شاعر ِمشرق علامہ محمد اقبال ؒ کو نو جوان طبقے سے بہت سی امیدیں ہیں ۔ خدا تعالی نے جو نوانوں میں بہت سی ایسی صلاحیتو ں اور خو بیوں کو پیدا کیا ہے جو کہ نو جو انوں کے پاسطور ِ امانت ہیں اس لئے نو جوان طبقے کو چاہئے کہ وہ اپنے اند ر پوشیدہ جواہر کو ظاہر کریں ۔
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خر من ِ دل کو
کہ خو رشید ِ قیامت بھی ہو تیرے خو شہ چینوں میں
آپ نے ہمیشہ مغربی تقلیدو روش کو مسلم نو جوانوں کیلئے سم ِ قاتل قرار دیا ہے ۔ آپ نے درس دیا کہ ان کو بھی ملت ِ اسلامیہ پر احساس تفاخر سے سر شار ہو نا چاہیے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر
خا ص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی
ایک موقع پر قائد اعظم ؒ نے طلبہ سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ’’نو جوانو! میں آپ کو مسلمان قوم کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں
اور دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی ذمہ داری کو کس قدر پور ا کر پاتے ہیں ۔ اس طر ح رہو کہ کو ئی آپ کو گمر اہ نہ کر سکے ۔ کو ئی آپ کو غلط طور پر استعمال نہ کر سکے ۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کیجئے ۔ دنیا میں یہ مثال قائم کر دیجئے کہ نو جوان کیا کچھ نہیں کر سکتے ۔ آپ کا اصل کام یہ ہے اپنی ذات سے وفا ، والدین سے وفا ، اپنی مملکت سے وفا ، اپنے مطالعے میں مکمل توجہ ۔
علامہ اقبال ؒ نے بھی 1938ء میں طلباء پر زور دیا کہ وہ اپنے اندر حر کت و عمل پیدا کریں کیو نکہ پر عزم ارادے ، سنگلاخ چٹانوں کو بھی پاش پاش کر سکتے ہیں ۔ آپ چاہتے تھے کہ
مسلمان نو جوان شاہین کی طرح کو شش کرے اور آسمان کی وسعتوں کو چیر کر منل ِ حیات کو رو شن کرے ۔
اقبال ؒ نے ہمیشہ ن نو جوانوں کو حر کت و عمل کا درس دیا ۔ آپ ہر دور کے مسلمان نو جوانوں میں اطاعت و فر مانبر داری کا وہ جذبہ پیدا کر نا چاہتے تھے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ کے فر زند حضرت اسماعیل ؑ نے کیا جو اطاعت حکم خداوندی کی در خشندہ اور ناقابل فر اموش مثال ہے ۔ اقبال ؒ آج کے جوان سے بھی ایسی ہی تو قع رکھتے ہیں ۔ سلطنت ِ مغلیہ کے زوال کے بعد ہندوستان کی فر مانبر دار مسلمان قوم جب ا نگریزوں کی محکوم بن گئی اور اس کی مدت غلامی کو دو سال بیت گئے تو شاعرِ مشرق
مسلمانوں کے اس حالت نا گفتہ سے تڑ پ اُٹھے ۔ انہوںے نے نو جوان طبقے کو بیدار کر نے کی کوشش کی ۔ انہیں ’’مرد ِ مو من ‘‘ کے مفہو م سے آشنا کیا ۔ انہیں ’’شاہین ‘‘جیسی جملہ صفات اپنے اندر پیدا کر نے کی تلقین کی لیکن کیا نوجوان نے علامہ کی ہدایات پر عمل کیا ؟ اس کا جوان ہمیں نفی میں ملے گا ۔ اقبال ؒ کے نزدیک جب ایک مسلمان نو جوان اپنے اند ر ’’شاہین ‘‘ جیسی صفات و خصو صیات پید ا کر ے گا ، محنت و دیانت اور کام کی سچی لگن کو اپنا شعار بنا لے گا تو پھر دنیا کی کو ئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی خواہ وہ نٹشے کا فو ق البشر ہی کیو ں نہ ہو ۔
ڈاکٹر عبد الحمید کے مطابق ہماری قوم کو بدلنے کا ایک ہی راستہ یہی ہے کہ نو جوان طبقے کو فکر ِ اقبال ؒ سے روشناس کر ایا جائے ۔ حکیم الامت ؒ کے متحرک اور عمل انگیز تصورات کی روشنی میں نو جوانوں کی تر بیت کی جائے ۔
آج عالم ِ اسلام تاریخ کے سیاہ دور سے گزر رہا ہے ۔ اسلام کو چاروں طرف سے یہودی اور نصرانی ایجنٹوں نے گھیر رکھا ہے ۔ اس وقت میں نو جوان نسل ہی میدان ِ عمل میںکام کر کے تبدیلی لا سکتی ہے ۔
٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...