علامہ اقبال کثیر الجہت ، عظیم المرتبت شخصیت تھے اور آفاق گیر شہرت کھتے تھے۔ وہ نابغۂ روزگار ہستی تھے۔ جو صدیوں بعد کرۂ ارض پر ظہور پذیر ہوئیں۔ وہ اپنی آفاقی ، الہامی شاعری علومِ شرق و غرب میں وسیع دسترس، عالمانہ ، متکلمانہ قوتِ خطاب، اعلیٰ درجہ کے قانون دان اور دیگر بے مثل صفات کی بنا پر عالمگیر شہرت کے ساتھ جو انھیں حاصل تھی۔ بے پناہ دولت کما کر شاہانہ طرز زندگی گزار سکتے تھے مگر وہ فطری اور موروثی طور پر درویشانہ، متوکل ، بے نیاز قسم کا مزاج رکھتے تھے اور دنیاوی مال و دولت کو اسلامی اقدار کے مقابلے میں پرکاہ کی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ جب ان کے سامنے کتابِ ہدایت، رسولِ مقبول ﷺکی والہانہ محبت ان کی سیدھی سادھی زندگی کا نمونہ موجود تھاتو وہ کیونکر دنیاوی مال و زر، جاہ و منصب ، تفاخر و تکبر کے فریب سود وزیاں کے شکار ہو سکتے تھے۔ جس کا اظہار انھوں نے یوں کیا ہے:
کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی؟
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کیا
بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۳۲۴۔
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زِرّہ کوئی اگرمحفوظ رکھتی ہے تو استغنا
بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۳۲۴۔
کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی؟
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کیا
بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۳۱۵۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
بالِ جبریل ، کلیاتِ اقبال ،ص ۴۳۹۔
وہ بطور ایک سچے مسلمان کے خدا کے عطا کیے ہوئے مقام بندگی جسے احسن الخالقین کہا گیا ہے۔ اس کے آگے مال و دولت کو ہیچ جانتے ہوئے اپنی باعمل درویشانہ بے نیاز استغنا سے معمورِ زندگی کو وہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام سمجھتے تھے۔ جس کے اندرِ مقصدِ حیات کی تکمیل کے لیے عشق، جدوجہد ، قوتِ تسخیر، تگ و تاز، عملِ پیہم ، باہمی ہمدردی ، محبت و دستگیری اور سوز و درمندی کا ایک جہاں آباد ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں :
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
کلیاتِ اقبال ،ص ۳۰۶۔
چنانچہ زیرِ غور مضمون میں اقبال کی شخصی زندگی کے ان پہلوؤں کا کسی حد تک احاطہ کرنے کی سعی کی گئی ہے جس کا تعلق معاشرے میں رہتے ہوئے مال و دولت کی اہمیت کے باوجود باہمی تعلق و ربط ، معاملاتِ زندگی ، رہائش ، خوراک ، صحت اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے ضمن میں ان کی درویشانہ طبیعت، توکل ، بے نیازی اور استغناء کا اظہار ہوتا ہے۔
اقبال نے وکالت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ وہ اعلیٰ پایہ کے قانون دان تھے ۔اپنی بے مثل ذہانت ، فطانت، ذکارت اور متکلمانہ جوہر سے وہ وکالت کے ذریعے بے حد دولت کما سکتے تھے مگر ملک کے سیاسی حالات، مسلمان قوم کی زبوں حالی انھیں بیدار و متحد کرنے اور متعصب و شاطر مخالفین انگریز اورہندو کانگریس سے قوم کے جائز حقوق حاصل کرنے کے سلسلہ میں وہ وکالت کے ذریعے بے حد دولت کما سکتے تھے مگر ملک کے سیاسی حالات، مسلمان قوم کی زبوں حالی انھیں بیدار ومتحد کرنے اور متعصب و شاطر مخالفین انگریز اور ہندو کانگریس سے قوم کے جائز حقوق حاصل کرنے کے سلسلہ میں وہ وکالت کو زیادہ وقت نہیں دیتے تھے اور ہر ماہ اگرپہلے ہفتے میں ۶۰۰؍۵۰۰روپے کی فیس حاصل ہو جاتی جن سے گھریلو اخراجات پورے ہوجاتے تو باقی مہینہ وہ کیس لانے والوں سے معذرت کر دیتے۔ ایسی مالی منفعت سے بے نیازی کا ایک حیرت انگیز واقعہ ایک ہندوستانی مصنف ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب اقبال شاعر اور سیاستدان میں لکھا ہے کہ
ایک ممتاز ہندو قانون دان اور اعلیٰ ترین کانگریسی رہنما سی۔ آر۔ داس نے اقبال کو پٹنہ کے ایک مقدمے میں ماہرانہ شہادتی بیان تیار کرنے کے لیے رابطہ کیا۔ جس میں عربی ، فارسی دستاویزات کا ترجمہ بھی عدالت کو پیش کرنا تھا۔ اس کیسی کی تیاری کے لیے اقبال کو فرسٹ کلاس کرایہ، نہایت اعلیٰ جائے قیام اورایک ہزار روپیہ یومیہ فیس کی تجاویز پیش کیں کہ وہ کیس کی تکمیل کے لیے دو ماہ تک پٹنہ میں قیام کر سکتے ہیں۔ اقبال نے سی۔ آر۔ داس سے فائل طلب کیاور جن سوالات کے جوابات تیار کرنے تھے وہ ایک ہی رات میں تیارکرکے دستاویز اگلی صبح عدالت میں پیش کر دی فریقِ ثانی ممتاز کانگریسی رہنما وکیل موتی لال نہرو تھا، اقبال کا بیان واضح اورمکمل تھا موتی لال نہرو کو اقبال سے جرح کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ چنانچہ عدالتی کاروائی ایک روز میں ختم ہو گئی اور اقبال صرف ایک ہزار روپیہ وصول کرکے لاہور واپس آ گئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آٹا ایک روپے کا بیس سیر ملتا تھ۔ا آپ اندازہ کریں کہ ساٹھ ہزار کی رقم آج کل کے حساب سے خطیر رقم بنتی ہے جو اقبال نے حصولِ زر کی بجائے انتہائی دیانت و ایمانداری کے اصولوں پر قربا ن کر دی۔
