(اپنے دل گرفتہ کشمیری بھائیوں کی نذر)
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مُرغانِ سحر تیری فضائوں میں ہیں بیتاب
جنت ِ کشمیر آج خون میں غوطہ زن ہے۔ یہ وہی خون ہے کہ جو اقبال کی رگوں میں رواں تھا، جو ان کی آنکھوں میں اشک بن بن کر صفحۂ قرطاس پر ٹپکتا رہا اور اقبال کے شعروںمیں ڈھل گیا ۔
کشمیری ایک مدت سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ ڈوگرہ راج میں کشمیر کے باشندوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے ۔ اس نے اقبال کو بے چین کئے رکھا ۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہندو نے جبراً کشمیر پر قبضہ کرکے آج تک جو ستم سادہ دل کشمیریوں پر ڈھائے ہیں، اور جس طرح ان کی نسل ختم کی جارہی ہے ، دنیائے انسانیت کا مُردہ ضمیر اس سے بے خبر آنکھیں موندے ہوئے ہے۔ لیکن شاباش ہے ان لوگوں پر جو پہاڑ جیسی طاقت کے سامنے سینہ سپر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور قابلِ صد احترام اور لائق صد ہزار ستائش ہیں وہ مائیں جن کے لختِ جگر اس جلتی ہوئی آتشِ نمرود کو اپنے لہو سے ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ ان جیالوں کا لہو ہر گز رائیگاں نہیں جائے گا اور انشاء اللہ وہ دن جلد آئے گا جس دن کشمیری قوم سُرخرو ہو کر آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوگی۔
حضرت علاّمہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کبھی قوم کو مایوس نہیں کیا اور کشمیر تو ان کے اجداد کی سر زمین ہے۔ باشندگانِ کشمیر کے لیے وہ اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
گرم ہو جاتا ہے جب محکُوم قوموں کا لہُو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سوئے و رنگ و بُو
اقبال زندہ قوموں کا نشان یہ بتاتے ہیں کہ ایسی قومیں اپنی تقدیر خود رقم کرتی ہیں، فرماتے ہیں :
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں
زندہ قوم کی تقدیریں ان کے ارادوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اہلِ کشمیر ایسی ہی ایک زندہ قوم ہیں، وہ اپنی شام اسیری کو صبحِ آزادی میں بدلنے پر قادر ہیں، کہ وہ بہادر ہیں اور پُختہ عزم کے مالک ہیں۔ اقبال ان کے لیے کہتے ہیں :
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال
یہ اُمتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
اقبال فرماتے ہیں کہ کشمیری صِدق و صفا اور مُروّت و اخوت کا پیکر ہیں ، و ہ ایسی قوم ہیں جن کے افراد نیک ارادوں کے مالک ہوتے ہیں اور چونکہ وہ نیکی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیںاس لیے اگر کہیں کوئی غلطی بھی کر دیتے ہیںتو اللہ ان پر کرم کرتا ہے، اور ان کو اپنی غلطی کا خمیازہ نہیں اٹھانا پڑتا۔ اقبال بتاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ بہ یک وقت جلال و جمال کا حسین امتزاج ہوتے ہیں۔ وہ شاہانہ جلا ل کے مالک ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر قلندرانہ جمال بھی ہوتا ہے ۔ ان کا ظاہر و باطن و یکساں ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ ایک ننگی تلوار ……!
خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے ، باقی تمام تفسیریں
مردِ خود آگاہ کے جلال و جمال کا سرچشمہ خودی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تمام اعلیٰ اقدار صرف ایک خودی کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ خودی ایک کتا ب ہے ۔ جس کے اندر انسانیت کے مختلف عنوانات ہیں، اور ساتھ ہی ان کی تفسیریں بھی کتاب خودی میں موجود ہیں۔
انسان کی مسرتوں میں یومِ عید کی خوشی اور شان و شوکت کا اپنا ایک مقام ہے ، لیکن اقبال کہتے ہیں ۔
شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں
فرماتے ہیں عید بے شک ایک شاندار تہوار ہے، جس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔ عید کی زائد تکبیریں اللہ تعالیٰ کی واحدنیت کا پرشکوہ اعلان ہوتی ہیں ۔ لیکن جہاں تک قبولیّت کا تعلق ہے، صرف مرد حُر کی تکبیریں قبول ِ باری تعالیٰ ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایک آزادی کے متوالے کے دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہیں ۔
اس نظم کے آخری شعر میں اقبال ایک بڑے پتے کی بات کہہ گئے ہیں …… کہ
حکیم میری نوائوں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں
فرماتے ہیں کہ میری نوائوں میں جوراز پوشیدہ ہیں وہ دنیا کے عقلاء اور فلسفیوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ میری بات اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو وہ مردِ خُود آگاہ ہے کیونکہ اس کو خدا کی طرف سے نُورِ بصیرت ملا ہوتا ہے ۔
اہل کشمیر کو اللہ نے خود آگہی کی دولت سے نوازا ہے۔ آج دنیا والے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح شہباز چیتوں پر جھپٹتے ہیں اور ایک مردِ مجاہد کو اس کی خود آگاہی کس طرح اپنی جان سے بے نیاز کرکے فولاد بنا دیتی ہے کہ وہ بغیر زرہ بکتر کے میدانِ کا ر زار میں کُو د پڑتا ہے، بقول اقبال :
خود آگاہی نے سکھلا دی ہے جس کو تن فرامُوشی
حرام آئی ہے اُس مردِمجاہد پر زِرہ پُوشی
آج کشمیر کے نہتے عوام دنیا کی ایک مضبوط طاقت سے نبرد آزما ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ان جاں فروشوں کو اللہ تعالیٰ آزادی سے ہمکنار کرے گا۔