اقبال پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام شیخ نور محمد تھا۔ حصولِ علم اور تحقیق کی منازل سے گزرتے ہوئے وہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کہلائے اور آج دنیائے علم و ادب میں اقبال کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق کشمیر کے ایک برہمن خاندان سے تھا۔ ان کے آباء واجداد تقریباً اڑھائی سو سال قبل مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ۔ کسے معلوم تھا کہ یہ ننھا ستارہ ایک دن آفتاب بن کر دنیائے ادب کے افق پر چمکے گا اور خون مسلم کی تپش بن جائے گا۔ اقبال کا زمانہ ۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۸ء پر محیط ہے۔ شاعری ان کے لیے ایک خدا داد عطیہ تھا۔ جس کے ذریعے ایک پسماندہ قوم کو غلامی سے نکال کر آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنا مقصد باری تعالیٰ تھا۔ پاکستانی قوم علامہ اقبالؒ کی مرہونِ منت ہے کہ انہوں نے ہندی مسلمانوں کی نجات کا راستہ تلاش کیا۔ اقبال نے ایک مردہ قوم کو زندگی کا درس دیا۔ اس کو اپنی حقیقت سے آگاہ کیا اور بالآخر ۱۹۳۰ء میںہندی مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کا نظریہ پیش کیا جو ۱۹۴۰ء میں قرار داد لاہور کی شکل میں برصغیر میں بسنے والوں کے سامنے آیا۔ حکیم الامّت علاّمہ اقبالؒ کا خواب ایک شیر دل مجاہد اور غازی محمد علی جناح لے کر آگے بڑھے اور اس کو ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو تعبیر سے ہمکنار کیا۔ قوم نے محمد علی جناح کو قائدِ اعظم کا خطاب دے کر اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کیا۔
اقبال کا مشن ابھی باقی ہے ۔ میں یہاں اقبال کی سوانحِ حیات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی مسلمانوں کی زبوں حالی اور ان کا سیاسی انحطاط دیکھا۔ جس کا ان کو شدت سے احساس ہوا ۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اپنے گردو پیش اور دنیائے سیاست کا بغور مطالعہ کرتے رہے اور بالآخر ایک درد بھرا دل لے کر میدانِ عمل میں اترے۔ انہوں نے شاعری کو اپنے خیالات اور افکار کا ذریعہ بنایا۔ وہ بیسویں صدی کے ایک جدید شاعر، مفکر اور فلسفی مانے جاتے ہیں ۔ ان کی بیس سے زیادہ تصانیف ہیں، جو اردو اور فارسی زبانوں میں ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے انگریزی کے خطبات ہیں اور اب ان کے خطوط قائد اعظم اور دوسرے رہنمایان قوم کو لکھے ہوئے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔
عالمِ انسانیت کا عظیم محسن ، علاّمہ محمد اقبال ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا ۔ اقبال نہ صرف مسلم قوم کا سرمایہ ہے بلکہ آج کی مختلف فرقوں ، نسلوں اور قوموں میں بٹی ہوئی انسانیت کو اس نے وحدت کا درس دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلق اس کا کہنا، کہ اس ادارے کو جمعیت اقوام کی بجائے جمعیت آدم ہونا چاہیے۔ اقبال نے جو کہا، وہ ہو کر رہے گا، اور انسان کو ایک دن ایک مرکز پر جمع ہونا پڑے گا۔
آج انسان اور انسانی دماغ کو مشین نے اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے، انسانی قدریں اس کا ساتھ چھوڑ چکی ہیں ۔ بس خال خال کہیں ایسا انسان نظر آجاتا ہے جو حیرت میں ڈوبا ہوا اس مشینی دور کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ انسان دشمن مشین نے انسان کا قد چھوٹا کر دیا ہے، بقول جگر مراد آبادی’’ گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے ‘‘ اس مشینی دور کے تحفوں میں انسان کو بے شمار عوارض نے آن گھیرا ہے جن میں مختلف قسم کے جسمانی، اخلاقی اور فکری عوارض شامل ہیں۔ آج مواصلاتی نظام اور تیز ذرائع آمدروفت کے باعث کرئہ ارض پر بسنے والے انسانی خاندان کے لیے، اقبال کے پاس ایک بڑا توانا پیغام موجود ہے ۔ انہوں نے اپنی ایک فارسی نظم مرغدین میں ایسے سماج کا نقشہ دکھایا ہے جہاں لوگ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق زندگی کی مسرتوں سے ہم کنار ہیں، وہاں اسلام کی اعلیٰ قدروں کے مطابق معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے۔ وہاں پر کوئی کسی کا محتاج نہیں، لوگ صحت مند ، توانا اور محنتی ہیں ، وہاں فاضل پیداوار کے ذریعے ماحول کو تباہ نہیں کیا جاتا، جیسا کہ آج مغربی ممالک میں کیا جارہا ہے ۔
