اقبال کے فن کی ہمہ گیری کا ایک پہلو یہ بھی ہے اُن کی شاعری میں اس عہد کے تخلیقی فنون کے تمام زندہ اور توانا اجزا،…ایک کامل وحدت کے ہم آہنگ اور متناسب اجزا کی صورت میں،…اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ اگرچہ اقبال نے ڈراما نہیں لکھا، اس لیے ان کی شاعری اور ڈرامے کے فن میں بظاہر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا، لیکن امرِ واقع یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ ڈرامائی فنون سے گہری واقفیت اور وابستگی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ یُوں بھی شاعری اور ڈرامے کا تعلق بہت قدیم ہے۔ ٹی۔ایس ایلیٹ کا یہ کہنا کہ شاعری ہمیشہ ڈرامے کی طرف مائل رہتی ہے اور ڈراما شاعری کی طرف،…حیقیت سے اتنا بعید بھی نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مغرب کی ادبی روایات میں شاعری اور ڈرامے میں کئی صدیوں تک جو ناگزیر تعلق رہا ہے اس کی مثال اُردو ادب میں تلاش کرنا بے سود بھی ہے اور بے محل بھی،…اس لیے کہ ہمارے ہاں شاعری نے ڈرامے کے تصور سے بے نیاز (اور بہت حد تک بے خبر) رہ کر اپنی تکمیل کی ہے۔ جب کہ مغرب میں ڈراما، شاعری کے فروغ کا باعث اور شاعری، ڈرامے کی مقبولیت کا سبب بنتی رہی ہے، اور ان دونوں فنون میں گویا رُوح و بدن کا تعلق قائم رہا ہے۔ ہماری شعری روایات کی تشکیل میں ڈرامے کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے باوجود اُردو شاعری میں ڈرامائی عناصر کا سراغ لگا نا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں، گو اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر بھی چارۂِ کار نہیں کہ شاعری اور ڈرامے کے فنی روابط کا مطالعہ صحیح معنوں میں مغربی ادب کے حوالے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ اس حقیقت سے سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ شاعری صرف نظم (verse) یا کلامِ موزوں کے مترادف نہیں،…لیکن دُنیا کے بیشتر قابلِ ذکر ڈراما نگاروں نے اپنے فن میں ایک خاص طرح کی گہرائی پیدا کرنے کے لیے منظوم ڈرامے کو ہی منتہائے نظر قرار دیا۔ اعلیٰ پائے کے ڈرامانگاروں کی ایک کثیر تعداد شاعری(بصورتِ کلامِ موزوں) کو ڈرامائی ہیئت کا اہم ترین حصہ سمجھتی رہی ہے…گوئٹے،شلر، راسین، مارلو، شکسپیئر، ابسن اور ہمارے عہد میں ٹی ایس ایلیٹ،… شاعری اور ڈرامے کے باہمی تعلق کے بہت بڑے رمزشناس ہیں۔ آڈن، اشرووڈ اور دوسرے درجے کے دوسرے منظوم ڈراما نگاروں سے قطعِ نظر،…ایلیٹ نے شاعری اور ڈرامے کے تعلق کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاعری اور ڈراما،…دونوں کی اساس انسانی کلام کے اجزا اور ان کے ترکیبی اُصولوں پر ہے۔ شاعری اورڈراما،…دونوں الفاظ کو ان کی تمام تر امکانی قوتوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ جہاں کلام (speech) ہے وہاں ڈرامے کی اساس موجود ہے، اس لیے کہ کلام اپنی فعلی ماہیّت میں مخاطبت کا متقاضی ہے، چاہے فوری طور پر کوئی سننے والا موجود ہو یا نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ جس طرح ڈراموں میں، خواہ وہ نثری ہوں یا منظوم، ہمیں اعلیٰ درجے کی شاعری کے اجزا مل جاتے یں، اس طرح اچھی اور اعلیٰ درجے کی شاعری بھی (چاہے وہ کسی زبان کی ہو اور کسی بھی عہد سے تعلق رکھتی ہو) ڈرامائی عناصر سے یکسر خالی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتِ حال کی بہترین مثال علامہ اقبال کی شاعری ہے جس میں ڈرامائی عناصر کا عمل و تعامل غیر معمولی حد تک قابلِ توجہ ہے،… یوں تو جیسا ابھی اشارہ کیا گیا، شاعری میں ڈرامائیت کی مثالیں ہر اچھے اور بڑے شاعر کے ہاں مل جاتی ہیں،…مثلاً میر کا ایک سادہ ساشعر ہے:
کہا میں نے گُل کو ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا!
اس ایک شعر میں ڈرامے کے تمام تر اجزا موجود ہیں،… کردار، مکالمہ، عمل (اور ردِّعمل) اور منظر یا صورتِ واقعہ (situation) ڈرامائی ہیئت کے نمایاں عناصر ہیں،…مذکورہ شعر میں یہ تمام عناصر یا اجزا موجود ہیں۔ کردار (میں اور کلی) مکالمہ (کہا میں نے :گُل کو ہے کتنا ثبات) اور عمل یا رد عمل (کلی نے یہ سن کر تبسم کیا)،…منظر یا صورتِ واقعہ بھی خود شعر ہی میں مضمر ہے…غرض اس سادہ سے شعر میں کسی ڈرامائی ٹکڑے کے تمام لوازم موجود ہیں،…لیکن یہ …اور شاعری میں ڈرامائی عناصر کی دوسری مثالیں اتفاقی اور غیر شعوری قرار دی جا سکتی ہیں، جب کہ اقبال کے ہاں ڈرامائی عناصر جس واضح، مکمل اور معنی خیز صورت میں نظر آتے ہیں اس سے سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال نے انھیں اپنے فنی مقاصد کی تکمیل کے لیے کامل فنی شعور کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈراما سہ ابعادی فن ہے، جس کی اصل رُوح حرکت، عمل اور آویزش ہے، ڈرامے میں تجسیم اور تمثیل کی جو شان ہے وہ ڈرامے کے علاوہ کسی اور فن میں ظاہر ہو ہی نہیں سکتی،… لیکن اس کی جزوی اور اعتباری صورتوں کو ہم ڈرامائی عناصر سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈرامائی اندازِ تخاطب، خود کلامی، مکالمہ، کردار نگاری، تجسیم و تمثیل اور علامت گری ڈرامائی ہیئت کے یہ وہ اجزا ہیں کہ اگر شاعرانہ ہیئت میں شامل ہو جائیں تو شاعری میں ڈرامائیت پیدا کر دیتے ہیں، اور یہ بات خاصی حیرت انگیز ہے کہ اُردو میں منظوم ڈرامے (یا محض ڈرامے) کی کسی بہت بڑی اور زندہ روایت کی عدم موجودگی کے باوجود اقبال نے اپنی بہت سی شاعرانہ ہئیتوں کی تکمیل کے لیے ڈرامے کے ان اجزا سے بہت زیادہ کام لیا ہے، ڈرامائی خطابت کا ایک خاص انداز، تخاطب میں لہجے کا اتار چڑھائو، آہنگ کا مجموعی تاثر، متکلم اور مخاطب کے باہمی تعلق کا تعین، مکالمے کے ذریعے گفتگو کرنے والے کرداروں کی سیرت اور اُن کی باطنی شخصیت کا انکشاف…وہ خصوصیات ہیں جو اقبال کی ڈرمائی صلاحیتوں اور ان صلاحیتوں کے حیرت انگیز اظہار پر پوری پوری روشنی ڈالتی ہیں۔
یہ سوال کہ اقبال نے ڈراما کیوں نہیں لکھا، اس مبحث میں خاصہ اہمیت کا حامل ہے، بعض داخلی شہادتوں کی بنا پر اس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، ایک خارجی حقیقت جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ ہے کہ اقبال کے سامنے اسٹیج اور ڈرامے کی کوئی زندہ روایت موجود نہیں تھی جس کو کام میں لا کر وہ ڈرامے کو ایک فعال، مؤثر اور ہمہ گیر میڈیم کے طور پر استعمال کرتے۔ اگر مارلو کے لیے انگریزی ڈرامے کی کوئی زندہ روایت موجود نہیں تھی تو کم از کم یوروپین اسٹیج اور ڈرامے کا ایک وسیع پس منظر ضرور اسے حاصل تھا،… اقبال کے لیے ایشیائی یا مشرقی روایت نہ ہونے کے برابر تھی، کالی داس اور شکنتلا کا تعلق اُردو ادب کے ساتھ زندہ روایت کے طور پر کبھی نہیں رہا، امانت کی اندر سبھا کا ذکر کیا جائے تو واقعہ یہ ہے کہ وہ اندر سبھا والی نیم ڈرامائی روایت ہی تھی جس کی انتہائی اور آخری صورت آغا حشر کے ڈرامے ہیں۔ جس طرح داستانی طرزِ احساس اور کلاسیکی نثر باغ و بہار سے آگے نہیں جا سکتی تھی، (فسانۂ عجائب کو باغ و بہار سے ماقبل کی رنگین نثر کا احیا سمجھنا چاہیے۔) اسی طرح وہ ڈرامائی روایت جس کا نقطۂآغاز امانت کی اندر سبھا کو قرار دیا جاتا ہے آغا حشر کے ڈراموں سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی، سب سے اہم بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اقبال ہر حال میں ایک مشرقی تھے اور مشرقی ہی رہنا چاہتے تھے…اور ڈراما اس وقت تک صرف مغرب ہی کی چیز تھی، مزید برآں اقبال کو ڈرامے پر کچھ مابعد الطبیعیاتی اعتراضات بھی تھے، جن کی تشریح ہم ذرا آگے چل کر کریں گے،…لیکن اس سب کے باوجود ڈرامے کے فن کی سیمیائی نمود، کردار نگاری کی فطری استعداد اور مکالماتی اندازِ بیاں کی خوبی ان کے دامنِ دل کو اپنی جانب کھینچتی ضرور تھی،… یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی نظموں میں بھی مکالماتی اندازِ بیان موجود ہے۔ بانگِ درا کے حصۂ اوّل میں ہی کم از کم گیارہ نظمیں اس انداز کی ہیں۔ اس مجموعے کی اولین نظم بھی ڈرامائی تخاطب کی نظم ہے، ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری مکالمے پر مبنی ہیں…
’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ اگرچہ مکالماتی نظم نہیں، مگر ڈرامائی تاثر سے بھر پور ہے۔ ڈرامائی تاثر اس نظم کے دوسرے بند سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور کسی نقطۂ عروج کی جانب مائل نظر آتا ہے:
تھم ذرا بیتابیِ دل، بیٹھ جانے دے مجھے
اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے
اے مئے غفلت کے سرمستو، کہاں رہتے ہوتم؟
کچھ کہو اس دیس کی آخر جہاں رہتے ہو تم!
وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟
اور پیکارِ عناصر کا تماشا ہے کوئی!
