’’پوشیدہ قرار میں اجل ہے۔‘‘
اقبال جدید مسلم دنیا کے وہ ممتاز فلسفی ہیں جنہوں نے مابعدالطبیعیات (Metaphysics) اور زمان و مکان (Time and Space) جیسے دقیق فلسفے کا تجزیہ کیا اور اسے نئی جہت عطا کی۔ مغربی فلسفی (Henri Bergson) اقبال کے وقت کا بہت مشہور مفکر تھا اور فلسفے میں (Authority) مانا جاتا تھا۔ برگساں فرانس کا باشندہ تھا ۔ اس کے نزدیک تغیّر حرکت اور عملِ تخلیق بغیر کسی مقصد کے ہیں۔ اس کے برخلاف اقبال نے ثابت کیا کہ تغیّر اور عمل تخلیق بامقصد ہیں۔ اقبال نے اپنا نظریہ واضح کرنے کے لیے اپنے یورپ کے قیام سے واپسی کے دوران برگساں سے پیرس میں ملاقات کی ۔ اس وقت وہ بیمار تھا، لیکن اس نے اقبال سے اپنی پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر ملاقات کی۔ موضوع فلسفہ زمان و مکان تھا جس وقت اقبال نے رسول پاک ﷺ کا نام مبارک لئے بغیر ایک حدیث کا جملہ (Time and Space) کے موضوع پر اس کو سُنایا تو بیمار برگسان اپنی کرسی پر کھڑا ہوگیا اور پوچھنے لگا کہ کس کا قول ہے؟ اقبال اپنی برگسان سے ملاقات پر بڑے مطمئن واپس آئے ۔ فلسفۂ مغرب انگشت بدنداں ہے جب اقبال کہتے ہیں کہ اسلام کا تصوّرِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے او ر زندگی ایک سادہ کاغذ پر لکیر کی طرح جامد نہیں بلکہ رواں دواں ہے۔ انہوں نے اپنی اردو اور فارسی زبان کی شاعری اور خطبات سے بڑے مدلل اور دلنشین انداز میں یہ واضح کیا ہے کہ اسلام کا تصورِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔ اقبال نے اپنی ایک اردو نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں اس مضمون پر کیا خوب لکھا ہے، چند اشعار ملاحظہ ہوں :
بیتاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں ، نہیں ہے
رہتے ہیں سِتم کشِ سفر سب
تارے ، انساں ، شجر ، حجر سب
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اَجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا ، کُچل گئے ہیں
انجام ہے اس خرام کا حُسن
آغاز ہے عشق اِنتہا حُسن
اس نظم میں، اقبال کیسے پیارے انداز میں دو چیزیں ہمارے دل میں اتار گئے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ حیات جامد تصور نہیں بلکہ ہر لمحہ متحرک ہے، اور یہ کہ حقیقت میں جمود کا مطلب موت ہے۔ (پوشیدہ قرار میں اجل ہے) دوسری بات اس نظم کے آخری شعر میں بڑے حکیمانہ اور خوبصورت طریقے سے بیان کی ہے۔ اقبال نے حرکت (یہاں مراد حرکتِ آدم ہے) کو محرک کہہ کر بڑے عالمانہ اور شاعرانہ انداز میں حُسنِ مطلق تک پہنچا کر حیات دوام سے ہمکنار کر دیا، یہی حرکت ہے جس کا ’’آغاز ہے عشق انتہا حُسن۔‘‘
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جمود کا مطلب موت ہے۔ قرآن پاک حرکت اور عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ نماز کیا ہے؟ حرکت ہی تو ہے۔ حج، زکوٰۃ روزہ، کیا یہ سب بغیر حرکت اور عملی جدوجہد کے ممکن ہیں ؟ رسول ؐ پاک فرماتے ہیں ’’میری امت کے عالم بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں، افسوس کہ اس فرمانِ رسولؐ کی روح پر غور نہیں کیا جاتا صرف الفاظ کو دہرایا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا درجہ تو رسولؐ پاک نے پیغمبروں کے برابر بتایا ہے، اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ان جامع الفاظ کے حقیقی مفہوم اور روحِ کلام پر اگر غور کیا جائے تو انبیاء کرام جیسی جدوجہد انتھک سعی و حرکت اور اِشاعتِ دین کی خاطر بادیہ نوردی اختیار کرکے میدان ِ عمل میں کود پڑنا، مقصودِ ارشاد نبی پاکؐ ہے۔
اب ذرا اقبال کی چشمِ بصیرت کی رسائی دیکھیں ۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’اسلام نے خُو ب سمجھ لیا تھا کہ انسا ن ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعور ِ ذات کی تکمیل یوں ہوگی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے ۔‘‘ ہمارے بزرگوں نے جبرو قدر کا صحیح مطلب سمجھا۔ انہوں نے دنیا میں اسلام کو سربلند کیا اور خود بھی زندہ جاوید ہو گئے لیکن ہم نے اپنی کم ہمتی اور کم علمی کی بنا پر تسلیم و رضا وار جبر و قدر کو گڈ مڈ کرکے بُزدلی کا شیوہ اختیار کر لیا۔ علاّمہ اقبال نے جاوید نامہ میںہماری جبرو قدر کی روش کو اس طرح بیان فرمایا ۔
جبرِ خالد عالمے برہم زند
جبرِ ما بیخ و بُن ما برکند
(ترجمہ ) : خالد کے جبر نے دنیا کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ ہمارے جبر نے ہماری اپنی بنیادیں ہلا دیں ۔
آج اُمّتِ مُسلمہ بے عملی کا شکار ہے۔ باوجود یکہ ان میں عابد، زاہد اور متقی لوگوں کی کمی نہیں۔ لیکن اقبال کہتے ہیں کہ تحقیق کا جنگل شیر دل انسانوں سے خالی ہے، فرماتے ہیں:
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملاّ کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغِ جگر دار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
اہلِ علم حضرات اور اہلِ بصیرت افراد، علما کی موشگافیوں اور فروعات پر مباحث کے باعث گوشہ نشین ہوگئے، اور عوام تصوّف کے سکونی نظریہ سے اثر لے کر جمود کا شکار ہوگئے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم زندگی کی تڑپ سے محروم ہوگئی ہم خدا کو مانتے ہیں، لیکن ہمارے سینے توحید کی تڑپ سے خالی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ کبھی توحید ایک زندہ قوت تھی لیکن آج
زندہ قوّت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے ، فقط اک مسئلۂ علمِ کلام
میں نے اے میر سپہ ! تیری سپہ دیکھی ہے
قُل ھُو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
لیکن اقبال نہ خود مایوس ہوتے ہیں نہ دوسروں کو مایوس ہونے دیتے ہیں۔ وہ جدوجہد اور عمل کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
عزم اُو خلاّقِ تقدیر خداست
(اس کا، یعنی مومن کا عزم خالق ہے تقدیر الٰہی کا)
جواب شکوہ کے آخری بند میں اقبال ہمارے جمود کو توڑ کے ہمیں حرکت اور عمل پر آمادہ کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، اللہ کی طرف سے اقبال کہتے ہیں ۔
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
میرے درویش ! خلافت ہے جہانگیر تری
ماسِویَ اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تُو مُسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لَوح و قلم تیرے ہیں
اقبال تلقین کرتے ہیں ۔
مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیشِ نظر لایخلفُ المعیاد دار
ترجمہ : اپنے سینے کوآرزووں سے آباد رکھو اور ہر وقت اپنے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد رکھو کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
( انَّ اللّٰہَ لَایُخلِفُ المِیعَادْ بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا)
قرآنِ پاک ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ خدا ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، اور قرآنِ پاک شاہد بھی ہے، جس میں متعدد واقعات کا تذکرہ کرکے مثالیں دی گئیں، کہیں طوفان کے ذریعے بے یقین قوم کو غرق کرکے نوح کو سر بلند کیا، کہیں اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے جابر اور قومی حکمران فرعون کو اس کی فوج کے ساتھ دریائے نیل میںغرق کرکے حضرت موسیٰ ؑ کو فتح یاب کیا اور کہیں ادنی پرندے ابابیل سے دیو ہیکل دشمنِ دین کے ہاتھیوں کو پسپا کیا۔ رسولِ پاکؐ کی ذات مبارک اور ان کے چند بے سرو ساماں جاں نثاروں کے ذریعے بے شمار فتوحات کے واقعات کون جھٹلا سکتا ہے۔ اللہ نے ہر جگہ اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ ہم یقینِ کامل کے ساتھ منزل کا تعین کرکے قدم بڑھائیں، پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنا وعدہ پورا کرتا ہے۔
اقبال مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کا مفہوم اس طرح ہمارے دلوں میں اتارتے ہیں :
ترا تَن رُوح سے ناآشنا ہے
عجب کیا ! آہ تیری نارسا ہے
تنِ بے رُوح سے بیزار ہے حق
خدائے زِندَہ زِندوُں کا خدا ہے
اپنے خط میں، اقبال لکھتے ہیں کہ جب ’’قوم میں طاقت اور توانائی مفقُود ہو جاتی ہے، جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہوگئی تھی، تو پھر اس قوم کا نقطۂ نگاہ بدل جاتا ہے۔ اس کے نزدیک ناتوانی حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترکِ دنیا موجب تسکین ۔‘‘
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جمود کا دوسرا نام موت ہے، اس کے برعکس حرکت اصل زندگی ہے او ر اقبال نے زندگی کی جو حِکمَت پیش کی ہے، اس میں انفرادی حرکت کے نتیجے میں اجتماعی معنویت کا مثبت پہلو مقصود ہے۔ یہ اَسلُوبِ کلام نہ صرف اقبال کے زمانے کے مشرقی اورمغربی ادب میں مفقود ہے بلکہ دنیائے ادب و فلسفہ کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔اقبال اگر ہم سے کہتے ہیں کہ:
ملّت کے ساتھ رابطۂ اُستوار رکھ
پیوستہ رَہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ!
تو اس میں اجتماعی مفاد اور مثبت معنویت مُضمِر ہے اور اگر وہ قوم کے فرد کو پکار کر حرکت پر اُکستاتے ہیں تو انداز بیان دیکھئے ۔ فرماتے ہیں :
مثل بو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرّے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا!
ان اشعار میں بھی ملّت کی تعمیر فرد کے ساتھ ساتھ کی جارہی ہے۔ اگر قوم کا فرد فعال ہو جائے اور عملی جِدوجُہد پر کمر بستہ ہو جائے، تو ملّت کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار کے علاوہ اقبال کے اردو اور فارسی کلام میں اسی ہمہ گیر نظرئیے کا جگہ جگہ درس ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک فارسی شعر میں اس اجتماعی نظریہ اثبات کو ایسی خوبصورتی اور دلنواز انداز سے بیان کیا ہے کہ جب میری پہلی نظر اس شعر پر پڑی تو میں تڑپ اٹھا ۔ ایک کیف کا عالم تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اقبال میرے سامنے ہیں انہوں نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر میرے دل کا نشانہ بنایا ہے۔ جس سے لہو ٹپک رہا ہے اور اقبال مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ تیرا لہو نہیں ہے یہ میرا خونِ جگر ہے۔ تو اسے میری قوم کے نوجوان کو دکھا کر خوابِ غفلت سے بیدار کر، اور بتا کہ قافلۂ جہاں کُوچ کرکے کہاں سے کہاں پہنچ چکا مگر تو ابھی تک ’’محو نالۂ جرسِ کا رواں ‘‘ ہے علامہ اقبال کے اس فارسی شعر کی کاٹ اور جگر سوزی کوئی صاحبِ دل محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا، فرماتے ہیں :
نَغمہ کُجا و من کُجا سازِ سُخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را!
ترجمہ : میں کہاں اور موسیقی کہاں میری شاعری ایک بہانہ ہے، میں تو ایک بے لگام اونٹنی (مسلم قوم) کو قطار میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اقبال کے اعجاز کا کمال ہے کے لیلائے قوم کے لیے لفظ ’’ناقہ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس ایک لفظ نے ’’بے زمام‘‘ کے ساتھ مل کر شعر کو ایسی جلا بخشی ہے کہ خیالات کی ضُو، نظروں کے راستے ذہن کو اجاگر کرتی ہوئی دل کو تڑپا جاتی ہے۔ مندرجہ بالا شعر میں اجتماعی معنویت کے ساتھ ساتھ فردِ ملّت کو نظم و ضبط کا درس بھی دیا گیا ہے اور اس میں حرکت و عمل کا مثبت سبق بھی موجود ہے۔ اس شعر میں لیلائے قوم کے لیے لفظ ناقہ کا استعمال، اقبال کی قادرُ الکلامی کا کام ہے بلکہ اس لفظ کے انتخاب سے ان کے دل میں اپنی قوم سے بے پناہ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔اقبال کی اپنی قوم سے یہی بے کراں محبت تھی کہ جس نے برّصغیر میں قوم کے بچے ، بوڑھے، جوان ہر ہر دل کو جھنجھوڑ ڈالا تھا، خوابِ خرگوش میں مبتلا افرادِ ملت کو بیدار کرکے، ان کو باہمی محبت و اُخوَّت کا درس دیا، انہیں حرکت و عمل پر آمادہ کیا۔ اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اقبال کی چھوٹی سے ہم خیال جماعت نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں وہ کارنامہ انجام دیا کہ دنیا کا نقشہ بدل ڈالا ۔
مگر افسوس کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ہم پھر سوگئے ۔ ہمارے دشمن ہمیشہ کی طرح تاک میں تھے کہ کس وقت یہ قوم غفلت کا شکار ہو اور کب ہم شب خُون ماریں ، چنانچہ اس وقت ہم پر ہر طرف سے بھر پور وار کئے جار ہے ہیں ، لیکن ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ اقبال اپنے کلام کے ذریعے ہم سے کہہ رہے ہیں :
وقتِ فُرصت ہے کہاں ، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
اقبال حرکت و عمل کا وہی درس دیتے ہیں جو قرآنِ پاک نے دیا اور جس پر عمل کرکے رسول پاک ﷺ نے دنیا میں جہالت کو علم کے نور سے روشن کیا ۔ جس کے نتیجے میں ایسی قوم وجود میں آئی جس نے دنیا کی اِمامت کی ، یہ وہی قوم تھی کہ بقول اقبال ’’کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سر دارا۔‘‘
علامہ اقبال نے اپنے کلام میں خُونِ جگر کی آمیزش سے جو گُل کاری کی ہے ، رہتی دنیا تک اس کی اثر آفرینی کم نہیں ہوگی ۔ وہ اپنے کلام کے متعلق خود کہتے ہیں :
مصرعۂ من قطرئہ خونِ مَن اَست
’’میرے شعر کا ہر مصرعہ میرے خون کا ایک قطرہ ہے۔‘‘
اقبال بقائے ملّت کے لیے دعا کرتے ہیں تو ہماری طرح نہیں کہ بغیر ہلے جلے ہاتھ اٹھالیے اور بارگاہ الٰہی میں، غیب سے امداد اور داد رسی کی التجائیں شروع کر دیں، بلکہ وہ اللہ کے حضور اگر کچھ مانگتے ہیں تو اپنے شاہنیوں کے لیے ’’بال و پَر‘‘ اور ’’نورِ بصیرت‘‘ تاکہ وہ عملی جِدوجُہد کرکے اللہ تعالیٰ کے اس وسیع دستر خوان سے جو دوست اور دشمن سب کے لیے یکساں قابل دَسترس ہے اپنا حصہ حاصل کرسکیں ۔
اقبال اگر دعا بھی کرتے ہیں تو اس قلندرانہ انداز سے کہ آنکھوں سے چشمۂ اشک رواں ہے ، بارگاہ رب العزت میں ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے باری تعالیٰ! میں تجھ سے اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا، اے ربِّ ذُوالجلال تیرے جلا ل کی قسم، میرے دل میں کوئی آرزو نہیں، سوائے اس کے تو اپنے کرم سے میری قوم کے نوجوانوں کو، جو کبوتروں کی طرح بھولے بھالے اور سادہ لوح ہیں، شاہین جیسی طاقت اور شان عطا کر دے ۔ وہ آنسوئوں کے نذرانے کے ساتھ لرزتے ہونٹوں سے دعا کرتے ہیں ۔
بجلا لِ تو کہ در دل دِگر آرزو نَدارَم
بجز ایں دعا کہ بخشی بہ کبوتراں عقابے!
(تیرے جلا ل کی قسم میرے دل میں کوئی آرزو نہیں۔ سوائے اس دعا کے کہ اے اللہ !تو کبوتروں کو عقابی شان عطا کردے)
اقبال اچھی طرح جانتے تھے اور ہمیں بتاگئے ہیں کہ ہماری فلاح کے نقیب صرف عقاب صفت جوان ہیں کیونکہ :
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُس کو اپنی منزل آسمانوں میں
اقبال فرماتے ہیں کہ یہی قانون قدرت ہے کہ بارگاہ الٰہی سے وہی نوازا جاتا ہے جو صرف اس سے (یعنی اللہ سے ) مانگے اور جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگے، یعنی پہلے عملی جدوجہد اور پھر درگاہ رب العزت کی طرف یقینِ کامل کے ساتھ رجوع، بقول اقبال
یہی آئین قُدرت ہے ، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن ، محبوبِ فطرت ہے
تقسیمِ ہند سے کافی عرصہ قبل کا ایک واقعہ ہے کہ ایک انگریز نواز اخبار نے ایک کارٹون شائع کیا، جس میں ایک عورت کو دکھایا گیا جس کی آنکھ پر پٹی باندھ کر مہاتما گاندھی، اس کو ایک پہاڑی کے اوپر ہاتھ پکڑے آگے لے جارہے تھے ۔ پہاڑی کی چڑھائی ختم ہوتے ہی نیچے ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ،گویا مہاتما گاندھی ہندوستان کو موت کی طرف لے جارہے تھے۔ مولانا ظفر علی خان جیسا حساس اور ملک و قوم کا ہمدرد بھلا یہ کیسے برداشت کرتا، فوراً ایک شخص کو وہ اخبار دے کر علامہ اقبال کی خدمت میں روانہ کیا۔ اقبال نے اس کارٹون کے نیچے دو اشعار لکھ دیئے جن سے کارٹون کا مطلب ہی بدل گیا ۔ یہ اشعار کارٹون کے ساتھ مل کر نظریہ حرکت و عمل کی ایک منہ بولتی تصویر بن گئے ۔ اشعار یہ تھے :
میارا بزم بر ساحل کہ آنجا
نوائے زندگانی نرم خیز است
بہ دریا غلت و باموجش دَر آویز
حیاتِ جاودان اندر ستیز است
’’دریا کے ساحل پر بز م سجا کر نہ بیٹھو، کیونکہ وہاں تو زندگی کے نغموں کی دھنیں بڑی دھیمی ہیں۔ دریا میں کود جائو، اور اس کی موجوں سے لڑو، تم دیکھو گے کہ جدوجہد میں ہی دائمی زندگی پُوشیدہ ہے۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ اقبال نے کس طرح اپنے اشعار سے موت کو زندگی میں بدل دیا ۔ یہی ہے اقبال کے درسِ حرکت و عمل کا انوکھا انداز ۔
آج کل اُمّتِ مُسلِمَہ اپنی بے عملی کی وجہ سے ہر طرف سے اغیار کی عیّاریوں کا شکار ہے اور سخت انتشار میں مبتلا ہے۔ دراصل یہ ابتلا اور مصائب ہمیں جھنجوڑ کر خوابِ غفلت سے بیدار کر رہے ہیں۔ لہٰذا جتنی بھی جلد ہم متحد ہو کر راہ عمل پر گامزن ہو گئے کامیابی کا مقام حاصل کرسکیں گے۔ اس وقت طاغوتی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت کا حشر تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں اور یہ دن دوسروں کے لیے بھی دور نہیں ‘ آثار نظر آنے لگے ہیں اقبال کے الفاظ ہیں ۔
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عُنّابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
اقبال ۱۹۰۷ء میں پیشین گوئی کرچکے ہیں :
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہُوشیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو ! خُدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زرِ کم عَیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہوگا
نظریۂ وحدۃ الوجود کی بحث سے قطع نظر، جس طرح فلسفۂ زمان و مکان کی رو سے کائنات ایک وحدت ہے، ملّت اسلامیہ بھی ایک چھوٹی اکائی (یونٹ) یا وَحدت ہے۔ اقبال اس وَحدت کی بقا کے لیے فردِ ملت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ فرد کی صیقل گری میں حقیقتاً ملت کے قلب کی جلا کرنا ان کا مقصود ہے، کیونکہ ’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ قوم کی مثبت اجتماعی معنوعیت اسی راز میں پوشیدہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا (سورۃ آل عمران۳:۱۰۳ )
ترجمہ : سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘
مندرجہ بالا حکم خدا تعالیٰ کا ہے جس سے روگردانی دراصل ہماری بربادی اور تباہی ہے اقبال اس نکتہ کو یوں بیان کرتے ہیں ۔
مُنفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
یہ ایک تسلیم شُدہ حقیقت ہے کہ انسان اس وقت تک کچھ پاتا نہیں جب تک کچھ کُھونے کے لیے تیار نہ ہو۔ کسی پیاری چیز کو صرف چاہنا ہی اس کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے حاصل کرنے کے لیے کچھ کُھونا پڑتا ہے، کچھ تج دینا پڑتا ہے بقولِ اقبال ۔
عطارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
اقبال عمل اور جِدوجُہد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مومن کا عزم تقدیر الٰہی کا خالق ہے وہ کہتے ہیں!
’تن بہ تقدیر‘ ہے آج اُن کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خُدا کی تقدیر
دراصل فرد کی مثال مکان میں ایک اینٹ جیسی ہے، جس سے ملّت کی تعمیر ہوتی ہے۔ ملّت کی عمارت کی شان اور مضبوطی کا انحصار افراد کی وَحدتِ نظر، وحدتِ فکر، وحدتِ عمل، ان کی یکسانیت اور ربط ِ باہم پر ہے۔ ملّت کا ہر فرد تسبیح کا ایک دانہ ہے وہ اس مالا کا ایک موتی ہے جس کی شان اس کے محبوب کے گُلو سے وابستہ ہے ، اقبال کہتے ہیں کہ اپنی حقیقت کو پہچانئے، یہ ہماری دکھوں کا مداوا ہے اور یہی وقت کی پکار۔
اپنی اصلیّت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے ، لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے
سینہ ہے تیرا اَمیں اس کے پیامِ ناز کا
جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے
اس گلشن عالم میں رنگ و بُو پر قناعت کرنا اور چند خوشنما پھول چُن کر سمجھ لینا کہ ہم نے گوہرِ مقصود پالیا، ایک بڑا دھوکا ہے۔ اقبال ؒ کہتے ہیں کہ اگر پھولوں سے تو اپنا دامن بھر بھی لے تب بھی بے عمل ہو کر بیٹھ جانا تیری بدنصیبی ہوگی۔ تیرے واسطے تو اس چمن میں تیری تنگ دامانی کا علاج بھی موجود ہے :
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے
اقبالؒ یہیں بس نہیں کرتے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس روئے زمین کے چمن زار سے آگے بھی تیرے لیے خالقِ کائنات نے نت نئی دنیائیں اور نئے نئے چمن سجا رکھے ہیں :
فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے
قدم اُٹھا ، یہ مقام آسماں سے دُور نہیں