اس زمانہ میں اقبال کے ایک دوست علی امام جو مہاراجہ الور سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ اقبال کو مہاراجہ کا پرائیوٹ سیکرٹری مقرر کرنے کا پرکشش مشاہرے پر انتظام کیا اقبال الور گئے۔ مہاراجہ سے ملاقات کی اور بغیر ملازمت قبول کیے واپس آ گئے۔ کیونکہ ریاست میں رائج نظام اورمہاراجہ کی شخصی حیثیت کے احکام کی تکمیل اقبال کے مزاج کے موافق نہ تھی۔ اقبال کو اپنی آزادی عزیز تھی۔ اس لیے وہ مالی فائدہ کی خاطر ان مطالبات کو پورا نہ کر سکتے تھے۔ جو شاہی ملازمت ان پرمسلط کردیتی۔
کچھ اس طرح کی مجبوری سے آزادی کی خاطر اقبال نے گورنمنٹ کالج کی پروفیسری سے استعفیٰ دے دیا۔ حالانکہ ہائیکورٹ نے ان کے علمی مرتبے کو دیکھتے ہوئے انھیں مراعات دی تھیں کہ ان کے مقدمات کو کالج کی کلاسوں کے بعد سماعت کیا جائے۔ تاہم اقبال کا ذہن فطری طورپر ملازمت کو بخوشی قبول نہیں کرنا تھا۔ دوسرے انگریزپرنسپل کا رویہ ماتحت و محکوم قوم کے اساتذہ سے وقار کے منافی تھا۔ مخلص احباب نے اقبال کے اس اقدام کو نہ سراہا۔ مگر اقبال کے نزدیک یہ زیادہ ضروری تھا۔ کیونکہ سرکاری ملازمت میں رہ کر قوم کی بیداری اور آزادی کے لیے اپنے کلام میں آزادانہ جذبات و خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔
انگریز حکومت کا طریقہ تھا کہ والیان ریاست کے وزیر اعظم نامزد کرتی ۔ جوان کے مفادت کے تحت ریاستی نواب یا مہاراجہ کو پابند رکھتا۔نواب آف بہاولپور کو اپنے وزیراعظم سے دخل در معقولات کی بہت شکایت تھی۔ انھوں نے اقبال کو اس مسئلے کے لیے وکیل منتخب کیا۔ اقبال نے اپنے مضبوط دلائل اور حسنِ بیان سے وائسرے کو قائل کرکے وزیراعظم کو تبدیل کرادیا وائسرے کو اقبال کے علمی مرتبے کا علم تھا اس نے درخواست کی کہ پرسوں میرے ساتھ ڈنر کریں۔ اقبال نے کہا کہ مجھے تو آج ہی واپس جانا ہے۔ وائسائے نے کہا کہ اچھا کل سہی۔ اقبال نے کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو اج ہی کر لیجیے۔ وائسرائے نے ان کی بات مان لی علامہ کو دوسراہ کمرہ آرام کے لیے دیا اور دوپہر کا کھانا کھا کر اقبال اسی دن واپس لوٹ آئے۔
نواب بہاولپور کا یہ کام معمولی نہ تھا۔جو اقبال نے حسنِ تدبیر سے کر دکھایا۔ چنانچہ نواب نے اقبال کا شکریہ ادا کرنے اورخصوصی انعام و اکرام عطا کرنے کے لیے بذریعہ تار انھیں بہاولپور بلا بھیجا مگر اقبال کی درویشانہ اور بے نیاز طبیعت نے گوارا نہ کیا اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے معذرت کر دی جو ایک مردِ قلندر، مستغنی اور درویش صفت انسان ہی کر سکتا ہے ان کا یہ شعر اس جذبے کو حضور رسالتمآب میں اس طرح اظہار کرتا ہے۔
میرا نشیمن نہیں در گہہِ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو (ﷺ) شاخِ نشیمن بھی تو(ﷺ)
کلیاتِ اقبال اردو ، ص ۹۱۔
اقبال انجمنِ حمایت اسلام کو مسلمانوں کی تعلیم و تنظیم و اشاعت کا مرکز سمجھتے تھے۔ انجمن سے ایک مرتبہ تعلق قائم ہوا تومرتے دم تک منقطع نہ ہوا۔ انھوں نے پہلی بار اپنی نظام ‘‘نالۂ یتیم’’ ۱۸۹۹ء میں سٹیج پر پڑھی۔ انجمن کو یہ فخر حاصل ہے کہ اقبال نے اپنی مشہور ترین نظمیں مالی منفعت کے بغیر سٹیج پر پرھیں اور سامعین سے انجمن کے فنڈ میں خطیر اضافے کا باعث بنیں۔ اقبال کافی سال انجمن کے صدر بھی رہے مگر علالت کے باعث آخری بار ۱۹۳۶ء میں انجمن کے سالانہ اجلاس میں شریک ہو سکے۔ وفات سے قبل اپنا زاتی کتب خانہ جو ان کی زندگی کا اثاثہ اور سرمایہ تھا۔ عطیہ کے طورپر انجمن کو نذر کر دیا۔
اقبال کی عالی ظرفی کا یہ عالم تھا کہ آخری سالوں میں علالت کے باعث تمام مالی ذرائع مسدود ہو چکے تھے سر راس مسعود جو سرسّید کے پوتے اور اقبال کے شیدائی تھے۔ ریاست بھوپال میں وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز تھے ۔ ان کی سعئ جمیلہ سے نواب بھوپال اور سر آغا خان نے ۵۰۰۔۵۰۰ روپے ماہانہ وظیفہ کی پیش کش کی اقبال نے نواب بھوپال کے وظائف کو تو قبول کر لیا کہ میں قرآن کی شرح جس کی جدید زمانے کے حالات میں سخت ضرورت ہے، لکھوں گا، اگر عمر نے وفا کی تو مگر آغاخان کے وظیفہ سے معذرت کر لی کہ میں سادہ زندگی کا عادی ہوں۔ نواب بھوپال کا وظیفہ ہی کافی ہے ۔ ان کی یہ سیر چشمی یقیناً قرونِ اولیٰ کے مومنوں اور صوفیاء و اولیاء کی زندگی کے مطابق تھی۔ یہ صرف سیر چشمی نہ تھی۔
جب نادرشاہ افغانستان میں بچہ سقّہ کی بغاوت فرو کرنے کے لیے ملک میں امن و امام قائم کرنے آیا تو اقبال اسے ملنے ریلوے اسٹیشن پر گئے اور اپنی تمام جمع پونجی جنگی اخراجات کے لیے اسے پیش کر دی جو معمولی رقم ہی سہی مگر مومنانہ جذبہ کی تحت تھی۔ حالانکہ اقبال مشکل سے آمدنی سے زائد رقم جمع کرنے کی حالت میں تھے مگر یہ جذبہ نہ صرف لائقِ تحسین تھا مگر قابلِ تقلید بھی۔ حیدرآباد دکن کے وزیر سر اکبر حیدری سے اقبال کے دوستانہ مراسم تھے۔ انھوں نے اقبال کی علالت اور معاشی حالات کے پیشِ نظر ایک ہزار روپے کا چیک مدد کے لیے ارسال کیا اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ یہ رفاہِ عام کے فنڈ سے دیا گیا ہے جس کا وہ ناظم ہے اقبال نے دوستانہ دستگیری کی بجائے ایسے فنڈ سے امداد لینا غیرت کے منافی مجھ کر چیک لوٹا دیا اور ساتھ ہی چار اشعار کا قطعہ معذرت کے طورپر لکھ دیا ۔ جس کاآخری شعر یوں ہے :
غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکوۃ
اس احساس کے تحت وہ جائز و ناجائز کے متعلق بہت محتاط تھے وکیلوں کے پاس مؤکل عام طور پرتحائف و ہدیہ لایا کرتے ہیں جو فیس کے علاوہ ہوتے ہیں ۔علامہ کو ان تحائف کو قبول کرنے میں بھی تامل تھا۔ چنانچہ انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی کو اس بارے میں وضاحت کے لیے لکھا ہے کہ کیا ایسے تحائف وکلاء کے لیے حلال ہیں؟
اقبال اپنی آمدنی کے حساب و کتاب میں نہایت احتیاط اور توجہ کرتے تھے اور جن ذرائع سے بھی آمدنی ہوتی تھی انھیں بلا کم و کاست آمدنی کے گوشوارے ظاہر کر دیتے تھے اور قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ مشہور مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود نے اقبال کے ٹیکس گوشواروں کی تمام سالوں کی تفصیل محکمہ ٹیکس سے لے کر شائع کی ہے وہ کہتے ہیں کہ انکم ٹیکس آفیسر اگرمزید ٹیکس غلط بھی لگاتا تو اقبال ادا کر دیتے۔ اس کے خلاف کبھی اپیل نہ کرتے۔ اگرچہ اس کے منظور میں ہونے کوئی شبہ نہ ہوتا۔
اقبال کی پہلی بیوی جس کا تعلق گجرات سے تھا۔ مزاج میں ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب بنا نہ ہو سکا نتیجتہً وہ زیادہ عمر اپنے میکے میں رہی۔ اقبال نے وفات تک ماہانہ نان نفقہ میں کبھی تاخیر نہ کی نہ ویسے اقبال نے طلاق دی اور اس نے خلعہ کی کوشش کی۔ الگ رہ کر خاموشی سے شرعی تقاضے نبھاتے رہے۔
پہلی بیوی سے علیحدگی کا خلاء قدرت نے یکے بعد دیگرے دو بیگمات سے پُر کر دیا۔ جن سے اقبال کے تعلقات ان کی عمر کے اخیر تک نہایت خوشگوار رہے۔ دونوں بیگمات بہنوں یا سہیلیوں کی طرح رہتیں۔ اقبال بھی دونوں سے یکساں سلوک کرتے تھے اور دونوں کے لیے ایک جسی اشیاء خریدتے ۔ ایک دفعہ دونوں کے لیے ایک جیسا زیور بنوایا تو ایک کا زیور چند ماشے کم رہ گیا اقبال نے کم وزن کی قیمت اس کی بیوی کو نقد دے دی۔
اقبال نے اپنی کوٹھی میؤ روڈ(اب اقبال روڈ) پر ۱۹۳۵ء میں بنوائی۔ جس کی تعمیر کی ذمہ داری ان کے بڑے بھائی عطا محمد نے قبول کی۔ جو ریٹائرڈ انجینئر تھے۔ اقبال کی بے نیازی کا یہعالم تھا کہ دورانِ تعمیر انھوں نے ایک بار بھی تعمیر ہوتی ہوئی عمارت کو نہیں دیکھا جب کوٹھی تیار ہو کر مکمل ہو گئی تو اقبال نے اسے اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام ہبہ کر دیا۔ اس میں اپنے تصرف کے لیے جو تین کمرے رکھے اس کا کرایہ باقاعدگی سے ماہ بما پر ۲۱ تاریخ کو بینک میں جمع کرا دیتے۔ اقبال کی وفات بھی ۲۱ اپریل کو ہوئی۔ اس لیے ان کے ذمے ایک دن کا کرایہ بھی قابل ِ ادا نہ تھا۔
ایک دفعہ ایک درویش اقبال کے پاس آیا۔ آپ نے حسبِ عادت اس سے دعا کی درخواست کی۔ درویش نے پوچھا دولت چاہتے ہو؟ اقبال نے جواب دیا میں درویش ہوں دولت کی ہوس نہیں۔ تو کیا عزّ و جاہ مانگتے ہو؟ اقبال نے جواباًکہا کہ وہ بھی خدا نے کافی عطا کی ہوئی ہے۔ پوچھا تو کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟ جواب دیا ۔ سائیں جی کیا کہہ رہے ہو؟ وہ خدا، میں بندہ۔ بندہ خدا سے کیسے مل سکتا ہے؟ قطرہ دریا میں مل جائے تو قطرہ نہیں رہتا۔ نابود ہو جاتا ہے۔ میں قطرے کی حیثیت میں ہی دریا بننا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر درویش جھوم اٹھا ، بولا : بابا جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔ تو خود آگاہِ راز ہے تجھے میری دعا کی کیا ضرورت ؟ اقبال کے شعر یاد آ گئے ہیں۔
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم رازِ درونِ مے خانہ
کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغام سروش
علامہ کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی خاصی بوسیدہ تھی جس کا وہ ۲۰۰ روپے کرایہ دیتے تھے۔ دوست احباب کہتے کہ کوٹھی کی حالت کو مدِّنظر کرایہ زیادہ ہے۔ اقبال جواب دیتے کہ یہ کوٹھی ایک ہندو بیوہ کی ہے جس کے یتیم بچے بھی ہیں اور اس کا یہی ذریعہ معاش ہے جس میں کمی کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔
اسی طرح انار کلی والے مکان کا مالک بھی ہندو تھا جو ہر روز بڑی انکساری سے علامہ کو پرنام کرتا ۔ علامہ نے استفسار پر بتایا کہ مالک مکان مجھے بڑا دھرماتما سمجھتا ہے کیونکہ اسے ہر ماہ کی پہلی تاریخی کو باقاعدگی سے کرایہ مل جاتا ہے۔ اس کے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ ایک کرایہ دار ہمیشہ عین یکم تاریخ کو ایڈوانس کرایہ دیتے دیتا ہے۔
مذکورہ میکلوڈ روڈ والی بوسیدہ کوٹھی ایک ہندو بیوہ کی ملکیت ہونے کے سبب نہ کرایہ کم کراتے اور نہ مرمت کرنے کو کہتے۔ ان کے ایک دوست نے کہا کہ بیٹھک میں دیوار پر ملکہ وکٹوریہ کی تصویر ٹیڑھی آویزاں ہے۔ اگر آپ کو انگلش سرکار سے اتنا لگاؤ ہے تو ملکہ کی تصویر سیدھی لٹکا دیں۔ اس پر اقبال نے کہا کہ تصویر ہٹا کر دیکھو تو معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے دیوار پر سے پلستر اکھڑا ہوا تھا جس چھپانے کے لیے ملکہ کی تصویر کا سہارا لیاگیا تھا۔
