کچھ ہی دیر بعد دروازے پر پھر دستک ہونے لگی۔”ایک تو ان لوگوں کو بھی آرام نہیں، سکون سے سونے بھی نہیں دیتے، کھڑے رہیں باہر، میں تو نہیں کھولتی دروازہ”وہ بیڈ پر لیٹے ہوئے بولی۔آج تو اس کا پکا پروگرام تھا یونیورسٹی نہ جانے کا مگر سالار کی معصوم آواز سن کر وہ اٹھ گئی اور منہ بناتے ہوئے دروازہ کھولنے لگی۔سامنے چار سالہ سالار کھڑا تھا۔جو کہ اگلے ہفتے پانچ سال کا ہونے والا تھا۔
” پھپھو، دادی جان آپ کو ناشتے کے لیے بلا رہی ہیں” سالار نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں گھماتے ہوئے کہا
” امی کے چمچے ، آج سکول جانا ہے کہ نہیں”رضیہ نے سالار کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا
” آج تو چھٹی ہے پھپھو”
” واؤ پھر تو مزا آئیگا، میں بھی آج یونیورسٹی نہیں جارہی، تم ادھر بیڈ پر بیٹھ کر میرا انتظار کرو، میں منہ ہاتھ دھو کر آتی ہوں اور خبردار جو میری چیزوں کو ہاتھ لگایا”
” میں کوئی بچہ تھوڑی ہی ہوں جو آپ کی چیزوں کو ہاتھ لگاؤں گا” سالار نے منہ بناتے ہوئے کہا
” اچھا انکل جی آپ کی اجازت ہو تو میں واشروم جاسکتی ہوں”
” جا سکتی ہیں” سالار نے ہنستے ہوۓ کہا
اس کے واشروم جاتے ہی سالار بیڈ پر چھلانگیں لگانے لگا۔بیڈ کا ستیاناس کرنے کے بعد اس کا اگلا شکار ڈریسنگ ٹیبل تھا۔رضیہ کا دانت برش جو وہ کل ہی بازار سے نیا لے کر آئی تھی اور غلطی سے واشروم ساتھ لے کر جانا بھول گئی تھی سے دانت چمکانے کے بعد اس نے کریم کا ڈھکن کھول کر کریم کے ڈبے کو کارپٹ پر پھینک دیا۔اب اسے پیاس لگ رہی تھی۔اس نے بیڈ کے ساتھ رکھی گئی پانی کی بوتل کو تھوڑا سا پیا اور باقی پانی بیڈ پر گرا دیا۔”اب مزا آئیگا پھپھو کو، اور میری شکاتیں لگائیں بابا کو” یہ کہنے کے بعد وہ ایک پل کے لیے بھی نہ رکا کیونکہ اسے پتا تھا اگر پھپھو باہر آگئی تو وہ اسے کچا چبا جائیں گی۔کچھ دیر بعد جب رضیہ دانت برش لینے کے لیے واشروم سے باہر نکلی تو کمرے کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی۔کچھ ہی دیر بعد پورے گھر میں ایک ہی آواز گونجی”سالار”
وہ جلدی جلدی بغیر بال باندھے ، ڈوپٹہ گلے میں ڈال کر غصے سے کمرے سے باہر نکل گئی اور کچن میں چلی گئی۔جہاں وہ ” سالار کا بچہ ” چاۓ کی چسکیاں لینے میں مصروف تھا۔
” امی یہ سالار کا بچہ آج میرے ہاتھوں قتل ہو جاۓ گا، آپ ذرا جاکر میرا کمرہ دیکھے، اس نے میرے کمرے کو کباڑخانہ بنا دیا ہے” رضیہ نے غصے سے سالار کی طرف دیکھا جو اس ٹائم غزالہ بیگم کی پنا میں تھا
“کیا بک رہی ہو، کیا کیا ہے اس معصوم نے ، تمھیں صرف جگانے ہی تو گیا تھا”غزالہ بیگم نے غصے سے رضیہ کی طرف دیکھا جو کہ انتقام کی آگ میں جل رہی تھی
” کیا کیا ہے اس نے ، ایک بار میرا کمرہ دیکھیں ذرا اور یہ معصوم نہیں پورے کا پورا شیطان ہے”
” بری بات کتنی دفعہ میں تم سے کہو کہ بچوں کو شیطان نہیں کہنا چاہیے”
” بھابی آپ انصاف کریں ، اس نے میرا نیو دانت برش استعمال کیا ہے جو کہ میں نے ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کیا تھا”رضیہ نے غزالہ بیگم کو نظر انداز کر کے عالیہ بیگم کو کہا کیونکہ اسے پتا تھا کہ غزالہ بیگم کے سر پر پوتے کا بھوت سوار تھا۔
” تو پھپھو اب اتنا بھی بدھو نہیں ہے سلو، پرانا کون یوز کرتا ہے کسی کا بریش” ارم نے دانت دکھاتے ہوۓ کہا
” تم چپ کرو، سالار کی وکیل” رضیہ نے غصے سے سات سالہ ارم کو دیکھا
” آپ نے ایسا کیوں کیا ہے سالار سوری بولو پھپھو کو”
” صرف سوری سے کچھ نہیں بنے گا، آفتاب بھائی، آپ اسے بولیں کہ میرا کمرہ بھی صاف کرۓ”
” کیا ہو گیا ہے رضیہ ، اتنے سے بچے سے اب کمرہ بھی صاف کرواؤں گی”
” امی آپ بیچ میں نہ بولیں، یہ میرا اور سلو میاں کا معاملہ ہے، اس نے گندا کیا ہے ، اب یہی صاف کرۓ گا”
“میں ناشتہ کرنے کے بعد خود اپنی گڑیا کا کمرہ صاف کروں گی، ابھی ناشتہ کرو، تم نے یونیورسٹی بھی جانا ہے”
” بھابی میں نے آپ کو کہا بھی تھا کہ میں یونیورسٹی نہیں جاؤں گی”
” کیوں نہیں جارہی یونی، اگر اتنی چھٹیاں کرو گی تو پڑھو گی کیسے”
” بس یہ آخری چھٹی ہے فرقان بھائی”
” تم ہر بار یہی کہتی ہو ، لیکن اگلی بار پھر کر لیتی ہو”
” امی آپ کہاں کھوئی ہوئی ہیں” اس نے غزالہ بیگم کو دیکھا جو کب سے ہاتھ میں نوالہ پکڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
” مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے”
” تو کریں نہ پیاری امی، آپ کو کس نے منع کیا ہے”
” کل پھر سلمہ کی کال آئی تھی ، وہ کہ رہی تھی کہ اب ہمیں تمھاری اور امجد کی شادی کر دینی چاہیے”
” امی میں آپ کو کتنی بار کہو کہ مجھے اس میٹرک پاس آوارہ امجد سے شادی نہیں کرنی ، محلے میں ہر لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی ہے، اور آپ مجھے کہ رہی ہیں کہ میں اس آوارہ امجد سے شادی کر لوں”
” جو بھی ہے شادی تو تمھیں امجد سے ہی کرنی ہوگی، منگیتر ہے وہ تمھارا”
” میں اس کو منگیتر نہیں مانتی” رضیہ نے غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوۓ کہا
” تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں سکتی”
” امی آپ سمجھتی کیوں نہیں ، مجھے امجد نہیں پسند”
” تم کیوں نہیں سمجھتی ، تمھارے محروم باپ کی خواہش تھی کہ تمھاری شادی امجد سے ہو”
” ابا خود تو اوپر چلے گے ہیں، میری زندگی عزاب بنا کر ، جو کرنا ہے آپ کر لیں ، میں امجد سے شادی نہیں کرتی”
” آخر امجد میں برائی ہی کیا ہے، شادی تم نے کسی نہ کسی سے کرنی ہی ہے تو امجد سے کیوں نہیں”
” برائی کو چھوڑیں ، آپ مجھے وہ اچھائی بتا دیں اس کی ، جس کی وجہ سے آپ میری شادی اس سے کروانے چاہتی ہیں”
” تو تم اب اتنی بڑی ہوگئی ہو کہ تم اپنے بڑوں کے فیصلے کو غلط کہو گی”
” بات بڑے یا چھوٹے کی نہیں ہے امی، بات میری زندگی کی ، اور میں کسی کا وعدہ پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتی”
” وہ کسی غیر کا وعدہ نہیں، تمھارے اپنے باپ کا وعدہ اور آخری خواہش تھی”
” تو کیا ضروری ہے میں وہ غلطی پوری کروں جو میرا باپ آدھی کر چکا ہے، میں امجد سے شادی نہیں کرتی، یہ میرا آخری فیصلہ ہے، اگر اپ نے مجبور کرنے کی کوشش کی تو میں زہر کھا لوں گی”وہ غصے سے ناشتے کی میز سے اٹھ گئی اور بھاگتے ہوئے اپنے کمرے چلی گئی۔
” امی آپ سن کیوں نہیں لیتی رضیہ کی بات، امجد دنیا کا آخری لڑکا تو نہیں ہے جو آپ رضیہ کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ امجد سے شادی کرۓ”فرقان سے بہن کا رونہ دیکھا نہیں گیا
” کیسے سن لوں میں اس کی بات اور کیسے بھول جاؤ تمھاری باپ کی آخری خواہش کو، تین چار کتابیں کیا پڑھ لی اس نے، امجد کو نکما کہ رہی ہے، تم ہی لوگوں کے لاڈ پیار نے اسے بگاڑا ہے ، اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی، میں آج ہی سلمہ کو گھر بلا کر رضیہ کے نکاح کی بات کرتی ہوں”
” امی مگر ہماری ایک ہی بہن ہے، آپ اس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی”
” اگر مگر کچھ نہیں آفتاب، میں اس کی ماں اس کا غلط نہیں سوچ سکتی”
________________________________
کہاں ہے میری بیٹی، ارے کیا بتاؤں تمھیں غزالہ ، اتنی یاد آتی ہے رضیہ، امجد بھی مجھے دن رات کہتا رہتا ہے اماں اب شادی کروا دو میری” سلمہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
” وہ تو سوئی ہوئی ہے” غزالہ بیگم نے نظریں چراتے ہوئے کہا
” دیکھو غزالہ میں باتوں کو گھما پھرا کر کرنے والی نہیں ہوں۔میرا ایک ہی بیٹا ہے اور میں اس کی شادی دھوم دھام سے کرنا چاہتی ہوں”
” میں تمھارا مطلب سمجھتی ہوں، جہیز تو میں نے بہت پہلے کا ہی تیار کیا ہوا ہے، بس تم تیاری کر لو”
” یہ تو بہت اچھی بات ہے، میں آج سے ہی شادی کی تیاریاں شروع کردیتی ہوں”
” چلو پھر اگلے جمعے ہم نکاح رکھ لیتے ہیں، پھر اگلے مہینے کم رخصتی بھی کر لیں گے”
” ہاں ٹھیک ہے، نکاح کے لیے میں جوڑا خود پسند کروں یا رضیہ خود پسند کرے گی”
” نہیں تم خود پسند کرنا ، اب ہونے والی ساس کو تم ، تمھاری پسند تو رضیہ کے سر آنکھوں پر” غزالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہیں بچی ہے، اپنی پسند کا لے تو اچھا ہے”
” میں کہ رہی ہوں کہ تم اپنی پسند کا لے لینا”غزالہ بیگم نے سلمہ کو اس لیے منع کر دیا کیونکہ اسے پتا تھا کہ رضیہ کبھی نہیں مانے گی شاپنگ پر جانے کے لیے
” اچھا اب مجھے اجازت دو، امجد آنے والا ہو گا”
” اللہ حافظ”
” اللہ حافظ”