اقبال صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کا شعور رکھتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ پُوری انسانیّت انصاف اور عدل کے تقاضوں اور اخلاقی قدروں کے مطابق زندگی کی برکتوں سے فیض یاب ہو۔ ایسے نظام کی اساس وہ عقیدئہ توحید کو قرار دیتے ہیں جس کے ذریعہ وہ وحدتِ انسانیت کا نظریہ اخذکرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نوعِ انسانی کا آغاز حوا اور آدم سے ہوا، لہٰذا تمام انسان اولادِ آدم ہُونے کے ناطے سے آپس میں بھائی بھائی ہیں، کسی ایک کو کسی دوسرے پر فَوقیت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ کسی انسان ، کسی قوم، کسی ملت ، اور کسی نسل کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسروں کو اپنا غلام بنائے اور اپنے مقاصد کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرے ۔ اقبال احترامِ انسانیت کے علمبردار ہیں۔ ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کرتا ہوں ۔
ایک ملاقات میں پروفیسر محمد منور سابق ناظم اقبال اکادمی نے مجھے بتایا کہ مارچ ۱۹۸۶ء میں ایران کے شہر تہران میں اقبال کانگریس منعقد ہوئی تھی جس میں پاکستان کی طرف سے انہوں نے بھی شرکت کی ۔ اقبال کانگریس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت آیت اللہ خامنہ ای، اس وقت کے صدر ایران نے کی تھی، جو آج کل ایران کے مرجع تقلید یعنی روحانی سربراہ ہیں۔ انہوں نے اس اجلاس میں ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کی جس کے دوران میں وہ مسلسل اقبال کے اشعار سناتے رہے ۔ اپنی تقریر میں موصوف نے انکشاف کیا کہ انقلابِ ایران کی منصوبہ بندی کے وقت یہ ضرورت پیش آئی کہ کسی ایسے مفکر یا شاعر کو تلاش کیا جائے جو ایرانی قوم کا لہو گرما سکے۔ چنانچہ قدماء سے لے کر اس صدی تک تمام شعرا کا کلام چھان ڈالا گیا لیکن کسی کا کلام اس قابل نہ پایا گیا جو یہ مقصد حل کر سکے ۔ بالآخر اقبال کے کلام کا مطالعہ کیا گیا ، پتہ چلا کہ اقبال کو تو شاید پہلے سے معلوم تھا کہ ایران میں احیائے دین کے واسطے اس کی ضرورت پڑے گی ۔ ایرانیوں نے دیکھا کہ اقبال کے کلام میں وہ آتش موجود ہے جو شیطانی دنیا کے کاخ و کو جُھلسا کر رکھ دے گی ۔ چنانچہ اہلِ ایران نے کلامِ اقبال کا بھر پور استعمال کیا جس کا نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے ۔ موجودہ صدی کا ممتاز ایرانی شاعر بہار جس کو شہنشاہِ ایران نے ملک الشعراء کا خطاب دیا تھا، اقبال کے بلند مرتبے کا اتنا معترف تھا کہ اس نے تسلیم کیا ہے :
’’عصرِ حاضر خاصۂ اقبال گشت ‘‘
حقیقت یہ ہے کہ موجود دور بلکہ آنے والے دور کے لیے کلامِ اقبال مشعلِ راہ ہے۔ اس نے ہمیں قرآنِ کریم کے اصل مفہوم سے روشناس کیا ہے۔ ایران کے انقلابی مصلح اور مفکر ڈاکٹر علی شریعتی نے بھی اقبال کو ’’علی ؓ گونہ‘‘ کہا یعنی علی نما ۔ یہ کسی ایرانی مفکر کی طرف سے بہت بڑا خطاب یا اعزاز ہے جو کسی کو دیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق اقبال مُصِلح قرنِ آخر ہیں اور عصرِ جدید میں اقبال اسلام کے سب سے بڑے مفکر ، صورت گر اور معمار ہیں ۔ ما و اقبال اور اقبال مصلح قر ن آخر کے نام سے انہوں نے اقبال پر کتب بھی تحریر کیں، جس میں اقبال کو مستقبل کا شاعر قرار دیا ۔ اور مسلمانوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا ۔ یہی ڈاکٹر علی شریعتی جو ایرانیوں کا آئیڈیل روحانی اور انقلابی مصلح تھا ۔ امام خمینی کی زیر قیادت انقلاب برپا کرنے والے ایرانیوں کا تعارف کنندہ ہو ،اور اس نے ایرانی انقلابیوں میں روحِ اقبال پھونک دی۔ چنانچہ ملوکیت پسند ایرانی، اقبال کے انقلابی ترانے گاتے ہوئے شاہ ایران کا تختہ الٹ کر اسلامی انقلاب کے پیامبر بن گئے ۔ انقلابِ ایران نے دنیا بھر کے مُسلِم حریّت پسندوں کا اقبال کو آئیڈیل بنا دیا ہے۔ اور یوں اقبال مسلمانوں کا ماضی اور حال ہی نہیں مستقبل بھی بن گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے انیسویں صدی میں ایک رہبر پیدا کیا جو اکیسویں صدی میں آنے والے لوگوں کے لیے نشان راہ دکھا گیا ۔ اقبال اپنے متعلق خود کہتا ہے :
’’من نوائے شاعرِ فردا ستم ‘‘