ڈیڑھ سال….ڈیڑھ سال بہت ذیادہ ہوتے۔
خاص طور پر جب دل کو انتظار کی اذیت جھیلنی پڑے۔ تب تو دن اور بھی لمبے لگتے۔
معاذ نے بھی ڈیڑھ سال کا عرصہ بہت مشکل سے کاٹا تھا۔
زارا نے اسے جاپان جا کر کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر معاذ نے دل پر پتھر رکھ کر اسے اگنور کیا۔
شروع شروع میں وہ اسے واٹس ایپ پہ ٹیکسٹ کرتی رہی تھی۔ وہ نوٹیفیکیشن سے پڑھ لیتا اور مسکرا دیتا۔
تو وہ اہمیت رکھتا تھا اسکے لیے۔
مگر اسے تنگ کرنا بھی تو ضروری تھا نہ آخر وہ بھی تو بے سکون رہے۔
اگر معاذ انتظار کی سولی پہ لٹکا تھا تو زارا بھی تو بھگتتی نہ۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
دو سال۔۔۔۔
دو سال بعد اسکا انتظار ختم ہوا تھا۔
ایک ایک دن اس گن گن کر گزارا تھا۔اب جا کے وہ لمحہ آیا تھا۔
زارا کی فلاٸیٹ لینڈ کر چکی تھی۔
سبھی گھر والے اسے لینے آۓ تھے۔ نہیں آیا تھا تو معاذ نہیں آیا تھا۔
زارا کی نظریں لاشعوری طور پر اسکی منتظر تھیں۔
اسے لگا شاید وہ آۓ۔
مگر وہ تو اسکے لیے بس اسکے دوست کی بہن تھی۔ اسکی قریبی تو نہیں تھی جو وہ اسے ریسیو کرنے آتا۔
اور محبت کا اظہار کب اس نے جذبات سے پُر لہجے میں کیا تھا۔ ہو سکتا ہے مذاقاً کہا ہو۔
زارا دل مسوس کر رہ گٸ۔
آخر اسے اتنا دل پر لینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ معاذ صرف اسکے بھاٸ اور بہنوٸ کا دوست تھا اور بس۔
وہ دل کی تمام التجاٶں کو نظر انداز کرتی انہیں کچل گٸ۔
اسے چاہ نہیں تو مجھے بھی پرواہ نہیں۔ زارا سارے معاملے پر مٹی ڈالتی گھر روانہ ہو گٸ۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا کے گھر آتے ہی عالی اور داٶد کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گٸ تھیں۔
زارا خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی۔
ابھی بھی وہ بازار سے تھکی ہاری آٸ تھی۔
عالی مجھے آٸسکریم شیک بنا دو پلیز۔۔۔
زارا تھکے ہارے لہجے میں بولی۔
کیوں زارووو قسم کھاٸ ہے کہ کوٸ سیدھا کام نہیں کرنا تم۔
کیوں میں نے کیا کیا۔۔ وہ حیران لہجہ لیے بولی۔
زاروووو اکتوبر کی ٹھنڈ پڑ رہی ہے خدا کا خوف کرو اس ٹھنڈ میں چاۓ کافی سوپ پیتے ہیں۔
عالی اسکی عقل پہ ماتم کرتے بولی۔
ماٸ ڈٸیر سویٹ سسٹر یہ کراچی کا پڑوسی ہے یہاں ٹھنڈ پڑ جاۓ تو غنیمت ہو۔
زارا اسے سمجھاتے ہوۓ بولی۔
ہاں تو ذرا سی جو ٹھنڈ پڑتی ہے اس میں تو ٹھنڈ انجواۓ کرو۔
اچھا چھوڑو نہ لا کر دو دیکھو میں تمہاری شادی میں کتنا کام کر رہی ہوں۔
زارا معصوم شکل بنا کر بولی۔
اوہ تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تم مجھ سے کام کرواٶ گی۔ خدا کا خوف کرو زارووو شادی ہونے والی ہے میری۔ اور تم مجھ سے کام کروا رہی ہو۔
کیوں نہ ہم ایسا کریں کہ تمہیں بھی میرے ساتھ ہی نپٹا دیں۔
علیشہ شیطانی مسکراہٹ لیے بولی۔
بالکل نہیں۔۔۔
زارا تو ایسے اچھلی جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
ہر گز ہر گز ہر گز نہیں۔
تین بار کہنے کا مطلب نہیں تو نہیں۔۔۔
کیوں بھلا اپنی باری جناب کو کیوں کانٹے چبھ گۓ۔
علیشہ اسکے بال بگاڑ کر بولی۔
زارا نے اسکا ہاتھ جھٹک کر اسے گھورتے ہوۓ جواب دیا۔
کیونکہ میں نے تمہاری شادی میں بہت کام کیا ہے۔ اور میں اپنی میں بالکل بھی کام نہیں کروں گی اور اماں آپکو میں بتارہی ہوں مجھے سرپراٸز والی شادی بالکل نہیں کرنی۔
زارا میڈم آنکھیں بند کیے خطاب کر رہی تھیں کہ اچانک زوردار کشن اسے آلگا۔
آٶچ اماں اب کیا بچی کی جان لیں گی۔ زارا اپنا بازو سہلا رہی تھی۔
ایک تو اماں کا وار کیا مجال ہے کہ خالی جاۓ۔
کیا زور کا لگا تھا اسکو۔
یہ بچی اب بڑی ہو جاۓ اور تمیز سیکھ جاۓ۔ غضب خدا کا ہم میں تو کبھی اتنی ہمت نہ ہوٸ کہ اپنی شادی کی بات بھی زبان پر لاٸیں اور اسے دیکھو۔ ارے ہمارے زمانے کی لڑکیاں۔۔۔۔
اماں کی تقریر شروع ہو چکی تھی اور آثار یہی لگ رہے تھے کہ اب اماں ایک دو گھنٹہ تو بولتی رہیں گی۔
زارا بور ہو کر وہاں سے اٹھ آٸ۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
علیشہ اور داٶد کی مہندی کمباٸن رکھی گٸ تھی۔
داٶد کے دوست علیشہ کی مہندی لاۓ تھے۔
جس میں زرک ندا اور زارا کے والدین شامل تھے۔
علیشہ کی مہندی کیا شاندار طریقے سے مناٸ گٸ تھی۔
لڑکوں نے خوب بھنگڑا ڈالا تھا۔
زرک اور معاذ آگے آگے تھے۔ ساتھ ہی وہ داٶد کو بھی کھینچ لاۓ تھے۔
ہر طرف آتش بازیاں اور ڈھول کی آوازیں ہی تھیں۔
علیشہ نے پیلا افغانی فراک پہنا تھا جبکہ زارا نے ست رنگی گھیر دار لہنگا پہن رکھا تھا۔
بالوں کی چوٹی بناۓ چوڑیاں چھنکاتی وہ بہت سی نظروں کا مرکز بنی ہوٸ تھی۔
معاذ اسے مسلسل اگنور کر رہا تھا۔
اس نے ایک نظر ڈالنے کے بعد دوسری نہ ڈالی تھی۔
باوجود لاپرواہی کے زارا کا دل دکھا تھا۔
مگر پھر وہ دل کے دکھ پر لعنت بھیجتی فنکشن میں مصروف ہو گٸ۔
مہندی کی رسم ہو رہی تہی زارا نے خوب سارا تیل لگایا تھا دونوں کو۔
لڑکے سبھی لڈی ڈال رہے تھے رات گۓ تک فنکشن چلتا رہا تھا۔
رات کے دو بجے تک سبھی مہمان جاچکے تھے پیچھے صرف ہلا گلا کرنے والی ینگ جنریشن رہ گٸ تھی۔
وہ رات دیر تک ٹپے گاتے مقابلے کرتے رہے تھے۔
علیشہ اور داٶد سے گانا گانے کو کہا گیا تھا۔
انہوں نے ملن ابھی آدھا ادھورا گایا۔
جبکہ زرک اور ندا نے تاروں کا چمکتا گہنا گایا۔
زارا نے علیشہ کی پسندیدہ غزل گاٸ تھی۔
اب معاذ کی باری تھی۔
وہ گٹار لیے دھن بجا رہا تھا پھر سب کی طرف دیکھ کر بولا۔
میں گانا دلہا دلہن کے لیے نہیں بلکہ اس لڑکی کے لیے گاٶں گا جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔
معاذ کے چہرے کے رنگ زارا کا چہرہ تاریک کر گۓ۔
وہ اب گا رہا تھا۔
آ کے سینے لا لے مینوں
یار ثواب ملو گا تینوں