______________________________
” مبارک ہو رضیہ تمھاری نکاح کی تاریخ طے ہوگئی ہے” غزالہ بیگم نے کھانے کی ٹرے لاتے ہوئے سوجھی ہوئی آنکھوں والی رضیہ سے کہا جو کہ صبح سے منہ پھولا کر بیٹھی ہوئی تھی۔
_____________________
” امی پلیز میری بات سمجھیں، میں امجد سے شادی نہیں کر سکتی، آپ پلیز اس منگنی کو توڑ دیں”
” مجھے کچھ نہیں سننا رضیہ، آخر تم کیوں بوڑھی ماں کی عزت کو نیلام کرنے پر تلی ہوئی ہو”
” امی آپ اپنی انا کو آخر چھوڑ کیوں نہیں دیتی، اس چھوٹی سی بات کو عزت کیوں بنا رہی ہیں”
” تم اپنی ضد کیوں نہیں چھوڑ دیتی، اور یہ چھوٹی بات نہیں ہے رضیہ، ہمارے خاندان کی عزت کی بات ہے”
” امی تو اب آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئی ہیں جو غیرت کو بیٹی پر ترجیح دیتے ہیں”
” بات غیرت کی نہیں، بات تمھارے مرحوم باپ کے وعدے کی ہے”
” کیا فرق پڑتا ہے امی، وعدے کی ہو یا غیرت کی، زندگی تو میری خراب ہونی ہے”
” مجھے کچھ نہیں سننا، تمھارا اگلے جمعے کو امجد سے نکاح ہے بس، اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی- میں تمھارے لیے کھانا لے کر آئی ہوں، کھا لینا کھانا”
” مجھے نہیں کھانا، لے جائیں یہاں سے”رضیہ نے کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” میں کھانا ادھر ہی رکھ رہی ہوں، بھوک لگی تو کھا لینا” غزالہ بیگم نے کھانا ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا اور کمرے دروازہ کا کھول کر باہر چلی گئی. ان کے جاتے ہی رضیہ نے اپنے بیگ سے موبائل نکالا اور کسی کو کال ملائی
” جمال میں بہت پریشان ہوں، میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود امی نے نکاح کی تاریخ طے کر دی ہے، پلیز تم کچھ کرو”
” اب تو ایک ہی کام ہو سکتا ہے”
” کیا کام” رضیہ نے چہرے پر آۓ ہوئے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا
” کورٹ میرج”
” نہیں میں یہ نہیں کر سکتی، میرے گھر والے مجھ پر بہت ٹرسٹ کرتے ہیں، میں ان کا اعتماد نہیں توڑ سکتی”
” تو پھر کرو اُس دوٹکے کے انسان سے شادی”
” جمال ایسا تو مت بولو، تم میری محبت ہو، میں تمھارے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں، میں ایک دفعہ پھر کوشش کر کے دیکھتی ہوں”
” تم بس کوششیں ہی کرتی رہنا، رات تک کا ٹائم ہے تمھارے پاس، سوچ سمجھ کر جواب دینا”
” مگر جمال میری بات تو سنوــــــ”
اس سے پہلے وہ کچھ اور بولتی کال کاٹ دی گئی تھی.
“میں امجد سے شادی نہیں کر سکتی، میں تو جمال سے محبت کرتی ہوں، مجھے بھابی سے بات کرنی ہوگی، وہ میری بات ضرور سنیں گیں”رضیہ یہ سوچتے ہوۓ، چہرے پر آۓ ہوۓ آنسوؤں کو صاف کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی.وہ عالیہ بھابی کو ڈھونڈتے ہوئے صحن میں چلی گئی. اس کو عالیہ بھابی سالار کو پڑھاتے ہوئے نظر آئی.
” پھپھو یہ دیکھیں، میرے پھر پورے نمبر آئیں ہیں” سالار نے اپنا ٹیسٹ پیپر رضیہ کو دکھاتے ہوئے کہا
” بھابی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے، آپ ایک منٹ ذرا میرے ساتھ اندر چلی گیں؟ ” رضیہ نے سالار کو نظرانداز کرتے ہوۓ کہا
” سالار آپ اپنا سبق یاد کرو، میں ابھی پھپھو کی بات سن کر آتی ہوں، میں واپس آکر آپ سے سبق سنو گی” عالیہ نے سالار کو ڈنڈا دکھاتے ہوۓ کہا
__________________________________________________
” کیا بات کرنی ہے رضیہ” عالیہ نے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا
” بھابی میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں، اس لیے میں امجد سے شادی نہیں کر سکتی، آپ پلیز امی سے اس بارے میں بات کریں، مجھے پتا ہے وہ آپ کی بات نہیں ٹالے گیں”
” میں تم سے اس کا نام ہرگز نہیں پوچھو گی، کیونکہ امی نے تمھارے لیے اچھا سوچا ہے، اپنی ماں کی پسند پر بھروسہ کرو، ماں اپنے بچے کے لیے غلط نہیں سوچتی”
” آپ ٹھیک کہہ رہی ہے بھابی مگر میں جمال سے محبت کرتی ہوں، اور محبت وہ مرض ہے جس کی کوئی دوا نہیں ”
” یہ سب وقتی لگاؤ ہے اور کچھ نہیں، بھول جاؤ اُس کو، تمھیں تھوڑا وقت تو ضرور لگے گا اسے بھولنے میں مگر ایک دن ضرور آئیگا جب تمھیں اُس کا نام تک یاد نہیں ہوگا”
” کیسے بھول جاؤں بھابی میں جمال کو، بھول جانا اگر اتنا آسان ہوتا تو مجھے کبھی اُس سے محبت ہی نہ ہوتی، محبت وہ تاریکی جنگل ہے جس میں اگر ایک بار انسان چلا جاۓ تو وہ چاہ کر بھی باہر نہیں نکل سکتا، اگر وہ باہر نکلنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو اُسے اُس جنگل کی ویرانیوں کی اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ اسےدن کی روشنی میں بھی ہر طرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے”
” یہ سب صرف فلمی باتیں ہیں اور کچھ نہیں، تم کوشش تو کر کے دیکھو، کیا وہ انسان تمھیں ایک ہی پل میں اتنا عزیز ہوگیا ہے کہ تمھیں اپنے ماں اور بھائیوں کی بچیس سالہ محبت نظر نہیں آرہی”
” بھابی اگر یہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں کب کی اُسے بھول چکی ہوتی، اسے بھولنا میرے اختیار میں نہیں ہے، آپ پلیز امی اور بھیا سے بات کریں”
” تو کیا تم اپنے ماں باپ کی عزت کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر چکی ہو”
” بھابی میں نے محبت ہی تو کی ہے، کوئی گناہ تو نہیں”
” تم نے محبت نہیں کی، تم نے گناہ کیا ہے، کسی کی منگیتر ہونے کے باوجود تم نے نامحرم سے محبت کی ہے، کیا یہ گناہ نہیں ”
” میں کتنی بار کہو کہ میں اسے اپنا منگیتر نہیں مانتی”
” میں تمھیں کتنی بار سمجھاؤں کہ جو تم کر رہی ہو اس کا انجام بچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں”
” بھابی آپ سمجھتی کیوں نہیں، جمال میری محبت ہے، میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی”
“کیا ہو گیا ہے رضیہ تمھیں، تم تو اتنی خود غرض نہیں تھی کہ اپنے ماں باپ کی عزت پر اپنی محبت کو ترجیح دو”
رضیہ ابھی عالیہ کو کچھ کہنے ہی والی ہوتی ہے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے، عالیہ دروازہ کھولتی ہے. سامنے سالار اپنی کاپی لے کر کھڑا ہوتا ہے.
