انتقام کی آگ بہت بری چیز ہوتی ہے۔
دنیا میں کوئی بھی جذبہ ہے، چاہے محبت کا ہے یا نفرت کا، وہ اتنا شدید نہیں ہوتا جتنا انتقام لینے کی خواہش ہوتی ہے۔
یہ خواہش انسان کو سکون نہیں لینے دیتی اور نہ ہی اسے کسی قابل چھوڑتی ہے۔
انتقام کی اسی آگ میں مہمل خان کئی سالوں سے جل رہی ہے یہ آگ اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دے رہی ہے۔
وہ جب تک اپنا انتقام پورا نہیں کر لیتی تب تک وہ کسی کی نہیں سننے والی!
مہمل خان نے اس آگ کو کئی سالوں تک ایندھن دیا ہے اور اب یہ آگ بھڑکتے شعلوں کا روپ دھار چکی ہے۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ انتقام کا چکر بہت بری چیز ہوتی ہے۔
انتقام سب سے پہلے منتقم کی آنکھوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور اسے انتقام کے اندھے راستے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ایک ایسا راستہ جسکے اختتام پر صرف کھائی ہے مگر۔۔۔
مہمل خان کا ماننا ہے کہ عورت تو نرم دل ہے لیکن جب وہ انتقام لینے پہ آ جائے تو وہ ظالم اور سفاک ہو جاتی ہے۔
اور وہ بھی ایسی ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ مہمل کے مطابق عورت کا انتقام کبھی ناکام نہیں ہوتا لیکن شاید اس انتقام کے بعد عورت انسان نہیں رہتی پتھر بن جاتی ہے۔
مگر اسے اس سب سے غرض نہیں اس کے سر پر صرف انتقام کی دھن سوار ہے۔
مہمل خان انتقام کی سلائیاں اپنی آنکھوں پر پھیر کر ہر چیز کو دیکھنے سے محروم ہو گئی ہے!
اسے صرف ایک چیز یاد ہے اور وہ ہے انتقام!
صرف انتقام!!!
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“مہمل بچے اٹھ جاؤ اتنی دیر ہو گئی ہے نماز کا وقت ختم ہو جائے گا۔” رقیہ بیگم مہمل کو اٹھا رہی تھیں۔
“امی اٹھ رہی ہوں۔ آپ فکر نہیں کریں۔” مہمل نے اٹھتے ہوئے کہا اور وضو کرنے لگی۔
اس سادہ سے مکان کے مکین بہت سادہ ہیں مگر مہمل خان ان کی طرح نہیں ،اور اب تو عرصہ ہوا اس مکان کے مکین نہیں رہے۔
جہانگیر خان کی اکلوتی بیٹی مہمل خان جسکی پیدائش پر جہانگیر خان کہتے تھے کہ اپنی بیٹی کا ہر کام خود کروں گا آج ان کا ہر کام ان کی بیٹی ہی کرتی تھی۔
رقیہ بیگم تو جہانگیر خان کو اس حال میں دیکھ کر مشکل سے ضبط کرتی تھیں۔
مہمل نے نماز پڑھی اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے، مگر ایک ہی منٹ میں سر جھٹک کے مصلے کو تہہ کر کے رکھ دیا اور صحن میں جا کر بیٹھ گئی۔
“مہمل بچے تم دعا کیوں نہیں مانگتی؟” نماز کے بعد ہمیشہ کی طرح رقیہ بیگم آج بھی اس سے وہی سوال کر رہیں تھیں۔
“امی آپ کو کیا لگتا ہے میری دعائیں قبول ہوتی ہیں؟؟” مہمل نے طنزاً کہا۔
“مہمل میری جان!” رقیہ بیگم اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر بولی تو وہ بولی “نہیں امی اللہ میری نہیں سنتا۔اگر اللہ میری سنتا تو تو میرا بھائی اور بہن میرے ساتھ میرے پاس ہوتے، اگر اللہ میری سنتا تو میرا باپ جہانگیر خان اس حال میں نہ ہوتا، اگر اللہ میری سنتا تو آپ کو شوہر کے ہوتے ہوئے یوں در در کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑتیں، اگر اللہ میری سنتا تو میں یوں خالی ہاتھ نہ ہوتی۔”
مہمل نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے شکوہ کیا تھا۔
” نہیں میری جان ایسے نہیں کہتے۔ اللہ سب کی سنتا ہے دعا دیر سے ہی سہی مگر قبول ہوتی ہے۔ اور جب کسی کی دعا قبول نہ ہو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کو اسکے مانگنے کا انداز بہت پسند ہے۔ اس لئے بچے دعا مانگا کرو کیونکہ دعائیں تو تقدیر بدل دیتی ہیں۔” رقیہ بیگم نے اسے پیار سے سمجھایا
وہ اپنے گھر کی نیچی دیواروں کو دیکھتے ہوئے بولی: ” امی ہماری تقدیر اب کیا بدلے گی؟ کیا اتنے سال واپس آ سکتے ہیں؟”
جسکے جواب میں رقیہ بیگم اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔
” بچے مایوسی کفر ہے اور اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ دیکھنا وہ تمہیں بہترین سے نوازے گا۔”
“مگر اللہ نے آج تک مجھے وہ نہیں دیا جسکی میں نے خواہش کی ہے۔” اسنے سر اٹھا کر پوچھا۔
” وہ اس لئے کیونکہ تم نے اللہ کی چاہت کی بجائے اپنی چاہت کی تکمیل کرنے کیلئے جستجو کی ہے اگر اللہ کی سنو گی تو وہ تمہاری سنے گا۔”
حدیث قدسی ہے
“اے ابن آدم ایک میری چاہت ہے۔
ایک تیری چاہت ہے۔ ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔
پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے، تو وہ بھی میں تجھے دے دوں گا جو تیری چاہت ہے۔
اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے۔
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے،
پھر وہی ہو گا جو میری چاہت ہے۔”
رقیہ بیگم نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا اس نے انکی بات پر سر اٹھا کر انکو دیکھا تھا۔ آنکھوں میں ایک سوال تھا جس پر وہ نرم سی مسکراہٹ انکے منہ پر آئی،جو کہ انکی شخصیت کا خاصہ ہے اور اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا:
” ہاں بیٹا دعا مانگا کرو ترمذی میں ہے کہ” جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اس سے اللہ سخت ناراض ہو جاتا ہے۔” اور مایوس مت ہوا کرو کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے “تمہارا رب مالک حیا و کرم ہے بندہ اسکی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور وہ انھیں خالی چھوڑ دے اس سے وہ اپنے بندہ سے حیا فرماتا ہے۔” دعا مانگا کرو میرا رب تمہیں بھی نوازے گا ،کیونکہ وہ ہی تو سب کو دینے والا ہے کون ہے اس کے علاوہ جو ہمارا ہے۔”
مہمل انکی بات سن کر اٹھی اور مصلہ بچھا کر دعا مانگنے لگی۔ نجانے کب تک وہ یونہی بیٹھی دعا مانگتی رہی تھی جبکہ رقیہ بیگم ایک لمبی سانس بھر کر رہ گئیں تھیں۔ انھیں بعض اوقات مہمل کی باغیانہ طبیعت سے بہت خوف آتا تھا۔ وہ یوسفزئی خاندان سے نفرت میں بہت آگے چلی گئی تھی اور انھیں ڈر لگتا تھا کہ اگر ایسا ہی رہا تو کہیں وہ یوسفزئی اسکو رقیہ بیگم سے چھین نہ لیں جیسے وہ آگے انکے دو جگر گوشوں کو اپنی حویلی میں کہیں گم کر چکے تھے مگر وہ صبر سے بس اپنے بیٹے اور بیٹی کیلئے دعا مانگا کرتی تھیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“ڈاکٹر قدوس نئی لیڈی ڈاکٹر کیلئے آج انٹرویو ہے۔ ڈاکٹر ماریہ کو بولیں پانچ منٹ میں آفس میں آئیں تا کہ انٹرویو شروع کیا جائے۔” شاہ نے قدوس صاحب سے کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گئے تھے۔
ڈاکٹر ماریہ اور ڈاکٹر شاہ نے جب انٹرویو شروع کئے تو تمام خواتین ڈاکٹر خوب تیار ہو کر آئیں تھیں جو کہ شاہ کو بہت عجیب لگ رہا تھا کیونکہ اسے ڈاکٹر چاہیے تھی ماڈل نہیں۔
” ڈاکٹر شاہ آپ کیوں اتنا عجیب محسوس کر رہے ہیں آج کل کی لڑکیاں ایسی ہی ہیں۔” ڈاکٹر ماریہ نے کہا جو کہ ہسپتال کی تجربہ کار ڈاکٹرز میں سے ایک تھیں۔
“کچھ نہیں ڈاکٹر آپ اگلی لڑکی کو بلائیں غالباً یہ آخری ہیں۔” شاہ نے لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کہا۔
“جی بلکل یہ آخری ہیں۔” ڈاکٹر ماریہ نے کہا اور اتنی دیر میں نور آفس میں داخل ہوئی۔
” جی مس یوسفزئی آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔” شاہ نے پوچھا
“میرا نام مس نور ہے نا کہ مس یوسفزئی!” نور کو شاہ کا طرزِ تخاطب کچھ زیادہ پسند نہیں آیا تھا،
شاہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے مگر اس نے فائل کو کھول کر کہا کہ “ہم نے تین سال کا تجربہ مانگا تھا آپ کا جو کہ نہیں ہے تو پھر سی وی بھیجنے کا مقصد؟”
” جناب تجربہ تب آئے گا جب نوکری ملے گی اور فرض کریں تمام تجربہ کار ڈاکٹر ایک ایک کر کے ختم ہو جائیں تو آپ کیا کریں گے؟” نور کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
“محترمہ یہ نوکری نہیں ہے یہ مقدس فرض ہے۔” شاہ نے اسکو کہا تو وہ بولی” پھر تو بات ہی ختم تجربہ تو نوکری کیلیے چاہیے ہوتا ہے۔ نیکی کیلئے تو کوئی بھی حاضر ہو سکتا ہے۔” اسکا چہرہ اب کی بار کسی بھی تاثر سے پاک تھا اور شاہ اسکو دیکھ کر ایک عجیب کشمکش میں تھا۔
ڈاکٹر ماریہ نے اس سے کہا “ہم اگر نئی نسل کے مخالف ہوتے تو آپ کو یوں نہ بلاتے۔ ہمیں تین سال کا تجربہ چاہیے لیکن ہم نے اسکو راہ کی دیوار نہیں بنایا سب کو بلایا ہے یہاں۔”
” غلط معزز ڈاکٹر آپ نے صرف مجھ ناتجربہ کار کو بلایا ہے۔ باقی سب تجربہ رکھتی ہیں میری باہر سب سے بات ہوئی ہے۔” نور نے الفاظ کو چباتے ہوئے طنز کیا جس پر ڈاکٹر ماریہ شرمندہ ہو چکی تھیں۔
” آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کو بلانے کی کیا وجہ ہے؟” شاہ نے کٹیلے انداز میں پوچھا۔
“میرا تعلیمی سفر! آپ نے جو تعلیمی اسناد اور کارکردگی دیکھی ہے اسکی بنا پر بلایا ہے اور کوئی بھی میری فائل دیکھتا تو مجھے بلاتا۔” نور نے آرام سے بلکل ٹھیک جواب دیا تھا کیونکہ بلاشبہ شاہ نے اسکا نام انٹرویو کی فہرست میں اسکی شاندار تعلیمی قابلیت کو دیکھ کر ڈالا تھا۔
” آپ جا سکتی ہیں مس یوسفزئی میرا مطلب ہے کہ مس نور مجھے آپ سے مل کر اچھا لگا۔” شاہ نے اسے جانے کا عندیہ دیا
نور آرام سے کرسی سے اٹھی اور باہر چلی گئ۔
شاہ نے محسوس کیا تھا کہ نور کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جسکی وجہ وہ سمجھ نہیں پایا تھا مگر پھر وہ اور ڈاکٹر ماریہ انٹرویو کے بارے میں بات کرنے لگے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“مومی تم کہاں ہو؟” مسلسل آواز آ رہی تھی اور وہ اندھیرے میں اس آواز کی طرف بڑھ رہی تھی۔
“مومی جلدی آؤ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے!”
وہ اس حویلی میں گھوم چکی تھی مگر اسے وہ کہیں نہیں مل رہا تھا۔
“مومی مجھے بچاؤ! مومی بچاؤ! مومی بچاؤ! مومی بچاؤ!” کی پکار بڑھتی چلی جا رہی تھی اور اسکے کانوں میں گونجتی جا رہی تھی وہ دیوانہ وار بھاگ رہی تھی مگر اسے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔
وہ بھاگ کر اس خونی حویلی کے باہر موجود لان میں آئی کہ اچانک چھت سے کوئی نیچے گرا اور آخری بار چیخ سنائی دی تھی۔
” مومی!!!!”
اور وہ وہیں اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے رو پڑی تھی اسکی دبی دبی سسکیاں اس حویلی میں گونج رہی تھی۔ مگر وہ بے رحم حویلی اسکو برباد کرنے پر تلی تھی۔
اسکو ایک تھپڑ مارا گیا تھا۔ وہ جو سب ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہی تھی ایک ہی تھپڑ پر بے ہوش ہو چکی تھی اور اس سرد رات میں لان میں پڑی تھی مگر یہ حویلی بہت بے رحم تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“رقیہ اری او رقیہ!” شبنم خالہ رقیہ بیگم کو آوازیں لگا رہیں تھیں ۔
مہمل انکو دیکھ کر بولی “کیسی ہیں خالہ؟؟”
“میں ٹھیک تم بتاؤ مہمل بچے کیسی ہو امتحان ہو گئے تمہارے؟” شبنم خالہ نے پوچھا۔
“جی خالہ اب بس دعا کریں مجھے میڈیکل میں داخلہ مل جائے۔” مہمل نے نرم سے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
“ضرور بچے ذرا رقیہ کو بلاؤ!” شبنم خالہ نے کہا تو وہ رقیہ بیگم کو بلانے اندر چلی گئی۔
“ارے شبنم بہن اتنے عرصے بعد آئی ہو کہاں غائب تھی تم؟” رقیہ بیگم نے پرجوش طریقے سے کہا تو وہ بولیں۔
” میں یہیں تھیں بس مصروف تھی۔”
” اچھا اور سنائیں کیسے مزاج ہیں؟” رقیہ بیگم نے انکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“ارے مجھے چھوڑو میں ایک ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔” شبنم خالہ نے سنجیدگی دکھائی۔
“جی بہن بولیں کیا بات ہے؟” رقیہ بیگم پریشان ہوئیں تھیں۔
“دیکھو بھئی اپنی مہمل نے بارہ جماعتیں پڑھ لیں ہیں سگھڑ ہے، سلیقہ مند ہے اور چاند کے ٹکڑے جیسی ہے میرے پاس ایک بڑے اچھے امیرا خاندان کا رشتہ ہے مہمل کیلئے وہ لوگ آنا چاہ رہے ہیں۔” شبنم خالہ نے آنے کا مقصد بتایا۔
” مگر وہ تو پڑھنا چاہتی ہے ابھی۔” رقیہ بیگم نے بولا تو شبنم خالہ گویا ہوئیں۔
“دیکھو رقیہ تمہارے شوہر کو تو ظالموں نے کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ بات کڑوی ہے مگر سچ ہے کہ یہ معاشرہ عورت کو جینے نہیں دیتا اور ایک بےسہارا عورت کو جو جوان بچی کے ساتھ ہو سانس کہاں لینے دیتے ہیں۔ یہ لوگ ارے جب اپنی مہمل کالج جاتی تھی تب بھی پیچھے کئی آوارہ لڑکے جاتے تھے اور تمہارے گھر کے سامنے آج بھی لڑکے کھڑے ہوتے ہیں صرف اسلئے کہ ایک مرد نہیں یہاں کب تک لڑو گی تم؟”
” ارے خالہ کون ہیں یہ لونڈے؟ انکو تو میں ابھی پوچھتی ہوں۔ مہمل کو دیکھیں گے؟ مہمل اپنی طرف اٹھنے والی آنکھیں نہ پھوڑ دے خالہ قسمت سے مار بڑی کھائی ہے مگر بہت کچھ سیکھا ہے مہمل نے کمزار نہیں ہوں میں۔”
مہمل شبنم خالہ کی بات سن کر آستینیں چڑھاتی گیٹ کی طرف بڑھی تو رقیہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا “مہمل اندر جاؤ محلے میں تماشہ بنے گا۔”
جس پر وہ غصے سے دروازے کو گھورتی اندر چلی گئی۔
رقیہ بیگم کی آنکھیں اپنی بےبسی کو محسوس کر کے نم ہو رہیں تھیں۔ انھوں نے شبنم خالہ کو ان لوگوں کو لانے کیلئے کہا۔
اب جب یہ بات مہمل کو پتہ چلنی تھی تو الگ ہنگامہ ہونا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
“ڈاکٹر ماریہ آپ ڈاکٹر نور کو فون کر کے کہہ دیں کہ ان کا انتخاب کیا گیا ہے اور وہ کل سے وقت پر ہسپتال آئیں اور کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔” شاہ نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔
نور نے اسے حیران کیا تھا۔
وہ باقی لڑکیوں سے مختلف تھی سادہ سی کیپری میں سادہ سا کرتا زیب تن کئے دوپٹہ سر پر ٹکائے وہ الگ دنیا کی باسی لگتی تھی اسکی سادی بھی کمال تھی۔
اسکی آنکھوں میں موجود عجیب سی چمک اور بے تاثر چہرہ سب کو چونکنے پر مجبور کرتا تھا۔
آج شاہ بھی حیران ہوا تھا اسکی آنکھوں میں موجود سرد تاثر اور عجیب چمک ایک لمحے کیلئے مقابل کے جسم میں سنسنی دوڑا دیتی تھی۔
شاہ آج سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کے بارے میں کیا چیز اسے اچھی لگی اور اسکی آنکھیں اتنی سرد اور عجیب چمک لئے ہوئے کیوں ہیں۔
ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ شاید وہ یوسفزئی ہے اس لئے، مگر پھر اسنے سر جھٹکا کہ وہ یہ کیا سوچ رہا ہے اور داؤد کو کال ملائی۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
“مومی مومی!” آواز کی پکار بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
اسے یوں لگا کہ دانی اسے پکار رہا ہے، مگر دانی اسے کہیں نظر نہیں آیا تھا۔
“مومی میری طرف دیکھو!” آواز آئی تھی۔
اسکے پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی۔
“ک۔۔۔۔ ککک۔۔۔۔۔۔ ککو۔۔۔ ککون؟” اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
“مومی مجھے نہیں پہچانتی؟”
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ آواز کہاں سے آرہی تھی،
“نہیں!” اسنے ہمت کر کے کہا تو کمرے میں قہقہہ گونجا تھا۔
” میں تمہارے خاندان کی بربادی ہوں مومی بچے!” آواز اب کی بار کھڑکی کی طرف سے آئی تھی۔
مومی نے مڑ کر کھڑکی کی طرف دیکھا تو وہ اچھل کر رہ گئی تھی ڈر کے مارے اسکی زبان سے کچھ بھی نہیں نکل رہا تھا۔
” مومی مجھ سے کیوں ڈر رہی ہو؟” اس درندہ صفت یوسفزئی خاندان کے وفادار نے اس سے پوچھا تو وہ جو تھر تھر کانپ رہی تھی پیچھے ہٹنے لگی۔
وہ شخص آگے بڑھا تھا اور اسے پکڑ کر بجلی کی تار سے اسے جھٹکے دینے لگا جس پر اس معصوم کی چیخیں اس خون آشام حویلی میں گونج رہیں تھیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“امی امی کہاں ہیں آپ؟” مہمل کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی۔
“کیا ہو گیا ہے مہمل کیوں شور کر رہی ہو؟” رقیہ بیگم باہر آتی ہوئی بولیں۔
“امی مجھے جناح میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا!” مہمل نے مسکراہٹ کے ساتھ بتایا،
“لیکن تم تو کنگ ایڈورڈ میں جانا چاہتی تھی۔” رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا تو وہ نظریں چرا کر بولی۔ “نہیں امی مجھے وہاں نہیں جانا۔”
” آخر مسئلہ کیا ہے بچے وہاں فیس بھی تھوڑی ہے اور وہ بہترین کالج ہے تمہارا میرٹ بھی بن چکا ہے۔ تو اب یہ کیا پاگل پن ہے؟تم جانتی ہو میں بوڑھی تمہاری اس کالج میں پڑھائ کا خرچہ نہیں اٹھا سکتی۔” رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا۔
“بس امی لاہور اتنے دور نہیں جانا یہاں رہوں گی آپ کے پاس بابا کے پاس اور خرچے کی فکر نہ کریں یہاں بہت سے لوگ اچھے طلباء کی مدد کرتے ہیں۔” مہمل نے منہ پھیر کر کہا۔
” ادھر دیکھو مہمل جب تم اپنے خرچے پر کنگ ایڈورڈ میں پڑھ سکتی ہو تو خیرات کے پیسوں سے کیوں پڑھنا چاہتی ہو۔” رقیہ بیگم نے کڑے تیوروں سے اس سے سوال کیا تھا۔
“امی ایسا کچھ نہیں ہوتا خیرات نہیں ہوتی لوگ مدد کرتے ہیں اچھے طلباء کی انکی صلاحیتوں کی بنا پر اور جب وہ طلباء کہیں پہنچ جاتے ہیں تو وہی طلباء ان سے لی گئی رقم انھیں لوٹا دیتے ہیں۔” مہمل انکے سامنے نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھتی ہوئی بولی۔
“کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ یہ فیصلہ کیوں کیا ہے تم نے؟” رقیہ بیگم اسکی ماں تھیں جانتی تھیں کہ کچھ تو دال میں کالا ہے ۔
” امی یوسفزئی خاندان کے لاڈلے عمیر یوسفزئی کا داخلہ جناح میڈیکل کالج میں ہوا ہے۔” مہمل نے کہا تو رقیہ بیگم اپنی جگہ سن ہو گئی تھیں۔
مہمل سے انھیں کبھی کبھی بہت خوف آتا تھا وہ اتنی سر کش کیوں تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھیں۔
“مہمل تم یوسفزئی خاندان کی خبر کیسے رکھتی ہو؟” رقیہ بیگم نے اب کی بار اونچی آواز سے پوچھا تھا اور شاید زندگی میں پہلی بار وہ اس پر غصہ ہو رہیں تھیں۔
“امی میں وہی کروں گی جو میرے انتقام کی تکمیل کا ذریعہ ہوگا۔” مہمل ٹھ کر اندر جانے لگی تھی۔
“مہمل انتقام کس چیز کا کس بات کا انتقام لینا ہے تمہیں؟” رقیہ بیگم بہت مشکل سے خود پر ضبط کر رہیں تھیں۔
“امی انتقام کا پوچھ رہیں ہیں آپ تو سن لیں مجھے اپنی محرومیوں کا، اپنے باپ کی اس حالت کا انتقام لینا ہے۔ مجھے انتقام لینا ہے کیونکہ آج میں اپنے بھائی دانیال اور مومنہ سے اس یوسفزئی خاندان کی وجہ سے دور ہوں اور اس انتقام کی راہ میں آنے والی ہر دیوار میں توڑ کر رکھ دوں گی۔” مہمل جواب دے کر اندر چلی گئی تھی جبکہ پیچھے رقیہ بیگم ساکت کھڑی رہ گئیں تھیں مہمل کا لہجہ آنچ دیتا ہوا تھا اس کے الفاظ آگ کے شعلوں سے زیادہ گرمی رکھتے تھے۔
وہ ڈرتی تھیں کہ کہیں قسمت انکی آخری اولاد کو بھی دور نہ کر دے ان سے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“ہیلو شاہ سپیکنگ!” ڈاکٹر شاہ نے فون اٹھایا مگر دوسری طرف موجود داؤد کی آواز اسے چونکا گئی تھی۔
“خیر ہے داؤد صاحب آج ہمیں کیسے یاد کیا؟” شاہ نے چبا چبا کر لفظ ادا کئے۔،مگر وہ بھول رہا تھا کہ داؤد اسے کم اور وہ داؤد کو زیادہ یاد کرتا تھا جب بھی وہ فارغ ہوتا وہ داؤد کو کال ملا کر اسے طیش دلاتا تھا۔
“کہنا یہ تھا ڈاکٹر صاحب کہ تمہارے عزیز یوسفزئی خاندان کی بربادی کا آغاز ہونے والا ہے۔” داؤد نے ہنستے ہوئے کہا۔
صاف صاف کہو جو کہنا چاہتے ہو۔” شاہ کا پارہ ہائی ہو رہا تھا۔
” عمیر یوسفزئی کی تباہی تو ہو گی مگر یوسفزئی خاندان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی۔۔۔۔۔۔” داؤد نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔
“داؤد میں تمہاری جان لے لوں گا اگر کچھ ایسا ویسا ہوا تو جانتے نہیں ہو تم ابھی مجھے۔” شاہ غرایا تھا۔
“ارے نہیں شاہ جی غصہ کیوں کرتے ہیں اور آپ کیا جان لیں گے ہماری آپ کے یوسفزئی خاندان کی جان کچھ ہی برسوں میں ختم ہو جائے گی۔ ماضی میں ہمارا تمہارا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن تم نے مسئلہ پیدا کیا تھا جس کا انجام بھگتنا ہوگا کیونکہ اب کی بار شطرنج کی بازی میرے ہاتھ ہے کیونکہ رانی میرے پاس ہے۔”
داؤد نے فون بند کر دیا تھا جبکہ شاہ کے چہرے پر پریشانی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ آج اسے سمجھ آرہی تھی کہ چھ سال پہلے جس داؤد کی وجہ سے مہمل خان کا ہر قدم اس کو معلوم ہو جاتا تھا اب شاہ کی غلطی کی وجہ سے اسکا دشمن بن چکا تھا۔
گزرے برسوں میں مہمل کے انتقام کی آگ بڑھ چکی تھی،
داؤد بھی اب اسکے ساتھ تھا مگر شاہ نے مہمل کو دیکھا نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ کر بھی نہیں پا رہا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
مہمل صبح گھر سے نکلی تھی اور اب تک نجانے وہ کتنے لوگوں کے پاس سے سوال کے کر گئی تھی مگر یہ معاشرہ ان جیسی باصلاحیت لڑکیوں کیلئے نہیں تھا۔
وہ ادارے جو ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہم طلباء کو خیرات نہیں انکے صلاحیتوں کا انعام دیں گے۔ جب طلباء انکے پاس جائیں تو وہ انھیں نامراد لوٹا دیتے ہیں۔
شام ہو چکی تھی یوں در در کی خاک چھان کر مہمل کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ وہ سڑک کنارے بیٹھ چکی تھی کراچی کی ٹریفک دیکھنے لائق تھی مگر وہ دور خلا میں کچھ گھورے جا رہی تھی۔
آنسو اس کی آنکھ سے نکلنا چاہتے تھے مگر وہ انیس سالہ لڑکی خود کو پتھر بنا چکی تھی وہ شدت سے رونا چاہتی بھی تھی مگر آنسوؤں کو اپنے اندر اتار رہی تھی وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کیلئے خود سے لڑے جا رہی تھی کہ اچانک ایک گاڑی اسکے پاس آ کر رکی تھی جس سے ایک نہایت ہی با وقار شخص نکل کر مہمل کے پاس آیا تھا۔
“مہمل!”مہمل نے سر اٹھایا تو داؤد مشوانی کو اپنے سامنے پایا تھا۔
“مشوانی صاحب آپ یہاں؟” مہمل نے اسے کہا۔
“پھر یہاں بیٹھی خود کو، قسمت کو کوس رہی ہوگی اور یوسفزئی خاندان کو بد دعائیں دے رہی ہو گی۔” اس نے مسکرا کر کہا جس پر وہ تپ کر بولی تھی “تو اور کیا کروں؟”
“مہمل تمہیں نہیں لگتا تمہیں یوسفزئی خاندان کو معاف کرنا چاہیے۔” داؤد نے نرمی سے پوچھا۔
” نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا اور آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں آپ کا قبیلہ بھی تو ان کے خلاف ہے۔” مہمل نے اس سے سوال پوچھا
“ہمارا قبیلہ انکے خلاف ہے مگر ہم صرف تب ان کے خلاف ہوتے ہیں جب وہ ہمیں تنگ کریں اور دوسرا یہ کہ ہمارا قبیلہ ان سے لڑ سکتا ہے تم نہیں لڑ سکتی۔” مہمل داؤد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا مگر مہمل پہلے تو اسے یک ٹک دیکھتی رہی اور پھر اٹھ کر رکشہ روک کر اس میں بیٹھ کر چلی گئی۔
داؤد کچھ دیر تو سوچتا رہا اور پھر شاہ کو بتانے لگا کہ آگ بجھ نہیں پا رہی تو اب وہ کیا کرے مگر وہی شاہ جسکی دوستی کی خاطر وہ آج اسے سب بتا رہا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔
وہی شاہ جسکو وہ بچاتا یے مہمل کے حملوں سے کل کو اسی کا مان توڑ جائے گا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
ڈاکٹر نور کے ساتھ وہ ہسپتال کا راؤنڈ لگا رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان اس وقت نور یوسفزئی پر تھا۔
جبکہ نور کوئی تاثر دئے بغیر کسی روبوٹ کی طرح اس کے ساتھ چل رہی تھی۔
“نور آپ میرے آفس میں آئیں۔” شاہ نے کہا اور چلا گیا جبکہ وہ وہیں کھڑی کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر آفس میں چلی گئی۔
“آپ نے بلایا مجھے!” نور نے بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ اس کو دیکھ کر رہ گیا جو بغیر اس کے کہے بیٹھ چکی تھی۔
“آپ یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یوسفزئی خاندان کے سردار کہ اکلوتی بیٹی کا علاج کر کے کیسا محسوس کریں گی۔” شاہ نے اس سے پوچھا۔
“میرا خاندان یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے لیکن میرے بابا کراچی نوکری کرنے آئے تو ہم سب لوگ بھی ان کے ساتھ یہاں آگئے۔ اس لئے مجھے یوسفزئی خاندان سے کوئی انسیت نہیں وہ میرے نام کی حد تک میری ذات کا حصہ ہے اور بس اس لئے مجھ سے کوئی توقع نہیں کریں آپ!” نور نے اسے صاف صاف کہا اور اٹھ کر چل دی۔
” نور آپ کی آنکھیں اتنی سرد کیوں ہیں؟ ”
شاہ نے اس سے سوال کیا تو وہ جو دروازہ کھول رہی تھی مڑی اور اسے دیکھا۔
وہیں سرد آنکھیں اب شاہ کے چہرے پر جمی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں ہٹاتی ہوئی بولی
” آپ کا لہجہ اتنا روبوٹک کیوں ہے؟ جب میں نے یہ کبھی نہیں پوچھا تو آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟” اور وہ چلی گئی تھی۔
جبکہ شاہ اسکے جواب پہ حیران رہ گیا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل جب گھر سے کچھ فاصلے پر اتری اور آگے بڑھنے لگی، تو اسے کچھ لڑکے اپنا پیچھا کرتے محسوس ہوئے تھے۔
جس پر اس کو انتہائی شدید غصہ آیا تھا۔
وہ چل رہی تھی مگر پھر اس کا ضبط جواب دے گیا تو وہ مڑی اور بولی
“سالوں مسئلہ کیا ہے یا پھر گولی دینی پڑے گی تم لوگوں کو؟”
“زبان تو بڑی چلتی ہے بھئی!” ایک لڑکے نے کہا اور سب ہنسے تھے جس پر وہ بولی
“میرا ہاتھ بھی بہت چلتا ہے۔”
“اے لڑکی مجھے غصہ نہ دلاؤ ورنہ۔۔۔۔” ایک لڑکا آگے بڑھا تھا۔
اس نے مہمل کے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ مہمل کا ہاتھ اٹھا اور اسکے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔
اسکے ساتھ ہی مہمل نے اسے رکھ کر ٹانگ ماری اور اسے مارنے لگی جب باقی تین لڑکے مہمل کی طرف لپکے۔
مہمل نے دو کو تو سیدھا کر دیا اور صحیح رکھ کر مارا تھا کہ اسے تیسرے لڑکے نے انتہائی زور سے دھکا دیا۔
اس سے پہلے کے مہمل نیچے گرتی ایک وجود اسکے پیچھے آیا اور اسے پیچھے سے تھام لیا۔
مہمل نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو داؤد مشوانی اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ کھڑا تھا وہ ہر بار اسے سہارا دیتا تھا۔
اسے نہیں یاد کہ اسکی دوستی اس سے کیسے ہوئی مگر وہ اتنا جانتی تھی کہ وہ اس خونی حویلی سے بھاگ کر ان کے قبیلے میں پہنچی تھی اور انھوں نے اس کی مدد کی تب وہ رقیہ بیگم اور اسکے بابا اس حویلی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
لیکن داؤد نے پھر بھی اسکی ہمیشہ خبر رکھی تھی وہ اس سے چھ سال بڑا تھا۔
“ارے لڑکی کیوں ہر وقت غنڈہ گردی کرتی رہتی ہو کتنی بار بچاؤں گا تمہیں میں؟” داؤد نے اسے سہارا دیتے ہوئے کہا جس پر وہ اپنا بازو چھڑاتی نظریں چھڑا گئی تھی۔
داؤد نے باڈی گارڈز کو اشارہ کیا اور وہ ان لڑکوں کو لے کر دوسری گاڑی پر وہاں سے چلے گئے تھے۔
“کیوں آتے ہو تم میرے پیچھے داؤد مشوانی؟” مہمل نے پوچھا تھا اب اس سے اور ساتھ اپنا دوپٹہ بھی صحیح کیا تھا۔
“تم یہ غنڈہ گردی کیوں کر رہی تھی؟” داؤد نے اسے بازو سے ایک بار پھر پکڑا تھا۔
گلی میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا اگر کوئی ہوتا تو مہمل کیلئے بہت مشکل ہو جانی تھی۔
” جناب جب لڑکی اکیلی ہو جائے نا تو اسکے آگے پیچھے کتے اور گیدڑ جمع ہو جاتے ہیں جنکا صفایا اسے کرنا پڑتا ہے۔” مہمل نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔
“تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ باڈی گارڈز لگا دیتا ہوں گھر کے باہر تم سنتی نہیں۔” داؤد نے اب کی بار نرمی سے کہا
” مجھے اس محلے میں اپنا تماشہ نہیں بنانا اور نا ہی امی کو یہ بات معلوم ہونے دینی ہے کہ تم مجھے سب خبریں دیتے ہو مجھے تمہاری اس سے زیادہ مدد نہیں چاہیے۔” مہمل نے اسے کہا تھا۔
“مہمل آئندہ مجھے بتا کر تو نکل سکتی ہو تم؟” داؤد نے امید سے پوچھا تو وہ بولی
“مشوانی صاحب جائیں یہاں سے!”
اور اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کراتی وہ وہاں سے جا چکی تھی اور وہ سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
کیونکہ مہمل نے کبھی اسکی نہیں سنی تھی آخر کو جہانگیر خان کی بیٹی جو ٹھہری جب تک وہ گھر میں داخل نہیں ہوئی وہ اسکے پیچھے ہی رہا تھا۔
مہمل کو یہ بات معلوم تھی مگر وہ سب نظر انداز کر رہی تھی۔ نجانے کیسے ہر جگہ جہاں اسے مدد چاہیے ہوتی وہ شخص حاضر ہو جاتا تھا۔
جب سے وہ کراچی شفٹ ہوا تھا وہ اس کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا۔
اسکے جانے کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...