یار ثواب ملو گا تینوں
جیہڑا ملدا حج دا
آجا میرا دل نَٸیں لگدا
سوہنیا میرا دل نٸیں لگدا
معاذ جذب سے گا رہا تھا۔ زارا نے معاذ کے لہجے میں وہ محبت محسوس کی تھی جو آج تک نہیں تھی۔
تو کیا سچ میں معاذ کی زندگی میں کوٸ اور آگٸ تھی؟؟؟
دل لَگ جانے سے بہتر تھا
آگ لگ جاتی اس دل کو
زارا کا دل برا ہوا تھا۔ وہ جتنا اس معاملے پہ مٹی ڈالنے کی کوشش کرتی اتنا ہی الجھتی جاتی۔
مگر معاذ کے سامنے اپنی حالت ظاہر کرنا اسکے لیے مر جانے کے مترادف تھا۔ تبھی خود پر قابو پاۓ لاپرواہی کا تاثر دیتی رہی۔
صبح فجر تک وہ علیشہ کے ساتھ باتیں کرتی رہی اسکا دل اداس ہو رہا تھا۔ جانے کیوں بیٹیاں پراٸ ہوتی ہیں۔
وہ بہنیں جن سے جھگڑتے عمر گزر جاتی ہے جب رخصت ہونے لگتی ہیں تو وہ لمحات سوہان روح بن جاتے ہیں۔
مگر زارا ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ عالی اداس نہ ہو۔ تبھی وہ اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتیں کر رہی تھی۔
ابھی بھی وہ اسکے کیک لے آٸ تھی۔ اور بجاۓ اسے کھلانے کے اس نے سارا کیک عالی کے منہ پہ لگا دیا تھا۔
علیشہ نے جب اپنے بیوٹیفُل فیس (بقول علیشہ) کا یہ حال دیکھا تو زارا کے پیچھے بھاگی۔
اب یہ حال تھا کہ زارا آگے آگے جبکہ مہندی کی دلہن بنی علیشہ بلکہ منہ پر کیک لگ کر چڑیل بنی علیشہ پورے گھر میں بھاگ رہی تھی۔
بھاگتے بھاگتے زارا کا پاٶں پھسلا اور وہ دھڑام سے جا کر ابٹن والی تھالی سے اسکا منہ لگا۔
زارا نے منہ اٹھایا تو پورا منہ ابٹن سے بھرا پڑا تھا۔
اسکو دیکھ کر علیشہ کی ہنسی نہ رک رہی تھی۔
زارا اسے منہ بناۓ دیکھ رہی تھی مگر علیشہ خود بھی کیک کی وجہ سے اتنی مزاحیہ لگ رہی تھی کہ زارا بھی ہنسنے لگی۔
اب یہ عالم تھا کہ دونوں بھوتنیاں بنی قہقہے لگا رہی تھیں۔اس وقت انہیں کوٸ دیکھ لیتا تو ضرور ڈر کے مارے مر ہی جاتا۔
ہنس ہنس کر جب ان کے پیٹ میں درد ہونے لگا تو انہیں اپنے حلیے کا خیال آیا۔
وہ دونوں فریش ہو نکلیں تو بھوک ستانے لگی۔ جبھی دونوں نے کچن کا رخ کیا۔
عالی پلیز میری پیاری میری اچھی بہن مجھے پیزا بنا دو نہ۔
زارا شرم سے ڈوب مرو تم کل میری شادی ہے یہ نہیں کہ تم کچھ میری خدمت کر لو تم مجھ سے کام کروا رہی ہو۔
ہاں تو کیا ہو گیا اب کل تم چلی جاٶ گی پھر پتا نہیں کب ہاتھ آٶ گی تو اچھا نہیں ہے کہ تم مجھے پیزا بنا دو۔
زارا تم دعا دے گا بچہ۔۔۔۔ زارا ہاتھ اٹھاۓ آنکھیں بند کر کے بولی۔
اب جلدی کرو نہ عالی بھوک لگ رہی ہے۔
تو ہم کچھ کھا لیتے ہیں نہ۔ علیشہ فریج کی جانب بڑھی۔
نہ نہ سسٹر مجھے پیزے کی بھوک لگی ہے جلدی کرو۔
زارا نے اسے واپس موڑا۔
علیشہ نے اسے آنکھیں دکھاٸ مگر ادھر کس کو پرواہ تھی۔
وہ مزے سے سلیب پر بیٹھی باتیں بگھار رہی تھی جبکہ علیشہ پیزا بنانے میں مصروف تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...