گزشتہ پچاس برس کا دور اُردو غزل کے لیے تجرباتی دور میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں اظہار کے اس تنگ راستہ میں نت نئے انداز کے آہنگ اور اسلوبیاتی پہلوؤں کو بدل بدل کر نہ جانے کتنے خوبصورت اور نادر پرتو پیش کیے گئے ہیں۔ ہر لہجہ اور ہر اُسلوب اپنے نئے نویلے پن کے سبب عجیب سی ساحری اور دِل فریب سی کشش رکھتا ہے۔ وہیں اس مدت میں اتنا یا بس اور فاضل کلام بھی شائع ہوا کہ اس خرمن سے سوزن کا چننا کارِ دارد ہے۔ اس تخلیقات کے طوفان بے کراں میں چند ہی قابلِ قدر شعری فکر کے نمائندہ جزیرے نظر آتے ہیں جس سے ادب کی زندگی پر ایقان باقی رہتا ہے۔ ایسا ہی تازہ کار فکر و نظریات سے آباد ایک جزیرہ عرفانؔ صدیقی کی شاعری ہے۔
عرفانؔ صدیقی کے اشعار سے میرا تعلق دیر سے ہوا، لیکن دیرپا ہوا، ان کے اشعار ہمارے فکری نظام سے اس قدر مانوس کیفیات رکھتے ہیں کہ ذہن پر چسپاں ہو جاتے ہیں لیکن ان اشعار میں عمومی الفاظ بالکل جدا ملبوس اور مختلف رنگ و آہنگ میں ایسے ملتے ہیں کہ آپ جس مقصود معنی کی امید رکھ رہے تھے اس سے ہٹ کر بالکل نئی بات سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ یہ تو بڑی خلاقیت ہے کہ سادہ الفاظ کو آپس میں ٹکرا کر یا پھر کبھی مدغم کر کے بالکل نئی ترسیلی زبان میں کچھ کہا جائے۔ عرفانؔ اس میں امید اور سامع کی تمنا سے بڑھ کر اپنی قادرالکلامی کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں کچھ مثالیں شاید اس تجزیے کی بہتر تشریح کریں:
ابھی زمیں پہ نشاں تھے عذاب رفتہ کے
پھر آسماں پہ ظاہر وہی ستارہ ہوا
یہ موج موج کا اک ربط درمیاں ہی سہی
تو کیا ہوا میں اگر دوسرا کنارہ ہوا
…
اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے
یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہم سفر میرے
…
ہیں اسی کوچہ میں اب تو مری آنکھیں آباد
صورتیں اچھی، چراغ اچھے، دریچہ اچھا
ان اشعار میں نہ تو کوئی نو ساختہ ترکیب ہے نہ کوئی اجنبی استعارہ یا تشبیہ! بالکل صریح سی زبان ہے لیکن لفظوں سے جھلکنے والے مطالب یا اشارہ بن کر یا پھر حق و باطل کے رزم سے اٹھی ہوئی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔ موج موج کے درمیان ربط کی موہوم سی تمنا حیات سے کس قدر انسیت کی آئینہ دار ہے۔ سوچیے تو ’’آنکھیں‘‘ کے ساتھ ’’آباد‘‘ کا لفظ ’’اور ’’گھنے جنگلوں‘‘ کی پیش گوئی کے غیر عمومی استعمال دونوں اشعار کس قدر تحیر آمیز لگتے ہیں۔
میرا اندازہ ہے (یقین کے ساتھ تو کہنا مشکل ہے) کہ عرفانؔ اپنے اشعار میں قوت شامل کرنے کے لیے الفاظ کے انتخاب میں ان کی نشست اور مناسبت کو خوب پرکھتے تھے، بڑی محنت سے ہر شعر کو اظہار کا ایک کامران پیکر بنا کر پیش کرتے تھے۔ ان کی غزلوں میں کم زور، بھرتی کے اور فقط رسمی قسم کے اشعار مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ ہر شعر ان کے زور بیاں اور منتخب اسلوب کی مثال بن گیا ہے۔
ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ابھرتا ہے کہ اسی لفظ کو جو ہم سے عام ملبوس میں ملتا ہے تو مروجہ معنی سے آگے نہیں جاتا، شاعر نے اس لفظ کے حرف حرف اور صوت صوت کو خوش نمائی سے لکھ کر نئے آہنگ سے روشناس کر دیا ہے۔ وقف و تحرک کے ٹکراؤ سے اس میں ایک نئی کھنک آ گئی ہے۔ گویا یہ لفظ پھر ناطق بن گیا ہے۔ یہ فن کاری محض مشاقی سے نہیں بلکہ گہرے اسلوبیاتی مطالعہ سے ناتج ہو سکتی ہے۔ اس طرح ایسا فن پارہ سامع / قاری کو عجیب سی مسرت بخش دیتا ہے۔
