انتظار حسین کے کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس 9.11.12بعنوان”میرا جی… جنازہ کیسے اٹھا،سال کیسے منایا گیا“ کے بعض مندرجات کے حوالے سے دو وضاحتیں کرنا ضروری ہیں۔
پہلے ایک وضاحت ۔
”جدید ادب“کا میرا جی نمبرجولائی۲۰۱۲ءمیں چھپ گیا تھا اور اگست،ستمبر تک پاکستان کے احباب تک پہنچ چکا تھا۔انتظار حسین کو بھی تب ہی رسالہ مل چکا تھا۔اب اس کالم میں انہوں نے ڈیلی ڈان میں پانچ مضامین کے ایک ساتھ چھپنے کو اولیت دی ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کام پہلے ہوا ہے اور جدید ادب کا میرا جی نمبر بعد میں آیا ہے۔افسوس دانستہ یا نادانستہ دیا گیا یہ تاثر خلافِ واقعہ ہے۔جدید ادب کے میرا جی نمبر کے اعتراف میں کسی کو انقباض ہے تو ویسے ہی اسے نظر انداز کر دیں لیکن حقائق کو مسخ نہ کریں۔
جب انتظار حسین پر کسی طرف سے کوئی دباؤ نہیں تھا یا انہیں کوئی اشارا نہیں ملا تھا تو انہوں نے فراخدلی کے ساتھ میرا جی کا ذکر ان الفاظ میں کیا:
”ویسے تو میرا جی بھی اتنے ہی توجہ کے مستحق ہےں جتنی توجہ کے مستحق فیض اور راشد سمجھے گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ترقی پسندوں نے جو میرا جی کی مذمت کر رکھی ہے کہ ذہنی طور پر بیمار شاعر ہے۔ذات کی الجھنوں میں پھنسا رہتا ہے۔مریضانہ داخلیت پسندی کا شکار ہے، اس پر مت جائیے۔فیض صاحب کی ترقی پسندی اپنی جگہ مگرجدیدیت کے تصور نے تین شاعروں فیض،راشد ، میرا جی کو ایک رسی میں باندھ رکھا ہے یا کہہ لیجیے کہ ایک رشتہ میں پرو رکھا ہے ۔اور وہ جو اردو میں جدید شاعری کی روایت قائم ہوئی اس میں ان تین کی حیثیت اس روایت کے بڑوں کی تھی اور اب بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ جدیدیت کے تصور سے متاثر نئے ذہنوں نے زیادہ اثر میرا جی سے قبول کیا۔یہ تینوں لاہور میں موجود تھے مگر نئی شاعری کے رسیا نوجوان میرا جی کے گرداکٹھے ہوئے۔میرا جی ان کے گرو بن گئے۔مختار صدیقی،یوسف ظفر،قیوم نظر،مبارک احمد،ضیا جالندھری،گویا میرا جی کے زیر اثر ایک پورا مکتبہ شاعری وجود میں آگیا۔ پھر آگے چل کر جو نوخیزوں کی ایک ٹولی نمودار ہوئی اور جو دعویٰ کرتی تھی کہ جدید شاعر تو اصل میں ہم ہیں۔اس ٹولی نے بھی اپنا رشتہ میرا جی ہی سے جوڑا۔ حالانکہ ان میں ایسے نگ بھی تھے جو فکری اعتبار سے بائیں بازو سے ہم رشتہ نظر آتے تھے۔اور میرا جی کا معاملہ یہ تھا کہ جتنے وہ جدیدیت کے حامی تھے اتنے ہی قدیم کے رسیا تھے۔ان کے مجموعۂ مضمون ”مشرق و مغرب کے نغمے“پر نظر ڈالیے۔ایک طرف تو وہ مغرب کے ان شاعروں اور ان اہلِ فکر پر لمبے لمبے مضمون باندھ رہے ہیں جنہیں شاعری میں جدیدیت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔جیسے بادلئیر، میلارمے،والٹ وٹ مین،ڈی ایچ لارنس۔دوسری طرف بھگتی اور قدیم ہند کے شعراءکے ترجمے کرتے نظر آتے ہیں،جیسے ودیا پتی چنڈی داس،امارو،ساتھ میں میرا بائی کے نام لیوا بنے ہوئے ہیں۔گویا نئی اردو شاعری کی روایت وہ اس طرح قائم کرنا چاہتے ہیں کہ اس میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملتے نظر آئیں۔اور قدیم اور جدید کا امتزاج دکھائی دے۔“
(انتظار حسین کے کالم روزنامہ ایکسپریس۔۱۴مئی ۲۰۱۲ءسے اقتباس)
لیکن جب ادبی سماج کے کسی کونے سے انہیں اشارا ہوا توان کی گفتگو کا لہجہ بھی بدل گیا اور ان کا موقف بھی کیا سے کیا ہونے لگا۔ان کی ادبی اخلاقیات پر کالمانہ ضروریات یوں حاوی ہو گئیں۔
” اب اختر الایمان کی سنیے ”میرا جی اپنے زمانے کا بڑا نام تھا۔ میں نے بمبئی کے تمام ادیبوں کو اطلاع بھجوائی۔ اخبار میں بھی چھپوایا۔ مگر کوئی ادیب نہیں آیا۔ جنازے کے ساتھ صرف پانچ آدمی تھے۔“ وہی جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہی
ایسے پراگندہ خاطر پراگندہ دل کا جنازہ ایسے ہی اٹھنا تھا اور سال بھی اسی رنگ سے منایا جانا تھا۔“
(کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس 9.11.12)
میرا جی کی موت کا انتظار حسین جیسے بظاہر مرنجاں مرنج ادیب نے جس طرح ذکر کیا ہے،یہ بھی ان کے عمومی مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔میرا جی کی تدفین پر زیادہ لوگوں کا نہ آنا محض اس وجہ سے تھا کہ تقسیم بر صغیر کے معاََبعد کا زمانہ تھا،میرا جی کو پاکستانی مان کر اور بھارت کی تب کی دہشت زدہ سیاسی فضا کی وجہ سے لوگوں نے آخری رسومات میں شرکت سے گریز کیا۔اس بات کو اچھے پیرائے میں بیان کیا جا سکتا تھا۔تاہم اگر اسی حوالے سے ن م راشد اور مجید امجد کا ذکر کیا جائے تو کیا انتظار حسین اتنی ہی بے حسی اور سفاکی کے ساتھ ان کے انجام کا ذکر کریں گے؟
ن م راشد کی میت کو جلایا گیا،کیا انتظار حسین اسے کریا کرم کہیں گے؟۔۔۔
اسی طرح مجید امجد کی لاش کو گندگی کے ٹرک پر ڈال کر ان کے گاؤں بھیجا گیا۔کیا اس بے رحمی کا اتنا ہی مزہ لے کر ذکر کریں گے جس طرح انہوں نے میرا جی کی موت کا ذکر کیا ہے،جبکہ میرا جی کی آخری رسومات ان ظاہری باتوں کے حوالے سے راشد اور مجید امجد کے مقابلہ میں کہیں بہتر طور پرادا ہوئیں۔
یہاں مقصد راشد یا مجید امجدکی ا موات اوران کے ساتھ روا رکھے جانے والے آخری سلوک پر بحث کرنا نہیں ہے،یہ ہمارے معاشرے کی بہت ساری مکروہات کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔مقصد صرف اتنا ہے کہ میرا جی کی موت کو اتنی سفاکی سے بیان نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر انتظار حسین جیسے تہذیب کے نمائندہ ادیب بھی اپنی برادری کے اہم لوگوں کا اس طرح ذکر کرنے لگے تو پھر اپنی موجودہ تہذیب کی حالتِ زار کا رونا کیسا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحوالہ
http://poetmeeraji.blogspot.de/search?updated-min=2012-01-01
T00:00:00-08:00&updated-max=2013-01-01T00:00:00-08:00&max-results