آپ کے بھتیجے اعجاز احمد کا بیان ہے کہ اقبال کو وکالت کرتے ہوئے دس سال گزر گئے توانھوں نے اپنے والد کو خط میں لکھا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر فضل و کرم کرے تو میں اپنی نظم و نثر سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھاؤں گا کہ یہ ایک خداداد عطیہ ہے جس میں میری محنت کو کوئی دخل نہیںؤ اسے خلق اللہ کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے۔ لیکن ان کی گورنمنٹ کالج کی ملازمت ترک ہونے، قومی مسائل اور اسمبلی کی مصروفیات کی وجہ سے وکالت ختم ہونے سے کسی کے دستِ نگر ہونے سے بچنے کے لیے یہ ارادہ ترک کرنا پڑا۔
ایک بار تجویز ہوا کہ اقبال کے نام پر فوجی سکول قائم کیا جائے۔ علامہ نے تجویز پیش کی کہ شاعر کے نام سے فوجی سکول قائم کرنا مناسب نہیں۔ میری خواہش ہے کہ اس کا نام ٹیپو فوجی سکول رکھا جائے جو تسلیم کر لیا گیا۔ گویا اقبال کی سرشت میں یہ بات تھی کہ وہ نام و نمو اور مال اور دولت کو ذرہ برابر بھی وقعت نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے تمام عمر ذہنی، جسمانی، وجدانی محنت کی۔ درویش و قلندر کہلوانا پسند کیا۔ خودداری اور عزتِ نفس کے اصولوں پر کبھی سمجھوتانہ کیا۔ سرمایہ داری نظام کے وہ ویسے ہی بہت خلاف تھے کہ یہ استحصالی نظام ہے۔ ان کی شاعری سرمایہ داری نظام کے خلاف اشعار سے بھری ہوئی ہے کہ یہ انسانیت کش ہے ۔ مفلس، مزدور چھوٹے کسانوں، مزارعوں کا استحصال کرنا جائز طریقے سے دولت اکٹھی کرکے انسانیت کا خون کرتا ہے۔ جیسا انھوں نے فرمایا:
دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوۃ
سرمایہ داری نظام کو وہ بظاہر مہذب قانونی طریقوں سے دھوکہ فریب کہتے ہیں :
اس سرابِ رنگ و بُو کو گلستاں سمجھا ہے تو؟
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو؟
مال و دولت سے بے نیازی کے بیان کے بعد اقبال کی روز مرہ کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ روز مرہ کی معاملات خوراک، رہائش لباس، میل ملاقات، اخلاقیات وغیرہ کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ اقبال کی زندگی ایک درویش اور قناعت پسند انسان کی تھی۔ جس میں سادگی، نمود و نمائش، تصنع ، بناوٹ سے قطعاًلا تعلقی ظاہر ہوتی تھی۔ وہ ہر طرح سے ایک سادہ مزاج، متوکل جو بے عملی کی بجائے عمل والا توکل اور صبر و شکر کا نمونہ تھے۔ آفاق گیر شہرت کے باوجود ان میں تکبر و نخوت نام کی نہ تھی۔ ملاقاتیوں سے وہ کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے۔ ان کا درِ دل اورمجلس کے دروازے سب پر یکساں کھلے تھے۔
دوست احباب، نامور عالم ، عہدیداران، طالب علم ، ان پڑھ ، مزدور، تانگے والا ، خوانچہ فروش سب کے لیے اذن عام تھا۔ جو آتا ادب سے سلام کرکے بیٹھ جاتا۔ کوئی بات کرتا تو آپ پوری توجہ سے سنتے۔ کوئی مسئلہ ہو تو سب کے سامنے حل بتاتے۔ اکثر پہلے سے نہ جاننے والے پہلی بار آتے تو اس عظیم شخصیت کو نہات سادہ لباس مثلا گرمیوں میں کنی والی دوہری دھوتی، بدن پر نیم بازوؤں والی بنیان میں ملبوس اور سردیوں میں اسی لباس یا شلوار قیمض پر کمبل لے کر سب سے بے تکلفی سے مشغول گفتگو دیکھ کر حیران ہو جاتے کہ یہی علامہ، ڈاکٹر، بارایٹ لا، سر محمد اقبال ہیں۔ جنھیں شاعرِ مشرق، ترجمانِ حقیقت ، مصورِ فطرت،دیدہ در، دانائے راز کہا جاتا ہے۔ جنھیں شان و شوکت ، اعلیٰ مراتب ، شہرت و خطابات کی چنداں خواہش نہ تھی۔ ان کی شہرہ آفاق مثنوی اسرارِ خودی اور اعلیٰ شاعری کے اعتراف و تحسین کے طور پر گورنر کی طرف سے ‘‘سر’’ کے خطاب کی پیش کش کو طوعاًو کرہاً اس لیے قبول کیا کہ اس میں مسلم قوم میں کسی صاحب علم کے ہونے کا اعتراف پایا جاتا ہے اورجس سے دوسرے بھی حصولِ علم ، تصنیف و تحقیق کی طرف متوجہ ہوں گے۔
گورنر نے دوسرے خطاب ‘‘شمس العلماء ’’ کے لیے نام تجویز کرنے کو کہا تو اقبال نے شرط لگائی کہ ان کے تجویز کردہ نام کے بعد کسی اورنام پر غور نہیں کیا جائے گا ۔ گورنر نے اتفاق کیا تو اقبال نے اپنے استاد مولوی میر حسن صاحب کا نام لیا۔ گورنر نے ان کی شہرت اور تصنیف کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ ان کی تصنیف میں خود آپ کے سامنے موجود ہوں۔ پھر اقبال نے یہ شرط لگائی کہ ان کے ضعیف استاد کو یہ اعزاز ان کے گھر پہنچایا جائے۔
نام و نمود سے بے نیازی کی بناء پر مشاعروں میں شرکت، شعر خوانی پرداد کی طلب، صدارت کرنا، اپنے اشعار کی بلا مقصد اشاعت و شہرت کے مطلقاًخواہش مند نہ تھے۔ بلکہ اکثر بڑے قریبی تعلق یافتہ، مقربین ، اربابِ اختیار کے موقع بے موقع اشعار سنانے پر معذرت کر دیتے کہ اس سے عامیانہ پن اور درباری انداز ظاہر ہوتا ہے۔ جس سے وقار مجروح ہوتا ہے ۔ انھوں نے شعر گوئی کے لیے نواب رامپور، نواب جونا گڑھ، راجہ سر ہرکشں پرشاد، جوش ملیح آبادی جیسے اشخاص کو معذرت کر دی۔ اگرکوئی بلا اجازت ان کے اشعار چھاپ دیتا تو اس کا سختی سے نوٹس لیتے۔ غرض یہ کہ کسی کی مجال نہ تھی کہ اپنی خواہش کے مطابق اقبال کو شعر خوانی پر آمادہ کرے۔ ہاں احبابِ خاص کی محفل ہو، حالات کا تقاضا ہو اور اشعار کی آٖد ہو تو لگاتاراشعار سناتے اورلکھواتے۔
اس طرح کسی کو شاگردی میں نہیں لیتے تھے اور نہ استاد ہونے کی شہرت کے خواہاں تھے۔مولانا عبدالمجید سالک نے اپنے کلام کی اصلاح کرنے کی درخواست کی تو کہا کہ یہ بے پیرافن ہے یعنی قدرت خود ہی شاعر بنا دیتی ہےؤ اگرکسی میں جوہرِ قابل ہو ۔تمھارا کلام ظاہر کرتا ہے کہ تم اچھے شاعر کے اوصاف رکھتے ہو۔ اس لیے مشق جاری رکھو۔ منزل پالو گے۔ ویسے اوزان کی کتاب اور دو استادوں کے نام بتادئیے۔ جس پر عبدالمجید سالک نے عمل کیا۔ ااقبال کی متکلمانہ صفت مسلم تھی۔ محفل میں کوئی سا بھی موضوع ہو وہ اس طرح برجستگی اور روانی سے اورمتصدقہ حوالوں سے گفتگو میں ایسے گوہر تابدار نچھاور کرتے گویا پہلے سے ہی اس موضوع کے لیے تیاری کی ہو۔ دلائل اور خیالات کا دریا ہوتا جو امڈ نظر آتا اوران کی رائے حرفِ آخرسمجھی جاتی ۔
ایک دفعہ انگلستان میں قیام کے دوران ایک محفلِ مذاکرہ میں موضوع تھا‘‘Life After Death’’شرکانے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیاوہاں اقبال کے استاد سرتھامس آرنلڈ بھی تھے۔ انھوں نے اقبال کو بھی دعوتِ کلام دی جواب میں اقبال نے صرف ایک جملہ کہہ کر محفل کو سمیٹ دیا۔ جو یہ تھا:
That life is beginning of death and death is beginning of life.
اس رنگ میں اقبال کا ایک شعر بھی ہے کہ :
موت کو کہتے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوام زندگی
اقبال کی زندگی نام و نمود کی بجائے ملت کی بہتری و بہبود کے لیے وقف تھی مگر لاہور کے خواص و عام چا ہتے تھے کہ اقبال اسمبلی میں منتخب ہو کر قوم کو فیضیاب کریں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے لاہور ارائیں برادری کے معروف نمائندے میاں عبدالعزیز مالواڈح نے ان کے حق میں اپنا نام واپس بھی لے لیا۔ چنانچہ اقبال کو سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ اور یہ اعلان کیا کہ پچیس سال تک میں نے قوم کی کلام سے خدمت کی ہے کہ وہ نا امیدی اورکم ہمتی کو چھوڑ کر اسلاف کے نقشِ قدم پر عملی زندگی کو اپنائیں۔ اب میں زیادہ مؤثر طریقے سے آپ کی خدمت کے لیے خود کو ممبری کے لیے پیش کرتا ہوں۔ممبر کا سب سے بڑا یہ وصف ہونا چاہیے کہ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کر دے۔ میں یقین دلاتاہوں کہ اپنے ذاتی مفاد کو قوم کی اصلاح کے مقابلے میں ہر گز ترجیح نہیں دوں گا۔ میں اللہ رب العزت سے دعا کرتاہوں کہ مجھے اس کی توفیق بخشے۔ میں اغراضِ ملّی کے مقابلے میں ذاتی خواہشات کو فوقیت موت سے بدتر خیال کرتاہوں۔ اور واقعی یہ ممبر ی قوم کے لیے بڑا ایثار تھی ۔کیونکہ انھوں نے انتھک محنت سے ایسے قوانین پاس کرانے کی کوشش کی جن سے عوام، محنت کشوں، غریبوں اورکسانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ اگرچہ اس قدر توجہ اورمحنت سے ان کی وکالت جو ان کی اصل آمدنی کا ذریعہ تھی بالکل ٹھپ ہو گئی۔ اوروہ بڑی مالی مشکلات میں گھر گئے۔ اقبال کے مقابلے میں آج کل کے نمائندگان الیکشن کا خیال کریں جو نام تو قوم کی خدمت کا لیتے ہیں مگر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتے ہیں اور ملک کی اقتصادی اور معاشرتی حالت تباہ کر رہے ہیں۔
علامہ عام طورپر پنجابی میں گفتگو کرتے حاضرین زیادہ تر پنجابی میں ہوتے تاہم حسبِ موقع اردو اور ضرورت کے تحت انگریزی میں بھی موضوع کی وضاحت اور سوال کی مناسبت سے حوالے دیتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی مزاج میں علمیت اور لیاقت کو مشتہر کرنے کا مادہ نہیں تھا۔وہ بے تکلف ایسی زبان بولتے جسے سامعین آسانی سے سمجھ لیں۔
حاضرین میں کچھ ایسے حضرات بھی ہوتے جو خاص مقصد کے تحت بڑی نیاز مندی کا اظہار کرتے مگران کا کام مخا لفین تک خبریں پہنچانے کا ہوتا۔علامہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس نیاز مندی کے پیچھے کیا ہے؟ اورمخبروں پر بالکل ظاہر نہیں کرتے تھے کہ وہ ان کے آنے کا مقصد جانتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں یہ ان کے روزگار کا معاملہ ہے۔ اور علامہ کسی کو بے روزگار دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایسے اخبار نویس جو نام بدل کر ان کے خلاف زہر اگلتے ۔ اقبال نے ‘‘مخلص منافق’’ کانام دے رکھا تھا۔ بعض لوگ بلا وجہ بھی بیٹھے رہتے مگر علامہ سب کی موجودگی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اورکسی کی دل آزاری نہ کرتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر علامہ اقبال کو نامور انگلش سکالر ڈاکٹر جانسن کی طرح ان کی گفتگو کے جواہر پاروں کو قلمبند کرنے والا اور ڈاکٹر باسویل کی طرح کا رفیق مل جاتا تو اقبال کی علمی شہرت کہیں زیادہ ہوتی۔ جو اُن کی آفاقی شاعری کی وجہ سے تھی۔ مگر ان کی طبعِ فقر شہرت کی خواہش سے بے نیاز تھی۔ تاہم حضور اکرمﷺکی نگاہِ کرم کے طفیل انھیں زندگی میں ہی بین الاقوامی شہرت عطا ہو گئی۔ جس کا اظہار وہ اپنی سوز و محبت سے لبریز خوبصورت نعت کے ایک شعر میں یوں کرتے ہیں:
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا توﷺ نے طلوعِ آفتاب
