“تم لوگ جو مرضی کہو میں تو اپنے دس جھولے پورے کر کے ہی اترونگی”
شوخ و چنچل سی حجاب اپنی چهوٹی بہنوں تحریم اور ثانیہ پر رعب ڈالتے ہوئے اپنی پینگ والا جهولا درختوں کی جهنڈ تک لے گئ
“حجاب صاحبہ ذرا آسمان سے نیچے تو آؤ“
ثانیہ نے مٹهیاں کس کر کمر پر رکھ لی
اور جونہی حجاب کا جهولا نیچے آیا ثانیہ نے جهولے کی تختی الٹ دی، حجاب منہ کے بل زمین پر گری.
”اوئ ماں” درد بھری چیخ حجاب کے منہ سے نکلی
تهوڑی دیر میں اماں بیلنا ہاتھ میں لے کر نمودار ہوئی
جونہی اماں کے ہاتھ میں بیلنا دیکھا تینوں گهر کی طرف بهاگی حجاب جو زمین پر پڑی کراه رہی تھی بهاگنے میں دونوں بہنوں سے آ گے تهی تینوں اپنے کمرے میں آگئی اور پهر جهگڑا شروع کر دیا. ماں کے قدموں کی آہٹ سنی تو کمرے میں سکوت طاری ہو گیا.
تینوں کو اس طرح خاموش دیکھ کر ماں کا غصہ ہوا ہو گیا.
وہ ان کے پاس بیٹھ گئی
”تم تینوں کا اس طرح گهر سے باہر جهولے لینا تمہارے بابا کو پسند نہیں ہے صباحت مزید کچھ اور کہنا چاہتی تھی کہ حجاب جهٹ سے بولی
“اماں محلے کی دوسری لڑکیاں بھی تو جهولے لیتی ہیں”
صباحت نے خفگی سے حجاب کی طرف دیکھا. “سمجھ دار بنو. تم تینوں اب چهوٹی بچیاں نہیں ہو. بڑی ہو گئی ہو.. اس عمر میں لڑکیاں اس طرح زیادہ دیر گهر سے باہر نہیں رہتی.”
حجاب کی عمر 23 برس تهی ثانیہ 18 اور تحریم 16 کی تھی….ماں کی نظر تحریم پر پڑی جو مسکرا رہی تھی.
”تم کس بات پر مسکرا رہی ہو؟ جو باتیں میں حجاب کو سمجھا رہی ہوں وہ تم تینوں کے لیے ہیں. آئندہ میں تم لوگوں کو جامن کے درخت کے پاس نہ دیکھوں. پڑھائ پر دھیان دو اور جب فراغت ملے گهر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹایا کرو”
ماں کے جانے کے بعد حجاب منہ لٹکا کے بیٹھ گئی.
“کاش ہمارے صحن میں بهی کوئی بڑا درخت ہوتا”
“چهوڑو حجاب تم تو سنجیدہ ہو گئ. ہم کبھی کبھی چپکے سے جهولا لے لیا کریں گے۔ ادهر کوئی نہیں ہوتا اور کتنا سناٹا ہوتا ہے..ماں ایسے ہی وہم کرتی ہے” تحریم کی بات پر ثانیہ بھی جهٹ سے بولی
“اگر ہمیں کوئی نا محرم نظر آیا تو هم فوراً گهر آجایا کرینگے”
حجاب بڑی باجی بن کر بولی “اپنی اپنی رائے دینا بند کرو جو اماں نے کہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو”
•●•●•●•●•●•●•●•●•
“میری چٹوری بیٹیاں کہاں ہیں” احسان الحق دونوں ہاتھوں میں شاپر اٹھائے گهر کے اندر داخل ہوئے.
تینوں اپنے دوپٹے درست کرتے ہوئے ابا کے پاس پہنچ گئیں
“یہ لو دہی بڑے اور امرتیاں” احسان الحق نے شاپر صباحت بیگم کو دیئے
صباحت نے خوشی سے چہکتی ہوئی بیٹیوں کی طرف دیکھا
“میٹھے کی تو یہ دیوانیاں ہیں آپ ہر روز کوئی نہ کوئی میٹھی چیز لاتے ہیں تو بھی ان کا دل نہیں بھرتا”
“نیک بخت خدا انہی کے نصیب کا تو دیتا ہے بس میری بیٹیاں یونہی مسکراتی رہیں ان پر غم کی پرچھائی بھی نہ پڑے” احسان الحق ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے
“آپ فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں” صباحت میز کا کپڑا درست کرنے لگی
“بہت تھکاوٹ ہوگئی ہے۔ ما شا اللہ آج بھی اپنے جنرل سٹور پر بہت رش ہے۔ ایک ملازم کے لیئے سنبھالنا بہت مشکل کام ہے سوچتا ہوں ایک ملازم اور رکھ لوں”
احسان الحق یہ کہتے ہوئے بستر پر دراز ہو گئے صباحت احسان الحق کے قریب بیٹھ کر انکے پاؤں دبانے لگی
“آپ اس قدر تھک جاتے ہیں پرواہ نہ کریں ایک ملازم اور رکھ لیں جان ہے تو جہان ہے”
حجاب کھانا گرم کر کے لے آئی
رات کے نو بج رہے تھے سب نے مل کر کھانا کھایا کھانے کے دوران احسان الحق بیٹیوں سے انکی پڑھائی کے متعلق باتیں کرتے رہے صباحت ان پڑھ تھی اس لیئے احسان الحق پڑھائے کے معاملے میں بیٹیوں پر خاص توجہ دیتے تھے
اگلی صبح حجاب کالج چلی گئی تحریم اور ثانیہ سکول چلی گئیں احسان الحق کے دکان جانے کے بعد صباحت بیگم گھر پر اکیلی تھیں وہ گهر کے کاموں میں مصروف تھی لیکن اس کا زہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا. اس کی پریشانی کی وجہ وہ واقعات تھے جو پچھلے ایک ہفتے سے حجاب کے ساتھ ہو رہے تھے اور اس نے ماں کو سنائے تهے.
چار دن پہلے جب حجاب اپنی بہنوں کے ساتھ جهولے لے رہی تھی تو اسے کسی کے کراہنے کی آواز آئی.اس نے جهولا روک دیا اور آواز کی سمت کی تعین کرنے لگی. وہ آواز کهجور کے درخت سے آ رہی تھی جو جامن کے درخت سے تهوڑے فاصلے پر تھا.
وہ درخت بہت قدیم تها.اس کا کهجوروں سے بهرا جهنڈ جیسے آسمان کو چهوتا تها.