اس کے بعد حیات ما بعد الممات اور عالمِ ارواح کے بارے میں سوالات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو نقطۂ عروج پر ختم ہوتا ہے:
آہ وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟
یا محبت کی تجلی سے سراپا نور ہے؟
تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے؟
موت اِک چُبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے؟
’موت اِک چُبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے،… اس نظم کا ڈرامائی نقطۂ عروج بھی ہے اور نقطۂ اختتام بھی۔ اسی طرح عقل و دل، انسان اور بزمِ قدرت،عشق اور موت، زاہد اور رندی، ایک پرندہ اور جگنو، بچہ اور شمع، تمام تر مکالماتی نظمیں ہیں۔ ’رخصت اے بزمِ جہاں‘ کا پہلا شعر زبردست ڈرامائی تاثر کا حامل ہے:
رخصت اے بزمِ جہاں!سوئے وطن جاتا ہوں میں
آہ، اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں
آباد ویرانے کا قولِ محال (paradox) بھی ڈرامائی حیرت خیزی کا ایک ذریعہ ہے۔ بانگِ درا کی نظموں میں اگر ’آہ‘ کے لفظ کی تکرار، سوالات کی کثرت اور طرزِ استفہام کو بھی سامنے رکھا جائے تو ڈرامائی معنویت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ ’اخترِ صبح ‘ ایک مختصر سی نظم ہے جسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
پہلا حصہ:
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا
ملی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی
ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے
اماں مجھی کو تہِ دامنِ سَحَر نہ ملی
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی
نفس حباب کا، تابندگی شرارے کی
دُوسرا حصہ:
کہا یہ میں نے کہ اے زیورِ جبینِ سحر
غمِ فنا ہے تجھے! گنبدِ فلک سے اُتر
ٹپک بلندیِ گردوں سے ہمرہِ شبنم
مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور
میں باغباں ہوں، محبت بہار ہے اس کی
بِنا مثالِ ابد پائیدار ہے اس کی!
ڈرامائی طرزِ بیان کی ایک خصوصیت موازنہ اور تقابل بھی ہے، جو حقائق کی دو طرفہ یا اضدادی معنویت کو ظاہر کرتاہے۔ اقبال نے اس اُسلوب کو ہمیشہ غیر معمولی فنی بصیرت کے ساتھ استعمال کیا ہے، جس کی ایک مثال یہ مختصر سی نظم ’اخترِ صبح‘ہے اور دوسری بڑی مثال شکوہ اور جوابِ شکوہ ہیں۔ ڈرامائی تخاطب، تقابل، توازن، استفہام، استعجاب، امر، نہی، ترغیب، تحریص، تنبیہ، طنز، ایمائیت اور آہنگ کے اعتبار سے شکوہ اور جواب شکوہ ایسی بھر پور نظمیں ہیں کہ شاید اُردو شاعری میں ان کی مثال اور کہیں نہ مل سکے۔ ان اور دوسری تابلِ ذکر نظموں کا صیغۂ واحدِ متکلم اپنے اندر ہیر و کی پوری شان رکھتا ہے اور اس کا اندازِ بیان یونانی ڈرامے کی طرزِ جلیل میں بدل جاتا ہے۔’صقلیہ‘ (جزیرۂ سسلی) کے کچھ شعر اسی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں:
رولے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار
آہ! اے سسلی! سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو
یہاں بھی اقبال نے سمندر کو پانی کا صحرا کَہ کر ڈرامائی قولِ محال سے کام لیا ہے۔ ’رات اور شاعر‘ ایک اور مکمل طور پر مکالماتی نظم ہے،…لیکن بانگِ درا کی نظموں میں مکالماتی اعتبار سے ’شمع اور شاعر‘ اور ’خضرِ راہ‘ سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اگرچہ ان نظموں میں شاعر اور شمع دونوں محض علامات ہیں جن کے ذریعے اقبال نے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کیا ہے تاہم ان سے کردار نگاری اور کردار آفرینی میں اقبال کی فنی بصیرت کا اندازہ ضرورہوتا ہے۔
کردار اور مکالمہ…ڈرامائی ہیئت کے دو اہم ستون ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کردار نہ ہو تو مکالمہ بھی وجود میں نہیں آسکتا…کردار ہی دراصل ڈراما نگار کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوتے ہیں، اس لیے کہ اگر کرداروں پر اس کی گرفت نہ ہو تو واقعات بھی صحیح معنوں میں متشکل نہیں ہو سکتے…اب اگر ذرسا غور کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اقبال کی شاعری کا جہانِ معنی آفریں بے شمار کرداروں سے آباد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک عظیم خلاق کی طرح اقبال جس شے کو بھی دیکھتے ہیں اسے کردار میں بدل دیتے ہیں۔ وہ بے جان چیزوں میں نفسی محرکات کا سراغ لگاتے ہیں، اور ان کی شخصیت کا تعین کر دیتے ہیں۔ اس کا سبب غالباً یہ بھی ہے کہ وہ کائنات کو متناہی انائوں (finite egos)کا ظہور قرار دیتے ہیں اس لیے اگر انھیں ذرے ذرے میں تشخص اور انفرادیت کے آثار نظر آتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں، اجمالی طور پر اقبال کی دُنیا کے کرداروں کو چار حصوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے،
۱-مادی اور نباتی دُنیا کے کردار
مثلاً ہمالہ، گلِ رنگیں، گلِ پژمردہ، شمع، سیّدکی لوحِ تربت وغیرہ
۲-حیوانی زندگی کے کردار۔
حیوانی زندگی کے کردار۔ اقبال کی دُنیا میں کم ہیں، جو ہیں وہ وحوش کے مقابلے میں طیور سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں، ان میں سب سے اہم شاہین کا کردار ہے۔
۳-انسانی کردار (واقعی)
مثلاً ہیگل، مسولینی، لینن، نپولین، معرّی، غلام قادر رُہیلہ، منصور بن حلاج، قرۃ العین طاہرہ، شرف النسائ، غنی کاشمیری، سُلطان ٹیپو، وغیرہ
۴-انسانی کردار (تخئیلی)
مثلاً بابائے صحرائی، عارفِ ہندی(اس کردار کا تعلق ہندو دیومالا سے ہے)، ملاضیغم لولابی، محراب گل، مریخ کا منجم اور مریخ کی نبیّہ۔
ان میں شاہین، اور ’مردِ مومن‘ سب سے زیادہ علاماتی وسعت کے حامل ہیں، غیر انسانی کرداروں میں…اقبال کا سب سے اہم کردار ابلیس ہے، جو ان کی شاعری میں بعض افکار و خیالات کے اظہار کے لیے غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا ڈرامائی کردار ابلیس ہے، ڈرامائی ہیئت میں مکالمہ اور کردار ایک نامیاتی وحدت کا حصہ ہوتے ہیں۔ کرداروں کی حرکات و سکنات سے ڈرامے کا عمل نمو پاتا اور مکالمہ اس کی معنویت کا تعین کرتا ہے۔ کردار کا سکوت بھی ایک لحاظ سے مکالمے ہی کا بدل ہے۔ اس لیے کہ کردار کی خاموشی بھی کسی کیفیت یا مفہوم ہی کو ظاہر کرتی ہے۔ بہر حال مکالمے میں اختصار و تفصیل کا تناسب ڈراما نگار (یاشاعر) سے غیر معمولی نفسیاتی ژرف نگاہی اور باریک بینی کا تقاضا کرتا ہے اقبال کی بعض نظمیں کردار نگاری اور مکالمات کے اعتبار سے شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں اور کسی عظیم ڈرامے کا حصہ نظر آتی ہیں۔ بالِ جبریل کی نظم ’جبریل و ابلیس‘ میں دونوں کرداروں کا مکالمہ اتنا بھر پور اور برجستہ ہے کہ غیر ڈرامائی شاعری میں اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ مکالمات کا ایک ایک لفظ دو متضاد کرداروں کی سیرت اور شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ نظم کا آغاز جبریل کے استفسار سے ہوتا ہے:
ہمدمِ دیرینہ، کیسا ہے جہانِ رنگ و بو؟
سوال کا یہ انداز جبریل ہی کے لیے موزوں تھا۔’ہمدمِ دیرینہ‘کے ساتھ ہی جبریل و ابلیس کے قدیم ربط کا تصور اُبھرتا ہے۔ جب دونوں بارگاہِ قدس میں حسبِ مراتب موجود رہتے تھے، ابلیس کے مردُود ہو جانے کے بعد…اسے ہمدمِ دیرینہ کہنا جبریل کی طرف سے بلند تر اخلاقی شعور کا ثبوت ہے۔ اس ایک لفظ کے ذریعے ابلیس کو اس کی عظمتِ رفتہ بھی یاد دلائی گئی ہے۔ غرض ہمدمِ دیرینہ کی مختصر سی ترکیب میں سجودِ آدم اور اس سے قبل کی پوری داستان سمو دی گئی ہے ابلیس کا جواب بھی ایک ہی مصرع میں ہے، اور ایک ہی مصرع میں جہانِ رنگ و بو کا سارا المیہ اور ساری عظمت و برتری بیان کر دی گئی ہے۔ سوال تھا : ہمدمِ دیرینہ، کیسا ہے جہان رنگ و بو! جواب ملا:
’’سوزو ساز و درد و داغ و جستجو و آرزُو!‘‘
جبریل…حق اور خیر کا نمائندہ ہے،…اپنی اس حیثیت میں بھی، اور حقِ رفاقت کے خیال سے بھی، چاہتا ہے کہ ابلیس، جو اس کا ہمدمِ دیرینہ بھی ہے، اپنی گمراہی سے باز آجائے اور اپنی گذشتہ رفعتوں اورعظمتوں کو پالے، اس لیے جبریل کا دوسرا سوال یہ ہے:
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو؟
ابلیس کا جواب…یونانی المیہ کے ہیرو کی یاد دلاتا ہے، یہ لب و لہجہ دُنیا کے عظیم ترین شعرا کے ہاں ہی نظر آتا ہے:
آہ، اے جبریل، تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالمِ بے کاخ و کو
مکالمے کے آخری حصے میں ابلیس کے لہجے میں کسی قدر تلخی اور طنز کا عنصر بھی در آیا ہے:
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے۔ میں کہ تو!
گر کبھی فرصت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂِ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟
ابلیس کے کردار میں جو ڈرامائی امکانات مضمر ہیں، وہ ہمیشہ اقبال کے ذہن کو اپنی جانب کھینچتے رہے،…اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ہمارے مفکرین اور صوفیا بالخصوص محی الدین ابن عربی، مولانا رُوم، اور عبدالکریم الجیلی نے ابلیس کے کردار کی علاماتی اور تمثیلی معنویت میں خاصا غور و تأمل کیا ہے، مولانا رُوم نے اسے ’’خواجۂ اہل فراق‘‘ کہا ہے…اور صوفیا کے اکثر تذکروں اور ملفوظات میں بھی اس کردار کی تمثیلی رمزیت سے فائدہ اُٹھا یا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مغرب کے شعر و ادب میں بھی ابلیس کی ڈرامائی صورت گری پر خاصا زور صرف کیا گیا ہے، اس لیے اقبال کی بہت سی اہم ڈرامائی نظموں کا مرکزی کردار ابلیس ہے جس کے ذریعے اقبال خیر و شر اور جبر و اختیار کے ما بعد الطبیعیاتی مسائل کے علاوہ عصرِحاضر کے سیاسی اورتہذیبی مسائل کا بھی تجزیہ کرتے ہیں۔ یہاں ہم اقبال کے تصورِ ابلیس سے بحث نہیں کر رہے، بلکہ اقبال کی شاعری میں اس کی ڈرامائی معنویت پیش نظر ہے۔ ’ضربِ کلیم‘ کی ایک نظم ’’تقدیر‘‘ کا ذیلی عنوان ہے ’ابلیس و یزداں،…اس نظم کا مرکزی خیال شیخ اکبر محی الدین ابن عربی سے ماخوذ ہے اور جبر و اختیار کے مسئلے سے تعلق رکھتا ہے۔ ابلیس تاویل کے راستے سے اپنے ’انکار‘ کے جُرم کو مشیتِ ایزدی پر محمول کر رہا ہے جیسا کہ جبریوں کا قائدہ ہے کہ وہ اپنا الزام مشیت کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ابلیس کا اعتراف:
اے خدائے کن فکاں، مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر
آہ! وہ زندانیِ نزدیک و دور و دیر و زود
حرفِ استکبار، تیرے سامنے ممکن نہ تھا
ہاں مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
اس اعتراف میں بھی آدم (نسلِ آدم) کی کوتاہ بینی اور کم نگاہی پر کھلی ہوئی چوٹ موجود ہے، جس مخلوق کو سجدہ کرنے کی پاداش میں ابلیس کو قربِ خدوندی سے محروم ہونا پڑا۔ ابلیس اسے بھول نہیں سکتا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ آدم کی کمزوریوں کا سب سے بڑا رمزشناس ٹھہرا،… غرض ابلیس نسلِ آدم کو بھلا سکتا ہے نہ معاف کر سکتا ہے، اسے اس حقیقت کا شدت کے ساتھ احساس ہے کہ قصۂ آدم اسی کے خونِ انا سے رنگین ہو سکا۔ (یہ تصریحات اقبال کی کردار نگاری ہی سے اُبھرتی ہیں) کردار کی نفسیاتی گرہوں کو پیش نظر رکھنا کردار نگاری کے فن کا لازمی حصہ ہے، اور اقبال اس پہلو کو کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے…ابلیس کے اعتراف کے بعد یزداں اور ابلیس کا ایک مکالمہ جو ایک ہی شعر میں مکمل ہو جاتا ہے، ڈرامائی گفتگو کا بہترین نمونہ ہے۔ یزداں کا سوال بنیادی اور قانونی نوعیت کا ہے، اس سوال کے جواب پر ہی ابلیس کے جُرم کی نوعیت کے تعین کا دارومدار ہے۔
یزداں: کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ انکار سے پہلے کہ بعد؟
ابلیس: بعد…!اے تیری تجلی سے کمالاتِ و جودا!
یہی جواب متوقع بھی تھا،…تقدیر اور مشیت کی تاویل اہلِ انکار کا معروف حیلہ ہے۔ اور ابلیس سے بڑا حیلہ جُو کون ہوگا۔ اس جواب کے بعد ابلیس کو شا یانِ خطاب نہیں سمجھا گیا بلکہ فرشتوں کو دیکھ کر یہ تبصرہ کیا گیا ہے:
پستیِ فطرت نے سکھلائی ہے یہ حُجت اسے
کہتا ہے تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود
ابلیس کا تذکرہ خاصا طویل ہو رہا ہے، لیکن اس حقیقت سے قطعِ نظر کہ اقبال نے ابلیس کے کردار کو کن مطالب کی توضیح کے لیے علامت کے طور پر استعمال کیا۔ یہ بات اپنی جگہ پر اہم ہے کہ اس کردار کی تشکیل میں اقبال نے غیر معمولی فنی بصیرت سے کام لیا ہے، …اقبال کی شاعری میں ہمیں جہاں بھی اس کردار کی جھلک نظر آتی ہے، وہیں ہمیں اعلیٰ درجے کی ڈرامائی شاعری کا سراغ بھی ملتا ہے۔ ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘،… اس سلسلے کی شاید سب سے اہم نظم ہے، جس میں ابلیس اور اس کے شیاطین کی حکمتِ عملی اور ان کا طریق کار کھل کر سامنے آتا ہے۔ ابلیس کی انانیت، خود پسندی، ہر اخلاقی ضابطے سے بے نیازی اور انسانی زندگی کے معاملات میں اس کا صاحبِ تصرف ہونا…ابلیس کے مکالمات کی معنوی جہتیں ہیں۔ ایک دو ٹکڑے ڈرامائی خطابت کا بہترین نمونہ ہیں…مثلاً
یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دُنیائے دوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنائوں کا خوں
