آصفؔ علی محمد (ماریشس)
(نوٹ:مضمون نگار آصف علی محمد ماریشس میں پیدا ہوئے،وہیں پلے بڑھے اور اسی ماحول میں انگریزی اور فرانسیسی سرکاری زبانوں کے ہوتے ہوئے اردو لکھنا پڑھنا سیکھی۔اس لحاظ سے اردو سے ان کی وابستگی کی نوعیت اردو کی ان نام نہادبستیوں کے عام لکھنے والوں سے مختلف ہو جاتی ہے جو پاکستان یا انڈیا کے ماحول میں پل بڑھ کر وہاں سے مغربی دنیا میں آتے ہیں اور ایک عمر کے بعد یہاں شاعر اور ادیب بن بیٹھتے ہیں۔مضمون نگار کے اسی اختصاص کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا یہ مختصر سا اور ابتدائی نوعیت کا مضمون شائع کیا جا رہا ہے۔اردوکا ایسا پس منظر رکھنے والوں کی تحریروں کی حوصلہ افزائی وقتاَفوقتاَ کی جاتی رہے گی۔مدیر جدید ادب)
یہ مضمون نہایت ہی جامعیت اور اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور میں آپ تمام اہلِ دانش کی توجہ اپنے موضوع کی طرف مبذول کرناچاہوں گا کہ میرے مضمون کا عنوان ہے ’’اقبال اور ماریشس‘‘۔اس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اقبالؔ محض جنوبی ایشیائی بیداری کا شاعر نہیں ہے ۔ توقع ہے کہ یہ مختصر ترین مضمون حاضرینِ محفل کی وسیع ترین ذخیرۂ معلومات میں تھوڑا سااضافہ کرے گا ۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گِلِ ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
اس میں کوئی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اقبالؔ ایشیائی بیداری کا شاعر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ شاعرِ موصوف کے کلام کی صدائے باز گشت ہند و پاک سے نکل کے بلادِ اسلام سے بھی آگے گزر کر دنیا کے ہر گوشے میں سنائی جا سکتی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ماریشس میں بھی اقبالؔ کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں گو کہ اقبالؔ عموماً نظم کا شاعر ہے ۔
یہ مسلّمہ امر ہے کہ ( انیس سو اڑ سٹھ ) ۱۹۶۸ء سے پہلے یعنی ماریشس میں قبلِ آزادی کا اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں نے اپنے دین و مذہب کے تحفّظ کی خاطر ان دستاویزوں سے اپنے بچّوں کو پڑھایا جو ان کے اسلاف انہیں بطور توشۂ عقبیٰ دے گئے۔ جو سب سے حیرت انگیز امر ہے وہ یہ کہ ان میں اقبالؔ کی چند نظمیں اور اشعار بھی شامل تھے جو اسی عہد میں ماریشس میں زبان زدِ خلائق ہو چکے تھے ۔ بچّوں کو باقا عد ہ اقبالؔ کی مشہور نظم ’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری ‘ سکھائی جاتی تھی اور مساجد کے ائمہ و خطیب جستہ جستہ اپنی تقریروں کو اقبالؔ کے اشعار سے ہم آمیز کر کے بیداری کا پیغام دیتے تھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ مثال کے طور پر یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
علاوہ ازیں یہ متفرق اشعار بھی اکثر و بیشتر مسلِم اہلِ مذہب کی تقریروں میں گوش گزار کرنے کا موقع ملتا ہے اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچّھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفترِ عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال تری اذاں میں نہیں ہے میری سحر کا پیام
اس سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اقبالؔ کی شاعری برِّ صغیر ہند و پاک کی تمام حدود سے نکل کر اس جہانِ دراز کے دیگر اقلیموں اور کِشوَروں میں سرایت کر گئی ۔ یعنی اقبالؔ کا کلام اہلِ ہند و پاک ہی کو نہیں بلکہ تمامِ اہلِ عالم کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لئے بانگِ درا بلکہ صدائے جرس کا کام کرتا ہے اور مردِ مومن سے فریاد کرتا رہتا ہے کہ از خوابِ گراں خوابِ گراں خوابِ گراں خیز !
یہ حقیقت بھی عرض کرناچاہتا ہوں کہ اقبالؔ کی شناخت ماریشس میں صرف اسلام یا مذہب تک محدود نہیں ہے بلکہ تعلیمی سطح پر بھی اقبالؔ کی بڑی قدر و منزلت ہے اور ابتدائی و ثانوی اسکول کی سطح کے علاوہ کلامِ اقبالؔ کی درس و تدریس دانش گاہی سطح پر ہوتی ہے اور ان کی منتخب نظمیں تعلیمی نصاب میں شامل ہیں مثلاً جبرئیل و ابلیس ، ایک آرزو ، مسجدِ قرطبہ وغیرہ وغیرہ۔
نیز یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ماریشس میں باقاعدہ ۱۹۹۹ء میں اقبالؔ پر عالمی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں کئی حضراتِ محترم و مشاہیر تشریف فرما تھے ۔ یہ استدلالی امر ہے کہ اقبالؔ کا پیغامِ بیداری صرف ایشیاء تک محدود نہیں بلکہ اقبالؔ کی اساسِ فکر کی کارفرمائی پوری انسانیت پر محیط ہے ۔ اقبالؔ صرف ایشیائی بیداری کا شاعر نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کا شاعر ہے جو زندگی کو ’ جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ‘ قرار دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مردِ مومن کو اپنی چشمِ دل وا رکھنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ سینہ کائنات کے اَسرارِ نہاں فاش ہو جائیں اور تقدیرِ عالم بے حجاب ہو جائے۔ بے شک اقبالؔ پر بہت سے تحقیقی و تنقیدی کام ہوئے ہیں لیکن میری یہ رائے ہے کہ کلامِ اقبالؔ کے نئے باب تا ابد کھلتے رہیں گے اور اس کا پیغامِ بیداری تمام روئے زمین کے لوگوں کے ہوش و خرد ہی نہیں بلکہ قلب و نظر بھی بیدار کرے گا
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی