منتہیٰ کے چھوٹے و امق کو لے کر وہ باہر لان میں بیٹھی ہوئی تھی۔ باقی بچے بھی اردگرد تھے۔ منتہیٰ اور وہ دو ہی بہنیں تھیں۔ منتہیٰ اس سے آٹھ سال بڑی تھی ۔ کم عمری میں ہی اس کی شادی کر دی تھی وہ خوش قسمت تھی عبدالرزاق بھائی بہت اچھے اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ سب کا ہی ادب کرتے تھے۔ وہ اکثر آتی رہتی تھی پھوپو کے گھر۔ اس دفعہ وہ رہنے کی غرض سے آئی تھی۔ ہفتہ ہو گیا تھا یہاں آئے ہوئے ۔ واپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ کچھ وہ پچھتا رہی تھی کہ نہ جانے کس کمزور لمحے میںبہہ کر وہ سالک سے سب کہتی گئی تھی جو وہ برسوں سے برداشت کر رہی تھی۔ وہ اذیت ، وہ دکھ ، وہ تکلیف ، وہ نفرت سب کچھ ….. اب دل بہت ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔ بالکل خالی سا۔ شاید یہ کہہ لینے کا اثر تھا برسوں کا غبار تھا ، بچپن کی یادیں تھیں ، جنہیں وہ سالک کے سامنے ایک ایک کر کے دہراتی گئی تھی۔
پہلی دفعہ سالک کی طرف سے وہ تب بد گمان ہوئی تھی جب بی بی جان اسے اس سے نکاح کا کہہ رہی تھیں اور وہ انکار کرتے ہوئے اس کی خامیاں گنوا رہا تھا۔ اس کے دل میں سالک کا بہت بلند مقام تھا۔ بہت محبت کرتی تھی اسے ۔ بہت چاہتی تھی ، ایک دم اس کی زبان سے اپنے لئے ناپسندیدگی سن کر وہ پتھر اسی گئی تھی۔ اذیت تھی کہ حد نہیں۔ اوپر سے یہ انکشاف روح کو گھائل کرنے کو کافی تھا کہ وہ اس سے نہیں بلکہ کسی اور محبت کرتا ہے۔ اس کی پسند کوئی اور ہے، وہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔ سالک نے اس کی ذات کی نفی کی تھی۔ بحیثیت کزن وہ مروّت اختیار کر لیتا تھا مگر جب نکاح ہوا تو وہ اس سے بھی گئی۔ مجبوراًہی سہی وہ نکاح پر راضی ہو گئی تھی۔ اپنی ذات کی نفی کے باوجود دل میں اسے اپنا بنانے کی خواہش ایسی زور آور تھی کہ وہ اپنی عزت نفس کی پامالی بھی گوارا کر گئی ۔ پھر وہ عمر بھی تو ایسی تھی ضدی سی۔ چاند کو چھونے کی تمنا تھی ، ہر حال میں چھونا چاہتی تھی۔ پھر وہ اس کا بن گیا تھا اور یہی وہ دور تھا کہ جب اس نے اسے جھٹلانا شروع کر دیا تھا ۔ وہ سمجھتی تھی کہ سالک اس سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ عام لڑکیوں کی طرح اس کے بھی جذبات تھے، پھر دونوں میں جو رشتہ تھا اس کے تقاضے بھی کچھ انوکھے نہ تھے۔ مگر وہ اس کے جذبات کہاں سمجھنے والا تھا۔ جب بھی نظر ڈالی نا پسندیدگی کی ڈالی۔ جب بھی بات کی سمجھانے والی کی جبکہ اس کے کان لا شعور طور پر کچھ اور سننے کے منتظر رہتے تھے۔ جواباً وہ چڑ چڑی ہوتی گئی۔ طنزیہ جملے بولنا اپنا مشغلہ بنا لیا۔ جس کام سے یا جس عادت سے اسے نفرت ہوتی تھی وہ سب سے زیادہ اس کا اظہار کرتی پھر یوں ہوا کہ ایک دو دفعہ کا ٹوکنا اسوہ کے دل میں بد گمانیوں کی ایک فصیل کھڑی کر گیا۔ اسے ضد سی ہو گئی اسے چڑانے کی، اسے زِچ کرنے کی۔ اپنے اندر کی تلملاہٹ و چڑ چڑاپن وہ اسی طرح نکالنے لگی تھی۔ گفتگو کرتے وقت وہ زیادہ سے زیادہ ایسے الفاظ استعمال کرنے لگی تھی جو اسے سخت نا پسند ہوتے تھے یا وہ اشتعال میں مبتلا ہو سکتا تھا ۔ اس کی گفتگو سے ناپسندیدگی کا اظہار سالک کے چہرے سے بخوبی ہو جاتا تھا مگر وہ ہمیشہ خود پر کنٹرول کر جاتا تھا جبکہ وہ اسے آخری حد تک دیکھنا چاہتی تھی۔ لاہور جانے کا فیصلہ اور اس سے پہلے کی گفتگو بھی اسی زمرے میں آتی تھی مگر وہ بجائے اشتعال کے بہت تحمل کا مظاہرہ کر گیا تھا وہ ایک دفعہ پھر ناکام ہوئی تھی اس کا خیال تھا کہ یہ شخص اسے اس حد تک نا پسند کرتا ہے کہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور بعد میں یہ سچ ثابت ہوا۔
عالی کے ساتھ اس کی ذات کو منسوب کرنا سالک کی نفرت کو کھل کر سامنے لے آیا تھا۔ وہ شاک میں مبتلا ہو گئی تھی۔ اور جب یقین ہو گیا کہ اس پر الزام لگانے اور شک کرنے والی کوئی اور ذات نہیں صرف سالک انیس الزمان ہے تو برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا پھر تو جیسے اس کے دل میں بھی محبت نہیں رہی تھی بے پناہ نفرت آ سمٹی تھی۔ وقت اور حالات نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو لڑکھڑانے نہیں دیا تھا ۔ رخصتی سے لے کر سالک کے وطن چھوڑنے تک وہ اس الزام پر کار بند رہی تھی۔ پھر رہتی تھی کیوں نہ یہ الزام تو اس کے محبوب شوہر کی طرف سے ملا تھا ۔ محبت تو جیسے اپنی موت آپ مر گئی تھی، اس کے بعد اس نے صرف اور صرف سالک سے نفرت کی تھی انتہائی زیادہ کہ اس نے اس کی موت کی دعائیں مانگی تھیں۔
وہ چلا گیا اور اس کی انتہائی نفرت سب گزرتے وقت کی دھول ثابت ہوئے ۔ شروع سالوں میں وہ صرف اور صرف اسے اذیت دینے کی خاطر کوئی پیش رفت کئے بغیر بیٹھی رہی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کی بے چینی بڑھتی گئی ۔ لوگ یہاں اس کی گمشدگی کی طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ اس کی نفرت بھی اعتدال پر آ گئی مگر ختم نہ ہو سکی۔ آٹھ سال بعد اسے بس یونہی خیال آیا تھا شاید وہ آ جائے شاید وہ کہیں زندہ ہو۔ کسی کا منتظر ہو ۔ نہ جانے کیوں آہستہ آہستہ یہ خیال تقویت پکڑنے لگا اور پھر بی بی جان کی خراب طبیعت نے اسے خط لکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب آیا تھا تو پہلے والا سالک نہیں تھا جس پر کسی بھی بات کسی بھی طنزیا کسی بھی استہزاء کا اثر نہیں ہوتا تھا تحمل مزاجی کی جگہ اشتعال انگیزی جڑ پکڑنے لگی تھی۔ اس نے پہلی ہی رات یہ بات محسوس کر لی تھی۔ مگر لوٹ کر آنے والے کو وہ سر آنکھوں پر نہیں بٹھا سکتی تھی۔ اس کی نفرت ابھی باقی تھی۔ ہاں یہ سچ تھا پہلے والی حالت نہیں رہی تھی مگر ختم بھی نہیں ہوئی تھی اسی لئے تو سالک کا ضبظ آزمانے کے چکر میں وہ اس شام اس پر عیاں کر گئی تھی۔ اس نے کبھی عالی سے محبت نہیں کی تھی بلکہ سگے بھائی کی سی محبت تھی۔ پھر تو جو ہوا تھا وہ شاید ماحول یا حالات کا اثر تھا اب یہ حالت تھی کہ اس کے اندر سالک کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ برسوں وہ اپنی ذات کی توہین کرواتی آئی تھی اب ایک دم سالک کے قدموں میں جا بیٹھنے کے خیال سے ہی عجیب سا محسوس ہونے لگا تھا ۔ اگر وہ قصور وار تھی تو قصور وار سالک بھی تھا ۔ اسے ضرور آنا چاہئے تھا۔ بات کرنی چاہئے تھی مگر آٹھ دن گزرنے کے باوجود وہی انتظار کا موسم برقرار تھا ۔ دل میں محبت و نفرت کچھ بھی نہیں تھا ۔ بس عجیب سی کیفیت تھی ، جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکی تھی۔
ﻭﺍﻣﻖ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺍٓ ﮔﺌﯽ ﻣﻨﺘﮩﯽٰ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍ ﮐﺮ ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍٓ ﮔﺌﯽ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺳﺮﺩﯾﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﭼﮭﺎﺋﮯ ﺑﺎﺩﻝ ﺑﮭﻠﮯ ﻟﮓ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺗﮫ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮔﺌﯽ۔ ﻧﮩﺎ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﯽ ﺗﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﮨﻠﮑﯽ ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﻝ ﺳﻠﺠﮭﺎﺗﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﺩﻝ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﺪﻝ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍٓﺋﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍٓ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﻭﮦ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮ ﭘﻮ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺍٓﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺟﯿﻮﻟﺮﯼ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﮭﻮ ﭘﻮ ﮐﺎ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﺧﺎﺻﺎ ﺟﮭﺎﮌ ﭘﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺍٓﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﮐﻨﮕﻦ ﭘﮩﻨﮯ ﺗﮭﯽ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﺖ ﺭﻧﮓ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕﮐﺎﻧﭻ ﮐﯽ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ، ﺟﻮ ﮨﺮ ﺳﻮﭦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﻠﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍٓﺋﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﮩﻨﯿﮟ۔ ﺟﯿﻮﻟﺮﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﭘﮩﻦ ﻟﯽ۔ ﺍٓﺝ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﻨﻮﺭﻧﮯ ﮐﻮ ﺟﯽ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﺎﺭ ﺳﻨﮕﮭﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﭗ ﺍﺳﭩﮏ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺟﻞ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻋﻤﺮ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺗﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺟﺴﺎﻣﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ۲۳ ﺳﺎﻟﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺍٓﭨﮫ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮﺍﭘﮯ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﺲ ﯾﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﻣﯿﭽﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﮔﺰﺭﮮ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﭘﭩﮯ ﮐﻮ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﺮ ﺳﯿﻨﮉﻝ ﺍﮌﺱ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺍٓﺋﯽ۔
’’ﺍﺭﮮ……ﻭﺍﮦ ……ﯾﮧ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﺪﮬﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ۔‘‘
ﺑﻠﯿﮏ ﺳﻮﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﺭﻧﮕﺖ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﭩﺦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﻨﺘﮩﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﭼﮭﯿﮍﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ ﺟﮭﯿﻨﭗ ﺳﯽ ﮔﺌﯽ۔
’’ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍٓﻣﺪ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔‘‘ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺠﮯ ﺳﺠﺎﺋﮯ ﺳﺮﺍﭘﮯ ﭘﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﺑﮭﺮﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﻣﻨﺘﮩﯽٰ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﯽ۔
’’ﮐﯿﺎ …….ﺳﺎﻟﮏ……. !ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ؟‘‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
’’ﮈﺭﺍﺋﻨﮓ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺑﻮ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘ ﻭﮦ ﮨﻮﻧﭧ ﮐﭽﻠﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔
’’ﺷﺎﯾﺪ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﮯ ﺍٓﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻼ ﻧﮯ ﺗﻢ ﺑﺎﺗﮫ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔‘‘
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺧﻮﺵ ﻓﮩﻤﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ’’ﻣﺠﮭﮯ ﻟﯿﻨﮯ ‘‘…… ﻣﻨﺘﮩﯽٰ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﯼ۔
’’ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭﯼ ……ﺳﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺍﺗﺮﻭﺍ ﻟﯿﻨﺎ ۔ ﮐﮩﯿﮟ ‘‘…… ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﭼﮭﯿﮍ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﺳﻤﭩﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﭼﮩﺮﮦ ﺳﺮﺥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﯽ۔ ’’ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﻝ ﻧﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮨﺎﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯽ ﮨﮯ۔‘‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
’’ﮨﺎﮞ ‘‘…… ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺨﺎ ۔ ﻭﮦ ﮈﺭ ﮔﺌﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﭼﻠﻮ ﺍﻧﺪﺭ ……ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺣﻀﺮﺍﺕ۔‘‘ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻤﻠﮯ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﻟﺮﺯﺗﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﭘﮭﺎ ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
’’ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ۔‘‘ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩﮦ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻝ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺧﻮﻑ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﮍﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﮏ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ……ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻠﯿﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭘﮭﻮﭘﻮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔ ﮔﻼﺱ ﻭﺍﻝ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺑﺎﺭﺵ ﺭﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﺍﺳﻮﮦ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺩﻥ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﻢ ……ﮐﺎﻓﯽ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﺍٓﺋﯽ ﮨﮯ ﺑﭽﯽ۔‘‘
ﻭﮦ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﭘﻨﯽ ﺍٓﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺑﺘﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﻮﭘﻮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﮯ۔
ﭼﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔
’’ﮨﻢ ﭘﮭﺮ ﺍٓ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻓﯽ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﮟ۔‘‘ ﺍﺳﻮﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔
’’ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﻮ ﮔﮯ ﻧﺎ۔‘‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ۔
’’ﻧﮩﯿﮟ ……ﻣﻮﺳﻢ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮞﮕﮭﺮ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ۔ ﺷﮩﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺍٓ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﯽ ﺑﯽ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺑﺎﺭﺵ ﺭﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔‘‘ ﺍﺳﻮﮦ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﭼﭩﺨﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
’’ﯾﮧ ﺧﻮﺏ ﮐﮩﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭﮞ۔‘‘ ﭘﮭﻮﭘﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﺋﯿﮟ۔
’’ﻣﻮﺳﻢ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﺭﮎ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﮩﯽ۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍٓﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ۔‘‘ ﺍﺳﻮﮦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺩﮬﺮ ﮨﯽ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﺗﮭﺎ۔ﻭﮦ ﻓﻮﺭﺍً ﻧﻈﺮﻭﮞ ﮐﺎ
ﺯﺍﻭﯾﮧ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ۔ ﺩﻝ ﻧﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﻟﮯ ﺑﺪﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔) ﮐﯿﺎ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ (
’’ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼﻣﺮﺿﯽ۔‘‘ ﭘﮭﻮﭘﻮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
’’ﺍﺳﻮﮦ ! ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ……ﭼﻠﯿﮟ‘‘‘…… ﻭﮦ ﯾﻮﮞ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎﺟﯿﺴﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﻃﮯ ﮨﻮ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﺮ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮞﮩﻼﯾﺎ۔
’’ﻣﯿﮟ ﺑﯿﮓ ﻟﮯ ﺍٓﺋﻮﮞ ۔‘‘ ﻭﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻮﭘﻮﮭﭘُ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﻝ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﮭﺮ ﭼﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﯿﭗ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻧﭧ ﺳﯿﭧ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﮭﯽ ۔ ﺧﺎﻣﻮ ﺵ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﻌﻨﯽ ﺧﯿﺰ ﺳﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺌﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺗﯿﺰ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺒﺬﻭﻝ ﮐﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﺗﮭﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﮨﯽ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﻃﮯ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﺰ ﺑﺎﺭﺵ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮨﺮﺍﺳﺎﮞ ﺳﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮍﮎ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﭘﺮﺩﮮ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﻤﭧ ﺍٓﺋﯽ۔
’’ﭘﻠﯿﺰ ﯾﮧ ﭘﺮﺩﮮ ﺍٓﮔﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮍﮎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔‘‘ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺳﺎ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮯ ﭘﺮﺩﮮ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮐﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﻥ ﮨﻮﺋﯽ۔
’’ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﯿﺰ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﮔﺎﺋﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺎﻓﯽ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﺴﯽ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﺍٓﺛﺎﺭ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﻑ ﺍٓ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﭼﻠﯿﮟ‘‘…… ﺳﺮﺩﯼ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﻧﺖ ﺑﺠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ۔ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ۔ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺎ ﮐﭽﮫ ﺧﺎﺹ ﮐﮩﮯ، ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺭﯼ ﺍﯾﮑﺸﻦ ﮨﻮ۔ ﻣﻮﺳﻢ ﺧﺎﺻﺎ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﺎ ﺫﺭﺍ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﮭﺎ۔ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﮔﺎﺋﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻍ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﺴﭧ ﮨﺎﺋﻮﺱ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺩﮬﺮ ﻣﻮﮌ ﻟﯽ۔
’’ﯾﮧ ﺍٓﭖ ﮐﺪﮬﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﭼﻠﯿﮟ۔ ﮔﺎﺋﻮﮞ ﻣﯿﮟ۔‘‘
’’ﺍﺑﮭﯽ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ۔ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮨﮯ۔ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﻧﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ۔ ﮨﻮﺍ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﺪﮬﺮ ﮨﮯ۔ ﻣﻮﺳﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔‘ ‘
’’ﻣﮕﺮ ﺍٓﭖ ﺟﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔‘‘ ﻭﮦ ﺍﺏ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﺭﯾﺴﭧ ﮨﺎﺋﻮﺱ ﮨﮯ۔‘‘
’’ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺗﻮ ﭘﮭﻮﭘﻮ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺧﻮﺍ ﻣﺨﻮﺍﮦ ‘‘….. ﺍﺳﻮﮦ ﮐﻮ ﻏﺼﮧ ﺍٓﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﺥ ﻣﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼﺋﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﺭﻗﻢ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﻮﻧﭧ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻭﮦ ﭼﭗ ﺭﮨﺎ۔
ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺭﯾﺴﭧ ﮨﺎﺋﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺘﮯ ﮨﯽ ﮔﯿﭧ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺍٓﯾﺎ۔
