چکبست نے کہا :
زندگی کیا ہے ، عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے ، انہی اجزا کا پریشاں ہونا
چکبست کے خیال میں موت بذات خود کوئی چیز نہیں، یہ انسان کے اجزائے ترکیبی کا منشتر ہونا ہے ، ان کا فنا ہونا نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتا بلکہ موت صرف اس کے جسدِ خاکی تک محدود رہتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں :
فرشتہ موت کا چُھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے!
ایک اور مزے کی بات اقبال نے اپنی مشہور تصنیف جاوید نامہ میں کہی ہے۔
بندئہ حق ضیغم و آہوست مرگ
یک مقام از صد مقامِ اوست مرگ!
یعنی مومن موت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ موت خود مومن کا شکار ہے ، بندئہ مومن شیر کی مانند ہے اور مو ت اس کے واسطے ہرن ہے، دوسرے مصرع میں کہتے ہیں کہ موت زندگی کی بے شمار منزلوں میں سے صرف ایک منزل ہے۔
مولانا رومی نے کہا تھا کہ موت ایک سفر ہے عالمِ سفلی سے عالم علوی کی طرف ۔
اقبال یہ بات اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیُور
موت کیا شے ہے ، فقط عالمِ معنی کا سفر
پروفیسر محمد منورIqbal on Life After Death میں بیان کرتے ہیں :
موت ہمارا پیدائشی حق ہے، جسے ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو کسی خاص عمر تک پہنچنے کی ضرورت نہیں۔ ایک انسان پیدا ہونے کے فوراً بعد بھی مرسکتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ طبعی عمر کو پہنچنے کے باوجود عرصہ دراز تک موت کی لَذّت سے ہمکنار نہیں ہو پاتا۔ لیکن ایک بات اٹل ہے کہ انسان کو موت سے مفر نہیں ۔ یوں تو انسان کو موت کوئی اچھی چیز نہیں لگتی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھی آدمی موت کو دعوت دیتا ہے اور اسے گلے لگانے کی خواہش کرتا ہے۔ وہ ایسا کرنے میں خوشی اس وقت محسوس کرتا ہے جب کہ اس کے پیشِ نظر کوئی عظیم مقصد ہو۔ ایسی موت کو قربانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ آخرت کی شادکامی اور کامرانی کا باعث بنتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی مصیبت یا شدید مایوسی سے مغلوب ہو کر خود ہی اپنی زندگی ختم کر دیتا ہے۔ ایسی موت کو خود کشی کہا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں اقبال مومن کی پہچان بتاتے ہیں ۔
نشانِ مر د حق دیگر چہ گُویَم
چو مرگ آید تبسّم بَر لَبِ اُدست
ترجمہ : (مومن کی نشانی یہ ہے کہ جب موت آئے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو)
ظاہر ہے یہ بات اس وقت ممکن ہے جبکہ انسان حیات بعد الموت پر پُختہ یقین رکھتا ہو۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کو قرآن پاک نے متعدد بار مختلف طریقوں سے باور کر ایا ہے، لیکن چونکہ ہم زندگی کا تصور جسم کے بغیر نہیں کر سکتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ تم اس حیات کا شعور نہیںکر سکتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کی نسبت یوں مت کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس (حیات) کا شعور نہیں رکھتے۔،، (سورۃ البقر آیت ۱۵۴) آپ نے دیکھا کہ یہاں قرآن نے موت کا لفظ تک استعمال نہیں کیا۔ اقبال کہتے ہیں ۔
موت ، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
زندگی ایک ابدی حقیقت ہے ۔ اس دنیا میں زندگی کو اللہ تعالیٰ نے ایسا فعال بنایا ہے اور اس کو وہ قُوّتِ ظہُور اور قوّت نَمو بخشی ہے، جس کی شہادت ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ بقول اقبال :
دَما دَم رَواں ہے یمِ زِندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اقبال نے ایک اور بہت پیاری بات کہی ہے، ملاحظہ ہو۔
زندگی محبوب ایسی دیدئہ قُدرت میں ہے
ذوقِ حفظِ زندگی ہر چیز کی فِطرت میں ہے
موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقشِ حیات
عام یوں اُس کو نہ کر دیتا نظامِ کائنات
قرآن پاک میں تخلیقِ آدم کے دوران اللہ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔
’’جب میں اس کو پوری طرح درست کردوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گر پڑنا اس کے لیے سجدے میں۔،، (سورۃ الحجر آیت ۲۹)
پس ثابت ہوا کہ روحِ انسانی کوئی خیالی یا تصوّری شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ دائم و قائم اور ہمیشہ باقی رہنے والی ذات ہے، اور روحِ انسانی روحِ کل کا ایک حصہ ہے اس لیے اگر کُل کو فنا نہیں تو جُز بھی لافانی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کو فنا نہیں ہے۔
دراصل روح ہماری شخصیت کا حصہ ہے۔ مرنے کے بعد بھی ہمارا تشخص روح کے ساتھ وابستہ رہتا ہے، اور ہمارا اثاثہ ہمارے نامۂ اعمال کی شکل میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے اقبال نے عظمتِ کردار کو زندگی میں انتہائی اہمیت دی ہے۔ اس دنیا کی زندگی کے لیے اقبال کہتے ہیں ۔
برتر از اندیشۂ سُود و زِیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی
سورۃ مریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اور انسان کہتا ہے کہ جب مرجائوں گا تو کیا زندہ کرکے نکالا جائوں گا؟ کیا انسان یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو پہلے بھی تو پیدا کیا تھا اور وہ (پہلے ) کوئی چیز بھی نہ تھا۔‘‘ ( ۶۶: ۱۹)
موت مکمل نیستی ہرگز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بقول پروفیسر محمد منور ’’ہر انسان کی یہ خواہش نہ ہوتی کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا نام باقی رہے ‘ وہ کوئی ایسا کارنامہ کر جائے کہ لوگ اسے مدتوں یاد رکھیں ۔ انسان کبھی کوئی نئی ایجاد کرتا ہے، کبھی کوئی مثالی پینٹنگ یانادر تصویرِ بناتا ہے ‘ کبھی شاعر یا مُغنّی بن کر دنیا میں نام پیدا کرتا ہے اور اگر کچھ بھی نہ کر سکے تو کم سے کم اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ایسی ہو کہ اس کا نام دنیا میں قائم رہے۔
’’انسان کو زندگی بعد الموت میں ہمیشہ سے یقین رہا ہے۔ شاہانِ قدیم نے مرنے سے پہلے اپنے لیے اہرامِ مصر بنوائے۔ ان میں سے بعض نے پہاڑوں کے اندر اپنی بعد مرگ رہائش کے لیے عالیشان مرقد بنوائے، جن کے اندر ان کے ساتھ ساتھ ان کے خزانے بھی دفن کئے گئے ۔ اس کے علاوہ ان کے مرغوب کھانے بھی ساتھ رکھ دیئے جاتے تھے اور ان کی تنہائی دُور کرنے کے لیے ان کے قریب ترین اور وفادار ملازموں کو بھی ان کے ساتھ ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔
’’ہندو مذہب میں بھی زندگی بعد الموت کا تصور انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ باوجودیکہ ۶۰۰ صدی قبلِ مسیح، ہندو روح کی منتقلی میں مُبہم سا یقین رکھتے تھے اور اُس وقت بھی آج کل کی طرح وہ مردہ جسم کو جلا دیا کرتے تھے۔ لیکن ہندوستان پر بدھ مذہب کی ہزار سالہ حکومت کے زیر اثر رہ کر ان کا Transmigration پر یقین ہوگیا اور اب یہ عقیدہ ان کے مذہب کا اہم جزو ہے ۔‘‘
انسان کو صرف پیدا کرنا پھر مار ڈالنا اور ناپید کر دینا مقصودِ الٰہی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ موت انسان کو فنا یا بالکل ناپید نہیں کر سکتی ۔
خدا تعالیٰ کا کوئی عملِ تخلیق مقصدیّت سے خالی نہیں ہوسکتا۔اسی لیے اقبال نے تلقین کی ہے کہ زندگی میں بھرپور کردار ادا کرو۔ کیونکہ زندگی تکوینِ آدم کا راز ہے اور یہ ’’کُن فَیَکُون‘‘ کی زندئہ جاوید حقیقت ہے۔ فرماتے ہیں :
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
زندگی ایک حقیقت ہے اور موت زندگی کے بے شمار منزلوں میں سے صرف ایک منزل ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں کہ جو حیات بعد الموت پر یقین نہ رکھتا ہو۔
اقبال فرماتے ہیں کہ لوگ غفلت کے مارے ہوئے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ زندگی موت پر ختم ہو جاتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جسے ہم شامِ زندگی کہتے ہیں وہ ہماری دائمی زندگی کی ابتدا ہے۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی