زینو کے نام
صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا
اسد اللہ خاں غالب
قاری کی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب مصنف کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
رولاں بارت
یہ قطعی ضروری نہیں کہ سب آسان ہو۔ زندگی میں ایسی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جن کو بغیر سمجھے ہی ہم ان سے لطف حاصل کرتے ہیں مثلاً سیکس۔
ایلن شاپرو
نوحہ گری بھی کبھی کبھی نہایت خوش آئیند واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
اتالو کیلوینُو
انسانوں کے ذریعے کیے گئے تمام کام غیر متجانس، غیر مطابق، غیو موزوں اور بے موقع ہوتے ہیں۔ چاہے وہ شاعر اور ادیب ہوں یا قواعددان۔
ہرمین بروخ
چھند سے خالی کوئی سبد نہیں اور نہ ہی شبدوں سے خالی کوئی چھند۔
ناٹیہ شالتر
یہ یقیناً موت کی تیسری کتاب ہے۔ جس کو حاضرِ خدمت کرتے ہوئے میں بس دو یا تین باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میری تمام گذشتہ تحریروں کی طرح اس کتاب میں بھی وہی خرابیاں موجود ہیں جن کا کافی شہرہ رہا ہے بلکہ ممکن ہے کہ اس بار پہلے سے کچھ زیادہ ہی ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ زبان کا ایک کام اشیاء کی نمائندگی کرنا ضرور ہے۔ مگرکسی بھی تخلیقی بیانیے میں الفاظ محض خارجی یا داخلی حقیقت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ورنہ اس طرح تو ہر آرٹ ایک ثانوی درجے کی شے بن کر رہ جائے گا یعنی نمائندگی کرنے کا محض ایک وسیلہ، تخلیقی زبان میں لفظ آپس میں مل کر جو بیانیہ خلق کرتے ہیں۔ اُسے اپنے آپ میں ایک مکمل اور سالم دنیا ہونا چاہیے۔ خود مکتفی اور مقصد بالذات حقیقت۔ میرے لیے پریشانی کا سبب یہی ہے کیونکہ انسانوں کے الفاظ پر چھائیوں کی طرح ہوتے ہیں اور پرچھائیاں روشنی کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں سمجھا سکتیں۔ روشنی اور پرچھائیں کے درمیان ایک دھندلی سطح ہوتی ہے جہاں سے لفظ پیدا ہوتے ہیں۔ زبان کی یہ دوسرحدیں جہاں ملتی ہیں وہاں کھینچی گئی ایک لکیر پر میری تحریراکیلی اور بے یارومددگار بھٹکتی رہتی ہے۔ اپنے معنی کی تلاش میں جو زبان کے اس دو منھ والے پُراسرار سانب جیسے رویے کی وجہ سے کبھی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتے۔ ممکن ہے کہ اس کتاب میں یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر ہو۔ تیسری اورآخری بات یہ کہ یہاں اُردو کی مستند لغات، قواعد، صرف و نحو اور ادقاف سے انحراف تو نہیں کیا گیا ہے مگر ہر جگہ سختی سے پابند بھی نہیں رہا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ کتاب دراصل بہتے ہوئے وقت اور پانی کی کتاب ہے۔
خالد جاوید
عادت ہمیں فرصت فراہم کرتی ہے اور ہم محفوظ ہو جاتے ہیں۔ عادت ہمیں حساس نہیں رہنے دیتی۔ عادت حساسیت کی دشمن ہے۔
جے کرشنا مورتی
کسی بھی فن پارے کو سمجھنے سے زیادہ اُس کو محسوس کرنا چاہیے۔ جہاں تک سمجھنے کی بات ہے ہم ریاضی کے ایک سوال تک کو نہیں سمجھتے ہیں۔ اور نہ ہی محسوس کرتے ہیں۔ ہم وہاں کچھ پہلے سے فرض کرلیتے ہیں۔ اورپھر سوال حل کرنے کی مشق کرتے رہتے ہیں۔ پھر یہ مشق ہماری عادت بن جاتی ہے۔ ہم ہر مسئلے سے عادتاً گزرنا سیکھ جاتے ہیں۔
برگمین
تواس طرح دنیا ختم ہوجائے گی۔ دھماکے کے ساتھ نہیں بلکہ ایک کمزور سی سِسکی کے ساتھ۔
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