(Last Updated On: )
مصنف : جگن ناتھ آزاد
ناشر: مکتبہ عالیہ، ایبک روڈ، انار کلی، لاہور۔
صفحات: ۱۹۲ صفحات
ڈاکٹر اقبالؔ اردو زبان کے سب سے اہم شاعروں میں سے ہیں۔ وہ ایک بہت عظیم فلسفی بھی تھے۔ حیات اور انسان کے تعلقات و تفاعل کا مطالعہ نے اقبال جس عمق سے کیا۔ اسے اتنے ہی حسین اور جمیل انداز میں شاعری میں پیش کیا۔ ناقدین نے لاکھ سر مارا کہ اقبال کو شاعر کہیں کہ فلسفی لیکن، اقبال دونوں ہی سمتوں میں جید نکلے، دونوں کے سرخیل ہیں کلامِ اقبال کی ان عظمتوں پر غور کرتے ہوئے ان کے اس دعویٰ پر تقریباً سخن فہم متفق ہو جاتے ہیں کہ:
مری نوائے فقیری کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں واقف رازِ درونِ مے خانہ
اقبال نے ان عظمتوں تک پہنچنے کے لیے بہت جستجو اور تجسس سے کام کیا، وہ زندہ آدمی تھے انھوں نے اپنے اطراف و اکناف کے مسائل کو بہ غور پڑھا، انھوں نے تحصیل علم ہی نہیں بلکہ مستقبل شناسی سے اس کا اندازہ کیا کہ آنے والی صدیوں میں قوموں کا حال کیا ہو گا؟ اور ان قوموں میں سرخروئی کا فلسفہ کون سا ہو گا۔ اقبال نے مارکس کو اس کے عقائد کی بنا پر رد کیا لیکن اس کے پیش کردہ حل کو پسندیدگی سے دیکھا یہ اقبال کی سماجیاتی سوچ کا ایک اہم رخ ہے۔ نظریات سے خیر کا اکتساب۔
جگن ناتھ آزاد نے اقبال کے وسیع مطالعے کو یوس پیش کیا ہے:
’’اقبال نے قیامِ یورپ کے دوران بیکن، ڈیکارٹ، اسپنوزا، لبنر، لاک، برکلے، ہیوم، کانٹ، نٹشیے، فشٹے، شوپن ہائر، ملٹن، گوئٹے، برگساں اور جیمس وارڈ وغیرہ کے نظریات کا اور زیادہ گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ اس کے علاوہ میکڈوگل، ڈبلیو جیمس، کارلائل، براؤننگ اور برنارڈشا کے افکار کو بھی جانچا اور پرکھا اور اس کے ساتھ ہی سقراط، افلاطون اور ارسطو، ایسے متقدمین کی تحریروں کو فکر و نظر میں سمویا۔‘‘
یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ علامہ نے اسی گہرائی، وقتِ نظر اور خلوص سے مشرقی نظریات کا بھی مطالعہ کیا تھا انھوں نے بدھ، کنفیوشس، مہاویر، بھرتری ہری، کبیر داس اور عظیم اساطیری کتابوں مثلاً رامائن گیتا اور ویدانت کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ اسی طرح وہ عربی فلسفیوں، ایرانی فلسفہ ہندو دھرم گروؤں اور تصوف کی نزاکتوں سے واقف تھے بلکہ ان پر عبور بھی رکھتے تھے۔
اقبال نے مغربی مفکرین سے کیا سیکھا اور ان سے کس حد تک متفق ہوئے اور کہاں کہاں انھیں اپنی دلیلوں سے جانچا اور پرکھا ’’اقبال اور مغربی مفکرین‘‘ میں آزاد نے اس کا ایک اہم مطالعہ کیا ہے اور بڑے سلیقے سے کیا ہے۔ اسی لیے اس کتاب نے ہند و پاک میں اقبالیات میں اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔
جگن ناتھ آزاد نے اپنی اقبال پرستی، اقبال بینی اور اقبال دانی کے سبب اردو زبان کے اقبالیاتی ادیبوں میں خاص مقام حاصل کر لیا ہے۔ ان کا مطالعہ اس سمت میں وقیع اور عمیق ہے وہ اقبالیات کے فلسفے، مقامات اور توجیہات کو خوب سمجھتے ہیں اور اس لیے اس عظیم شاعری کے قائل ہیں۔ چند برسوں قبل حیدرآباد کے ممتاز ادیب اشفاق حسین مرحوم نے ایک کتاب لکھی تھی ’’اقبال اور انسان‘‘ یہ کتاب اقبال کے انسان سے متعلق فلسفوں اور دیگر مذاہب اور عالمی فلاسفہ کے تقابل و تجزیہ پر مشتمل تھی۔ کتاب خوب ہے لیکن وہی کم زوری کہ گوتم بدھ کے سارے فلسفے کو ایک سطر میں بیان کر دیا گیا ہے اور پھر اقبال کو ناپ تول کر برابر لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ جگن ناتھ آزاد کی یہ کتاب بھی اس سقم سے پاک نہیں۔ آپ اس کتاب میں حسبِ ذیل مضامین کو پڑھ لیں ’’اقبال اور فشٹے‘‘ مصنف نے پہلے کانٹ اور فشٹے کے ٹکراؤ پیش کیا ہے۔ پھر (صفحہ ۴۹ پر) کانٹ کا نظریۂ تنقیدِ عقلِ محض پیش کیا اور اس فلسفے کو فشٹے کے فلسفے کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہوئے (گویا نٹشے کا نظریہ کانٹ کے نظریہ کی توسیع تھا) ایک سطر میں فشٹے کے فلسفے کا نچوڑ پیش کر دیا اور آگے بڑھ کر چند اشعار اقبال کے نقل کر دیے کہ وہ نظریہ میں ملتے ہیں (لیکن ہیں ’’ساحرانہ‘‘ بہ قول مصنف) اگر یہی اصول مطالعہ ہے کہ مغربی اور مشرقی مفکرین میں سے ہر ایک کا فلسفہ یک سطری طور پر بیان کیا جائے اور پھر ان میں مغائرت یا مماثلت ڈھونڈی جائے تو مجھے اس پر حیرت ضرور ہے (مجھ سے تو اس طرح کا یک سطری اختصار تقریباً نا ممکن ہے)۔
اسی طرح ’’اقبال اور شوپن ہائر‘‘ ایک مختصر سا تجزیاتی مضمون ہے جسے لمبے چوڑے، سوانحی حاشئے کی مدد سے طویل بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور پھر اس مضمون کا آخری پیراگراف یوں ہے:
’’عورت کے بارے میں شوپن ہائر کے نظریہ کا کھوکھلا پن کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ اقبال نے عورت کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے اسے ہم ہر اعتبار سے پسند کریں یا نہ کریں وہ شوپن ہائر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی پسندانہ اور صحت مند نظریہ ہے:
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کر کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درجہ کا در مکنوں
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے پھوٹا شرارِ افلاطوں‘‘
اس پیراگراف میں ’’پسند کریں یا نہ کریں‘‘ بھی خوب ہے۔
جگن ناتھ آزاد کی یہ کتاب بلاشبہ اقبال کے مطالعہ میں ایک اہم کڑی بن سکتی ہے اور اگر اس کو کچھ اور گہرائی میں لے جایا جائے، حاشیوں اور اضافوں کے ساتھ مغربی مفکرین کے نظریات کو بھی پیش کیا جائے اور صریح اشاروں کے ساتھ تقابل بھی شریک کر لیا جائے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہو گا۔
آزاد نے حرفِ اول میں ایک مقام پر کہا ہے کہ یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ ’’کلامِ اقبال پر صرف اسلامی تفکر کی چھاپ تھی۔ بلکہ وہ مشرق و مغرب کے ’’تمام‘‘ فکری دھاروں سے واقف تھے‘‘ میرے خیال میں اس بات سے پھر بھی انکار ممکن نہیں کہ علامہ اقبال نے اپنے مطالعوں میں ذہنی جھکاؤ ہمیشہ مشرقی اور اسلامی نظریات کی طرف رکھا اور اگر انھوں نے دوسرے مفکرین کا مطالعہ کیا تو صرف اس لیے کہ ان کے مرغوب نظریات سے وہ کس قدر ہم آہنگ ہیں اور اگر اختلاف ہے تو کیوں؟‘‘
یہ کتاب خوب صورت کتاب و طباعت اور اہم مواد کی بنا پر مثالی ہے اور آزاد صاحب کی اقبال دانی کی عظمت کی شاہد ہے۔ (برگ آوارہ، ۷۴۔ ۱۹۷۵ء)
٭٭٭