بہنوں کے منع کرنے کے باوجود وہ آواز کے پیچھے چل پڑی. دور سے درخت کے پاس کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن جب حجاب درخت کے قریب گئ تو ایک بوڑھا ضعیف زمین پر پڑا کراه رہا تھا “پانی…پانی”
حجاب دوڑتی ہوئی گهر آئی اور پانی لے آئی
بوڑھا شخص اپنی جگہ سے غائب تھا اور اس کی جگہ تازہ گلابوں کا گلدستہ پڑا تھا
“:بوڑھا شخص کہاں گیا” وہ چاروں طرف نظریں دوڑانے لگی دور دور تک بوڑھے کا نام و نشان نہ تھا
“لیکن یہ گلدستہ کس کا ہے؟” یہاں تو دور دور تک کوئی بھی نہیں ہے”
حجاب نے کچھ سوچا اور پھر گلدستہ اٹھا کر سونگھنے لگی. پهولوں کی دلفریب مہک نے اس کی رگوں میں اتر گئی۔ حجاب کے کمرےسے گلاس ٹوٹنے کی آواز نے صباحت کو اس پر اسرار خیال سے چونکا دیا وہ ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے حجاب کے کمرے کی طرف جانے لگی
“شاید بلی کمرے میں چلی گئی ہے ” پھر اچانک دروازوں کے کهلنے، بند ہونے اور چیزوں کے گهسیٹنے کی آوازوں نے اس کا دل دہلا دیا.
اس کے قدم منجمند ہو گئے اس نے عقبی دروازے کے طرف دیکھا جو بند تها مگر مسلسل ایسی آوازیں آرہی تھی جیسے کوئی برقی سرعت سے کچھ ڈھونڈنےکی کوشش کر رہا ہو. اس احساس نے اس کا خوف مزید بڑھا دیا تھا کہ اس نے کسی انسان کو اندر آتے نہیں دیکھا تو پھر یہ آوازیں کیسی ہیں؟
اس نے ایک لمبا سانس کھینچا اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کمرے کی طرف بڑھنے لگی جونہی وہ کمرے کے نزدیک پہنچی یکلخت سکوت چھا گیا
صباحت نے کمرے کا دروازہ کھولا سنسناہٹ کے جھٹکے سے وہ چکرا کر رہ گئی کمرے کی ہر چیز اپنی جگہ پر سیٹ تهی . وہ کپڑوں کی الماری کی طرف بڑھی کیونکہ اس نے الماری کے کهلنے اور بند ہونے کی آواز سنی تھی جیسے کوئی الماری کی چیزیں الٹ پلٹ کر رہا ہو
اس نے الماری کهولی تو سارے کپڑےاپنی جگہ تہہ در تہہ موجود تھے باقی چیزیں بھی سیٹ تھیں. گلاس بھی اپنی جگہ موجود تھا شیشے کی کوئی چیز نہیں ٹوٹی تھی
صباحت دوڑتے ہوئے باہر جانے لگی تو تازہ گلابوں کی خوشبو نے اس کے قدم روک دیے. اس نے میز کی طرف دیکھا جہاں پر جار میں بلکل ویسا ہی گلدستہ لگا ہوا تھا جیسا حجاب کچھ روز پہلے باہر سے لائی تھی اور صباحت نے وہ گلدستہ باہر پھینک دیا تھا.
صباحت تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی اور دروازہ بند کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگی اسکی آنکھیں بند تھیں کہ کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا صباحت چیخ اٹھی. سامنے آمنہ بیگم مبہوت نظروں سے صباحت کو دیکھ رہی تھی.
“خیریت ہے صباحت۔۔؟؟ مجھے دیکھ کر ڈر کیوں گئ ہو؟”
“کچھ نہیں بس..” صباحت نے اپنا پسینہ پونچھا اور آمنہ کے ساتھ باہر آنگن میں بیٹھ گئی آمنہ ان کی پڑوسن تھی گنتی کے دو تین گھر تھے محلے میں باقی دور دور تک ویران زمین تھی
“تم سناؤ گهر میں سب ٹھیک ہیں؟” صباحت بات تو آمنہ سے کر رہی تھی مگر دھیان کمرے کی طرف تھا
“تم اندر کمرے میں کیا دیکھ رہی ہو کچھ گڑ بڑ ہے” آمنہ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا
“ایک خوف سا دل میں پھن پھیلائے بیٹھا ہے پچھلے چند دنوں سے گھر میں عجیب و غریب واقعات ہو رہے ہیں ابھی کچھ دیر پہلے حجاب کے کمرے سے چیزوں کے الٹ پلٹ ہونے کی آوازیں آ رہی تھی میں نے اندر جا کر دیکھا تو ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی”
آمنہ سرگوشی کے انداز میں بولی
“میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ لڑکیوں کو کهجور کے درخت کے پاس نہ جانے دیا کرو. لوگوں نے اس درخت سے کیسی کیسی کہانیاں منسوب ہیں کچھ خبر بھی ہے؟ کوئی کہتا ہے کوئی جن زدہ ہے جس نے اس درخت پر سالوں سے بسیرا کیا ہوا ہے کوئی کہتا ہے کسی نوجوان کی بهٹکتی روح ہے جو اس درخت کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے ”
خوف سے صباحت کے ہونٹ کانپنے لگے
“میں بهی اس درخت کے پاس بہت دفعہ گزری ہوں. مجھے تو ایسا کچھ محسوس نہ ہوا”
“ارے صباحت کچھ لوگوں نے تو اسے دیکھا بھی ہے. کہتے ہیں بڑا خوبصورت جوان ہے. رات بارہ بجے کے بعد دکھائی دیتا ہے مگر پاس جاؤ تو کسی پرچھائی کی طرح اوجھل ہو جاتا ہے.”
“ت…..تت۔۔۔۔۔تم نے دیکھا ہے کبھی؟” صباحت نے حلق تر کرتے ہوئے پوچھا
“خدا نہ دکھائے مجھے. میری تو جان ہی نکل جائے گی.. میں تو وہ بتا رہی ہوں جو میں نے سنا ہے اور ہاں صباحت اپنے گهر میں کوئی دم درود کروا لے. تیری جوان بیٹیاں ہیں اوہ ہاں میں جس کام کے لیئے آئی تھی وہ تو بھول ہی گئی تم نے ملازمہ کے لیئے کہا تھا کل ایک عورت آئے گی پسند آئے تو کام پر رکھ لینا اب میں چلتی ہوں”
آمنہ چلی گئی لیکن اسکی باتیں صباحت کے کانوں میں گونجتی رہیں
احسان الحق آئے تو صباحت نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا احسان الحق نے تمسخرانہ انداز میں صباحت کی بات سنی پھر خوشی کی خبر سنا کر پریشانی دور بھی کر دی.
