(Last Updated On: )
ہینڈیکرافٹس ہینٹ میڈ اسیسریز اور بک سٹالز پر آج ضرورت سے زیادہ رش تھا۔ بک فیسٹیول کو ختم ہوئے کچھ ہی روز گزرے تھے۔ مگر اب بھی بہت سی سیل آوٹ ہونے کو رہتی تھی جن کےگرد ہجوم اب بھی تھا۔ لوگ کوئ بھی ہنر سیکھ کر اسے رائگاں نہیں جانے دیتے۔ اس کی مثال ان سٹالز پر لگائے گئے نفاست سے بنی باسکٹس ہیٹس اور مفلرز سے ثابت ہو رہی تھی گھر میں رہ کر اب وہ بور ہو چکی تھی
سو موم کہ روکنے کے باوجود بھی وہ کوٹیج کے قریب Ortakoy square نکل آئ تھی۔
یہ سکوائر بوسفورس برج کے قریب تھی اور اپنے خوبصورت ریسٹورینٹس کیفے وغیرہ کے لئے بھی استنبول کی مشہور streets میں سے ایک ہے۔ وہ handicrafts کے سٹال پر ٹھہری کہ سامنے بکس سٹال پر کھرے ایک شناسا چہرے پر اسکی نظر پری اسی وقت انس کی نظر بھی اٹھی اور وہ مسکراتا ہوا اس تک آگیا اور بولا”ہائے کریسٹین کیسی ہو؟”
“آئے ایم فائن what about u?” اس نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا “آئے ایم فائن ٹو کچھ بکس دیکھنے آیا تھا اور تم؟” اس نے پوچھا “میں تو یونہی باہر نکلی تھی ” اب وہ دونوں سائیکل سٹینڈ کی طرف چل دیے۔ انس نے اپنی سائیکل لی اور دونوں بوسفورس برج پر چلنے لگے۔”سو کریسٹین آپ رہتی کہاں ہو؟” اس نے پوچھا “Not too far just near the square” اس نے بتایا۔ دھیرے دھیرے سورج ڈوبنے لگا۔ “and what about your family?” اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ” میں میری مومی اینڈ مائے ڈیڈ” اس نے بتایا
“استنبول میں کب سے ہو؟”سائیکل کو ساتھ چلاتے ہوئے اس نے پوچھا “from last 2 months s” اس نے بتایا پھر بولی “ڈیڈ اوٹ آف کنٹری گئے امید ہے میری برتھڈے سے پہلے واپس آجائیں” اسنے منہ پھولاتے ہوئے کہا۔انس کو اس کہ منہ بنانے پر ہنسی ا گئ لیکن وہ ضبط کر گیا “ok see you later mom would be waiting” کہتے ہوئے آگے بڑھ گئ by اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور دونوں اپنی راہ چل دیے۔ استنبول میں شام کے سائے اترنے لگے۔
***************
ریسٹورینٹ سے نکلتے ہی اس نے حسن کو کال کی لیکن اس کا سیل آف جا رہا تھا۔ اسکے گھر کو جاتے رستے کو کسی وجہ سے اسے لمبے رووٹ سے جانا پرا۔گاڑی اب ایک سنسان رستے پر دوڑنے لگی ۔ تاریکی اتنی تھی کہ اسے کار کی ہیڈلائٹس آن کرنا پریکار اب بھی اپنی راہ پر رواں تھی کہ اچانک اس نے بریک لگائ ایک کار سڑک سے اتر کر درخت کے پاس کھڑی تھی۔ کار سے اتر کر اس کے قریب جا کر اس گاڑی کا جائزہ لیا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ اس سلور کار کو وہ کیسے بھول سکتا تھا جس نے صبح اسکی کار کے ٹائر پنکچر کیے تھے۔
اس نے تیزی سے دروازہ کھولا ۔ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ کار کی سیٹ سے لگی ہوئ تھی ۔ عرشمان نے اس کی نبز چیک کی جو اب بھی چل رہی تھی۔اس نے اسے جنجھورا مگر وہ پھر بھی ہوش میں نہ آئ “حور اٹھو حور!! کیا ہوا ہے
یہ ایکسیڈنٹ کیسے ہوا ہے اس نے سوچا۔ لیکن وہ بے سود پری تھی۔ اس کی سر کی ایک جانب سے ہلکس ہلکا خون رس رہا تھا ۔ اسکی پریشانی بڑھنے لگی ایک اتنی سنسان سڑک پھر آدھی رات کا وقت اسکی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ کرے تو کیا۔ عرشمان نے کچھ سوچتے ہوے اسے اپنی مضبوط بازووں میں اتھایا اور چلتا ہوا اپنی کار تک آیا کہ اس کے سر اور ٹانگوں پر مزید دباو نہ پرے اور ڈرائونگ سیٹ پر خود بیٹھااور ساتھ سیٹ پر اسے کار کی سیٹ بیک کرکے اسے آرام سے بٹھایا۔
اسکا موبائل پرس سب اسکے پرس سے لائسنس نکالا اور ایڈریس نوٹ کفتے ہوئے کار سٹارٹ کی۔ڈرائیو کرتے ہوئے اسکی سنہری زلفیں اسکے کندھے سے ہوا کے باعث ٹکرا رہی تھی اس نے بےاختیاری میں اسے دیکھا پنک فراک سرمائ ہیلز کے ساتھ پہنے بال ڈھیلے جوڑے میں بندھے جو اب کھل چکے تھےاور اس سے ٹکرا رہے تھے وہ بلاشبہ بہت حسین تھی کہ وہ کچھ لمحوں کو چاہ کر بھی نگاہ نہیں ہٹا پایا۔وہ اب اسکی لاپرواہی پر پریشان اور غصے میں تھا۔۔۔
“آہ! میرا سر” درد کی شدت سے وہ نیم بےہوشی میں کراہی۔ یہ سنتے ہوئے عرشمان نے چہرے کا رخ اس کی سمت موڑا۔ وہ اب کچھ کچھ ہوش میں آنے لگی تھی۔”تم۔۔تم یہاں ۔۔۔ اینڈ میں تمہاری کار میں؟؟” اس نے گردو نواں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔”ہاں میری ہی کار میں ہیں آپ محترمہ” ونڈ سکرین کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے جواب دیا۔”میں یہاں کیسے آئ۔۔۔۔آوچ” درد کی ایک شدید لہر پھر سے اٹھی۔
“آپ میرے ساتھ لونگ ڈرائیو پر چل رہی تھیں۔کچھ ہوش ہے آپ کو اپنی۔ گاڑی ڈرائیو کرنی آتی نہیں ہے تو چلاتی کیوں ہیں۔پتا ہے کس سنسان سڑک پر گاڑی میں پڑی تھی آپ۔ اگر کچھ ہوجاتا تو۔۔۔کسی کا خیال نہیں آیا عائشہ کا نہ سمن” اس نے ملامتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔”تو مرنے دیتے وہیں کیا ہوتا مر ہی جاتی نہ سب مرتے ہیں میں نے دعوت نامہ تو نہیں بھیجا تھا کہ آئیں اور ترس کھا کف مجھے وہاں سے نکالیں۔مجھے تنہا جینا آتا ہے۔ کچھ لمحے کار میں خاموشی چھائ رہی۔ اس نے چہرے کا رخ موڑ کر اس کی طرف دیکھا اسکا چہرہ مسلسل بہتے آنسووں سے بھیگ چکا تھا۔ عرشمان نے اس کی آنکھوں کو پڑھنے کی کوشش کی پھر ٹشو باکس سے ایک نکال کر اسکی طرف بڑھایا اور مدھم لہجے میں بولا”یہ لیں اپنا چہرہ صاف کریں میں نے آپ پر کوئ ترس نہیں کھایا اب ایسا کہا تو یہیں اتار کر چلا جاوں گا”
“مجھے کہا لے جا رہے ہو؟” چہرے کا رخ شیشے کی طرف موڑے اس نے پوچھا “میراتھون کی ریس ہے نا جس میں آپکو شرکت کرنی ہے وہیں ڈروپ کرنا ہے بس اوبویسلی اس حالت میں گھر ہی لے جاوں گا نا ” اس نے خفا ہوتے ہوئے کہا کہ حور نے بامشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔مسکراتے ہوئے اسکے دائیں رخسار پر ڈمپل پرا وہ مسکراتے ہوئے کتنی اچھی لگتی تھی اس نے دل ہی دل میں سوچا۔”ویسے ٹائر پنکچر کرنا کس سے سیکھا ہے کافی مہارت سے کیا تھا میری نئ کار کا “جو میری جگہ کار پارک کرتا ہے اور میرا کین چھین کر لے جاتا ہے اس پر یہ ٹرک ایپلائ کرتی ہوں” وہ فخر سے کہتے ہوئے بولی۔اب وہ تھوڑا بہت اس سے بات کرنے لگی۔کار اب ہور کے اپارٹمنٹ کے قریب پہنچ چکی تھی۔