’’ﺍٓﺋﻮ‘‘….. ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﻮﮦ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺍﺗﺮ ﺍٓﺋﯽ۔ ﺑﺮﺍٓﻣﺪﮮ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺘﮯ ﻭﮦ ﺍﭼﮭﯽ ﺧﺎﺻﯽ ﺑﮭﯿﮓ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﻧﻮﺍﺯ ﺧﺎﻥ ﮐﻤﺮﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺍٓﺋﻮ۔ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﺳﮯ ۔‘‘ ﻣﻼﺯﻡ ﺟﻮ ﮐﮧ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ ، ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺴﻠﺘﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻠﯽ ﺍٓﺋﯽ ۔ ﺳﺎﻟﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ۔
’’ﯾﮧ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﺮ ﮐﻤﺮﮦ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﭼﺎﺑﯽ ﻟﮯ ﻟﻮ۔‘‘ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﮔﯿﻠﮯ ﺑﺎﻝ ﺟﮭﭩﮑﺘﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﭼﺎﺑﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺗﮭﻤﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍٓ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﯿﻠﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ ۔
ﺳﺮﺩﯼ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺳﺮﺩﯼ ﮐﺎ ﺳﺪﺑﺎﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﮨﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻻﺋﭧ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮍﮎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺠﻠﯽ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺳﻤﭩﻨﮯ
ﻟﮕﺎ۔
’’ﺳﺎﻟﮏ‘‘…… ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻠﻖ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺳﺴﮑﯽ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔
’’ﺳﺎﻟﮏ…….ﺳﺎﻟﮏ‘‘……. ﻭﮦ ﺑﮯ
ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﭘﮑﺎﺭﮮ ﮔﺌﯽ۔ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺗﮭﺎ ۔
ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﺠﮭﺎﺋﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﮕﺮ
ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﮐﮍﮎ ﭼﻤﮏ ﺍﯾﮏ
ﺑﺎﺭ ﭼﻤﮏ ﮐﺮ ﻣﻌﺪﻭﻡ ﮨﻮ
ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ
ﺷﯿﺸﮯ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺑﺎﻟﮑﻞ
ﻭﺍﺿﺢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ ۔ ﺗﺒﮭﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ
ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
’’ﺳﺎﻟﮏ ‘‘…… ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮑﺎﺭﺍ
ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﺪﺍﺭﺩ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺳﮯ
ﺍﺩﮬﺮ ﭘﻠﭩﯽ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ
ﭨﮑﺮﺍ ﮔﺌﯽ۔ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﭼﯿﺦ
ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔
’’ﺍﺳﻮﮦ‘‘…… ﺳﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ
ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﺳﻨﺎﺋﯽ
ﺩﯼ ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﺳﺎﻟﮏ
ﮐﮯ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮯ
ﮐﭽﮫ ﺗﺴﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ۔
’’ﺳﺎﻟﮏ ! ﻻﺋﭧ ﺟﻼﺋﯿﮞﻤﺠﮭﮯ
ﺑﮩﺖ ﮈﺭ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔‘‘ ﻭﮦ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮧ
ﺩﯾﺌﮯ ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﻭ
ﭘﮍﯼ ۔ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺣﺪ ﺳﮯ
ﺳﻮﺍ ﺗﮭﯽ۔
’’ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻮﺍﺯ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ
ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﺗﺎ
ﮨﮯ۔‘‘ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ
ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺍﺳﮑﺮﯾﻦ ﺟﻼﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻠﮑﯽ
ﺳﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺟﻮ
ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﺗﮭﯽ۔
’’ﺗﻢ ﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﻮ‘‘……
ﻭﮦ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭨﮏ
ﮔﺌﯽ۔ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﺑﻌﺪ ﮐﻤﺮﮦ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮞﻨﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﺳﻮﮦ ﻧﮯ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﺲ
ﻟﯿﺎ۔
ﺟﻨﺮﯾﭩﺮ ﺍٓﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﻮ ﭘﺮ
ﺳﮑﻮﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ
ﺣﻮﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﻧﻤﺒﺮﺯ ﻣﻼﺋﮯ ۔
ﺳﺮﺍﺝ ﺑﺎﺑﺎ ﺗﮭﮯ، ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﻣﺨﺘﺼﺮﺍً ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﺳﮯ
ﺍٓﮔﺎﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﯾﺴﭧ ﮨﺎﺋﻮﺱ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﺎ ﺑﺘﺎ
ﮐﺮ ﻓﻮﻥ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﺷﺎﻡ
ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﺑﺎﺭﺵ
ﺭﮐﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﻄﻌﯽ ﺍٓﺛﺎﺭ ﻧﮧ
ﺗﮭﮯ۔ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﺭﺍﺕ ﯾﮩﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ۔
ﻭﮦ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ
ﺍﺳﻮﮦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍٓ ﮔﯿﺎ ۔ ﺟﻮ
ﺩﻭﭘﭩﮯ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺮﺍﺵ
ﺧﺮﺍﺵ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﻦ
ﺧﻮﺏ ﺟﭻ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﺎﺩﺭ
ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯽ ۔ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﺘﯽ
ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮪ
ﮐﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﺎ ﮨﯿﭩﺮ ﺍٓﻥ ﮐﯿﺎ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓ ﮔﯿﺎ۔
’’ﺍﺳﻮﮦ‘‘….. ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ
ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﺩﯾﮑﮫ
ﺳﮑﯽ۔ ﺳﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ
ﮐﯽ ﭼﻤﮏ ﺑﮯ ﺗﺤﺎﺷﺎ ﺗﮭﯽ۔
ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ
ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﻧﺎ ﻗﺎﺑﻞ
ﻓﮩﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔
’’ﺟﯽ‘‘….. ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﮧ
ﺳﮑﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎﻡ ﻟﺌﮯ۔
ﭨﮭﻨﮉﮮ ﯾﺦ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ
ﻧﺮﻡ ﮨﺘﮭﯿﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﮔﮍﺗﮯ ﺣﺮﺍﺭﺕ
ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔
’’ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﻮﮞ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ
ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺻﺮﻑ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ
ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮ ﮔﺎ۔‘‘ ﮐﺘﻨﺎ ﻏﯿﺮ
ﻣﺘﻮﻗﻊ ﺳﻮﺍﻝ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ
ﺷﺎﮐﮉ ﺳﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺭﮦ
ﮔﺌﯽ۔
’’ﺍٓ ……ﺍٓ ……ﺍٓﭖ ‘‘…… ﻭﮦ ﮐﭽﮫ
ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﯽ۔ ’’ﮨﺎﮞ
ﺍﺳﻮﮦ، ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﯿﺎ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻋﺘﺮﺍﺿﺎﺕ ﺻﺮﻑ
ﺍﺱ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻞ ﻣﯿﮟ
ﮈﮬﻠﺘﺎ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ
ﻧﻔﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ۔ ﺻﺮﻑ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﺐ ﺳﮯ ﺟﺐ
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﮑﺎﺡ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻇﮩﺎﺭ
ﮐﺮﻧﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﺎ
ﺣﺼﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ
ﮐﭽﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﯾﺎ
ﻧﺎﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﻧﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ
ﻗﺼﻮﺭ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ۔ ﻣﮕﺮ ﺳﺰﺍ
ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺎﺋﯽ ﮨﮯ۔‘‘
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ
ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﻣﺤﺒﺖ
ﭘﺮ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﯽ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮩﻨﮯ
ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
’’ﺍﯾﻢ ﺳﻮﺭﯼ……ﺭﺋﯿﻠﯽ
ﺳﻮﺭﯼ…….ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ
ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﯾﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﯽ۔
ﻋﺎﻟﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ
ﮐﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﻣﺤﺒﺖ
ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻔﺮﺕ
ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ
ﺗﻮ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ
ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺎ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔‘‘ ﻭﮦ
ﺍﯾﮏ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﺳﮯ ﺭﻭﻧﮯ
ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ
ﺍٓﻧﺴﻮ ﭼﻦ ﻟﺌﮯ۔
’’ﮐﺎﺵ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻏﻠﻂ
ﻓﮩﻤﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ
ﺩﯾﺘﯽ ﺗﻮ ﺍٓﺝ ﯾﮧ ﺩﻥ ﻧﮧ
ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ۔‘‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻨﭻ
ﮐﺮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﮩﺮﮦ ﭼﮭﭙﺎ
ﮔﺌﯽ۔
’’ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﭽﺎ ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ
ﭼﭽﯽ ﺟﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺕ
ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ۔ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮨﯽ
ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﯿﮟ ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻋﻠﯽٰ
ﻇﺮﻓﯽ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺮﻭ ﮔﯽ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺮﻭ ﮔﯽ۔‘‘ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ
ﻧﺎﺩﻡ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮫ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺳﻮﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﺎﺗﮫ ﮨﭩﺎﺋﮯ ، ﭘﮭﺮ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ
ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ۔
’’ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ
ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔ ﺍٓﭖ ﺳﮯ
ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﺎ
ﺟﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔‘‘
’’ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ‘‘……
’’ﺍﮔﺮ ﺍٓﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ
ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ
ﮐﻮﻥ ﺗﮭﯽ ﺟﺴﮯ ﺍٓﭖ ﭘﺴﻨﺪ
ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔‘‘ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ
ﮨﻮﺍ ﭘﮭﺮ ﮨﻨﺲ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺳﻮﮦ
ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ
ﮨﻠﮑﺎ ﭘﮭﻠﮑﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
’’ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ۔
ﺟﺲ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﺗﻢ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﮨﻮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ
ﮐﻼﺱ ﻓﯿﻠﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﯽ
ﺳﺴﭩﺮ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﺍﻧﯽ
ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﯾﺎﺩ
ﮨﮯ۔‘‘ ﺍﺏ ﻟﮩﺠﮧ ﻧﺎﺩﻡ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﮭﺎ ﺷﮕﻔﺘﮕﯽ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﭼﭗ ﺭﮨﯽ۔
’’ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻮﮞ……ﻣﺠﮫ
ﭘﺮﯾﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮑﺸﺎﻑ
ﮨﻮ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭ ﭘﺮﺩﮦ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔‘‘
ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺍٓﺝ
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺳﮯ
ﭼﮭﯿﮍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﻮﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ
ﭼﮩﺮﮦ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ۔
’’ﺗﻢ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﻮ ﺍﺳﻮﮦ ،
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﺐ
ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
، ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ
ﺻﺮﻑ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ‘‘……
’’ﺍﺳﻮﮦ……ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺗﻨﺎ
ﻋﺮﺻﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺭﮮ ﺳﮯ
ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺏ
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮏ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ
ﺭﮐﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﮐﺰ
ﭘﺮ ، ﯾﮩﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ،
ﺑﯽ ﺑﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭼﺎﮨﻮ
ﺗﻮ ‘‘…… ﻭﮦ ﺟﮭﺠﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺑﺎﺕ ﺍﺩﮬﻮﺭﯼ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ۔
’’ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺐ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﯽ
…….؟‘‘ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ
ﻣﻄﻠﺐ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ
ﻭﮦ ﻧﺎ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮ ﮦ
ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﭼﮩﺮﮦ
ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺑﻠﺶ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﻌﻨﯽ ﺧﯿﺰ
’’ﺗﻮ‘‘ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﺷﺎﯾﺪ ﺍٓﺝ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ
ﺑﺮﺳﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﮈ ﮨﮯ۔ ﺗﯿﺰ
ﺳﮯ ﺗﯿﺰ ﺗﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ
ﮨﮯ۔‘‘
’’ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﻑ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﯽ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺑﺎﺭﺵ
ﺳﮯ ۔‘‘ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﮈﺭ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ
ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮕﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﻟﻄﻒ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ۔‘‘ ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ
ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ
ﺑﺮﺳﺘﯽ ﻣﻮﺳﻼ ﺩﮬﺎﺭ ﺑﺎﺭﺵ
ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔
’’ﺍﺳﻮﮦ…….ﭼﻞﻭ ﺍٓﺋﻮ ﺑﺎﺭﺵ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔‘‘ ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ
ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﻧﮩﯿﮟ ……ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﮈﺭ
ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﺗﻨﯽ
ﺳﺮﺩﯼ ﮨﮯ۔‘‘ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ
ﮐﭙﮑﭙﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺳﺎﻟﮏ
ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺑﺎﺯﻭ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻗﺮﯾﺐ
ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔
’’ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ……ﻣﯿﮟ
ﻣﺬﺍﻕ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﮕﺮ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮈﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ۔ ﺑﯽ
ﻟﯿﻮ ﻣﯽ‘‘…..
ﮔﻤﺒﮭﯿﺮ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺼﺎﺭ
ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﺎ
ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﻟﺮﺯ ﺍﭨﮭﺎ
ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻑ ﮐﺎ
ﻋﻨﺼﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺤﺎﻓﻈﺖ
ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻏﺎﻟﺐ ﺗﮭﺎ۔
’’ﮨﻢ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺳﺐ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ
ﺑﮭﻼ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﺱ
ﻭﻋﺪﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ
ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻏﻠﻂ
ﻓﮩﻤﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﻭﺭﻧﮧ ﯾﮧ
ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮍﮪ
ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ
ﺍﻭﺭ Poison Tree‘‘ ﮐﺎ
ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ۔‘‘ ﻭﮦ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ
ﮔﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ
ﻣﯿﮞﮑﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﻮﮦ ﮐﯽ
ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﺍٓﻧﺴﻮ ﺑﮩﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ
ﻣﯿﮟ ﺟﺬﺏ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺳﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ
ﺍﺳﺘﺤﻘﺎﻕ ﺑﮭﺮﯼ ﻣﮩﺮ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﺛﺒﺖ ﮐﯽ
ﺗﮭﯽ ﺍﺳﻮﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ
ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺳﻤﭧ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﺎﮨﺮﺑﺎﺭﺵ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﯿﺰ ﺗﮭﯽ
ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﻭﮦ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺩﻧﻮﮞ
ﮐﻮ ﺑﮭﻼﺋﮯ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ
ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﯽ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﻥ ﺍﻭﺭ
ﺧﻮﺵ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
’’ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻟﻮﭦ ﺍٓﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔‘‘
ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ
ﺷﯿﺸﻮﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﯾﺘﮯ
ﮔﻨﮕﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺳﺎﻟﮏ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ
ﮔﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻮﮦ
ﺳﺮ ﮨﻼﺋﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺋﮯ ﺟﺎ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﮧ ﯾﮩﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ محبت تھی
***تمت باالخیر***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...