پروفیسر زوار حسین(بھاولپور)
علامہ محمد اقبال اردو اور فارسی زبان کے وہ خوش نصیب شاعر اور فلسفی ہیں جن کی فکر اور فلسفے کی اہمیت وانفرادیت کا اعتراف ان کی زندگی میں ہونے لگا تھا۔ تفہیم اقبال کایہ عمل ہنوز جاری ہے ۔ اقبال شناسی کی پہلی معتبر اور کامیاب کاوش ایرانی محقق سید محمد علی داعی علی الاسلام نے ۱۹۲۸ء میں ’’ اقبال و شعر فارسی‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر کی۔ اقبال شناسی کے ضمن میں مشق و مغرب کے دانش وروں نے جو گرم جوشی دکھائی ہے وہ لائق تحسین بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔ مثلاً پروفیسر نکلسن کا اقبال کے فارسی مجموعہ کلام اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ، جرمن خاتون این میری شمل (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ) کے کلام اقبال کے جرمن زبان میں تراجم ، فرانس کے معروف ادیب ایوامیغیووچ کا جاوید نامہ، کا فرانسیسی زبان میں منظوم ترجمہ، اے ۔ جی ۔ آر بری کے جاوید نامہ،زبور عجم، رموز بے خودی اور پیام مشرق میں شامل قطعات کے تراجم ، وی۔ جے کیرنن کے علامہ اقبال کے منتخب کلام کے انگریزی زبان میں Poems from Iqbalکے نام سے منظوم تراجم، اٹلی کے نامور محقق اساندر یو بوسانی کا، جاوید نامہ، کا اطالوی زبان میں ترجمہ ، ایرانی دانش ور سید محمد محیط طبا طبائی کی اقبال شناسی کے حوالے سے قابل قدر خدمات، ڈاکٹر علی شریعتی کا اقبال پر عالمگیر شہرت کا حامل تحقیقی کام ، مصر میں عبدالوہاب عزام کے کلام اقبال کے تراجم، ترکی میں محمد عاکف ڈاکٹر علی نہارتارلان کے کلام اقبال کے تراجم یہ علامہ اقبال کے کلام و پیغام کی تفہیم و تشریح کی چند مثالیں ہیں۔ ورنہ بیرون برصغیر علامہ اقبال کی فکر اور فلسفہ پر کام کرنے وا لے محققین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
علامہ اقبال بیسویں صدی کی مشرقی ادب کی غالباً واحد توانا اور فلسفیانہ آواز ہیں جن کے ہاں ایک مربوط و منظم فلسفیانہ نظام ملتا ہے۔ انہوں نے حیات و کائنات کے بارے میں جو فکری اساس مہیا کی ہے اس کا محور و مرکز انسان ہے۔ یوں تو اقبال کی شاعری اور فکر کے حوالے سے تقریباً ہر نکتے پر محققین و ناقدین نے توجہ صرف کی ہے مگر علامہ اقبال کی انسان دوستی کے حوالے سے قابل قدر کام کی گنجائش تا حا ل موجود تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ علامہ اقبال کا تمام فلسفہ اور پیغام احترام آدمیت اور تعمیر انسانیت کے پاکیزہ جذبات سے لبریز ہے۔ تبھی سید وقار عظیم کہتے ہیں:۔
’’اقبال شاعر فطرت بھی ہیں، شاعر وطن بھی اور شاعر حسن و محبت بھی،لیکن ان سب سے زیادہ وہ شاعر آدم ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔۔ جس چیز نے اقبال کو شاعر حکمت اور حکیم ملت کا لقب دلوایا اور ان کی شاعری کو ایک عالمگیر مصلحانہ اور حکیمانہ پیغام کامل بنایا وہ ان کی شاعری کا وہ پہلو ہے جس پر ذکر آدم کی مہر ثبت ہے۔‘‘ (۱)
حقیقت بھی یہی ہے کہ علامہ اقبال نے جب اپنے ارد گرد کے ماحول اور حالات پر نگاہ کی تو انہیں سسکتی انسانیت اور دم توڑتی انسانی قدریں نظر آئیں۔ وحشت و بربریت کی حکمرانی ، ملک گیری اور ہوس کی راج دھانی نظر آئی۔ انہیں انسان ہی انسان کا شکاری نظر آیا تو انہوں نے ا پنی ساری توانائیوں کا رخ انسان سے محبت اور دوستی کی طرف موڑ دیا۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری، خطوط، خطبات اور مضامین میں وا شگاف انداز میں کیا ہے۔ کریم بخش خالد کہتے ہیں:۔