**************
روم میں ہر طرف سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ کمرے کے وسط میں ایک زرد لیمپ بلب چل رہا تھا۔ کھڑکی کے قریب کھڑے شیمپین کے تین گلاس تیار کرتے ہوئے وہ کسی سوچ میں ڈوبا تھا۔ سنوکر کی سٹک پکر کر بال کو فوکس کرتے ہوئے ایک نے نشانہ باندھتے ہوئے کہا” ہمیں جلد سے جلد اس معاملے کو اینڈ کرنا ہوگا۔ تیسرے شخص نے تمسخرانا مسکراتے ہوئے گلاس اس کے ہاتھوں سے لیا “سب کچھ کنٹرول میں ہے 99% کام ہم کر چکے ہیں بس کسی صحیح موقعے کا انتظار ہے اور پھر سب کچھ ہمارے قبضے میں ہوگا
وہ قدم اٹھاتے ہوئے دوسرے کے قریب آیا اور سٹک سے ایک دوسرے گیند پر نشاانہ باندھا بال دوسری گیند سے ٹکراتی ہوئ ہول میں چلی گئ۔”یہ فاول ہے تمہاری بال میری سے ٹکرائ ہے۔”
اس دوسرے شخص نے فوراا کہا “مقصد پورا ہونا چاہئیے چاہے سیدھے طریقے سے ہو چاہےغلط وہ تمام ایریا بہت جلد ہمارے قبضے میں ہوگا اسے اب یہ بات ذہن نشین کرنا پرے گی ورنہ اب تباہی شروع ہوگی”اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“شروع ہوگی نہیں بلکہ ہو چکی ہے مجھے ایک موقع مل چکا ہے اور اب صرف ہماری اور ہمارے ارادوں کی جیت ہوگی”کچھ دیر سے کھڑے خاموش نوجوان نے کہا۔ وہ دونوں بھی اسکی طرف دیکھنے لگے۔وہ چلتا ہوا ان کے قریب آیا اور
انھیں بتانے لگا “اس ایونٹ کو تو ضرور یادگار بنانا پڑے گا آخر کو اس کے بعد ہماری کامرانی کا جشن منایا جائے گا۔۔
**********
حور کے اپارٹمنٹ پہنچتے ہی اس نے اسکی طرف کا ڈور کھولا “اب میں چلی جاوں گی تھینکس الوٹ”کہتے ہوئے اس نے پاوں کار سے باہر رکھے ہی تھے کہ درد کی شدید لہر اٹھی۔”محترمہ اتنا شدید ایکسیڈینٹ کرنے کہ بعد آپ خود کو ٹوم کرووز کا جان نشین سمجھ بیٹھی ہیں جو یہ زینے چڑھ کر اوپر چلی جائیں گی” کار کے پچھلے دروازے سے تیک لگاتے ہوئے اس نے مسکراتے ہوئے کہا
“تو پھر اب میں اوپر کیسے جاوں گی”اس نے پریشانی سے پوچھا”حل تو ہے مگر شائد آپکو پسند نہ آئے ” اس نے سنجیدگی سے کہا” کیا مطلب؟”اس نے آبرو سکیرتے ہوئے پوچھا”مطلب تو صاف ہے آپ اوپر چل کر جا نہیں سکتی اور میں آپکو پوری رات اپنی کار میں بٹھا نہیں سکتا لیکن۔۔۔۔”
“لیکن کیا؟؟” اسے اب لگ بھگ سمجھ آچکی تھی۔”مطلب مجھے آپکو اوپر چھوڑ کر آنا پرے گا” اسنے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا”
“نو نیور ! میں ہر گز اسکی اجازت نہیں دوں گی ” اسنے قدم باہر کی طرف بڑھائے کہ اچانک پاوں لڑکھرایا اس سے پہلے وہ گرتی عرشمان نے اسے سہارا دیتے ہوجے دوبارہ بٹھایا”میں پوری رات یہاں سڑک پر نہیں گزار سکتا مس ہور! اور آپ کی معلومات کے لیے ارض ہے کہ میں انتہائ ڈیسنٹ انسان ہوں مجبوری میں دوسروں کے کام آتا ہوں لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ہر ایک کو ایسی آفر کرتا ہوں”
اس نے کوئ جواب نہیں دیا اور چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ لیا “تم ایسے نہیں مانو گی ویٹ میں عائشہ کو کال کرتا ہوں وہی آکر اس مسلے کا کوئ حل تلاش کرے گی” یہ کہتے ہوئے اس نے جیب سے فون نکالا اور کال ملانے لگا ہی تھا کہ ہور نے اسے روکا وہ عائشہ کو اس وقت پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
استنبول آئے انھیں صرف دو ماہ ہوئے اور ابھی بہت سی جگہیں ایسی تھی جنہیں وہ خود ایکسپلور کرنا چاہتی تھی۔ لیکن مومی زیادہ وقت مصروفیات میں گزارتی سو وہ nearby areas کا وزٹ کر لیتی۔ آج اس کا موڈ Beykoz groove جانے کا تھا۔ یہ پارک کوٹیج کے قریب تھا۔والکنگ ڈسٹنس تہ کرکے وہ پارک میں اینٹر ہوئ۔بلیک اوورکوٹ پر مفلر لیے وہ دھیمے قدموں سے چلتی ہوئ پارک کا جائزہ لے رہی تھی۔پرندے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔
خزاں رسیدہ درختوں سے زرد پتے چلتی ہواوں کے باعث نیچے گر رہے تھے۔شام کے اس ماحول میں اک اجب سی اداسی تھی۔ سیاح اردگرد پارک کا جائزہ لے رہے تھے اور موسم کو انجوائے کر رہے تھے۔ وہ ٹریک پر آگے کی طرف چل رہی تھی کہ پیچھے سے کسی آنے والے نے اسے ڈرا دیا اور خود مسکرانے لگا۔”تم کیاں ہر جگہ بھوت بن کر میرے پیچھے آ ٹپکتے ہو۔ اور آج تو ڈرا ہی دیا” وہ خفا سی کہنے لگی۔
“میں شام کو یہاں واک کے لیے آتا ہوں” اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ اب وہ دونوں ٹریک پر چلتے ہوئے کچھ آگے نکل آئے۔”تم نے اپنی فیملی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا انس؟” اس نے پوچھا”میری مدر کی ڈیتھ ہو چکی ہے اور باقی ڈیڈ اوٹ آف سٹی ہوتے ہیں ویک اینڈز پر اکثر ملنے چلا جاتا ہوں”
کچھ دور جاکر انھیں کچھ گھوڑے نظر آئے تو دونوں اس طرف ہی چل دیے۔”مجھے ہورس رائڈنگ کا بہت شوک ہے کریسٹی دوسروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا ایک الگ ہی مزا ہے تم بھی چلو نہ میرے ساتھ” اس نے پوچھا “فائن ” وہ کندھے اچکاتے ہوئے آگے بڑھ گئ۔ دونوں اب الگ الگ گھوڑوں پر سوار ان کی لگامیں تھامے ہوئے ساتھ ساتھ دوڑانے لگے “تمہاری لائف کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے کریسٹی” اس نے گھوڑے کی لگام کو کھینچتے ہوئے پوچھا “ویل میں چاہتی ہوں کہ لائف میں ایسا کوئ کام نہ ہو جو میں نہیں کر سکتی آئے وانٹ ٹو بی پرفیکٹ ان ایوری تھنگ سو ڈیٹ مجھے کسی کی ضرورت نہ پرے اور مومی بھی مجھے ایسا دیکھنا چاہتی ہیں “
“ویل دیٹس گریٹ”اس نے کہا اور اب دونوں گھوڑوں سے اتر کر exit gate کی طرف بڑھ گئے۔”چلو ٹائم بہت ہوچکا ہے اب چلنا چاہئے ” ۔ “yeah sure” اور دونوں باہر کی طرف چل دیے۔شاخوں سے پتے اب بھی تیز ہوا کے سبب گر رہے
**************