“کیا بنا گھر کا” مارے خشی کے صباحت کی سانس ہی پھول گئی
“پچھلے چار ماہ سے گهر ڈهونڈ رہا تھا. اللہ نے بہت کرم کیا ہے اور ایساہی ایک گهر ملا ہے جیسا میں ڈهونڈ رہا تھا.آج شام تمہیں لے جاونگا. اگر پسند آیا تو بیعانہ دے کر سودا پکا کروا لونگا.
“لیکن آپ نے پہلے تو کبھی ذکر نہیں کیا اس طرح اچانک” صباحت احسان الحق کے قریب بیٹھ گئی
“میں تمہیں یہ خبر اچانک ہی دینا چاہتا تھا خدا نے هر نعمت سے نوازا ہے بس اپنا گهر مل جائے گا تو زندگی جنت بن جائے گی” احسان الحق نے ٹھنڈی آہ بھر کر تکیئے سے پشت لگا لی صباحت سر جھکائے نہ جانے کن خیالوں میں کھو گئی
کہ اسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی. احسان الحق اس سے باتیں کرتے رہے اپنی باتوں کا جواب نہ پا کر احسان الحق نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا
“مسکراتے مسکراتے تمہیں اسا کیا خیال آیا کہ اداس ہو گئی ہو؟”
“سوچ رہی تھی کاش همارا کوئی بیٹا بھی ہوتا”
احسان الحق نے اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیا اور بولے “جو اللہ کی رضا ہے اس میں خوش رہنا چاہیئے اور یہ بات کافی نہیں کہ ہم بے اولاد نہیں ہیں. ہماری تین بیٹیاں ہیں چلو اب موڈ ٹھیک کرو اور اس خوشی کے موقع پر کوئی سویٹ ڈش پکاؤ”
صباحت احسان الحق کے ساتھ جا کر وہ گهر دیکھ آئی اور اس کو پسند آیا. احسان الحق نے وہ گهر خرید لیا . اب شفٹ ہو جانے کا مسئلہ تها.
تینوں بہنیں رات کے دس بجے بیٹھ کر نئے گهر کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں.
“میں تو بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔اگلے ہفتے ہم اپنے گهر جا رہے ہیں. ثانیہ نے حجاب کی طرف دیکھتے ہوئے خوشی سے کہا.
حجاب جو سر جهکائے اداس سی بیٹھی تھی.
“گهر کرائے کا ہو یا ذاتی. گهر تو گهر ہوتا ہے اور ہمارا بچپن تو اسی گهر میں گزرا ہے. کہتے ہیں جہاں بچپن گزرا ہو وہ گھر کبھی نہیں بھولتا”
بات کرتے حجاب کی نظر کهڑکی کی طرف تھی جہاں جامن کا درخت دکھائی دے رہا تھا چاند کی روشنی هر سو پهیلی تھی. جس سے جامن کے درخت پر اٹکا جھولا بھی دکھائی دے رہا تھا
حجاب کیا بات کر رہی تھی بهول گئ اسکی ساری توجہ جھولے کی طرف مبزول ہو گئی ایک درخت سے دوسرے درخت تک وہ جهولا ایسے جهول رہا تھا جیسے کوئی اس پر بیٹھا پینگھ جهول رہا ہو لیکن جهولا خالی تھا.اس پر کوئی نہیں تھا حجاب حیرت سے بولی.
“وہ دیکھو جهولے کی طرف وہ کس طرح ہل رہا ہے”
ثانیہ نے نظریں اٹھائے بغیر کہا
“ہوا سے ہل رہا ہوگا”
“باہر تو ایک پتا بھی نہیں ہل رہا تو جهولا کیسے جھول رہا ہے”
حجاب کے کہنے پر تحریم نے کھڑکی کی طرف دیکھا تو جهولا رک گیا.
حجاب کی حیرت میں ڈوبی آواز ایک بار پھر تحریم کے کانوں سے ٹکرائ.
“تحریم جهولے کے پاس کوئی کهڑا ہے. شاید کوئی نوجوان ہے”
تحریم نے باہر دیکھا
“حجاب تمہیں کیا ہوگیا ہے باہر تو کوئی بھی نہیں ہے
“تحریم ثانیہ وہ دیکھو جھولے کے پاس کھڑا ہے چاند کی چودھویں رات ہے اسکا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ کوئی کھڑا ہے”
حجاب انگلی سے اشارہ کرنے لگی تو تحریم نے اٹھ کر کھڑکی بند کر دی رات گئے تک حجاب یہی سوچتی رہی کہ درخت کے پاس کھڑا وہ شخص ثانیہ اور تحریم کو کیوں دکھائی نہیں دیا اس رات اس نے بہت خواب دیکھے وہ سوتی تو خوفناک خوابوں سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی
ایک خواب جو اسے مسلسل ایک ہفتے سے آ رہا تھا اس خواب کے منظر اسکے لاشعور میں منڈلانے لگے
حجاب ہاتھوں میں دیا اٹھائے کسی مزار میں داخل ہوتی ہے وہ نہیں جانتی کہ یہ مزار کس بزرگ کا ہے لیکن اس مزار کے درو دیوار اسے یہ احساس دلاتے ہیں جیسے وہ یہاں کئی مرتبہ آ چکی ہے
بے انتہا ہجوم لوگوں کی آمد مزار پر اس طرح ہو رہی تھی جیسے سمندر کی موجیں ایک دوسرے کو دھکیلتی کنارے پر جا پہنچی ہوں وہ بھی لوگوں کو پیچھے دھکیلتی آگے بڑھتی جا رہی تھی
مزار کے بڑے صحن میں داخل ہوتے ہی لوگ ادھر ادھر تقسیم ہوگئے اب صحن میں تھوڑے ہی لوگ نظر آ رہے تھے حجاب کے قدم رک گئے ہزاروں کبوتر دانہ چنتے ہوئے خوبصورت دکھائی دے رہے تھے قوالی کے دل کو چھو لینے والے سُر فضا کو مخمور کیئے ہوئے تھے
حجاب نے قوالی پڑھنے والوں کی طرف دیکھا تو اس کے جسم میں ارتعاش کی لہر دوڑ گئی سفید قمیض شلوار میں ملبوس ایک نوجوان قوالی کی دهن پر گھٹنوں کے بل بیٹھا اپنے سرکو گھما رہا تھا. اس کے بال اس کے شانوں تک تهے اور وہ ایسے جھوم رہا تھا کہ کوئی اسکو مسلسل دیکھے تو چکرا جائے
اس نوجواں نے حجاب کی طرف نہیں دیکھا وہ تو بس مست تھا مگر اس میں ایسی کوئی بات تھی کہ حجاب اسکی طرف کھنچتی چلی گئی حجاب اسکے پاس جا کر کھڑی ہوگئی وہ نوجوان ساکت ہو گیا. اس نے سر اٹھایا اور حجاب کو دیکھا.۔اس کی آنکھوں میں طلسم تھا. عقیدت کا نور تھا. ایک جنون تھا. ایسی گہرائی کہ انسان اس میں ڈوب کر دنیا تیاگ دے.
گورے چہرے میں بے ترتیب گرے ہوئے سیاه بالوں میں وہ بے حد خوبصورت لگ رہا تھا. حجاب کی نظر اس کے چہرے پر ٹھہر گئ
“دیکھنے میں تو کسی ریاست کا شہزادہ لگتا ہے اور کس طرح فقیر کی طرح مست ہے” حجاب نے من میں کہا.
نوجوان نے دونوں ہاتھ کشکول کی طرح حجاب کے آگے پهیلا دئیے.
حجاب نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا.
اس کا نفیس لباس اس کی پر کشش شخصیت کا آئینہ دار تھا. حجاب نے بوکھلاتے ہوئے پچاس روپے اس کے ہاتھوں پر رکھ دیئے.
اس نے حجاب کی طرف اس طرح دیکھا کہ محسوسات کا ایک سمندر اس کی آنکھوں میں امڈ آیا. ہاتھ پیچھے ہٹے تو اس کی آنکھیں کشکول بن گئی. حجاب کانپتے ہونٹوں سے بولی.
“کک…ک..کیا..کیا چاہئے تمہیں؟”
وہ خاموشی سے حجاب کی طرف دیکھتا رہا. کہ اچانک دو آدمی اسکی طرف بڑھے وہ اس کے جسم سے اس طرح گزر گئے جیسے ہوا سے۔ حجاب کے حلق سے چیخیں نکل گئی. وہ بستر سے چیخیں مارتی ہوئی اٹھی. اس کی چیخیں سن کر تحریم اپنے بستر سے اٹھی اس کے پاس آئی اس نے جلدی سے اسے گلے لگایا اور پانی دیا. وہ اس کے چہرے سے پسینہ صاف کرنے لگی
“کیا ہوا؟ کیا پهر وہی خواب دیکھا ہے ڈراونا خواب دیکها ہے؟“
حجاب اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولی “وہی خواب بار بار آتا ہے”
“ادھر آؤ میرے ساتھ لیٹ جاو.” تحریم نے اسے اپنے بستر پرلٹا دیا اور آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کرنے لگی ۔ تھوڑی ہی دیر میں حجاب گہری نیند سوگئی۔
سنڈے کو تو بہت مزے سے تینوں بہنیں بستر میں گھسی رہتی تھیں لیکن آج تو امی نے صبح سات بجے ہی جگا دیا۔صباحت کی سخت آواز پر تینوں آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھیں۔
“آج تو چھٹی کا دن ہے ۔آج آپ نے کیوں جگا دیا۔“
“تینوں اٹھ کے منہ ہاتھ دھولو۔ میں نے ٹیبل پر ناشتہ لگا دیا ہے۔‘‘ امی نے ایک بار پھر احکام جاری کیے۔
’’ کیا کہیں جانا ہے۔‘‘ حجاب نے بہ مشکل آنکھیں کھولیں۔
“کہیں نہیں جانا۔ میں نے الماریاں خالی کی ہیں تم تینوں نے ناشتہ کرنے کے بعد اٹیچی کیس سیٹ کرنے ہیں۔‘‘ صباحت بستر سمیٹتی ہوئی ثانیہ کے کھیس کی تہہ لگانے لگی تو اس نے کھیسں کا ایک کونہ پکڑ لیا۔
“ابھی تو دودن باقی ہیں شفٹ ہونے میں۔”
صباحت مسکراتے ہوۓ ان کے قریب بیٹھ گئی۔ “میری جان اور بھی تو بہت سے کام ہیں۔‘‘
تحریم نے ماں کے گلے میں بانہیں حائل کر لیں ۔ ’’اتنے پیار سے کہیں تو ہم اس کے لئے تارے بھی تو ڑلائیں‘‘
“بس بس ! زیادہ ڈائیلاگ نہ مارو۔ جلدی سے بستر چھوڑو۔‘‘ یہ کہہ کے صباحت کچن میں چلی گئی۔
تینوں بہنیں ناشتے سے فارغ ہوکر ماں کا ہاتھ بٹانے لگیں۔ حجاب ماں کے ساتھ مل کر جرسیوں کو پیکٹوں میں ڈال رہی تھی ۔
صباحت اکثر اپنے دل کی باتیں، گھریلو مسئلے حجاب سے ڈسکس کرتی تھی۔ وہ حجاب میں یہ شعور بیدار کرنا چاہتی تھی کہ وہ ثانی اور تحریم کی بڑی بہن ہے ۔اسے ابھی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئے۔
’’خدانے بہت بڑی خواہش پوری کی ہے۔ اپنا گھر بہت بڑی نعمت ہوتا ہے۔ بہت نصیبوں والے ہیں جو خدا نے ہم پر اتنا کرم کیا۔ تم تینوں کو کیسا لگ رہا ہے؟ نئے گھر میں جانا۔ ثانیہ اور تحریم تو بہت خوش ہیں۔” صباحت نے حجاب کے چہرے کی طرف دیکھا۔ “اور تم‘‘
“گھر جانے کی خوشی تو ہے مگر عجیب سی اداسی عجیب بے چینی ہے طبیعت میں۔”
“کیسی اداسی۔” کپڑے صباحت کے ہاتھ میں ہی رہ گئے۔
“بار بار ایسا لگتا ہے جیسے اس گھر سے جاتے وقت میرا کچھ یہاں رہ جائے گا۔‘‘ حجاب پوری طرح اپنی بات کی وضاحت نہیں کرسکی ۔
صباحت مسکرا کر کپڑے دوبارہ تہہ کرنے لگی۔ “بس اتنی سی بات، میں خود اپنی بیٹی کی چیزیں پیک کروں گی۔”
ثانیہ دوڑتی ہوئی حجاب کے پاس آئی ۔ “حجاب صحن میں آؤ تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔‘‘
“مجھ سے ملنے مگر کون” حجاب نے ثانیہ کی طرف دیکھا۔ …
تحریم بھی کمرے میں آ گئی۔
دونوں بہنوں کی بات سن کر اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔
“آ جاؤ حجاب صاحبہ واقعی کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔”
“بتاتی کیوں نہیں کہ کون ہے۔‘‘
اس بار حجاب تحریم سے مخاطب ہوئی جو مسلسل ہنس رہی تھی۔
“وہ تمہارا کبوتر باہر منڈیر پر بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہے، تم روزانہ شام میں اسے دانہ ڈالتی ہو بڑا پڑھا لکھا کبوتر ہے اتوار کو اس وقت آیا ہے۔” تحریم نے مذاق کے انداز میں ہاتھ گھماتے ہوۓ کہا۔
“اوہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ وہی کبوتر ہے۔“
”میں نے اس کے پاؤں میں وہی سبز چھلا دیکھا ہے جو تم نے اسے پہنایا تھا۔” یہ سنتے ہی حجاب دوڑتی۔ ہوئی کچن کی طرف گئی ، اس نے کچن سے باجرہ لیا اور آنگن میں گئی۔