’’اقبال تمام انسانوں کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ وہ کسی ایک فرقے یاملت کے شاعر نہیں بلکہ تمام انسانیت کے شاعر ہیں۔‘‘(۲)
طالب حسین سیال نے کلام اقبال اور پیغام اقبال کی تعبیر و تشریح انسان دوستی کے حوالے سے کی ہے۔ جب کوئی محقق کسی موضوع کو تحقیق کے لئے چنتا ہے تو اس پسند یدگی کے پس پردہ اس کا شعور اور ذاتی رویے کار فرما ہوتے ہیں۔ یقین ہے کہ اس موضوع کو پسند کرنے کا سبب طالب حسین سیال کی انسان دوستی ہو گی۔ ایک اچھے محقق کی طرح انہوں نے اقبال کی شاعری اور پیغام سے اپنے عہد بہ عہد ربط کو بڑے سیدھے سادے انداز میں پیش کر کے اپنی شخصیت کو قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کا مطالعہ علامہ اقبال کی شاعری تک محدود تھا تو وہ انہیں عظیم مفکر، مسلمانوں کیلئے اپنے دل میں بے پناہ دردرکھنے والا اور مسلمانوں کی بے عملی سے پریشان شاعر اور مصور پاکستان کے طور پر جانتے تھے۔ مگر جب انہوں نے خطبات اقبال کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا تو انہوں نے اقبا ل کو شاعر انسانیت کے روپ میں دیکھا انہیں معلوم ہوا کہ ہم نے علامہ اقبال کو شاعر مشرق، حکیم الامت اور مصور پاکستان کے خطاب دے کر محدود کر دیا ہے ۔ اقبال تو دانا ئے راز اور مفکر انسانیت ہیں۔ وہ احترام آدمیت، وحدت انسانی اور حقوق انسانی کے زبردست وکیل ہیں۔ ان کے نزدیک انسان ہی مقصود کائنات ہے۔ (۳)
اقبال شناسی کے ضمن میں طالب حسین سیال نے اپنی توجہ اس نکتے پر مرکوز رکھی ہے کہ اقبال کا پیغام پوری نسل انسانی کے لیے ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کا دل، دماغ جس سے روشن اور روح مستنیر ہوتی ہے وہ روشنی انہیں خاک مدینہ سے حاصل ہوئی ہے اورانہوں نے اسلامیان ہند کے مسائل کا خصوصاً ذکر بھی کیا ہے مگر ان کا پیغام صرف برصغیر کے مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے پیام کی حیثیت آفاقی اور کائناتی ہے۔ چنانچہ طالب حسین سیال نے اقبال کی انسان دوستی کو اپنے قلم کی جولاں گاہ بنایا ہے۔
کہنا چاہئے کہ طالب حسین سیال کا منتخب کردہ موضوع اپنے اندر اتنی ہی وسعت رکھتا ہے جو وسعت اقبال کی شاعری اور پیغام کو حاصل ہے۔ اقبال اور انسان دوستی کے موضوع پر صرف ایسا شخص ہی قلم اٹھا سکتا تھا جس نے نہ صرف اقبال کے ا ردو ، فارسی کلام کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہواور اقبال کے خطبات و خطوط سے بھی بیگانہ نہ ہو بلکہ انگریزی زبان و ادب پر گہری نگاہ رکھتا ہو۔ کیوں کہ اگر اقبال ایک طرف رومی اور ابن عربی سے متاثر ہیں تو دوسری طرف انہوں نے مغربی فلاسفہ کا بھی نظر عمیق مطالعہ کیا ہوا ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر وحید عشرت کا کہنا ہے :۔
’’آب خطبات اقبال اور کلام اقبال کا بغور مطالعہ کریں تو ماقبل فلاسفہ پر اقبال کے انتقادی رویے کا آپ کو شدت سے احساس ہوگا اور آپ محسوس کریں گے کہ اقبال نے ماقبل کے فلاسفہ سے اخذو قبول میں ایک علمی اور انتقادی رویہ اختیار کیا۔‘‘(۴)