” امی میں نے سبق یاد کر لیا ہے، مجھے بھوک لگی ہے، آپ مجھے چپس بنا کر دیں” سالار نے اپنی کاپی عالیہ کو دیتے ہوئے کہا
” اچھا چلو” عالیہ نے سالار سے رضیہ سے کاپی لیتے ہوئے کہا
عالیہ کے جانے کے بعد رضیہ نے ایک بار پھر کمرے کا دروازہ بند کر دیا. اور ایک بار پھر جمال کو کال ملائی.
” کیا ہوا جان”
” جمال عالیہ بھابی بھی نہیں مان رہی، مجھے پورا یقین تھا کہ کوئی اور نہیں تو عالیہ بھابی میری محبت کو ضرور سمجھیں گی، مگر ان نے نہ صرف میری مدد کرنے سے انکار کیا بلکہ مجھے خودغرض بھی کہا ہے”
” مجھے پتا تھا یہی ہوگا، اس لیے میں نے تمھیں کورٹ میرج کا کہا تھا، یہ دنیا والے کب کسی کی محبت کو سمجھتے ہیں”
” جمال تم مجھے بھول جاؤ، میرے اور تمھارے لیے یہی بہتر ہے”
” کیسے بھول جاؤ میں تمھیں، بھول جانا عام بات تھوڑی ہی ہے، ہمارا چار سال کا ریلیشن رہا ہے اور تم بھول جانے کی بات کر رہی ہو”
” تو تم ہی بتاؤ، کیا کروں میں، اگلے جمعے میرا نکاح ہے”
” تو میں نے تمھیں کہا ہے نہ کہ ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں، دیکھو تمھیں تو پتا ہے میرے والدین کا بہت پہلے مر چکے ہیں، میری ایک ہی بہن ہے وہ بھی انگلینڈ رہتی ہے، اس کا ادھر آنا ممکن نہیں، تو ہم کل نکاح کر لیتے ہیں، تمھارے اور میرے کچھ دوستوں کو ہم گواہ کے طور پر ہم بلا لیں گے”
” مگر امی………. ”
” اگر مگر کچھ نہیں، میں تمھیں رات کو پروگرام کے بارے میں میسچ کر دوں گا”
” پر جمال امی کا کیا ہوگا، وہ تو پھر مجھ سے کبھی بات بھی نہیں کریں گیں ”
” تم اپنی امی کی اکلوتی بیٹی ہو، اور اپنے بھائیوں کی اکلوتی بہن، وہ آخر کب تک تم سے ناراض رہیں گے، بس اب تم پریشان مت ہونا، میں سب کچھ سنبھالوں گا”
” ہممممم”
” اوکے باۓ”
” باۓ”
__________________________________
چار دن بعد
“امی مجھے معاف کر دیں، میں نے آپ کا
بہت دل دکھایا ہے” رضیہ نے کھانا کھاتے ہوئے کہا
” کیا بات کر رہی ہو رضیہ، بھلا ایک ماں بھی اپنے بچے سے ناراض ہوسکتی ہے، بچوں کا کام ہوتا ہے غلطی کرنا اور ماں کا کام ہوتا ہے اس غلطی کو سدھارنا” غزالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے رضیہ کی طرف کہا
” یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ ہماری گڑیا امی کی بات مان رہی ہے، یاد رکھنا چندا جو بچے اپنے ماں باپ کی بات مانتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے” آفتاب نے مسکراتے ہوئے کہا
” یہ لو، کل شاپنگ پر جانا اور اپنی پسند کے ڈھیر سارے کپڑے لے کر آنا” فرقان نے رضیہ کو پانچ ہزار کے ڈھیر سارے نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا
” شکریہ بھائی ” رضیہ نے بھی یہ سوچ کر بلاججھک پیسے رکھ لیا کہ آگے کام آئیں گے.
” اب کیا کروں گی ان پیسوں کا، پرسوں نکاح ہے تمھارا”
” واؤ، پھپھو کی شادی اور میری سالگرہ ایک ہی دن ہے، اب تو بہت مزا آئیگا” سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
سالار کی بات سن کر سب ہنسنے لگے.
” امی میں نے ابھی تک اپنی پسند کا ایک بھی ڈریس نہیں لیا، کل کا پورا دن پڑا ہوا ہے، میں کل ہی نجمہ کو بلاتی ہوں اور اس کے ساتھ شاپنگ پر جاؤں گی، اب
شادی روز روز تھوڑی ہی ہوتی ہے”
” چلو جیسی تمھاری مرضی، ابھی جا کر سو جاؤ”
” اوکے شب بخیر امی، بھائی، بھیا، سعدیہ بھابی، عالیہ بھابی، ارم، سالار”
اس کے اس انداز پر سب ہنسنے لگے. مگر سب کو کیا پتا تھا کہ دون دن بعد اُن پر کیا قیامت گزرنے والی ہے.
” تم ساڑھے تین بجے میرے فلیٹ پر پہنچ جانا، چار بجے تک مولوی صاحب آجائیں گے”
” جمال مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، کہی کچھ غلط نہ ہو جاۓ”
” کچھ نہیں ہوتا غلط، میں ہو نہ تمھارے ساتھ”
” اوکے میں آجاؤں گی، باۓ”
” باۓ”
__________________________
اس کی صبح گیارہ بجے ہوئی. اس نے بیڈ پر لیٹے ہوئے ہی اپنے بال باندھے اور واشروم میں منہ ہاتھ دھونے کے لیے چلی گئی. آج اس کے لیے بہت بڑا دن تھا. واشروم سے نکلنے کے بعد اس نے اپنا شناختی کارڈ اور دیگر ضروری کاغذات اپنے پرس میں ڈالے تاکہ آگے چل کر کوئی مسئلہ نہ ہو.بیڈ پر بیٹھنے کے بعد اُس نے کاپی سے ایک ورق نکلا اور قلم لے کر خط لکھنے بیٹھ گئی.وہ خط بھی لکھ رہی تھی اور اپنے چہرے پر آۓ ہوئے آنسوؤں کو بھی صاف کر رہی تھی.
” میری پیاری امی، جب تک آپ کو یہ خط ملے گا تب تک میں اپنی نئی زندگی کی شروعات کر بھی چکی ہونگی.امی مجھے معاف کر دیجئے گا.میں کورٹ میرج کرکے آپ کے فیصلے کو غلط نہیں ثابت کرنا چاہتی تھی بلکہ میں اس روایت کو توڑنا چاہتی ہوں جس کا شکار ہمیشہ مجھ جیسی یتیم بچیاں ہوتی ہیں. امی میں کبھی بھی یہ قدم نہ اٹھاتی اگر آپ صرف چند لمحے ہی مجھے سن لیتی. امی میں جمال سے بہت پیار کرتی ہوں. میں نے آپ کو بہت دفعہ کہا کہ مجھے امجد نہیں پسند مگر آپ نے کبھی بھی میری نہیں سنی. اس لیے میرے پاس کورٹ میرج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے. میں کبھی بھی نہیں چاہتی تھی کہ میری وجہ سے آپ کی تربیت پر نام آۓ مگر امی میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوں. میں آج ہی جمال کے ساتھ نکاح کر لوں گی. امی مجھے معاف کر دیجئے گا میرے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے. اپنا بہت خیال رکھیے گا. آپ کی رضیہ”
یہ خط لکھنے کے بعد وہ کافی دیر تک روتی رہی. ہر لڑکی کی طرح اس کے بھی بہت ارمان تھے مگر قسمت سے کون جیت سکتا ہے. رضیہ کبھی بھی ضدی بچی نہیں تھی. بچپن میں جب غزالہ بیگم اسے کسی کام سے منع کرتی تو وہ کبھی غلطی سے بھی وہ کام نہیں کرتی تھی. مگر یہ پیار بہت ظالم شہ ہے اس نے بھولی بھالی رضیہ کو بھی جنونی اور ضدی بنا دیا.
خط کو الماری میں رکھنے کے بعد اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو پتا چلا کہ بارہ بج چکے ہیں. اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گئی. لاؤنچ میں امی اور سعدیہ بھابی معمول کی طرح ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھے جبکہ عالیہ بھابی کچن میں کام کر رہی تھی.
” آگئی میری چندا، جاؤ سعدیہ چندا کے لیے ناشتہ لے کر آؤ” غزالہ بیگم نے رضیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
” جی امی” سعدیہ نے اٹھتے ہوئے کہا
جبکہ غزالہ بیگم کے پیار بھرے الفاظ سن کر بہت ضبط کرنے کے باوجود رضیہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے.
” ارے رضی رو کیوں رہی ہو” غزالہ بیگم نے ٹی وی آف کرتے ہوئے کہا
” امی آپ کی بہت یاد آئیگی” رضیہ نے روتے ہوئے کہا
” ارے پگلی، کل صرف نکاح ہے، رخصتی تو نہیں، رخصتی میں اپنی چندا کی ابھی نہیں کرتی، پریشان نہ ہو”
” امی میں آپ کی گود میں سر رکھ لوں، امی سالار کہاں ہے، امی مجھے سالار سے ملنا ہے، امی اس کو بلائیں نہ، امی اُس کو بولیں کہ پھپھو اس کو یاد کر رہی ہیں، دیکھنا امی کیسے دوڑتا ہوا آۓ گا”
” کیا ہو گیا رضیہ تمھیں، پاگلوں جیسی باتیں کیوں کر رہی ہو، میں جو کہ رہی ہوں کہ تمھارا کل صرف نکاح ہے، اور تم نے ایسے رونا دھونا شروع کیا جیسے آج ہی تمھاری رخصتی ہو”
” یہ لو گڑیا ناشتہ” سعدیہ نے رضیہ کو ناشتہ دیتے ہوئے کہا
” اب جلدی جلدی ناشتہ کرو، پھر تم نے نجمہ کے ساتھ بازار بھی جانا ہے”
” امی میں سالار سے ملے بغیر نہیں جاؤں گی”
” کیا مطلب سالار سے ملے بغیر نہیں جاؤں گی، وہ ابھی سکول گیا ہے، اسے واپس آنے میں کافی ٹائم لگے گا، جلدی سے ناشتہ کرو اور پھر جاؤ”
دس منٹ بعد وہ ناشتہ کر چکی تھی. اسے اب بےتحاشا رونا آرہا تھا. بڑی مشکل سے وہ آنکھوں میں آۓ ہوۓ آنسوؤں کو روک پارہی تھی.
” امی میں جاؤں ” اس نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا
” ہاں جاؤ لڑکی، کب سے میرا دماغ کھا رہی ہو، اور سالار کے لیے بھی کچھ لے آنا، کل اس کی سالگرہ بھی ہے”
” اللہ حافظ امی،سعدیہ بھابھی، عالیہ بھابی” اس نے ایک دفعہ پھر پورے گھر کو دیکھتے ہوۓ کہا
” اب جاؤ بھی” غزالہ بیگم نے آنکھیں نکالتے ہوۓ کہا
آج پہلی دفعہ اسے امی کا غصہ، غصہ نہیں لگ رہا تھا. کچھ تو خاص بات تھی کہ آج اس کا دل اور دماغ دونوں کہہ رہے تھے کہ اسے رک جانا چاہیے. اسے پہلی دفعہ امی پر بار بار پیار آرہا تھا. گھر سے نکلتے ہوئے بھی اس کی نگاہ غزالہ بیگم پر تھی. اگر اسے پتا ہوتا کہ یہ اس کی آخری ملاقات ہے غزالہ بیگم کے ساتھ تو وہ شاید کبھی ان کو چھوڑ کر جاتی ہی نہ.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...