سفید کبوتر منڈیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ حجاب نے زمین پر دانہ پھینکا۔
”میرے پیارے کبوتر ،لودانہ چن لو۔” سفید کبوتر اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا جبکہ وہ حجاب کے دانہ پھینکنے پر بہت شوق سے دانہ چگتا تھا۔
“آج یہ دانہ کیوں نہیں کھا رہا۔‘‘ حجاب نے من ہی من میں سوچا پھر اس نے اسے پیار سے سسکارا۔ کبوتر اپنی جگہ سے اڑ گیا۔حجاب اس کے پیچھے دوڑتی ہوئی عقبی دروازے تک چلی گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ کبوتر کھجور کے درخت پر جا بیٹھا ہے ۔ حجاب ہاتھ میں دانہ لئے بجھی بجھی کی امی کے کمرے میں واپس آ گئی۔
’’کیا ہوا ایسی اداس شکل کیوں بنارکھی ہے۔‘‘ ثانی اٹیچی کیس میں کپڑے سیٹ کرتے ہوۓ بولی۔
’’وہ ناں آج کبوتر نے دانہ نہیں چگا۔”
“خفا ہو گیا ہے تم سے۔ تم جو گھر چھوڑ کے جارہی ہو۔‘‘ ثانیہ نے جملے کسا۔
اتوار کا پورا دن گھر کی چیز میں سمیٹنے میں ہی گزر گیا۔ رات کو احسان الحق گھر آۓ تو بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھ منہ دھویا اور جلدی سءلے صباحت سے بولے
“جلدی سے اپنی چادر لو اور میرے ساتھ چلو” پھر وہ حجاب کی طرف بڑھے اور کہا ” اپنی دونوں بہنوں کا خیال رکھنا”
“مگر آپ کہاں جارہے ہیں۔” حجاب پر پیشان ہوگئی ۔
”جن لوگوں سے ہم نے گھر خریدا تھا، ان کی والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے وہ ہاسپٹل میں ہیں۔ ہم انہیں دیکھنے جارہے ہیں تم تینوں نے بناء پو چھے دروازہ نہیں کھولنا۔“ یہ کہ کراحسان الحق اور صباحت ہاسپٹل چلے گئے ۔
رات کے نو بج رہے تھے۔ تینوں بہنیں اپنے کمرے میں بیٹھ گئیں ۔ حجاب نے ثانیہ اورتحریم سے کہا۔
”تم دونوں کھانا کھا لو۔ کافی وقت ہو گیا ہے۔ ہوسکتا ہے امی ابو کو دیر ہو جائے۔‘‘ ثانیہ نے تکیئے کو موڑ کر گود میں رکھ لیا
“جتنی مرضی دیر ہو جاۓ کھانا تو میں ان کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔”
“اور تم تحریم”
“میں بھی ابا کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔” ثانیہ اپنا فریم لگا کرتہ اور کڑھائی کا سوتی دھاگہ لے کر بیٹھ گئی۔
’’تو ٹھیک ہے۔‘‘ حجاب نے بھی بک شیلف سے اچھی سی بک اٹھائی اور دونوں بہنیں مصروف ہوگئیں۔
تحریم نے حجاب کی طرف دیکھا۔ “حجاب تمہیں پتہ ہے امی گھر بدلنے پر اس قدرخوش کیوں ہیں؟‘‘
حجاب نے تحریم کے احمقانہ سوال پر ترچھی نظر سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’اس میں کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔اماں کا تو برسوں کا خواب تھا کہ ہمارا اپنا گھر ہو۔‘‘
تحریم حجاب کے تھوڑ اقریب ہوئی ۔ “وہ بات تو ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے۔
ہر تحریم نے سرگوشی کے انداز میں بات شروع کی۔
“اماں ابا سے ان پراسرار واقعات کا ذکر کر رہی تھیں جوتمہارے ساتھ پیش آۓ ۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ جب تم کالج چلی جاتی ہو تو تمہارے کمرے سے عجیب وغریب آوازیں آتی ہیں۔ چیزوں کے گھسیٹنے کی آوازیں عجیب سا شور ہوتا ہے جب امی دروازہ کھولتی ہیں ہر چیرز سیٹ ہوتی ہے۔”
تحریم کی بات پر ثانیہ چونکی تو سوئی اس کی انگشت میں گھس گئی ۔ وہ بلا تامل بولی۔
“تحریم تم نے چولہے پر کچھ رکھا ہے۔ مجھے جلنے کی بو آ رہی ہے۔ جاؤ جا کے ذرا دیکھ کے آؤ۔”
تحریم کچن میں گئی تو ثانیہ بھی اس کے پیچھے پیچھے کچن میں چلی گئی۔
“یہ تم کیا اناپ شناپ بول رہی تھی ۔اماں نے منع کیا ہے کہ حجاب سے ان باتوں کا ذکر نہیں کرنا۔ پہلے یہ کہ وہ رات کو کوئی نہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر ڈر جاتی ہے۔ ویسے بھی کیا معلوم کہ ان باتوں میں کتنی حقیقت ہے۔”
ثانیہ اور تحریم کمرے میں واپس آئیں تو حجاب کھوئی کھوئی پریشان بیٹھی تھی۔اس نے فوراً ثانیہ سے پوچھا۔ “تحریم کیا کہ رہی ہے ۔‘‘
ثانیہ نے اپنا کڑھائی والا فریم دوبارہ ہاتھ میں لے لیا۔ ’’امی کو وہم ہوا ہوگا تمہیں تو پتہ ہے نا کہ تحریم کو کہانیاں بنانے کی عادت ہے۔ تم اس کی باتوں پر کان مت دھرو”
حجاب نے تحریم کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چراتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ حجاب نے دوبارہ کتاب پڑھنا شروع کر دی۔ اس کی نظریں تو کتاب پر تھیں لیکن اس کا دھیان کہیں اور تھا، وہ ثانیہ کی کہی ہوئی باتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی۔حجاب دروازہ کھولنے باہرصحن میں گئی ۔ “کون……” حجاب نے دروازے کے قریب کھڑے ہو کر پوچھا۔
”کھولیں ۔” باہرکوئی نہایت شائستگی سے بولا
حجاب نے درواز کھولا تو ہوا کا ایک جھونکا اس کے جسم کو چھو کر گزر گیا۔ اس کا دوپٹہ اڑ کر دروازے کی تار سے اٹک گیا۔ اس نے جلدی سے اپنادوپٹہ کھینچا اور دور تک نظر دوڑائی مگر باہر کوئی نہیں تھا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا۔
“باہر کوئی نہیں ہے تو آواز کس کی تھی؟‘‘ وہ سہمی سہمی صحن میں نظر دوڑانے لگی۔ موسم میں حبس تھا۔ درختوں کے پتوں میں معمولی لرزش تک نہ تھی۔ یہ ہوا کا کیسا جھونکا تھا جس نے حجاب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس احساس نے حجاب کو خوفزدہ کر دیا۔
آج چاند کی چودھویں رات تھی ۔ چاندنی کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی نے رات کی سیاہی کو کم کر دیا تھا صحن میں سکوت چھایا تھا حجاب اندر جانے لگی تو صحن میں بکھرے خشک پتوں پرکسی کے قدموں کی چاپ نے اس کے قدم روکدیئے
ایک پل میں وہ کسی کے اپنے قریب ہونے کے احساس سے کانپ کے رہ گئی۔ وہ بے ساختہ چیخ اٹھی جس کے ساتھ ہی اس کے قدموں کے پاس سے کوئی پرندہ پھر پھڑھڑانے کی آواز پر حجاب کی نظریں چھت تک چلی گئیں۔ اس کا سپاٹ چہرہ خوف سے فق ہو گیا۔
چھت کی منڈیر کے قریب سفید کپڑوں میں ملبوس کوئی کھڑا تھا جسے دیکھ کر حجاب کو اپنا خواب یاد آ گیا۔ وہی سراپا، وہی قد و قامت، ویسے ہی کندھوں تک لیے بال، چاند کی چودھویں میں چمکتا ہوا چہرہ ۔ یہ ویسا ہی نو جوان تھا جو حجاب کو خواب میں بار بارکسی مزار میں مست دکھائی دیتا تھا۔ حجاب جب بھی اس کی طرف دیکھتی تھی وہ اپنی آنکھیں جھپکنا بھول جاتی تھی۔ وہ ساحر اسے ایسی اپنی کسی جادوئی قوت میں جکڑ لیتا تھا۔ ثانیہ کے باہر آنے پر وہ نو جوان غائب ہو گیا۔
“حجاب! تم اوپر کیا دیکھ رہی ہو؟” تانیہ کی آواز پر حجاب چونک پڑی ۔ثانیہ نے اس کا پسینے سے تر چہرہ دیکھا تو اسے کھینچتی ہوئی اندر لے گئی۔ وہ گھبرائی ہوئی تحریم کے پاس بیٹھ گئی ۔
“حجاب باہر کون تھا؟ تحریم نے پوچھا
“با۔۔۔باہر……….” حجاب کے منہ سے اٹک اٹک کے الفاظ نکلے۔
’’ہاں ! باہر دستک ہوئی تھی تو کون تھا ۔‘‘
“کوئی نہیں تھا۔” یہ کہہ کر حجاب پانی لینے فریج کی طرف بڑھی ۔
ثانیہ سمٹ کے تحریم کے پاس بیٹھ گئی۔ ’’اماں اور ابا کب آئیں گے، مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ پتہ نہیں باہرکون تھا۔ حجاب کے دروازہ کھولنے پر کہیں چھپ نہ گیا ہو۔”
تحریم نے اسے اپنے شانے سے لگا لیا۔
“خدا ہمارے ساتھ ہے کچھ نہیں ہوگا”
آدھے گھنٹے کے بعد صباحت نے بیٹیوں سے خفگی کا اظہار کیا اور کھانا گرم کرنے لگی ۔صباحت نے کھانا میز پر لگا دیا ۔ تو ثانیہ اور تحریم جلدی سے کرسیوں پر بیٹھ گئیں
“حجاب کہاں ہے؟‘‘ احسان الحق نے پوچھا۔
“وہ اپنے کمرے میں ہے، میں نے اسے کھانے کا کہا تو کہنے لگی کہ دل نہیں چاہ رہا۔” ثانیہ نے کہا
“ایسے ہی دل نہیں چاہ رہا میں اسے لے کر آتا ہوں” احسان الحق حجاب کے کمرے میں گئے ۔ حجاب اپنے بستر پر نیم دراز تھی ۔ باپ کی آواز سن کر وہ اپنا دو پٹہ درست کرتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔
” کیا بات ہے بیٹی! آپ کھانا کیوں نہیں کھار ہیں۔ آپ کو پتہ ہے گیارہ بج رہے ہیں ۔ آپ تینوں بہنوں کو کھانا کھا لینا چاہیے تھا آپ کو ہمارا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا۔” احسان الحق نے حجاب کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، وہ بخار میں تپ رہی تھی۔
“صباحت” احسان الحق نے پریشانی میں صباحت کو بلایا صباحت نے حجاب کو اس طرح بخار میں دیکھا تو اس کی بھوک اڑ گئی۔
“میری بچی! میں توتمہیں ٹھیک چھوڑ گئی تھی یہ اچانک تمہیں کیا ہو گیا؟‘‘
احسان الحق ڈاکٹر کو لینے چلے گئے۔ تیز بخار میں حجاب کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ ہونٹوں پر پیڑیاں جم گئیں ۔ آنکھوں میں غنودگی کا خمار تھا۔ ڈاکٹر نے حجاب کو میڈ یسن لکھ کے دی اور انجکشن لگا دیا جس کے بعد وہ سوگئی۔
”صباحت! ڈاکٹر صاحب کے لئے چائے بنا دو۔‘” احسان الحق نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھتے ہوۓ کہا۔
”نہیں! آپ چاۓ کا تکلف نہ کریں ۔
’’ڈاکٹر صاحب! حجاب کا بخار ….” احسان الحق ابھی اپنی بات نہ کر پائے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ حجاب کو صرف بخار ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جلدی آرام آ جاۓ گا۔ لیکن ڈاکٹر ہونے کے ناطے آپ کو ایک بات سمجھانا چاہوں گا۔ حجاب کا نہ تو گلہ خراب ہے اور نہ ہی کوئی فزیکل پرابلم ہے اور ایسے بخار کی وجہ فرسٹریشن یا خوف ہو سکتا ہے اپنی مصروفیت سے تھوڑا وقت نکال کر اپنی بیٹیوں سے چھوٹے چھوٹے مسائل شیئر کیا کر لیں۔ اب مجھے اجازت دیں ۔” یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب چلے گئے ۔
اپنی تینوں بیٹیوں میں تو احسان الحق کی جان تھی۔ دونوں میاں بیوی رات بھر حجاب کے پاس بیٹھے رہے ۔صبح حجاب اس طرح فریش تھی کہ اسے گماں تک نہ تھا کہ اسے رات بھر بخار تھا۔ بیٹی کو تندرست دیکھ کر احسان الحق کے چہرے پر بشاشت دوڑ گئی۔
’’اس فرائیڈے کو اپنی بیٹیوں کو پکنک کے لئے لے جاؤں گا۔ ”
’’اس فرائیڈے کوتو آپ کہہ رہے تھے کہ ہم نے نئے گھر شفٹ ہونا ہے” ثانیہ نے کہا۔
“نئے گھر کی شفٹنگ کا پروگرام پندرہ روز بعد ہے ۔ احسان الحق نے کہاتو تحریم نے بڑاسا نعرہ لگایا۔
“اس فرائیڈے کو ہمارا پکنک کا پروگرام پکا ہے” احسان الحق نے مسکراتے ہوئے تحریم کے بولوں کو سہلایا۔
سوموار کے دن حسب معمول حجاب کالج اور دونوں بہنیں تحریم اور ثانی سکول چلی گئیں۔صباحت گھر کے کام کاج میں مشغول ہوگئی ۔ اس نے ملازمہ کے ساتھ مل کر گھر کا کام ختم کیا اور پھر کسی سے موبائل پر بات کرنے لگی۔
’’جی میں صباحت بول رہی ہوں ۔ مجھے باجی بختاور سے ملنا ہے ٹھیک ہے ٹھیک ہے! میں ایک بجے کے قریب آ جاؤں گی۔” یہ کہہ کر صباحت نے فون بند کر دیا۔
وہ ایک بجے کے قریب رکشہ میں بیٹھ کر ایک عالیشان کوٹھی میں چلی گئی ۔ ملازمہ نے اس سے اس کا نام پوچھا پھر صباحت کو مہمان خانے میں بیٹھنے کے لئے کہا۔ صباحت مہمان خانے میں بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکی ٹی ٹرالی میں چائے اور ساتھ میں دوسرے لوازمات لے کر صباحت کے قریب آئی۔
’’اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے تو بس باجی بختاور سے ملنا ہے۔‘‘ صباحت نے پہچکچاتے ہوئے کہا۔ ۔
“باجی بختاور آرہی ہیں۔” لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
لڑ کی چائے اور دوسرے لوازمات رکھ کر چلی گئی ۔ تھوڑی دیر میں فربہ جسم کی ایک قد آور عورت مہمان خانے میں داخل ہوئی ۔ گندمی رنگت پر تیکھے نین نقوش اور بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت عورت تھی ۔
’’ آپ ‘‘صباحت کچھ کہنے لگی تو وہ عورت پہلے ہی بول پڑی۔
“میں ہی بختاور ہوں ۔‘‘ اس کے پہناوے میں عاملہ والی کوئی بات نہیں تھی مگر اس کی آنکھوں میں نورانیت تھی ۔ اس نے نہایت اخلاق سے کہا۔
’’ آپ چاۓ کیوں نہیں لے رہیں ۔
” آپ نے ویسے ہی اتنا تکلف کیا ۔ آپ سے ملاقات ہوگئی میرے لیئے یہہ بہت ہے۔” صباحت نے کہا پھر اس نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔
“آپ پریشان نہ ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔” بی بی بختاور نے کہا۔
میں بڑی امید لے کر آپ کے پاس آئی ہوں آپکا نام بہت سنا ہے کہ آپ نے روحانی علوم کے ذریعے بہت سے لوگوں کے مسائل حل کئے ہیں۔” صباحت نے نہایت عاجز اندانداز میں کہا،
بی بی بختاور نے کیک کی پلیٹ صباحت کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔
“بظاہر تو آپ کا مسئلہ چھوٹا سا ہے لیکن اصل معاملے کی تہہ تک میں تب پہنچوں گی جب آپ کے گھر آؤں گی۔ میرے خیال میں جمعہ کا دن ٹھیک رہے گا۔ باقی دنوں میں میرے پاس وقت نہیں ہو گا۔‘”
ایک لمحہ کے لئے صباحت نے بیٹیوں کے ساتھ بنائے گئے پروگرام کے بارے میں سوچا پھر اس خیال کو جھٹکتے ہوئے اس نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں جمعہ کو آپ کا انتظار کروں گی۔”
“میں جمعہ کو چار بجے تک پہنچ جاؤں گی ۔‘‘ بی بی بختاور نے کہا۔
صباحت گھر آئی تو تقریبا ایک بج چکا تھا۔ اس نے کھانا بنانا شروع کیا اور دو بجے تک اس نے اپنا کام ختم کر لیا۔ بی بی بختاور سے ملنے کے بعد وہ کافی مطمئن ہوگئی تھی ۔ گھر کی شفٹنگ کے پروگرام میں تبدیلی کی وجہ سے صباحت کو کافی مشکل ہوئی، ضرورت کی اشیاء کی پیکینگ دوبارہ کھولنی پڑی۔ کپڑے وارڈ روب میں دوبارہ سیٹ کرنے پڑے۔ حجاب تحریم اور کو سب بہت برا لگ رہا تھا۔
ثانیہ نے تو اپنے ڈریسنگ ٹیبل کی چیز یں سیٹ کرتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔
“یہ کیا بات ہوئی، پہلے ساری چیزیں پیک کرو اور پھر دوبارہ سیٹ کرو‘‘
حجاب نے اپنے کپڑے ہینگ کرتے ہوۓ ترچھی نظر سے ثانیہ کی طرف دیکھا۔
“ثاشلنیہ ہمارا کوئی عمل بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا اور خدا کو منظور نہیں تھا کہ ہم ابھی شفٹ ہوں ۔”
’’حجاب تم ابھی تک اس موٹو کو نہیں سمجھی اسے تکلیف اس بات کی ہے کہ اسے کام کر نا پڑ رہا ہے۔‘‘
تحریم کی اس بات پر ثانی شیرنی کی طرح چنگھاڑتی ہوئی اس کے پیچھے بھاگی مگراسی دوران صباحت کمرے میں داخل ہوئی تحریم نے خود کو صباحت کے پیچھے چھپالیا صباحت نے ثانی کو گھورا
“ثانی کوئی اپنی بہن کو اس طرح مارتا ہے۔”
“اماں اس نے مجھے موٹو کہا” ثانیہ گلوگیر لہجے میں بولی ۔ صباحت نے تحریم کو کان سے پکڑ کر سامنے کھڑا کیا
“اگر آئندہ تم نے اسے موٹو کہا تو پٹو گی مجھ سے، اپنے جھگڑے چھوڑو مجھے تم تینوں سے بات کرنی ہے۔” صباحت کے کہنے پر تینوں اس کے قریب بیٹھ گئیں ۔
“میں چند ماہ سے اپنے گھر میں عجیب عجیب سے واقعات ہوتے دیکھ رہی ہوں ۔ ایک عجیب سا خوف ہے ۔ جو میرے من میں پھن پھیلاۓ بیٹھا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جو میں سوچ رہی ہوں وہ سب میرا وہم ہو۔ میں نئے گھر میں شفٹ کرنے سے پہلے اپنا وہم دور کرنا چاہتی ہوں۔ اس لئے میں نے بی بی بختاور کو بلایا ہے۔”
’’اماں ۔ آپ کو جو بھی وہم یا خوف ہے وہ اس گھر سے منسلک ہے نا۔ جب ہم یہ گھر ہی بدل لیں گے تو آپ کا خوف بھی ختم ہو جاۓ گا۔‘‘ حجاب نے کہا۔
“تمہاری بات درست ہے لیکن…”
” لیکن کیا۔” حجاب نے کہا۔
“میں چاہتی ہوں کہ بی بی بختاور سے تمہارے لئے تعویذ لے لوں۔‘ صباحت نے پیار سے حجاب کی طرف دیکھا ۔
حجاب صباحت کی بات سے اچانک پریشان ہوگئی۔
“بی بی بختاور کون ہے؟” تحریم نے پوچھا۔
“وہ ایک عاملہ ہیں۔ خداوند کریم نے ان کے من میں روحانیت کے نورانی علم کے دیئے جلائے ہیں ۔اپنی سمجھ بوجھ سے وہ بڑے سے بڑا مسئلہ حل کر لیتی ہیں عجیب سحر انگیز شخصیت کی مالک ہیں۔
“ان کی فیملی….‘‘ حجاب نے پوچھا۔
’’لوگوں میں خوشیاں بانٹنے والے اکثر خودخوشیوں سے محروم ہوتے ہیں۔ تین سال پہلے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اولاد بھی نہیں ہے۔ اتنی بڑی کوٹھی میں اکیلی رہتی ہیں۔ وہ جمعہ والے دن ہمارے گھر آئیں گی ۔“
“مگر‘‘ تینوں بہنیں یکجا بولیں۔
“اگر مگر کچھ نہیں، میں وعدہ کرتی ہوں کہ اگلے فرائیڈے کو تمہارا پکنک کا پروگرام پکا ہے ۔‘‘ صباحت نے کہا تو ثانیہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور کشن منہ پر ڈال کر دھڑام سے لیٹ گئی
تحریم نے مسکراتے ہوئے حجاب کی طرف دیکھا۔
“لگتا ہے کہ ثانیہ کو بہت بڑا شاک لگا ہے ۔‘‘
حجاب نے جیسے تحریم کی بات سنی ہی نہیں ۔ وہ سنجیدگی سے کچھ اور سوچ رہی تھی تحریم نے اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرادیا۔
’’حجاب صاحبہ! آپ کہاں گم ہیں؟‘‘
“مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا کہ بی بی بختاور اس طرح ہمارے گھر آئیں گی۔‘‘ حجاب کو اس طرح سنجیدہ دیکھ کرتحریم نے اسے سمجھایا۔
”تم خودتو کہتی ہو کہ تمہیں بہت ڈرلگتا ہے۔ تمہارے لئے ان سے کوئی تعویذ لے لیں گے ۔ چلو چھوڑوان باتوں کو ٹی وی دیکھتے ہیں ۔” تحریم نے ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ لے لیا۔
حجاب کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے بی بی بختاور کے آنے پر کیوں اعتراض ہے۔ یہ اس کے ساتھ اکثر ہونے لگا تھا کہ اچانک سے اس کی پسند بدل جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو اس کے رویہ میں بھی تبد یلی آ جاتی تھی ۔
صباحت نے احسان الحق سے بھی بی بی بختاور کے بارے میں بات کر لی۔ جمعہ کو دوپہر کے کھانے پر صباحت نے بیٹیوں کی فرمائش پر بریانی پکائی ۔کھانے کے وقت احسان الحق بار بار ثانیہ کے چہرے کی طرف دیکھتے رہے جو غصے سے پھولا ہواتھا۔
“صباحت بیگم سن لو اگر اگلے فرائیڈے کوتم نے ہمارا پکنک کا پروگرام خراب کیا تو ہم تمہیں چھوڑ کے چلے جائیں گے”
“میں نے تو خود ان سے وعدہ کیا ہے کہ اگلی مرتبہ میں ان کی پکنک کا پروگرام خراب نہیں کروں گی ۔”
صباحت نے اپنی تینوں بیٹیوں پر ایک نظر ڈالی ۔
”چلو اپنے پاپا کو مسکرا کے دکھاؤ۔‘‘ احسان الحق نے ثانیہ سے کہا۔
ثانیہ نے لاڈ میں خفیف سا مسکرا کے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ کھانے کے بعد وہ اپنے اپنے کمروں میں چلی گئیں۔
“آج حجاب کو کیا ہوا وہ تو دوپہر کو ہمارے ساتھ کمرے میں سوتی ہے۔ اپنے کمرے میں کیوں چلی گئی”
“اب تو وہ رات کو بھی ہمارے ساتھ ہی سوتی ہے شاید تنہار ہنے کو دل چاہ رہا ہو۔ اماں نے سختی سے کہا ہے کہ اسے اپنے پاس ہی سلانا اسے تنہا نہیں رہنے دینا” تحریم نے کہا۔ ثانیہ نے اپنا کڑھائی کا فریم قالین پر رکھا۔
“ٹھہرو میں اسے بلا لاتی ہوں” ثانیہ حجاب کے کمرے کے قریب گئی تو دروازہ بند تھا اس نے دروازے کو ہاتھ لگایا تو اندر سے حجاب کے غصے سے اونچا اونچا بولنے کی آواز پر وہ چونک گئی
“کون سا طوفان آ گیا ہے جو اماں بیگم بختاور کو بلا رہی ہیں ۔کون سے پراسرار واقعات ہوۓ ہیں کچھ بھی تو نہیں ہوا۔” اس کے ساتھ ہی شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی جیسے حجاب نے شیشے پر کوئی چیز دے ماری ہو۔
ثانیہ بوکھلائی ،گھبرائی حجاب کے کمرے میں داخل ہوئی تو حجاب شیشے کے پاس خاموشی سے کھڑی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...