6۔جولائی 2017کو دائمی مفارقت دینے والے اپنے نوجوان بیٹے سجادحسین کے نام ۔
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر ؔ
وہ لوگ آ نکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک نہاں خانۂ دِل کو معطر کرنے کا وسیلہ تھی جب گل چینِ اَزل انھیں توڑ لیتا ہے تو دِلوں کی بستی سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور گرد ونواح کا پُورا ماحول سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ حیا ت ِ مستعار کی کم مائیگی ، مر گِ نا گہانی کے جان لیوا صدموں ، فرصت ِ زیست کے اندیشوں،سلسلہ ٔ روزو شب کے وسوسوں ،کارِ جہاں کی بے ثباتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے کارِ جہاں میں زندگی کی کم مائیگی ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ کسی عزیز ہستی کا زینۂ ہستی سے اُتر کر شہرِخموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا پس ماندگان کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑ ا سانحہ ہے مگراس سے بھی بڑھ کر روح فرسا صدمہ یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی ، ذہن کو سکون و راحت ،روح کو شادمانی ،فکر و خیال کو ندرت ،تنوع ،تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل ہائے صد رنگ جب ہماری بزم ِ وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں؟عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعدالم نصیب لواحقین پر زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کر نے اور جان وارنے والوں کو بے بسی اور حسرت ویاس کا پیکر بنا دیتی ہے ۔ لو گ کہتے ہیں کہ جب دریاؤ ں میں آنے والے سیلاب کی طغیانیوں سے قیمتی املاک اورمکانات دریا بُرد ہو جاتے ہیں تو اس آفتِ ناگہانی کی زد میں آنے والے مجبور و بے بس انسان غربت و افلاس کے پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ خلوص ،دردمندی ،وفا ،ایثار، رگِ جاں اور خونِ دِل سے نمو پانے والے رشتے جب وقت بُرد ہوتے ہیں تو الم نصیب پس ماندگان زندہ در گور ہو جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...