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نُوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِدروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں
یا مثلاً:
ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تو بہ تو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا شرق و غرب
میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
کردار آفرینی کے یہ غیر معمولی آثار…کرداروں کی کثرت…ان کی علاماتی معنویت اور مکالمے پر کامل فن کا رانہ گرفت…اس بات کی قوی شہادتیں فراہم کرتے ہیں کہ اقبال کو ڈرامائی فنون سے گہری وابستگی تھی، صرف وابستگی ہی نہیں بلکہ ان کی تکنیکی پہلوئوں پر پوری دسترس حاصل تھی، لیکن اس کے باوجود اقبال نے کوئی مکمل ڈراما نہیں لکھا…یا شاید زیادہ صحیح بات یہ ہو کہ اُنھوں نے ڈراما لکھنا پسند نہیں کیا،…اس قطعی فنی رویے کا تعلق یقینا ان کے مخصوص نظریۂ فن کے ساتھ ہے، جس کی تشریح کا یہ محل نہیں،…ہر وہ فن یا فنی عمل جو انسان کو خود فراموشی کی طرف لے جائے…انسانی خودی کی تکمیل میں مانع ہے، جس فن میں خودی کا آزادانہ ظہور نہ ہو اقبال کے نزدیک قطعی طور پر قابل ترک ہے …اور ڈراما اقبال کی نظر میں اداکار اور ناظر دونوں کی خودی کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ اداکار اور ناظر دونوں کو ڈراما نگار کی فنی مشیت کا پابند ہونا پڑتا ہے اور اپنی خودی کو بھول کر کسی خیالی یا حقیقی غیر کی خودی کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ بحیثیت ایک تخلیقی فن کے ڈرامے کی عظمت اپنی جگہ پر، لیکن اقبال کی تحلیلی منطق اسے کسی اور ہی نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے،…ڈراما حقیقی ہوتے ہوئے بھی غیر حقیقی…اور غیر حقیقی ہوتے ہوئے بھی حقیقت کا اعتبار قائم کرتا ہے…اس کی یہی ’’سیمیائی نمود‘‘ یا حقیقت کا فریب،…اسے اقبال کی ما بعد الطبیعیات میں غیر معتبر قرار دیتا ہے۔ اسٹیج پر جو واقعات ہو رہے ہیں، وہ ہر چند کہ وقوع پذیر ہو رہے ہیں لیکن ’فی الواقع‘ ان کی ’حقیقت‘ کچھ نہیں…لیکن اس کے باوجود اداکاروں کا عمل۔ باوجود نقالی، غیر حقیقی، فرضی اور خیالی ہونے کے عمل کی ایک صورت تو ہے، لیکن یہ عمل ایسا ہے جو اداکار اور ناظر کی ذاتی خودی کو بالیدہ اور مستحکم نہیں کرتا۔ ڈراما۔ اداکار اور ناظردونوں کو عالمِ امکاں کی ایک ’جہتِ معدوم‘ میں لے جاتا ہے، اور اس طرح اداکار اور ناظر کی خودی ڈرامے کے ’معدوم‘ کرداروں کی خودی میں تحلیل ہو جاتی ہے،…ڈرامے کے فن پر اقبال کی یہ تنقید ایک اعتبار سے انتقادِ عالیہ کا درجہ رکھتی ہے…فن کی دُنیا میں یہ نظریہ اقبال…اور صرف اقبال ہی سے مخصوص ہے…اس منفرد اور خیال انگیز نظریے کا اظہار اقبال نے اپنی ایک نظم ’’تیاتر‘‘ میں کیا ہے:
تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود
حیات کیا ہے اسی کا سرور و سوز و ثبات
بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام
اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات
حریم تیرا، خودی غیر کی، معاذ اللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے
رہا نہ تو، تو نہ سوزِ خودی نہ سازِ حیات
پھر بھی کون کَہ سکتا ہے کہ اگر اقبال نے ڈراما لکھا ہوتا تو وہ مشرق میں شیکسپئیر اور گوئٹے کے مثیل نہ ہوتے!