۔۔۔۔۔۱۹۹۱ءکے وسط میں مبارکہ اور ہمارے تین بچوں رضوانہ، ٹیپو، مانوکا جرمنی پہنچ جانا ہم سب کے لئے بیک وقت خوشی اور پریشانی کا موجب تھا۔ خوشی اس لیے کہ یورپ کے دروازے ہمارے خاندان کے لئے کھُل رہے تھے، پریشانی اس لئے کہ میں اور دونوں بڑے بیٹے شعیب اور عثمان، ہم تینوں پاکستان میں تھے۔ ظاہری حالات کے لحاظ سے ہمارے جرمنی پہنچنے کا ابھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتاتھا۔ یوں گویا ہمارے خاندان کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا خطرہ موجود تھا۔ لیکن پھر خدانے کرم کیا۔ ایک طوفانی لہرآئی ہم تینوں باپ، بیٹے اس طوفانی لہر میں بالکل بے دست و پا تھے۔ اور پھر یوں ہواکہ طوفان کی زد میں آئے ہوئے باپ بیٹوں کا سہارا ان کا خدا بن گیا۔ دنیاوالوں کے دیکھتے ہی دیکھتے ہم بے آسرا لوگ یونائیٹڈ نیشنز کے ادارہ برائے مہاجرین کے اس شعبہ کے تحت جرمنی پہنچ گئے جو بچھڑے ہوئے خاندانوں کو ملاتاہے۔ جو لوگ تین تین لاکھ روپے ایجنٹوں کودے کر چوری چھُپے جرمنی پہنچے تھے اور یہاں سیٹ ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہے تھے انہوں نے دیکھاکہ یہ تین افراد اس شان سے جرمنی پہنچے ہیں کہ ان کے لئے ٹکٹUNHCRنے فراہم کیا، ویزہ خود جرمن حکام نے دیااور فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر یونائیٹڈ نیشنز کی ایک نمائندہ نے آکر انہیں ریسیو کیا۔
جو کوں راکھے سائیا ںمار سکے نہ کوئی
۔۔۔۔۔۔بعد میں عجیب عجیب الزام تراشیاں کی گئیں۔ پہلے ایک خاص مسلک کے حوالے سے کہاگیاکہ انہیں” اُن لوگوں“ نے ایسی شان و شوکت سے بھجوایاہے۔ جب یہ جھوٹ ظاہر ہوگیاتو کسی کو اپنے بہتان پر شرمندہ ہونے کی توفیق نہیں ملی اُلٹامجھے امریکہ کا ایجنٹ کہاجانے لگا۔ (کاش امریکہ اپنی کوئی چھوٹی موٹی ایجنسی مجھے دے ہی دے۔ موجودہ محنت مزدوری کی مشقت سے تو آرام ملے گا) بہتان طرازی کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کایہ فرمان یاد نہیں آیاکہ وَتُعِزّ من تشاءوتذلّ من تشاءبیدک الخیر۔ اِنّ اللہ علیٰ کلّ شی ئِ قدیر۔ جرمنی پہنچنے کے بعد نہ صرف مجھے خدا کے فضل و کرم سے قانونی تحفظات مل گئے بلکہ میرے کیس کی بنیا دپر مبارکہ اور بچوں کا کیس بھی منظور کرلیاگیاجو تین برسوں سے لٹکاہوا تھا۔ ان تحفظات کے علاوہ بھی خدا کے فضل اور احسانات کی ایک پھوار تھی (اور اب بھی ہے) جس نے ہماری زندگی کے صحراکو سیراب کردیاتھا۔ ان سارے احسانات کی شکر گزاری کے لئے میرے اور مبارکہ کے درمیان طے ہواتھاکہ ہم دونوں مکہ شریف اور مدینہ شریف جائیں گے۔ عمرے کی سعادت حاصل کریں گے، مقامات مقدّسہ کی زیارت کریں گے۔ دسمبر ۱۹۹۵ءمیں جانے کا ارادہ تھالیکن اس سے دوماہ پہلے میرے چھوٹے بھائی اعجاز نے ایک بھاری رقم بطور قرض مانگ لی۔ میں شش و پنج میں تھا، مبارکہ نے کہا ہماری عمرہ کرنے کی نیت پکی تھی۔ خدا نیتوں کا حال جانتاہے۔ آپ اپنے چھوٹے بھائی کی ضرورت پوری کردیں۔ خدا کو ہماری نیکی پسند آگئی تو اس سال نہ ہوسکنے والے عمرہ کو بھی قبول فرمالے گا اور اگلے برس سچ مچ عمرہ کے لئے جانے کے وسائل بھی عطاکردے گا اور جانے کی توفیق بھی بخش دے گا۔ چنانچہ میںنے مبارکہ کے کہنے پر عمل کیا اور ا سکی نیت کے مطابق دسمبر ۱۹۹۶ءمیں ہمیں عمرہ پر جانے کی سعادت نصیب ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔پہلے السعودیہ ائرلائن کاٹکٹ خریدا۔ یکم دسمبر سے ۱۲دسمبر تک کا عمرہ ٹکٹ تھا۔ ۲۶نومبر۱۹۹۶ءکو ٹکٹ اور پاسپورٹ لے کر سعودی سفارت خانہ سے ویزہ کے حصول کے لئے روانہ ہوئے۔ بون میں سفارت خانوں والی سائڈ پر جانے کے لئے یا تو ایک طویل چکر کاٹ کر پُل پر سے گذرناہوتاہے یا پھر دریامیں موجود فیری(اسٹیمر) پرکارسمیت سوارہوکردوسرے کنارے تک جاناہوتاہے۔ میرے داماد عزیزم حفیظ کوثر مجھے اور مبارکہ کو سعودی عرب کے سفارت خانہ تک اپنی کارمیں لئے جارہے تھے۔ دریائے رائن کے کنارے پہنچے تو وہ کارکو سیدھافیری کے اندرلے گئے۔ وہاں پہلے بھی متعدد کاریں کھڑی تھیں۔ میں اپنی کارکی اگلی سیٹ پر بیٹھا سامنے کانظارہ کررہاتھا۔ یکایک ایک انوکھا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ دریاکا دوسرا کنارہ میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ وہاں درختوں کابڑا اور گھنا ذخیرہ تھا۔ پاکستان میں ٹرین کا سفر کرتے ہوئے تو میں نے کئی بار دیکھا کہ درختوں کے جھنڈ ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ نیم دائرہ سابنائے ہوئے بھاگتے ہیںاور پھر جیسے ہارکرپیچھے رہ جاتے ہیں۔ لیکن یہ نظارہ تو کچھ اور ہی تھا۔ سچ مچ زمین اپنے مدارپر گھومتی نظرآئی۔ درختوں کاجھنڈ ایک مستانہ وقار کے ساتھ جیسے کسی مرکز کا طواف کرنے لگاتھا۔ پہلے تو میں نے سمجھاشاید یہ کوئی کشفی نظارہ ہے لیکن جیسے ہی میں نے اپنے دائیں طرف گردن گھمائی، دریاکاپانی نظرآیا اور ساتھ ہی یہ واضح ہوگیاکہ ہماری فیری حرکت میں آچکی ہے۔ کارمیں بیٹھے ہونے کے باعث نہ تو ہمیں فیری اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی تھی اور نہ ہی اس کے حرکت میں آنے کا احساس ہواتھا۔ کوئی ہلکاسا جھٹکا بھی نہیں لگاتھا۔ حقیقت واضح ہوجانے کے باوجود دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے پھر ایسے ہی لگ رہاتھاکہ زمین کو اس کے اپنے مدار پر گھومتے ہوئے دیکھ رہاہوں۔ تب مجھے گلیلیو کی یادآئی۔ گلیلیو نے اس سچائی کااظہار کیاتھاکہ ہماری زمین مرکزِ کائنات نہیں ہے۔ زمین گول ہے اور اپنے سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ انکشاف کسی مذہبی عقیدے پر براہ راست ضرب نہیں لگارہاتھا اس کے باوجود گلیلیو کے معاشرے کے مذہبی حلقوں میں قیامت برپاہوگئی۔ زمین کو مرکزِ کائنات اور خود کو اشرف المخلوقات سمجھنے والوں کو محسوس ہواکہ زمین کی مرکزیت کی نفی ہوئی تو ان کے اشرف المخلوقات ہونے کی بھی نفی ہوجائے گی۔ سو اپنے انسانی شرف کی حفاظت کے لئے گلیلیو کو مرتداورواجب القتل قرار دے دیاگیا۔ اُس زمانہ میں زمین پر خداکی نیابت کے دعویدار نے اس قتل نامہ پر عمل درآمدکاحکم دے کر خود ہی شرف انسانی کی نفی کردی۔ گلیلیو اپنی سچائی کوجاننے کے باوجود فتویٰ کفر، سماجی دباؤ اور بلیک میلنگ کے سامنے گھبراگیا۔ اس نے باقاعدہ طورپر معافی مانگی، معافی قبول کرنے کی التجاکی۔ میں گناہ گارہوں۔ بے شک کفرکا مرتکب ہواہوں۔اپنے سارے گناہو ںکی غیر مشروط معافی مانگتاہوں۔ نہ یہ زمین گول ہے،نہ سورج کے گرد گھومتی ہے بس مجھے معاف کردیں۔ لیکن گلیلیو کے سارے معافی نامے ”خداوندیسوع مسیح“ کے خلیفہ نے بڑی حقارت کے ساتھ مسترد کردیئے۔ اس بدبخت کی معافی کا سوال ہی نہیں پیداہوتا، اسے ذلّت کے ساتھ ہلاک کیاجائے اور پھر گلیلیو کو ہلاک کردیاگیا۔ لیکن زمین تو پھر بھی گول ہی رہی اور آج بھی سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ اور آج یہ کرۂ ارض تو کیا ہمارا پورا نظامِ شمسی بھی اس عظیم ترکائنات میں ایک حقیرسی شے لگتاہے۔ ویسے گلیلیو کے عہد میں ”خداوندیسوع مسیح“کے نائب کاہی قصور نہیں، ہردور میں مذہبی انتہاپسندی اور دانش کاٹکراؤ رہاہے۔ و قتی طورپر ہمیشہ دانش ہی کو ذلیل کیاگیاہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہمیشہ دانش کے ساتھ روارکھی جانے والی ساری ذلّت آخر مذہبی چیرہ دستوں کی ذلّت اور رسوائی بنی ہے میں گلیلیو کے دور سے اپنے آپ تک پہنچاتو سعودی سفارت خانہ آچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔سفارت خانے میں ویزہ کے حصول کے لئے جب کاغذات جمع کرائے تو ایک دو اَڑ چنیں بیچ میں آگئیں۔ جرمنی میں ہر انسان کی نجی زندگی کا احترام کیاجاتاہے۔ پاسپورٹ پر نہ تو کسی کی ولدیت لکھی جاتی ہے اور نہ مذہب کا کوئی خانہ ہوتاہے۔ میاں بیوی کے پاسپورٹوں پرایک دوسرے کانام اسی صورت میں لکھاجاتاہے جب دونوں کے کیس منظور شدہ ہوں۔میرا پاسپورٹ جب بناتھا تب مبارکہ کاکیس منظور نہیں ہواتھا اس لئے میرے پاسپورٹ پر اس کا نام درج نہیں ہوسکا۔ جب مبارکہ کا کیس منظور ہوگیاتب اس کے پاسپورٹ میں اتفاقاً میرا نام درج ہونے سے رہ گیا۔ ہمارے لئے یہ کوئی اہم مسئلہ بھی نہیں تھا لیکن اب سفارت خانۂ سعودی عرب والوں کا مسئلہ یہ تھاکہ ہم دونوں کومیاں بیوی کیسے ماناجائے۔ہمارا نکاح فارم تو ۱۹۷۳ءمیں خانپور میں آنے والے قیامت خیز سیلاب میں بہہ گیاتھا اور نکاح نامہ کاثبوت تو میں یو۔این۔او والوں کو بھی فراہم نہیں کرسکاتھا۔ پاسپورٹ پر بے شک اندراج نہیں تھا لیکن جرمن حکام نے ہمیں میاں بیوی مان لیاتھا۔ سعودی سفارت خانہ والوں سے میں نے کہا کہ ہمارے پانچ بچے ہیں اور اب وہی ہمارا نکاح نامہ ہیں۔ کہنے لگے چلیں ان بچوں کے کاغذات دکھادیں۔میں نے کہا اگر مجھے اس الجھن کاعلم ہوتا تو پانچوں بچوں سمیت کاغذات لے کرآتا۔ میرا خیال ہے میرے لب و لہجے سے انہیں اندازہ ہوگیاہوگاکہ ہم میاں بیوی ہیں وگرنہ اتنا بڑا مسئلہ اتنی آسانی سے حل نہ ہوتا۔ سفارت خانہ کے متعلقہ افسر نے کہا دوپہر دوبجے کے بعد آکر ویزہ لے جائیں۔ سوہم اطمینان سے بون شہر میں گھومنے پھرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔پہلے رائن دریا کے اِدھر والے کنارے پر گئے۔ وہاں سے حدِ نگاہ تک آنے والے سارے مناظر کو زاویے بدل بدل کر دیکھا، وہیں” ناشتہ کم لنچ“ کیا۔ اس کے بعد مارکیٹوں کے چکر لگانے لگے۔ تھوڑی بہت خریداری کرلی۔ ڈیڑھ بجے تک ہم لوگ واپس سعودی سفارت خانے پہنچے۔ پونے دو بجے متعلقہ آفس سے رجوع کیا۔ مقررہ وقت دوبجے سے پہلے ہی ہمیں ویزہ مل گیا۔ خدا کا شکر اداکیا اور خوشی خوشی گھر لوٹ آئے۔
۲۶نومبرسے ۳۰نومبر تک ارضِ حجاز جانے کے لئے چھوٹی موٹی تیاری کرتے رہے۔ یکم دسمبر کو گیارہ بجے ہم اپنی مقامی ٹرین S1(ایس۔ون) پر سوار ہوکر اپنے شہر Hattersheimسے فرینکفرٹ آئے۔ یہاں سے پھر ایک اور ٹرین S8(ایس۔ایٹ) لی اور ائیرپورٹ جاپہنچے۔ منجھلا بیٹا عثمان ایئرپورٹ تک ہمارے ساتھ آیاتھا جبکہ شعیب اس لئے گھر پر رہاتھاکہ چھوٹے بھائی بہن کا خیال رکھ سکے۔ ایک دو دن کے بعد رضوانہ نے فُلڈا سے ہمارے گھر آجاناتھا تاکہ ہماری غیر حاضری میں سارے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرسکے۔ ایئرپورٹ کی ساری کاروائی سے گذرنے کے بعد ہم ڈیڑھ بجے السعودیہ کے جہاز میں سوار ہوئے اور اپنی سیٹیں سنبھال لیں۔
۔۔۔۔۔۔جہاز اُڑنے لگاتو د ل کی عجیب سی حالت ہوگئی۔ ہوائی سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ سفر کے رُخ کی وجہ سے۔ پھر جب (غالباً)پائلٹ نے اُڑان بھرنے کے ساتھ ہی دعاءالسفر پڑھنی شروع کی تو اسپیکر سے نشر ہوتی ہوئی اس دعا کے الفاظ نے ایسا اثرکیاکہ مجھے لگامیری روح جسم سے الگ ہوکر مگر میرے ساتھ ساتھ پرواز کررہی ہے۔مجھ جیسا گناہ گار ربِ کعبہ کے گھر حاضری دینے جارہاتھا۔ کہاں میں کہاں وہ مقام اللہ اللہ! بے اختیارہونٹوں سے تسبیح و تحمید ہونے لگی یہ کیفیت اس وقت ٹوٹی جب مبارکہ نے بتایاکہ اس کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔ اصل میں حرمین شریفین جانے کی خوشی میں مبارکہ نے صبح کا ناشتہ نہیں کیاتھا۔ ایئرپورٹ تک پہنچنے کے چکر میں دوپہرکاکھانا بھی رہ گیاتھااور اب اسے بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ ائیرہوسٹس کو بلاکر اس صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس نے کہااگر گھبراہٹ زیادہ ہے تو فوری طورپر کوئی جوس لادیتی ہوں ورنہ آدھے گھنٹہ تک کھانا لے آتی ہوں۔ سو پہلے جوس آگیا۔ پھر کھانا اور مبارکہ کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔جرمنی اور سعودی عرب میں وقت کے حساب سے دوگھنٹے کا فرق ہے۔ جب ہم دوبجے دوپہرکو جرمنی سے روانہ ہوئے تب جدہ میں سہ پہر کے چار بجے تھے۔ تقریباً پانچ گھنٹے کا سفر تھا۔ دورانِ سفر اچانک ایک صاحب نے اٹھ کر اذان دینا شروع کردی تو اندازہ ہواکہ عصر کی نماز کاوقت ہوگیاہے۔ اذان کے بعد تین صاحبان نے سیٹوںکا درمیانی راستہ روک کر نماز باجماعت شروع کردی۔ ایک جماعت ختم ہوئی تو تین افراد کی ایک اور جماعت کھڑی ہوگئی اور اس جماعت کے بعد تین افراد کی ایک اور جماعت اس دوران باتھ روم کی طرف جانے والے لوگوں کو پریشانی کاسامنا رہا۔ ان پریشان لوگوں میں مسلم بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل تھیں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی اور مسافروں کی خدمت پر مامورجہاز کاعملہ بھی شامل تھا۔ اس عرصہ کے د وران اس لائن میں سب کاراستہ بندرہا۔ باقی سب کو تو خیر تھوڑی بہت پریشانی ہوئی ہوگی، البتہ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی تبلیغ کا ایک خاموش منظر ضرور بن گیاتھا۔اثر ہواتھایانہیں؟ یہ تو وہی غیر مسلم جانیں لیکن ابلاغ بہرحال ہوگیاتھا۔ مغرب کی نماز کے وقت پھر یہی سین دہرایاگیا۔ میں نے سیٹ پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھ لی تھی بلکہ سفر کی رعائت سے فائدہ اٹھاکر جمع بھی کرلی تھی۔ سلام پھیرا تو دیکھا کہ نماز باجماعت والے صاحبان میں سے بعض لوگ مجھے خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔جدّہ پہنچے تووہاں رات کے نوبج چکے تھے۔جرمنی میں تب رات کے سات بجے ہوئے ائیرپورٹ سے باہر آنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ باہر ٹیکسی والوں کا ہجوم تھا۔ مکّہ تک جانے کے لئے کوئی ۱۵۰ریال مانگ رہاتھا، کوئی ۲۰۰ریال مانگ رہاتھا اور کوئی ۲۵۰ریال ایک ٹیکسی والے سے طے ہوا کہ وہ ایک سواری اور ساتھ بٹھالے اور ہمارا معاملہ۱۰۰ریال میں طے ہوگیا۔ یوں ہم نے پہلے مرحلے میں کم از کم ۵۰ریال کی بچت کرلی۔ رستے میں میقات کے مقام پر رُکناتھا۔ وہاں سے احرام خریدا۔ عمرہ کے بارے میں معلوماتی اُردو کتابچہ خریدا، غسل کیا، احرام باندھا مبارکہ کو صرف غسل کرناتھاکیونکہ خواتین اپنے عام لباس میں عمرہ کرتی ہیں۔ غسل خانوں سے باہر صفیں بچھی ہوئی تھیں، وہاں دو نفل اداکئے۔ عمرہ کی نیت کی اور تلبیہ شرو ع کردی۔ لبیک اَللّٰھم لبیک
۔۔۔۔۔۔مکہ شریف سے پہلے دومقامات پر کاغذات کی جانچ پڑتال ہوئی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے خود ہی سارے معاملات نمٹائے۔ رات بارہ بجے کے لگ بھگ حرم شریف کے سامنے کی ایک سڑک پر ہم ٹیکسی سے اترے، وہاں سے قریب ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پرلیا۔ یہ صرف رہائش فراہم کرنے والے ہوٹل ہیں۔ کھانا، چائے وغیرہ یہاں نہیں ملتی۔ رہائش کافی آرام دہ ہوتی ہے۔ ہر کمرہ ائیرکنڈیشنر، ریفریجریٹر، گیس سلنڈر، چولہا، اٹیچ باتھ روم کی سہولیات سے آراستہ، اسے آپ جدید طرز کی سرائے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے جو کمرہ پسند کیااس کاکرایہ قدرے زیادہ تھالیکن کمرہ کشادہ تھا۔ اگر ہم سارے افرادخانہ ہوتے تو اسی کمرے میں پورے آجاتے۔ سامان سیٹ کرنے کے بعد میں باہرآیاتو قریب ہی ایک ایسا ہوٹل دیکھاجہاں کھاناتیارہوتاتھا۔ ہمارے رہائشی ہوٹل کا مالک بنگالی تھا، اردو بول بھی سکتاتھا اور سمجھ بھی لیتا تھا۔ کھانے والے ہوٹل کا مالک سرائیکی نکلا۔ پہلے مرحلے میں ہی اپنے وطن اور اپنے شہر کی خوشبو سی آنے لگی۔ لیکن ارضِ حجاز بھی تو میرا ہی وطن تھا۔ میرے آباواجداد نے تبلیغ اسلام کی نیت سے اس ارضِ مقدس کو خیربادکہاتھایا اسلامی لشکر میں شامل ہونے کے باعث انہیں یہ دھرتی چھوڑنا پڑی، اس کے بارے میں تو وہی بہتر جانتے ہوں گے، میں تو اتناہی جانتاہوں کہ آخرکاروہ ہندوستان میں آبسے تھے اور پھر اس قدیم ہندوستان کی مٹی کے جادونے انہیں اپنا اسیر کرلیاتھا۔ ہندوستان کے قدیم تاریخی تسلسل میں دیکھیں تو باہر سے آنے والی بڑی اقوام میں آریائی، عرب (اور ان کے لشکروں میں شامل دوسری مسلم اقوام) اور انگریز شامل تھے۔ ان میں سے جو اس دھرتی میں رچ بس گئے وہ اسی کا حصہ ہوگئے۔ جوحصہ نہیں بن سکے انہیں نہ اس دھرتی نے قبول کیانہ اس کے بیٹوں نے حصہ نہ بن پانے کی نمایا ںمثال انگریز قوم کی ہے اور ان کے لئے برصغیر پاک و ہند کے عوام کا فیصلہ اب تاریخ کاحصہ بن چکا ہے۔ اس دھرتی کا حصہ نہ بن سکنے والوں کو اس دھرتی نے اٹھاکر باہر پھینک دیا۔ بہرحال سرائیکی ہوٹل کاکھانا عمدہ بھی تھااور سستا بھی کھانا کھاکرچائے پی اور پھر ہم لَبیک اَللٰھم لَبیک کہتے ہوئے حرم شریف کی طرف جانے کے لئے نکل پڑے۔ ہمیں مسجد الحرام کا جوبڑا گیٹ قریب پڑتاتھاوہ ”با ب الملک فہد“ تھا
٭٭٭