اقبال کی نمود و نمائش شہرت، ہوسِ اقتدار سے بے نیازی کے بارے میں ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پنڈت جواہر لعل نہرو اقبال سے ملاقات کے لیے آئے۔ ان کے ہمراہ میاں افتخار الدین بھی تھے جو اس وقت کانگرس میں تھے۔ دوران ملاقات میاں افتخار الدین نے پنڈت نہرو کے ایما پر اقبال سے کہا کہ اس وقت جو ہر دلعزیزی اور احترام مسلمان قوم میں آپ کی جملہ صفات کی وجہ سے ہے وہ کسی اور کے لیے نہیں۔ تو آپ کیوں نہیں مسلم لیگ کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ آپ کی سیاسی بصیرت اورمعتدل مزاج کی وجہ سے کانگرس اورمسلم لیگ میں تحریک آزادی کے لیے آسانی سے مشترکہ لائحہ عمل تیار ہو سکے گا۔ جو محمد علی جناح کے ساتھ ممکن نہیں۔ جن کے مزاج میں زیادہ سختی ہے۔
اقبال فوراًسمجھ گئے کہ یہ دونوں میرے اور قائد اعظم کے درمیان تفرقہ ڈالنے آئے ہیں۔ انھوں نے جوش سے تمتماتے ہوئے چہرے سے جواب دیا کہ تم غلط سمجھے ہو۔ اس وقت اسلامیانِ ہند کا صرف اورصرف ایک بلا اختلاف لیڈر محمد علی جناح ہے۔ جس کی قیادت میں مَیں ایک ادنیٰ سپاہی کی طرح اطاعت کرنا باعثِ فخر سمجھتا ہوں۔
چنانچہ اقبال کی وجدانی بصیرت اورجنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسی فقر و بے نیازی نے کانگرسی لیڈر کی چال کو ناکام بنا دیا۔ ایسی بے لوث، بے نیاز، سیرچشم، ایثار پیشہ قربانی کی مثال کہا ں ملتی ہے۔ جس پر اولیاء صفت انسان بھی فخر کر سکتے ہیں۔ کاش ایسے دو رہنما ملک کو ایک بار پھرنصیب ہو جائیں۔
گفتگو کے دوران آنحضرت ﷺ کا ذکرِ مبارک آ جاتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے اور بعض دفعہ یہ حالت ہو جاتی کہ آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آتا ۔ انھیں قرآن مجید کے مطالب پر حیرت ناک حد تک عبور تھا۔ ہر صحیح العقیدہ مسلمان کی طرح انھیں بھی یہ یقین تھا کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے حل کرنے میں قرآن رہنمائی نہ کرتاہو۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے بعض آیات کو سمجھنے کے لیے مہینوں غور کیا ہے ان کے خیال میں قرآن تاریخ کا سب سے زیادہ مظلوم ہے کیونکہ اس کا ترجمہ اور تفسیر ایسے لوگ کرتے ہیں جو اچھی طرح عربی بھی نہیں جانتے۔ ان کا اپنا ارادہ تھا کہ زمانے کے حالات اور قرآن کی روح کے مطابق قرآن کی شرح و تفسیر لکھیں گے مگر افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی۔
حکیم احمد شجاع جو ایک نامور ڈرامہ نویس اور افسانہ نگار تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اقبال کے پاس حاضر ہوا تو انھیں بے حد مغموم دیکھا۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک ۶۳ برس کی تھی۔ میں ابھی چند سال پیچھے ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر حضور ﷺکی عمر سے میری عمر زیادہوگئی تو یہ سوچ کر شرمسار ہوتاہوں کہ یہ گستاخی میں شمار نہ ہو۔
اسی ضمن میں انھیں وجدانی طورپر احساس ہوگیا تھا کہ ممکن ہے کہ زیادہ لمبی عمر نہ پائیں۔ ویسے بھی وہ جنوری ۱۹۳۴ء کے بعد مستقل بیمار رہنے لگے۔ حالات کے پیشِ نظر ۱۹۳۵ء میں انھوں نے اپنا وصیت نامہ لکھوا دیا۔ اپنے نابالغ بچوں جاوید اقبال اور منیرہ بانو کی تعلیم و تربیت اور شادہ بیاہ کے لیے جو ولی مقرر کیے انھیں تاکید کرتے ہیں کہ بچوں کے لیے رشتے ناطے میں شرافت اور دینداری کو علم و دولت اور ظاہری وجاہت پر مقدم سمجھیں۔ حالانکہ اس وقت ان کی عمر ۵۸ برس تھی۔ جو کسی طرح پڑھاپے میں نہیں آتی۔ مگراللہ تعالیٰ ان کے آئینہ ادراک میں بہت سے حالات پہلے سے منعکس کر دیتا تھا اور وہ تین سال بعد وفات پا گئے۔
اس ضمن میں یہ واقعہ دلچسپی کا حامل ہوگا کہ اقبال سے اپنی تاریخ وفات کا شعر خود ہی سرزد ہو گیاتھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حفیظ ہوشیار پوری جو ریڈیو پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے اقبال کی مثنوی ‘‘مسافر’’ پڑھتے ہوئے جب اس شعر پر پہنچے:
صدق و اخلاص و صفا باقی نہ ماند
آں قدح بشکت و آں ساقی نہ ماند
حفیظ تاریخ گوئی میں یدِ طولی رکھتے تھے انھیں خیال آیا کہ مصرعہ اول میں اعداد ۱۳۰۰سے زائد معلوم ہوتے ہیں۔ دیکھیں کون سا سن ہجری نکلتا ہے۔ مصرعے کے اعداد و شمار کیے تو ۱۳۵۷نکلا اور یہی اقبال کا سالِ وفات تھا۔
اقبال کے ایک دوست ڈاکٹر رحمت اللہ قریشی کہتے ہیں کہ قناعت ، شکر اور ایثار علامہ کا شعار تھا۔ مال و دولت کے معاملہ وہ کبھی فکر مند نہیں ہوئے۔ ایک دفعہ میں نے عرض کی کہ جو آپ نے کتابیں تصنیف کیں ہیں ان کا اگرکسی پبلشر سے معاملہ کر لیا جائے تو حقِ تصنیف کی خاصی رقم مل سکتی ہے۔ اگرآپ اجازت دیں تو میں لندن کے کسی بڑے پبلشر سے بات کروں۔ علامہ نے خاص انداز میں ‘نہیں’کہا اور بولے مجھے بھی ایک دفعہ اس کا خیال آیا تھا پھر سوچا نہ جانے کتنے ضرورت منداور مستحق لوگ میری تصنیف کے کاروبار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ شاید اس میں یتیموں اور بیواؤں کا بھی حصہ ہو۔ اپنی ذات کے لیے ان سب کو فائدے سے محروم رکھنا مناسب نہیں۔ علامہ کے بھتیجے کی زبانی آپ اس کی تفصیل درج کر چکے ہیں ۔مجلسی اور معاشرتی زندگی کے ساتھ علامہ کی نجی اور گھریلو زندگی کے بارے میں کچھ ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ جوان کی طبع بے نیازی اور استغنا کا مظہر ہے۔
