت اختیار کر گئی تھیں۔ شہر میں اس وقت سے خوف وہراس کی فضا قائم ہو گئی تھی۔
باوجود کوشش کہ کوئی بھی یہ معمہ حل کر سکا اور نہ قاتل پکڑا جا سکا تھا۔ انسپکٹر عاصم سمجھ گئے تھے کہ یہ وہی خوفناک ہیولہ تھا، جس نے شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ پھر ان کا ذہن دھاگے کی طرح الجھتا چلا گیا۔ آخر وہ کون تھا؟ کیا تھا؟ وہ کوئی انسان تھا۔۔۔ یا کوئی درندہ تھا۔۔۔؟ یا پھر دونوں۔۔۔؟