ان کی شاعری کے تقریباً تمام موضوعات ان کی ذات پر مرکوز ہیں وہ اکثر اشیا اور تجربوں کو اپنی ذات سے منسلک / متعلق کر کے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس میں خلوص بھی ہے اور داخلی حرارت بھی۔ اسی وجہ سے یہ شعر ہم خیالوں کو قریب تر لگتے ہیں۔ بہت سے لفظی استعمالات، دو لفظی ہوئے ہیں اور دو لفظوں کے واسطے سے ایک داخلی منظر نامے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں بھی ملاحظہ فرمائیں:
یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم (مرا چارہ)
ترے سمند بھی میرے غزال بھی آزاد (میرے غزال)
ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار (مری خزاں)
اس کو منظور نہیں ہے مری گم راہی بھی (مری گم راہی)
عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم راہی (میرے ستارہ ادا)
اگر ان کے کلام کی اس نقطۂ نگاہ سے تحلیل کی جائے تو ایسی مبنی بر متکلم تراکیب بے شمار ہیں اور ہر ترکیب ایک جدا پہلو لیے ہوئے ہے۔ مذکورہ بالا تراکیب ہی کو لیں تو ان میں ایک غیر محسوس سا ابہام بھی ہے اور دزدیدہ کنایہ بھی۔ ’’مرا چارہ‘‘ ایک قطعاً غیر مستعمل لیکن معنی خیز سی بات ہے۔ ’’مرے غزال‘‘ غالباً غزال تخیلات سے متعلق ہے اسی طرح ’’مری خزاں‘‘، ’’مری گم راہی‘‘ اور ’’میرے ستارہ ادا‘‘ خوب لفظی مرکبات ہیں جو اپنائیت کا رخ بھی رکھتے ہیں اور ندرت کا بھی۔ اردو شاعری میں ایسے الفاظ پر مرکوز لسانی روش بہت کم ملتی ہے۔ ظفر اقبال اور منیر نیازی نے بھی اس طرح کے لسانی تجربے کیے ہیں لیکن ان کا انداز کچھ اور ہی ہے۔ اپنے طرزِ اظہار کو عرفانؔ نے ارادی طور پر ممیز اور جداگانہ رکھا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ رویّہ فطرتاً بھی ہو لیکن اس کی شناخت تو شاعر ہی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کے پڑھنے اور سننے والے وارفتگی کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ شاید یہ کلام ہمارے مزاج کی نوعی اور مخفی حرارت سے مطابقت رکھتا ہے۔
ایک اہم رخ عرفانؔ کی شاعری میں رومانوی ماحول کا پس منظر ہے۔ عشق اور شوق جو کہ صدیوں اردو شاعری (بلکہ مشرقی شاعری) کی عنصری طاقت رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں مختلف ڈرامائی سچویشن جیسے سین کے پیچھے بدلتی ہوئی روشنی کا کام کرتے ہیں۔ اس ڈرامے کے کردار شاید مخصوص نام اور شناخت نہیں رکھتے لیکن کسی منتخبہ جذبے کی غیر مرئی تجسیم ضرور کرتے ہیں۔ عاشق / معشوق / رقیب یہ تو پرانے کردار تھے جو اب بالکل نئے ظروف میں نظر آتے ہیں۔ ذرا عشق کے تناظر میں یہ بھی سنیں:
…
کسی اُفق پہ تو ہو اتصال ظلمت و نور
کہ ہم خراب بھی ہوں اور وہ خوش خیال بھی آئے
…
عجیب روشنیاں تھیں وصال کے اُس پار
میں اُس کے ساتھ رہا اور اُدھر چلا بھی گیا
…
میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد
خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے
…
مری عاشقی، مری شاعری ہے سمندروں کی شناوری
وہی ہم کنار اُسے چاہنا، وہی بے کراں اسے دیکھنا
…
واہ بے حد قدیم موضوع کو بے حد تازہ اسلوب میں کس خوبی سے برتا گیا ہے۔ گویا عرفانؔ صدیقی نے ایک بے حد با وفا عاشق کے کردار کی تصویر کشی اس طرح کی ہے کہ ’’اک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ کا لطف آ گیا ہے۔
عرفانؔ واقعات، حادثات اور مناظر کی عکاسی کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ منبع اور اصل کی طرف توجہ نہ جائے اور اصل کے مقصود کی تصویر ایک آرٹ کی طرح پیش ہو جائے۔ اس کے لیے انھوں نے اپنی بے شمار غزلوں میں تلمیحاتی اظہار کا استعمال کیا ہے۔ کبھی وہ کسی غزوہ یا جنگ کا ماحول وضع کرتے ہیں تو کبھی کسی خانہ بدوش بے سمت کے مسافر، قبیلہ کے فرد بن جاتے ہیں، کبھی وہ شہادت حسینؓ سے دِلی نسبت سے سوگوار ہوتے ہیں تو کبھی بزم عرفان میں حلقہ بدوش ہو جاتے ہیں۔ وہ اکثر اہلِ صفا کے قافلے کے ساتھ ہولیتے ہیں جو نشۂ ایماں میں مست و بے خود، تشنہ لب، ایقان بہ قلب، صدق بر لسان ظالم کے سامنے سینہ سپر ہے اس طرح حق و باطل کی جنگ میں شاعر حق کے لیے جہاد اور جستجو کر رہا ہے۔
اکثر غزلوں میں عرفان حالات حاضرہ کو اسی تناظر میں رکھ کر، اس سے متناسب زیریں رو کے مدھم سر سے ابھر کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ہر بار ان کی جذباتی صالحیت نعرہ فگن نظر آتی ہے تیر و تبر کے سامنے ان کی جری فکر سینہ سپر رہتی ہے۔ وہ اس مجسم خوبی پیمبر / امام / رہبر / مرشد / شیخ کے تابع ہیں جو محبوب تر ہے۔ ذرا شہادت حسینؓ واقعۂ کربلا کو ذہن میں لا کر عرفان کے یہ اشعار پڑھیں:
…
جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں
سو وہ سربریدہ بھی پشت فرس سے اترتا نہیں
ذرا کشتگاں صبر کرتے تو آج
فرشتوں کے لشکر اُترنے کو تھے
…
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارے آب ہے پہرہ لگا ہوا کیسا
…
پانی پہ کس کے دوست بریدہ کی مہر ہے
کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا
…
پانی نہ پائیں ساقی کوثر کے اہل بیت
موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے؟
بلا شبہ عرفانؔ صدیقی ترسیل کی راہوں میں شمع جلا کرا پنے مسافروں کو غزل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کوئی ناکام نامکمل ترسیل ان کے پاس نہیں ملتی۔ انھوں نے بنیادی طور پر کوئی قابل بیان فنی تجربہ نہیں کیا، نہ تو اسلوب میں نہ فارم میں۔ متوقع راستہ سے انحراف ان کا طریقہ نہیں۔ وہ زندگی کے حقائق سے قریب تر رہ کر غزل کی بنیادی تعریف اور مستند ڈکشن سے ہٹے بغیر نئی وضع اور نئی طرح سے یوں کہا ہے کہ سامع اور قاری کی توجہ نہیں ہٹتی۔
تصوف اور عرفان ذات کی راہوں میں بھی وہ اسی قلندریتے چلے ہیں، جنون شوق سے سرشار، عشق، کو حسن کی تابناکی میں گم کرنے کے لیے کوشاں۔ یہ عارفانہ کلام بھی کچھ عام نہیں ہے اس میں بھی وہ ندرت اور قوت ملتی ہے۔ ان کی فکری کی خانقاہ بسیط اور وسیع ہے۔ ان کی بے نیازی بے مثل ہے۔ ان کی فنائیت بقا سے بلند تر ہے۔ مثلاً:
ان کا فقیر دولت عالم سے بے نیاز
کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا
…
شاخ کے بعد زمیں سے بھی فنا ہونا ہے
برگ افتادہ ابھی رقص ہوا ہونا ہے
…
کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرے شریک
مسند خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے
…
ابھی مرا کوئی پیکر نہ کوئی مری نمو
میں خاک ہوں ہنر کو زہ گر پہ راضی ہوں
عرفانؔ کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے ہم ایک آراستہ پیراستہ گلشن سے گزر رہے ہیں جس کے درختوں، جھاڑیوں، فضاؤں میں مناظر کی طرح کمال فن کاری سے تخلیق شدہ پھل، پھول، پتے، شگوفے سجا دیے گئے ہیں۔
اُمید کہ زود فراموش اُردو والے اس اہم شاعر کو فصیل فراموش گاری کے پیچھے نہیں بھیج دیں گے اور یہ کلام اُردو نئی شاعری کے ہر انتخاب میں مناسب مقام پائے گا۔
٭٭٭