۱۹۰۰ء میں آپ گورنمنٹ کالج سےتعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے تو بورڈنگ ہاؤس چھوڑ کر اندرون بھاٹی گیٹ ۱۹۰۵ء تک اور۱۹۰۸ء تک تین سال اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۲۲ء تک انارکلی اور ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۵ء تک میکلوڈ روڈ کرائے کے مکانوں میں مقیم رہے۔ اس کے بعد میؤ روڈ پر موجودہ اقبال روڈ پر اپنی کوٹھی تعمیر کرکے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء یومِ وفات تک مقیم رہے۔ آپ جس مکان میں بھی رہے ان کی رہائش بالکل سادہ، صاف، بے تصنع اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے پاک رہی۔ ایک کرسی اپنے لیے اور کچھ مہمانوں کے لیے، سادہ سا بستر جب زیادہ دوستوں کا اجماع اور قریبی دوستوں کی دعوت ہوتی تو بڑے کمرے میں قالین پر دسترخوان بچھ جاتا اور سب بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ۔ گھر کی آرائش و سجاوٹ والے سامان کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی۔گویا گھر سادگی اور بے نیازی کا نمونہ تھا۔ گرمی کے موسم میں بجلی کے پنکھے کے استعمال کا خیال کم ہی آتا۔ اگر چلاتے تواس کا منہ دوسری طرف کر دیتےؤ کسی بڑے رئیس کے گھر کسی مقدمے کے لیے قیام کرنا پڑتا تو قیمتی اورنرم و گداز بستروں کی بجائے اپنا سادہ بستر کھول کر زمین پر سوتے۔ جو رسول مدنی ﷺ کی سنت پر عمل کی مثال تھی۔
لباس میں بھی کوئی خاص رکھ رکھاؤ اور دکھاوانہ تھا۔ عدالتوں میں جاتے تو انگریزی سوٹ پہن لیتے نکٹائی کی بجائے کلپ سے بوٹائی لگاتے۔ مگر سوٹ میں نا آسودگی محسوس کرتے اور گھر آتے ہی علی بخش کو گھریلو لباس لانے کو کہتے۔ جو بتایا جا چکا ہے کہ گرمی میں دہری کنی دار دھوتی اور آدھے بازو کی بنیان اور سردی میں اس کمبل میں یا دھسے کا اضافہ ہو جاتا یا کبھی شلوارقمیض پہن لیتے۔ اسی سادہ درویشانہ لباس میں وہ دنیاوی طورپر بڑے بڑے عہدیدار ، رئیس، علماء اور ہر قسم کے معززین کو اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے خندہ پیشائی سے خوش آمدید کہتےاور ہر طرح کے لوگ مل کر ایک جمہوریت پسند جماعت کا نمونہ پیش کرتے۔ حاضرین ان کی محبت دل میں لیے ان کے ارشادات سے فیض یاب ہوتے۔ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی تھی مگر علامہ کے تبحرِ علمی اور روانی گفتگو کے آگے کیفِ سماع سے محظوظ ہونا زیادہ پسند کرتے۔ یعنی اقبال اپنی مومنانہ فراست اوربے پایاں علم کی وجہ سے میرِ مجلس رہتے اور آنے والوں کے دلوں میں بستے اور شاہی کرتے جیسا کہ انھوں نے فرمایاہے:
کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
علامہ سے ملنے والے مشاہیر کی فہرست کافی طویل ہے۔ لوگ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونِ ممالک سے بھی ملنے آتے اور تسکینِ طبع کا انمٹ تاثر لے کر جاتے۔ اقبال صرف ضرورت کے تحت لباس سلواتے۔ فیشن ایبل اور ڈیزائن دار لباس کا قطعاًشوق نہ تھا یہ کام علی بخش جو ایک ان پڑھ اور سادہ طبع ملازم تھا۔ اپنی پسند کا کپڑابازار سے خرید کر درازی کو دے آتا جس کے پاس علامہ کا ناپ موجود ہوتا۔ جو کپڑے تیار کرکے گھر بھجوا دیتا۔ اقبال جیسا بھی لباس سلوا ہو اس کی تراش، سلائی پر کوئی تنقید کیے بغیر پہننا شروع کر دیتے۔ تقریبات کے لیے کبھی شیروانی یا چھوٹا کوٹ پہن لیتے۔سر پر ترکی ٹوپی یا پشاوری پگڑی ہوتی۔ گویا لباس کے معاملے میں ان کی سادگی اور بے نیازی نے تکلفات اور جسمانی زیب و زینت کے اہتمام سے بے نیاز کر رکھا تھا۔
اسی طرح خوراک کے معامے میں اپنی پسند ناپسند کا اظہار ان کی شانِ استغنا اور اطمینانِ قلب کے خلاف تھا اس بارے میں انھوں نے واشگاف کہا ہے:
دل کی آزادی شہنشاہی شکمِ سامانِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
ان کی خوراک نہایت سادہ تھی۔ انھوں نے بتایا کہ جب پہلے پہل کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی اور علی بخش کو ملازم رکھا تو اس نے کسی سے آلو گوشت پکانا سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ وہ آلو گوشت پکا کر سامنے رکھ دیتا۔ کئی مہینے تک وہ دونوں وقت آلو گوشت کھلاتا رہا۔ اس کا یہ معمول بھولنےوالی چیز نہیں۔ البتہ بعد میں دوسری چیزیں اچھی طرح پکانا سیکھ گیا۔ آخری سالوں میں علالت کی وجہ سے ان کی خوراک ویسے بھی گم ہو گئی۔ صبح حلوے کے ساتھ کلچہ اور چائے باقر خوانی کے ساتھ پیتے۔ اور دوپہر کو سبزی گوشت۔ دن کے وقت مجلس میں ہی علی بخش سینی میں کھانا رکھ کر لے آتا۔علامہ حاضرین کو کھانے کی صلا دیتے پھر ایک دو چپاتیاں کھا کر علی بخش سے ہاتھ دھلوا کر فارغ ہو جاتے اورمجلس کی کاروائی پھر سے شروع ہو جاتی۔ اقبال کو آم مرزا غالب کی طرح بہت پسند تھے۔ اکبر الہ آبادی جنھیں اپنا دوست اور راہنما مانتے تھے۔ ان کے لیے لنگڑے آم کی پیٹی ارسال کرتے جس کے تشکر کے لیے اقبال نے اکبر کو یہ شعر لکھ کر بھیجا تھا:
تیرے فیضِ مسیحائی کا یہ اعجاز ہے اکبر
الہ آباد سے لنگڑا چلا لا ہور تک پہنچا
علالت اور سخت شوگر کی وجہ سے ڈاکٹر اور حکماء نے آم کھانے سے پرہیز کی ہدایت کی تھی۔ مگر اقبال کے اصرار پر صرف ایک آم کھانے کی اجازت مل گئی۔ دوسرے دن حکیم قرشی نے دیکھا کہ کوئی سیر بھر کا آم میز پر رکھا ہے۔ حکیم صاحب نے اعتراض کیا تو کہا ہ ایک ہی تو ہے جس کی اجازت آپ دے چکے ہیں۔ حکیم صاحب مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ سوغات کے طورپر احباب آم بھیجتے تو اقبال علی بخش کو کہتے کہ اس میں سب سے اچھا آم نکالو۔ وہ نکال کر دیتا تو کہتے کہ اسے تم کھا لو۔ اسے بھی ایک طرح سے استغنا اور سیرچشمی کہنا چاہیے۔ باہر سے خط لکھتے تو گھر کے افراد کے ساتھ علی بخش کو بھی سلام لکھتے۔
مرض الموت میں غذا، ادویات کے بارے میں حسِ ذائقہ تیز ہو گئی تھی ۔ انگریزی ایلوپیتھی کی خشکی اور کڑوی بو سے بیزاری کا اظہار اور کھانے میں تامل کرتے۔ مشرقی طبی ادوات سے خمیرہ مروارید ، خمیرہ گاؤ زبان، مفرّح معجون و مرکبات کے شیریں ذائقے اورخوشبو کی تعریف کرتے اورکہتے کہ ان کے ذائقے سے آدھا مرض کم ہو جاتا اور شوق سے کھا لیتے۔ حقہ کا ساتھ بھی ساری عمر رہا۔
علی بخش ہر وقت خیال رکھتا کہ چلم ٹھنڈی نہ ہو۔ اور تازہ بھر کر نئی لے آتا۔ غالباًغالب کے پیمانہ و صہبا کے اثر سے جو اُن پر غیب سے مضامین آتے حقے کے اثر سے اقبال پر آمد آتی ہو۔ تاہم یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انھوں نے کبھی مے نوشی کی ہو۔ علی بخش چالیس سال تک ان کے ساتھ رہا۔ اس کے سامنے کبھی گھر میں شراب کا گزر نہیں ہوا۔ یورپ میں تین سال کے قیام کے دوران میں جہاں دن رات مصروف گزارے عطیہ فیضی نے ان کے شب و روز کے اشغال کو بڑی تفصیل سے بیان کیاہے۔ کبھی شراب کا ذکر نہیں کیا۔ ذرا کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کاانسانی دردمندی و سوز سےمعمور درویشی اور فقیرِ مجسم کا کردار شراب نوشی کے غیر اخلاقی اثرات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اقبال تو حافظ شیرازی کی شرابِ معرفت کے بھی سخت خلاف تھے۔ پھر اُمّ الخبائث کے گمراہ کن اثرات کو کیوں کر قبول کر سکتے تھےؤ
اصل میں بہت سی بے سروپا باتیں حاسدین کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ جن کا تجربہ اقبال کو ۱۹۲۶ء کے اسمبلی الیکشن میں بخوبی ہو گیا تھا۔ مگر علالت کی وجہ یہ تھی کہ کونسل کی ممبری کو عوام کی نمائندگی کے لیے ہمہ وقت ذمہ داری سمجھ کر دن رات کام کیا۔ وکالت ختم ہو گئی۔ کثرتِ کاراور محدود آمدنی نے صحت تباہ کر دی۔ جن کتابوں کے لکھنے کا ارادہ تھا۔ غرض یہ کہ اسمبلی کی ممبری کے فریضے سے تو سرخرو ہو گئے مگر صحت اس قدر لا علاج ہو گئی کہ شہید قوم ہو گئے۔ قوم کے لیے یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ اور حکیم قرشی ہر روز ان کے علاج کے لیے حاضری دیتے۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بلکہ امراض کی فوج نے ہر طرف سے یلغار کردی۔
اتنی شدید تکلیف کو برداشت کرنا ان کا ہی حوصلہ تھانظر آنا بھی بند ہو گیا۔ مگر احباب کی قربت میں وہ حالاتِ حاضرہ پر بات چیت شروع کر دیتے۔ ان حالات میں وہ قومی معاملات پر اظہارِ خیال فرماتے۔ ان کا ذہن آخری دم تک زیرک و حاضر رہا۔ وفات سے کچھ دن پہلے انھوں نے قائد اعظم یونینسٹ پارٹی سے معادہ ختم کرنے کے لیے طویل خط لکھوایا۔ وفات کی رات ان کو درد سے تڑپتا دیکھ کر ڈاکٹر نے مارفیا کا انجکشن تجویز کیا۔ جسے اقبال نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ:
I want to face death while in my senses.
(میں موت کا ہوش میں سامنا کرنا چاہتا ہوں )۔
یہ ایک بہادر، مطمئن بے نیاز شخص کا نعرۂ مستانہ تھا۔ جو موت کے ڈر سے بے خوف تھا۔ آخری سانس صبح کے پانچ بجے کے قریب لی۔ دائیں رخ ہو گئے۔سینے پر ہاتھ رکھ کر اللہ اکبر کہا اور جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ حاضر دوستوں نے دیکھا کہ موت کے بعد ان کے چہرے پر سکون اورلبوں پر مسکراہٹ ہے اور وہ اپنے شعر کی تصویر نظر آئے۔
نشان مردِ مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم سیرلبِ اُوست
اقبال ایک مختصر وقفۂ زندگی میں عمل سے بھرپور زندگی گزار کر جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سدھار گئے۔ جس کے روشں اورکہیں بہتر ہونے کا انھیں بھرپوریقین تھا۔ ان کے فلسفہ خودی کی بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا میں ہم اپنی خودی کی تکمیل کے لیے آتے ہیں۔ اس زندگی کو جس حد تک کوئی اپنی خودی کی تکمیل کر لے گااس کے مطابق آئندہ زندگی کا ایجنڈا قادرِ مطلق نے اس کے لیے تیار کیا ہوگا۔ لہٰذا اقبال کی زندگی ا ورموت اہلِ دنیا خصوصاً مسلمانوں کے لیے ایک ایسادرخشاں پیغام ہے جس پر ہماری پُر یقین پیروی ہماری انفرادی اورملی عظمت اور وقار کو بحال کر سکتی ہے۔ اورہمارا ملک اقوامِ عالم میں سرخُرو ہو سکتا ہے۔ اقبال کے اس الہامی شعر پر اپنی معروضات ختم کرتاہوں:
وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا