’’اقبال اور عالمی ادب کے دیباچے میں میں نے اقبال کے فن کے موضوع پر ایک مستقل کتاب اردو وانگریزی میں تصنیف کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔یہ کتاب اسی عزم کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے۔اس میں صرف اردو کلام کی فنی تنقید ہے۔ابھی فارسی کلام کی تنقید باقی ہے۔ جس کے لئے اس کتاب کا حصہ دوئم زیر ترتیب ہے۔ اس حصے کی زبان انگریزی ہو گی۔ اگر اللہ تعالیٰ فرصت نصیب کرے تو یہ منصوبہ مکمل ہو جائے۔
’’اقبال کا تصور خودی کے موضوع پر بھی اردو اور انگریزی دونوں میں ایک کتاب زیر فکر ہے۔اگر میں خدا کے فضل وکرم سے اس سلسلے کی تکمیل کر سکا تو کم ازکم میرا یہ اطمینان ہو جائے گا کہ اقبال کی شاعری کا جو قرض دنیائے ادب پر ہے۔ وہ میری حد تک ادا ہو گیا۔
اقبال کے فن شاعری کی قدر شناسی میں جو چیز روز اول سے آج تک عام طور پر حائل ہوتی رہی ہے۔وہ ان کی عظیم فکر ہے۔ جس کا شہرہ اور رعب اتنا زیادہ ہے کہ اپنی پسند یا نا پسند دونوں میں اسی سے بالکل شخصی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔حالانکہ ان میں بعض معروضی مطالعے کا دعویٰ کرتے ہیں۔میں یقینا اقبال کے شیداؤں میں سے ایک ہوں۔اور ذہنی طور پر ان کی فکر سے بھی وابستہ ہوں،لیکن میں ہمیشہ اقبال کے فن پر اپنے ان تمام مطالعات میں زور دیتا رہا ہوں،جو میں نے اب تک مختلف مواقع پر کیے ہیں۔اور ان میں سے بیشتر میرے چاروں مجموعوں۔۔ نقطہ نظر،جادہ اعتدال، تشکیل جدید اور معیار واقدار۔۔۔ میں شامل ہیں۔ ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘ کی تصنیف بھی اسی جہت سے کی گئی ہے۔
بات یہ ہے کہ ایام طفولیت سے آج تک میری طبیعت پر کلام اقبال کا گہرا اور وسیع اثر ان کی شاعرانہ فن کاری کے سبب ہی ہوا ہے۔ اگر چہ یہ واقعہ بھی اپنی جگہ ہے کہ اس فن کاری کا موضوع اور مواد یعنی اسلامی نقطہ نظر بھی یقینا میرے ذہن کو وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ زیادہ ایپل کرتا رہا ہے۔میں مجموعی طور پر اقبال کو پسند کرتا ہوں۔ان کی فکر کا شیدا ہوں،ان کے فن کا مداح ہوں۔ لہذا میری تنقید اقبال بلا شبہ ایک قدر دان کی تنقید ہے۔ اور میں یقین کرتا ہوں کہ اگر تنقید قدر شناسی ہے (Appereciation) نہ کہ ناقدری (Deprectiation) تو یہ قدر دانی پر ہدایۃ مبنی ہے۔ جب کہ عیب جوئی اور نکتہ چینی کے لئے جو تنقید کی جاتی ہے۔ وہ دل کا بخار نکالنے کے سوا کوئی مفہوم ومقصد نہیں رکھتی اور بدترین قسم کی کبیانہ (cynical) انداز فکر پر مبنی ہے۔ جس کو نہ تو اعلیٰ تنقید کہا جا سکتا ہے اور نہ اعلیٰ ادب۔
تنقید صریحا جانچ کے ساتھ ساتھ پرکھ ہے۔ جس کے لئے جوہر شناسی لازمی ہے۔اور جوہر شناسی قدر دانی کے بغیر ممکن نہیں۔اگر اس معنی میں تمام شخصی تعصبات سے خالی ہو کر کلام اقبال کی بالکل معروضی تنقید کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اقبال کو جوہر شاعری نہ صرف دنیا کے کسی شاعر کے جوہر سے کم نہیں،بلکہ بہ وجوہ اور بدرجہا زیادہ ہے۔
اس لیے کہ اقبال نے خالص شاعری کی ہے،خواہ وہ فکر وپیام ہی کیوں نہ ہو،
تمثیل نگاری اور داستان طرازی گویا نہیں کی ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات تمثیل اور داستان کے جو پیرائے انہوں نے اختیار کیے ہیں وہ بھی بالوضاحتہ فکر وپیام کے لئے ہے۔ یہ فکر وپیام ہی ہے۔ جس کے بلیغ اظہار کے لئے اقبال نے فن شاعری کے تمام لوازم بالکل فطری طور سے استعمال کیے ہیں۔اس لیے کہ شاعری ان کے مزاج میں داخل ہے۔اور فن کا وفور ان کی طبیعت میں ہے۔
’’اقبال کا فن‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ آج سے قریبا بائیس سال قبل میں نے نقوش لاہور میں لکھا تھا۔ وہ میرے پہلے مجموعہ مضامین ’’نقطہ نظر‘‘ میں شامل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس موضوع پر اس سے قبل کس نے کیا لکھا اور جہاں تک مجھے معلوم ہے،اس کے بعد بھی شاید ہی کسی نے آج تک اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہو۔البتہ میرے دوست ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (صدر شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی) نے اقبال کا فن کے نام سے مختلف اشخاص کے مضامین پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ اور اس مجموعے میں میرا وہ مضمون نہیں ہے۔ جو اس موضوع پر اس عنوان سے میرے علم کی حد تک پہلی کوشش ہے۔
میں نے اپنی اس کتاب میں جو منسوبہ تحریر اختیار کیا ہے۔ وہ فہرست مضامین سے عیاں ہے۔ اول تو میں نے غزل کو وہ اہمیت دی ہے۔ جس کی مستحق وہ کلام اقبال میں ہے۔ اس لیے کہ میں اقبال کو اردو ،فارسی کا سب سے بڑا غزل گو بھی سمجھتا ہوں۔ اور ان کی اردو غزل کو ان کی فارسی غزل ہی کی طرح اہم سمجھتا ہوں۔ دوسرے میں نے اقبال کے قطعات اور رباعیات کو بھی روشنی میں لانے کی کوشش کی ہے۔ تیسرے ان کی بڑی نظموں کا مطالعہ کرنے کے لئے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ موضوع یا دور سے متعلق ان کی چھوٹی نظموں کا بھی مطالعہ کیا جائے۔تاکہ کوہ فن کی بلند ترین چوٹیاں ایک تناسب کے ساتھ گرد وپیش کی ابھری ہوئی چٹانوں کے پس منظر میں دیکھی جا سکیں۔
اور ان کا حسن ووقار زیادہ سے زیادہ نمایاں ہو۔ چوتھے یہ کہ اقبال کے مختلف ادوار کی مختلف نظموں کے درمیان جو ایک داخلی ربط اور محیط تسلسل ہے۔ اس کا سراغ لگا کر دکھایا گیا ہے کہ کلام اقبال ایک ہموار ارتقا پر استوار ہے۔ اور الگ الگ نظموں کے اندر جو تنظیم خیال ہے۔ وہ مجموعی طور پر تمام نظموں میں پائی جاتی ہے۔ اس صورت حال سے اقبال کے ذہن کی خلاقی کے ساتھ ساتھ ان کے دست ہنر کی چابک دستی کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مواد شاعری پر ذہن اقبال کی فنی گرفت نہایت محیط و مضبوط ہے۔
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال دنیا کے منظم ترین شاعر ہیں۔
عبد الغنی
۲۲ دسمبر ۱۹۸۲ء وارثی گنج،عالم گنج،پٹنہ نمبر ۷