طالب حسین سیال کو اس امر کا بخوبی احساس تھا چنانچہ انہوں نے اقبا ل شناسی کی منزل انہیں راستوں پر چل کر طے کی ہے جن سے اقبا ل کا گزر ہوا تھا۔ انہوں نے اقبال کی حقیقی شخصیت اور رویوں کا پتہ چلانے کے لئے علامہ کے بچپن ، لڑکپن، جوانی اور پختگی کی عمر کے رویوں اور ان میں عہد بہ عہد تبدیلی و ارتقاء کو نگاہ میں رکھا ہے ۔ اور سیال صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہیں ۔اول یہ کہ اقبال نے سید میر حسن کے فیض تربیت اور مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے سے یہ حقیقت جان لی ہو گی کہ تمام الہامی ادیان اپنی ابتدا کے اعتبارسے اپنے اندر انسان کی بھلائی کے پہلو لئے ہوئے ہیں۔ دوم یہ کہ علامہ اقبال ، مذہب کو مغربی فلاسفہ کی طرح افیون نہیں سمجھتے بلکہ مذہب اقبال کے ہاں انسان کی روحانی و نفسیاتی ضرورت کے طور پر ابھرتا ہے ، مذہب ہی ہماری معاشرت و سیاست کو اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا ہے اور روح کو روشنی عطا کرتا ہے ۔ اقبال اہل یورپ کی طرح مذہب کو زندگی سے بے دخل کر دینے کے حامی نہیں۔ چنانچہ طالب حسین سیال نے اپنے قاری کو اقبال کے اثبات مذہب کے نظریے تک پہنچانے کے لئے عیسائیت ، یہودیت اور اسلام کے علاوہ دین ابراہیم سے پہلے کے مذاہب کا مفصل جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ مثلاً ہندومت جو اپنے ذات پات کے نظام کے سبب سے انسان دوستی کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ طالب حسین سیال ہندومت کا تجزیہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:۔
’’ہندو لٹریچر میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا کوئی تصور نہیں ملتا ۔ ہندوازم میں اشجار وحجار،نجوم وسیارگان اور بروج کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ان سے اور مظاہر فطرت سے انسان کی قسمت کو وابستہ سمجھا جاتا ہے ۔‘‘(۵)
ہندومت کے علاوہ بدھ مت ، جو انسانی اخوت ومساوات کا حامی ہے۔ کنفیوشس (۱۵۵ق م تا ۹۷۴ق م) کی تعلیمات کے زیر اثر کنفیوشزم نے انسان کو کائنات کا محور و مرکز تسلیم کیا ہے۔ آج سے تین ہزار سال قبل زرتشت کی تعلیمات میں انسان کو کائنات کی بہترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ پھر حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے تعلق رکھنے والے انبیاء حضرت موسیؑ اور حضرت محمدؐ جو شریعت اور دین لائے ان سب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے مشترک عقیدے کے بعد انسان کی بھلائی کو اولیت دی گئی ہے۔ یہ تمام باتیں ایسی تھیں جن کا مفصل ذکر کیے بغیر اقبال اور اس کی انسان دوستی تک رسائی ممکن نہ تھی۔ طالب حسین سیال نے ردو قبول کے طریقہ کا ر کو اپناتے ہوئے ہر اہم موضوع اور بحث کو قاری تک پہنچایا ہے۔اور غیر ضروی تفاصیل سے دامن بچایا ہے۔
علامہ محمد اقبال کو ایک تو تصوف سے فطری لگاؤ تھا اور پھر مسلم صوفیاء نے جس طرح مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر انسانوں سے محبت اور صلح جوئی کا درس دیا ہے علامہ اقبال کے لئے اس میں بڑی کشش تھی۔ چنانچہ طالب حسین سیال نے علامہ کی فکر کے اس پہلو کو نمایاں کرنے کے لئے تصوف کی روایت پر بھر پور روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ’’الصوفی‘‘ کو لقب کے طور پر تاریخ میں پہلے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں کوفے کے ایک شیعہ کیمیا گر جابر بن حیان کے نام کے ساتھ جو زہد میں ایک مسلک خاص رکھتا تھا استعمال کیا گیا ۔ (۶)صوفیاء کے مسلک صلح کل اور انسان دوستی کے بارے میں طالب حسین سیال کہتے ہیں:۔
’’صوفیہ عالمگیر اخوت اور بنی نو ع انسان سے محبت کے علمبردار تھے۔ انہوں نے مذہبی ریاکاری اور اجارہ داری ، مذہبی منافرت، مذہبی کٹر پسندی سرمایہ دارانہ نظام اور دنیاوی نمود، شان و شکوہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔ ان کا پیغام محبت و خلوص، بے کسوں کی مدد، مظلوموں کی حمایت، احترام آدمیت اور مساوات انسانی سے عبارت ہے۔‘‘(۷)
درا صل یہی اقبال کا مسلک ہے۔
مسلمان صوفیاء کے نظریات کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی فلاسفہ کے افکار و نظریات اور ان کی انسان دوستی پر سیر حاصل بحث سے سیال صاحب کا قاری تاریخ کے تاریک ادوار میں انسانوں کی اصلاح و فلاح کے لئے کام کرنے والے مفکرین سے مکمل طور پر آگا ہ ہو جاتا ہے ۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ انسان دوستی کی اس روایت کو یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد جن مفکرین و فلاسفہ نے مضبوط و مستحکم کیا ان تمام کا تذکرہ اور اس تحریک کے علامہ اقبال کی شاعری اور فکر پر جو اثرات مرتسم ہوئے، اس کا تجزیہ نہایت محققانہ اور ناقدانہ انداز میں کیا ہے۔
علامہ اقبال کی شخصیت کی تعمیر و تہذیب میں جن عوامل نے حصہ لیا اس میں ان کا خاندان ، اساتذہ اور عصر ی حالات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ طالب حسین سیال نے اپنی رائے ٹھونسنے کی بجائے ہمیں علامہ کی زندگی کے ہر اہم لمحے اور ایک ایک واقعہ سے روشناس کرایا ہے ۔ مثلاً علامہ اقبال کے والد نور محمد کا تصوف کی طرف مائل ہونا، والدہ اقبال کا یتیم و بے سہارا بچیوں کو گھر میں پالنا پوسنا اور جہیز دے کر رخصت کرنا۔ اس ماحول سے اقبال کا متاثر ہونا اور انسانوں سے ہمدردی کرنا فطری امر تھا۔ پھر اقبال کے روشن خیال اساتذہ جن میں میر حسن جیسا روشن خیال نابغہ، لالہ جیا رام اور ابو سعید جیسے وسیع المشرب، پروفیسر آرنلڈ جیسا علم دوست شامل ہیں۔ ان سب نے اقبال کے قلب و ذہن کو وسعت عطا کی۔ طالب حسین سیال ان تمام اشخاص ، واقعات کا تذکرہ نہایت مناسب اندا ز میں کرتے ہیں تاکہ علامہ اقبال کی شخصیت کا کوئی پہلو قاری سے پوشیدہ نہ رہے۔ سیال صاحب نے بجا طور پر علامہ کی ذات کے حوالے سے یہ رائے قائم کی ہے کہ اقبال کے علمی، فکری اور سیاسی نقطہ نظر میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقائی صورت نظر آتی ہے مگر ایک چیز جو علامہ اقبال کی زندگی کے ہر حصے میں ان کے ساتھ رہی وہ انسان دوستی کا جذبہ ہے ۔ جس کا علمی اظہار علامہ نے اپنی پہلی تصنیف ’’علم الاقتصاد‘‘ کے ذریعے کیا۔ علم الاقتصاد کے دیباچے میں انہوں نے تمام انسان کے دکھوں اورمسائل کا ذکر نہایت دردمندی سے کیا ہے ۔ اس مرحلے پر ممکن تھا کہ طالب حسین سیال کا قاری یہ سمجھ بیٹھتا کہ اقبال کی فکر و فلسفے میں بنیادی اہمیت شاید معیشت کو حاصل ہے تو سیال صاحب گویا ہوتے ہیں:۔
’’اقبال کی فکر میں دو دھارے ہمیشہ موجزن رہے۔ عقلی دھارے نے ان کو انسان کی معاشی ضروریات کی طرف متوجہ کیا جب کہ ان کے روحانی اور وجدانی طرز فکر نے ان کو یہ راہ بتائی کہ انسان کا مقصود صرف مادی ضروریات کو پورا کرنا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔زندگی مادی ضرورتوں کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔‘‘(۸)
یہ ایک بد یہی حقیقت ہے کہ اقبال کا ذہنی و فکری ارتقاء اور انگلستان کا سفر ایک ساتھ شروع ہوتا ہے۔ مظاہر فطرت سے سرگوشی، حسن فطرت سے لگاؤ ، انسانیت سے ہمدردی ، شرف آدم اور احترام آدمیت کے تو اقبال زمانہ طالب علمی سے قائل اور مذہبی کٹر پن کے خلاف تھے۔ چنانچہ ان کی شاعری کا کل پیچا ں اور عارض گلگوں کی شاعری نہ تھی۔ وہ مجازی محبوب کیلئے نالہ فراق نہیں رکھتے تھے۔ سفر انگلستان نے ان کی فکر کو مزید جلا بخشی تو مشرقی و مغربی حکماء و فلاسفہ کے نظریات اور مشرق و مغرب کے تہذیب و تمدن کو غائر نظر دیکھنے سے ان کے خیالات میں تبدیلی آئی۔ جس کا ذکر طالب حسین سیال یوں کرتے ہیں:۔
’’اقبال نے مشرق کے تصور تصوف میں سے تصوف خفتہ کو منہا کر دیا اور مغرب کے تصور انسان دوستی میں اس طرح ترمیم و توسیع کی کہ اس میں خدا پرستی اور اسلام کے معاشرتی نظام کو شامل کر دیا اور اس طرح یورپ سے واپسی پر نیا اقبا ل ابھرا جس نے انسان دوستی کو باقاعدہ ایک فلسفہ کی حیثیت سے پیش کیا۔‘‘(۹)
اقبال ملوکیت، ملائیت، پاپائیت کے خلاف اور وسیع المشرب انسان تھے ۔ وہ افکار و خیالات کے بحر میں شناوری کرنے والے تھے وہ ہر تابدار موتی سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں۔ انہیں جہاں کہیں روشنی نظر آتی ہے وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ان کی مذہبی رواداری کا ذکر سیال صاحب ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔
’’انہوں نے اپنے اشعار میں کئی جرمن، انگریزی ، اطالوی ، روسی ،ہندی، عربی اور عجمی شعراء ، صوفیہ و حکماء و قائدین کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ یہ اقبال کی وسیع المشربی اور ان کے وسیع مطالعہ اور عمیق فکر کی دلیل ہے ۔ ان کو جس معاشرے اور اقوام میں اورجس دور میں بھی کوئی اعلیٰ درجے کا انسان نظر آیا انہوں نے اس کی تعریف کی ہے۔‘‘(۱۰)
طالب حسین سیال نے فلسفہ اقبال کے نمایاں عنوانات ، خودی ، تصور آدمیت، حقوق نسواں ، امامت، اور مرد مومن سمیت تمام تصورات کی توضیح و تشریح علامہ اقبال کے نقطہء نظر سے کی ہے۔ سیال صاحب کے قاری کو کسی بھی مرحلے پر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اقبال کی فکر کے پردے میں اپنے نظریات پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مثلاً وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت یوں کرتے ہیں:۔
’’خودی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ اقبال کا ذاتی وجدانی تجربہ ہے جسے ہم ایک صوفیانہ تجربہ کہہ سکتے ہیں جس کی نوعیت داخلی اور باطنی ہوتی ہے لیکن خودی کے عمرانی مقاصد اور اخلاق پہلوؤں کا عقلی لحاظ سے ادراک ممکن ہے۔ خودی کا باطنی پہلو ذاتی تجربے کے بغیر نا قابل فہم ہے لیکن اس نظریے کے عمرانی اور اخلاقی اصول عملی لحاظ سے قابل فہم ہیں اور فرد اور اقوام کی زندگیوں کو بدل سکتے ہیں۔‘‘(۱۱)
جس طرح علامہ اقبال کا فلسفہ خودی حقوق انسان کی دستاویز ہے اسی طرح ان کا مرد مومن کا تصور اندرونی فعالیت میں تو نطشے کے فوق البشر جیسا ہے مگر اقبال کا مرد مومن اخلاقی اقدار کا پابند اور عملی انسان ہے۔ طالب حسین سیال نے اقبال کے مرد مومن اور نطشے کے فوق البشر میں نمایاں فرق بتایا ہے اس بحث کے لئے انہوں نے دلیل اقبال کے خطوط سے مہیا کی۔
علامہ اقبال کے نزدیک اسلام تمیز بندہ و آقا، ذات پات کے سماجی امتیازات اور نسلی تفاخر کے خلا ف ہے۔ اسلام کا پیغام ہمہ گیر اور مساوات و اخوت پر مبنی ہے ۔ ان کے نزدیک تمیز بندہ و آ قا فساد آدمیت ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے اس لئے شدید مخالف ہیں کہ وہ محنت کشوں کا استحصال کرتا ہے۔ اقبال غریبوں کے حقوق کے پاسباں ہیں اسی لئے وہ سہمے ہوئے طبقات کو جگاتے اور حوصلہ دیتے ہیں۔ وہ کارل مارکس کے معاشی نظریات کی تعریف کرتے ہیں تو اس سبب سے کہ انسان کی خارجی زندگی کی اصل معاش ہے۔ مثلاً بال جبرئیل کی نظم ’’فرمان خدا(فرشتوں سے) ‘‘میں اقبال سرمایہ داری کے خلاف بھر پور احتجاج کرتے ہیں۔ طالب حسین سیال اس کا تجزیہ یوں کرتے ہیں:۔
’’اقبال کی نظم بعنوان’’فرمان خدا(فرشتوں)‘‘ سرمایہ داری نظام کے خلاف شدید جذبات کا اظہار ہے ۔ اس اظہارمیں انسان دوستی کے جذبات مضمرہیں۔ دراصل وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں انسان کی عزت ہو ، احترام آدمیت ہو ، زروسیم ہدف زندگی نہ ہو بلکہ اعلیٰ انسانی اخلاق کی ترویج اور کمال انسانیت کا حصول ، زندگی کا نصب العین ہو۔‘‘(۱۲)
اس نظم کے اشعار سے اقبال مغرب کی انسان دوستی کی تحریک کے قریب تر نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال مغرب کی ہیومنزم کی منکر خدا تحریک کے تصور کو من وعن تسلیم کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ مذہب کی ضرورت و اہمیت کے قائل رہے ہیں۔ اقبال اثبا ت مذہب کو انسان کی روحانی بالیدگی اور اخلاقی پاکیزگی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں البتہ مذہب میں وہ رواداری کے قائل ہیں۔ وہ حریت فکر کے داعی ہیں۔وہ فرد کی عظمت ، آزادی اور خود مختاری پر پختہ یقین رکھتے ہیں وہ فرد کی انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں کو باقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ریاست اور سیاست کے بارے میں اقبال کا نقطہ نظر بڑا واضح اور حقیقت پسندانہ ہے۔ ان تمام باتوں کے بارے میں طالب حسین سیال نے بڑی تگ ودو اور تحقیق سے اقبال کے خیالات کو قاری تک پہنچایا ہے ۔ اور سیال صاحب، علامہ کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچے کہ علامہ اقبال نے ضعیف الاعتقادی، سرمایہ دارانہ نظام ، مادیت پرستی اور ملوکیت کے خلاف نعرہء مستانہ بلند کیا اور انسان دوستی کا پیغام چہاردانگ عالم میں پھیلایا تو یہ کچھ مبالغہ نہیں ۔ سیال صاحب کے نقطہ نظر کی تصدیق اقبالیات کے دیگر ناقدین و محققین کی آرا سے بھی ہو سکتی ہے مثلاً ڈاکٹر یوسف حسین خان کہتے ہیں:۔
’’اقبال کے نزدیک کسی تہذیب کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ اس میں انسانی فضیلت کو تسلیم کیا جائے اور اس میں افراد ذریعہ نہ ہوں بلکہ مقصود ہوں اس واسطے کہ انسان کا نام ساری کائنات سے بلند ہے۔‘‘(۱۳)
طالب حسین سیال نے علامہ اقبال کی فکر کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے اور اسے اپنے قاری تک پہنچایا ہے۔ اگر انہیں اقبال کے نقطہ نظر سے اختلاف ہے تو اس کا انہوں نے برملا اظہار کر دیا ہے۔ اقبال عورتوں کی تعلیم اور حقوق کے تو حامی ہیں مگر وہ عورت کو اس قدر آزادی نہیں دینا چاہتے کہ عورت فرائض اُمومت سے ہی پہلو تہی کرنے لگے ۔ اقبال کے خیال میں مغربی تہذیب نے عورت کو جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے اس سے عورت کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ علامہ اقبال عورت کے لئے الگ نصاب ، زیادہ تر امورخانہ داری اور دینی تعلیم کے حق میں ہیں۔ یہ بات سیال صاحب کے نزدیک کچھ زیادہ قابل قبول نہیں ۔ وہ کہتے ہیں:۔
’’اقبال کا یہ کہنا کہ عورت معاشی تگ و دو میں مرد کے دوش بدوش شریک نہ ہو اور وہ سیاسی و قومی زندگی کی سر گرمیوں میں حصہ نہ لے حقیقت پسندانہ معلوم نہیں ہوتا۔ اسلام نے بھی عورتوں پرا یسی کوئی پابندی نہیں لگائی۔‘‘(۱۴)
المختصر ، طالب حسین سیال نے اقبال کی زندگی کے مختلف ادوار ، کلام اقبال اور خطوط و خطبات اقبال سے شواہد پیش کر کے اپنے قاری پر یہ بات عیاں کر دی ہے کہ اقبال بنیادی طور پر انسانیت سے محبت کرنے والے اور انسان کی بھلائی چاہنے والے تھے۔ ان کی شاعری سے مذہبی رواداری ، باہمی اتحاد ویگانگت اورخدمت انسانیت کا درس ملتا ہے۔ اقبال انسان کے ساتھ ظلم و تعدی کا سلوک کسی صورت روا نہیں سمجھتے ،چاہے یہ ظلم کوئی مذہبی پیشوا، واعظ یا پروہت کے بھیس میں کرے یا شہر یار و حاکم کے روپ میں روارکھے ۔ بانگ درا سے لے کر ضرب کلیم تک اور اسرار خودی سے لے کر جاوید نامہ تک اقبا ل کا ہر مجموعہ کلام انسان دوستی کے پسندیدہ جذبات سے پُر ہے۔سیال صاحب نے فکر اقبال کے اس گوشے پر مفصل ومدلل انداز میں لکھ کر اردو داں طبقے اور اقبالیات کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کو اقبال کی حقیقی فکر سے آگا ہ کیا ہے ۔ امید ہے سیال صاحب کا یہ تحقیقی کام اقبالیات پر کام کرنے والے محققین کے لئے مشعل راہ بنے گا۔
حوالہ جات
کتاب کا نام ۔۔۔۔۔مصنف کا نام۔۔۔۔۔۔اشاعتی ادارہ۔۔۔۔سال اشاعت۔۔۔۔۔ صفحہ
ا۔اقبال شاعر اور فلسفی :سید وقار عظیم اقبال اکادمی پاکستان طبع سو م نو مبر۲۰۰۲ء ص۲۱۷
۲۔کلام اقبال اور انسان دوستی کریم بخش خالد،مشمولہ ماہ نو اقبال نمبرنومبر ۲۰۰۲ء۔مدیر اعلیٰ پروین ملک ص۱۲۲
۳۔پیش لفظ اقبال اور انسان دوستی طالب حسین سیال اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس ۲۰۰۳ء ص۱۶،۱۷۴۔فلسفہء اقبال کے ماخذ و مصادر،ڈاکٹر وحید عشرت ،مشمولہ ماہ نو اقبال نمبرنومبر ۲۰۰۲ء مدیراعلیٰ پروین ملک ص۳۲
۵۔اقبال اور انسان دوستی طالب حسین سیال اوکسفرد یونیورسٹی پریس ۲۰۰۳ء ص۲۹ ۶۔ایضاً:ص۶۲۔ ۷۔ ایضاً ص:۶۵۔ ۸۔ ایضاً ص۱۳۱۔ ۹۔ ایضاً ص۱۶۲۔ ۱۰۔ ایضاً ص۲۲۶۔
۱۱۔ایضاً ص۔ ۱۷۷ ۱۲۔ایضاً ص۲۴۰
۱۳۔روح اقبال ڈاکٹر یوسف حسین خاں آئینہ ادب لاہور ۱۹۶۳ء ص۱۹۴ ۱۴۔اقبال اور انسان دوستی طالب حسین سیال،اوکسفرڈ یونیورسٹی۲۰۰۳ء ص۲۴۷