مہرین کو اپنے آفس میں پا کر وہ ایک دم چونک گیا۔ اس کا وجود پتھر کی طرح ہوگیا تھا اور وہ بامشکل سانس لے سکا تھا۔ شیزہ نے حیران ہو کر مہرین کو دیکھا جو مسلسل شیزہ کو تعجب سے دیکھ رہی تھی۔ شیزہ کو عاشر کے ساتھ ہنستا دیکھ کر اس کے دل میں آگ بھڑک اٹھی اور ایک بے چینی وہ اپنے اندر محسوس کرنے لگی تھی۔
“وہ۔۔۔ سوری میں شاید غلط وقت پر اندر آگئی ۔۔۔ یہ فائل بھول گئے تھے تم ۔۔۔۔” اس نے فائل اس کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
“اسلام و علیکم مہرین آپی!” شیزہ نے اٹھ کر اسے سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام! کیسی ہو؟” مہرین نے ایک مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے پوچھا۔
“میں ٹھیک۔ سوری مجھے آپ کی شادی کا پتا نہیں چلا ورنہ ہم سب کراچی آتے آپ لوگوں کو مبارکباد دینے۔” شیزہ نے بتایا۔
“کوئی بات نہیں مگر مجھے لگا بابا جان نے دانیال انکل کو بتایا ہوگا۔” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے بات کر رہی تھی۔
“نہیں مجھے تو بعد میں پتا چلا۔ خیر مبارک ہو آپ کو۔” اس نے سرد لہجے میں کہا اور پھر عاشر کی طرف دیکھا جو ابھی بھی کسی شاک میں تھا۔
“اچھا میں چلتی ہوں یہ فائل دینی تھی۔” یہ کہتے ہوئے وہ باہر نکل گئی۔ اس کے جانے کے بعد عاشر نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر کچھ سوچ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
“میں آتا ہوں۔” اس نے شیزہ سے کہا اور پھر باہر نکل گیا۔ مہرین اس وقت بہت غصے میں تھی اور اس کے سر میں ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
وہ بھاگتا ہوا مہرین کے پیچھے آیا تھا اور پھر اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا۔
“کیوں آئی ہیں آپ یہاں؟” اس نے دانت پیستے ہوئے اس سے سوال کیا۔
“کیوں تمہاری چوری پکڑی گئی ہے اس لئے پوچھ رہے ہو تم؟” مہرین نے دو ٹک انداز میں جواب دیا۔
“میں آپ کے کسی بھی سوال کے جواب دینے کا پابند نہیں ہوں!” اس کے چہرے پہ نگاہیں جمائے وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
“ہاں ظاہر ہے چور کو جب چور بولا جائے تو تکلیف تو ہوتی ہے۔ تم کتنے بڑے hypocrite ہو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے مجھے!” اس نے سرد لہجہ میں کہا تو اس کے لبوں پر کاٹ دار مسکراہٹ پھیل گئی۔ مزید وہاں روکنا اس کے لئے محال تھا اس لئے وہ وہاں سے جانے لگی تو عاشر نے اس کی کلائی کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے اس کو روکنا چاہا۔
“چھوڑو میرا ہاتھ!” اس نے اس کی مظبوط گرفت سے اپنی کلائی کو آزاد کرنا چاہا تو اس نے اپنی گرفت مزید سخت کر لی۔
“یہاں آکر کیا ثابت کرنا چاہتی تھیں آپ؟ بولیں؟ کس حیثیت سے آئی ہیں آپ؟” اس کی مظبوط گرفت کی وجہ سے مہرین کو اپنے ہاتھ میں درد محسوس ہونے لگا۔
“میں بھی تمہیں جواب دینے کی پابند نہیں! میں کب سے تمہارے ساتھ اچھے ہونے کی کوشش کر رہی ہوں اور تم گن گن کے بدلے لے رہے ہو مجھ سے؟ اگر میں نے ظلم کیا اور گناہ سر انجام دئے تو کیا تم بھی وہی کرو گے؟ پھر کیا فرق رہ گیا تم میں اور مجھ میں؟ اگر کوئی اپنی غلطی سدھارنا چاہے تو یہ سلوک کرنا چاہیے اس کے ساتھ؟ میں معذرت چاہتی ہوں کے میں یہاں آگئی جاؤ جہاں تمہاری خوشی ہے وہاں چلے جاؤ!” اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرایا ہی تھا کے سامنے سے آتے عدیل کو دیکھ کر دونوں گھبرا گئے۔ عاشر جو مہرین کے بہت قریب تھا ایک دم پیچھے ہٹا اور مہرین اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے پیچھے ہوئی۔
“ارے! کیا میں غلط وقت پر آگیا؟” عدیل نے شوخ انداز میں کہا تو مہرین نے نظریں جھکا لیں۔
“نہیں بولو کیا ہوا؟” عاشر نے غصہ پیتے ہوئے عدیل کو دیکھا جس کی مسکراہٹ ہی نہیں ختم ہورہی تھی۔ مہرین وہاں سے جانا چاہتی تھی اس کا دل بہت غم زدہ اور بوجھل ہورہا تھا۔
“میں چلتی ہوں۔” اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا اور نیچے جانے کے لئے آگے بڑھی۔ عاشر کا دماغ پھٹ رہا تھا اور اس وقت وہ عدیل سے بھی بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔
“ارے رکیں بھابھی ابھی کہاں؟ آج پہلی بار آپ یہاں آفس آئی ہیں اور ایسے ہی چل دیں۔” عدیل نے آواز دے کر اسے روکنا چاہا۔
“نہیں مجھے جانا ہے مجھے دیر ہورہی ہے۔” وہ پھر مزید وہاں نہیں رک سکی اور سامنے آتی لفٹ کا بٹن دبا کر وہاں سے نیچے چلی گئی۔ عدیل نے تنقیدی نظر عاشر پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔
عاشر بس خالی نگاہوں سے مہرین کو دور جاتا دیکھتا رہا۔ وہ اس وقت غم و غصے کی کیفیت سے دوچار تھا۔ شیزہ خود کو کوس رہی تھی کے وہ آج وہاں کیوں آگئی۔ وہ اس کے آفس سے باہر نکلنے لگی تو عاشر نے اسے آواز دے کر روک لیا۔
”آئى ایم سوری وہ۔۔۔“ وہ کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔
“نہیں آپ سوری کیوں کر رہے ہو؟” شیزہ نے یک دم رک کر کہا۔
“میں نہیں جانتا تھا کہ سیچویشن اتنی عجيب ہو جائے گی۔” وہ شیزہ سے شرمندہ تھا۔ شیزہ اس وقت وہاں سے جانا چاہتی تھی کیونکہ مزید وہاں رہ کر اس کا تماشہ ہی بننا تھا۔
“کوئى بات نہیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے گھر پر سب انتظار کر رہے ہیں۔” اس نے وہاں سے راہ فرار اختیار کرنا چاہا۔ عاشر جان چکا تھا کے مہرین کے یوں اچانک وہاں آجانے سے شیزہ کو کتنا برا اور عجيب لگا ہوگا۔
”تم منڈے سے آسکتی ہو۔“ اسے بے اختیار خیال آیا۔
”میں آجاؤں گى پھر ملاقات ہوتی ہے۔“ اس نے اسے بتایا اور پھر جلدی وہاں سے نکل گئی۔ شیزہ کے جاتے ہی عاشر نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر آنکھیں بند کر کے اپنے آفس میں بیٹھ گیا۔ وہ کسی چکی میں پس رہا تھا۔ ایک طرف اس کی محبت جو اس سے چھین لی گئی تھی اور ایک طرف بابا جان سے کیا ہوا وعدہ تھا جو اسے نبھانا تھا۔
*******
مہرین آفس والے واقعہ کے بعد بہت ڈسٹرب ہوگئی تھی۔ عاشر نے اسے ذلیل کرکے رکھ دیا تھا۔ اسے شیزہ کے ساتھ دیکھ کر اس کے تن من میں آگ لگ گئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ عاشر سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا مگر پھر بھی آج شیزہ کو اس کے ساتھ یوں ہنستا دیکھ کر وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکی۔ کیا شیزہ عاشر کی زندگى میں واپس آ گئی تھی؟ کیا وہ اس سے آج بھی محبت کرتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب مہرین کے پاس نہیں تھا۔ وہ کیوں جلن محسوس کر رہی تھی؟ کیوں شیزہ آج اسے زہر لگی تھی؟ وہ کیا عاشر کو چاہنے لگی تھی؟ وہ کیسے بدل گئی تھی؟ کہاں وہ مہرین جو عاشر کے وجود سے بھی نفرت کرتى تھی اور کہاں اب وہ اس کے لیئے دیوانی ہو رہی تھی؟ کیا اس کا دل عاشر کی طرف راغب ہو رہا تھا؟ ہاں وہ جان گئ تھی نکاح کی پاکیزگی کو۔۔۔۔وہ جان گئی تھی کہ بابا جان کا فیصلہ غلط نہیں تھا مگر وہ اپنے لیئے خود غرض ہو رہی تھی۔ وہ عاشر کو کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اس کا نہیں شیزہ کا تھا اور وہ چاہ کر بھی اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتی تھی۔ وہ بوجھل دل لیے بیٹھی تھی کہ عاشر گھر میں داخل ہوا۔ اس نے عاشر کو دیکھ کر نظریں چرا لیں۔ وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح تھکا ہوا اور بے زار لگ رہا تھا۔ عاشر خود سے لڑ لڑ کر تھک چکا تھا۔
وہ مزید یہ سزا نہیں کاٹنا چاہتا تھا۔ وہ مہرین کی محبت اور خلوص کو ابھی تک سازش ہی سمجھ رہا تھا۔ اعتبار ایک بار ٹوٹ جائے تو بار بار حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ اندر آیا۔ بھوک سے اس کا جسم نڈھال تھا۔ وہ کچن کی طرف بڑھنے لگا تھا جب مہرین بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ خود بہ خود عاشر کی زندگى میں داخل ہو رہی تھی۔
”میں کھانا لگا دوں؟“ اس کی تھکن دیکھ کر اس نے فوراً اس سے پوچھا۔ اس نے ایک زہر خندہ نظر مہرین کے چہرے پر ڈالی پھر خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔
”آخر کیا چاہتی ہے آپ؟ میں زہر کھا کر مر جاؤں؟ نفرت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ میں شدید گھن کرتا ہوں آپ کے اس وجود سے آپ کی لی ہوئی سانسوں سے۔ آپ کا گیم ابھی تک نہیں سمجھ سکا میں! صرف اتنا بتا دیں اور مزید کتنا برباد کرنا چاہتی ہیں مجھے؟“ اس کی پشت پر ابھرنے والی غصے میں ڈوبی تیز آواز نے مہرین کے بھٹکتے خیالات کو منجمد کردیا۔ عاشر نے اس بار مہرین کے دل پر وار کیا تھا۔
”میں کوئی گیم نہیں کھیل رہی عاشر میرا یقین کرو۔ میں یوں نہیں رہ سکتی ہوں۔ مجھے تمہارا ساتھ چاہیے اور بس۔ میں جانتی ہوں کہ میں نے ماضی میں تمہارے ساتھ بہت برا کیا ہے۔ ہاں میں بری تھی میں انتقام کی آگ میں جل رہی تھی مگر یقین کرو عاشر میں نے تمہيں ستا کر خود بھی کبھی سکون نہیں پایا۔ میں نے جو گناہ کیئے ہیں اس کی سزا کاٹ رہی ہوں مگر میں یوں اکیلے رہنے کی سزا نہیں کاٹ سکتی۔“ وہ یہ کہتے کہتے زار و قطار رونے لگی۔ اس کی آنکھوں میں چمک نہیں بلکہ غم کی ایک لہر صاف نمایاں تھی۔
”تو مت کاٹیں سزا یہی تو میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ مجھ سے طلاق لیں اور کسی اور سے شادی کر لیں۔ ویسے بھی شادیاں کرنا آپ کے لئے کون سا مشکل ہے؟ جتنا ڈرامہ کرنا ہے کرلیں میں اب اتنا پاگل نہیں ہوں کہ آپ کی مکاری کو نہ سمجھ سکوں۔ اور پلیز مجھ سے کم مخاطب ہوا کریں۔“ عاشر نے بھگو بھگو کر طنز کے تیر مہرین کے دل میں پیوست کیئے تھے۔ آنسوں پونچھتے ہوئے مہرین کو لگا تھا اس کا پورا وجود پتھر ہو گیا ہے۔
”ہاں دو سزا مجھے! اور دو سزا مجھے! تم صرف شیزہ کے نہ ہونے کا سوگ منا رہے ہو۔“
وہ یہ بول کر رو پڑی۔ مہرین اتنی کمزور تو نہ تھی کہ وہ عاشر کے سامنے رو پڑے۔ مگر وہ اس حالت میں نہ تھی کہ وہ مزید کچھ بول پائے تو وہ بغیر کچھ بولے وہاں سے چلی گئی۔
عاشر جو اسے روتے ہوئے دیکھا تو وہ بری طرح سپٹا گیا۔
اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر بند ہوگئی۔ آج وہ محسوس کر رہی تھی اس کرب اس تکلیف کو جو عاشر نے اٹھایا تھا۔
اسے یقین آگیا تھا کہ عاشر اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مگر دل میں اب صرف درد تھا۔ عاشر کا دل اس کے لئے کبھی مہربان نہیں ہوگا۔
*********
مہرین صبح ہی زریاب کے اسٹوڈیو آگئی تھی۔ وہاں ان دونوں نے کچھ دیر بات کی۔ زریاب کو وہ بہت اداس سی لگی تھی مگر اس کے باوجود بھی اس نے مہرین سے پوچھنا نامناسب سمجھا تھا۔ وہ دونوں یونیورسٹی میں گزارے ہوئے یادگار دن یاد کر رہے تھے جب بنا دستک دیئے ایک لڑکی اندر آئى۔
”سر میں اندر آجاؤں؟“ آواز عروسہ کی تھی جس پر زریاب نے اسے چونک کر دیکھا تھا۔
“آ جایئں۔“ زریاب نے عروسہ سے کہا۔ عروسہ کی نظریں مسلسل مہرین کے چہرے پر تھی۔ وہ مہرین کے متعلق جاننا چاہتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ زریاب اور مہرین کا کیا رشتہ ہے۔ وہ بس اتنا جان چکی تھی کہ زریاب مہرین کو چاہتا ہے۔ عروسہ کے جانے کے بعد ایک مسکراہٹ مہرین کے لبوں پر پھیل گئی۔ زریاب سمجھ نہیں سکا تھا کہ مہرین کیوں مسکرا رہی ہے۔
”یہ مسکرانے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟“ زریاب نے تجس سے پوچھا۔ مہرین تب بھی بس مسکراتی رہی۔
”اب بتا بھی دو!“ زریاب زچ ہوا۔
”لگتا ہے کوئى تم پر عاشق ہو چکا ہے۔“ مہرین کا اشارہ عروسہ کے طرف تھا۔ زریاب کو اس کی یہ بات پسند نہ آئى۔
” کیا مطلب؟” اس کی بھنویں سکڑ گئ تھیں۔
” سمجھ جاؤں گے بہت جلد۔“ مہرین اسے چڑا رہی تھی اور وہ عجلت بھرے انداز سے لب بھینچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
**********
عاشر نے محسوس کیا تھا کہ مہرین ایک ہفتے سے اس کے سامنے نہیں آرہی تھی وہ اگر نیچے ہوتا تو وہ اوپر ہوتی وہ اگر کھانا کھاتا تو وہ اس کے اٹھنے سے پہلے اٹھ جاتی۔ ہاں وہ بہت خوش تھا کہ اسے مہرین کی صورت دیکھنی نہیں پڑتی تھی۔ وہ زیادہ تر وقت زریاب کے ساتھ گزارتی تھی۔ اسے عاشر سے گلہ تو نہ تھا مگر اس کے لہجے اور باتوں نے مہرین کو بہت ٹھیس پہنچائی تھی۔ آج رات کے 11 بج رہے تھے۔ اسلام آباد میں 11 بجے کا مطلب آدھی رات سمجھا جاتا تھا۔ عاشر نے گھڑی کی طرف دیکھا جس میں 11:05 بج رہے تھے۔ مہرین کہا تھی کس کے ساتھ تھی اسے خبر نہیں تھی۔ مگر رات 11 بجے تک گھر نہ آنا اسے پریشان کر رہا تھا۔ اس نے لب بھینچ کر دروازے کی طرف رخ کیا مگر وہ اب تک نہیں آئى تھی۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اس نے خاموشی سے قدم رکھا تو عاشر نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔
”یہ کیا وقت ہے گھر آنے کا؟“ عاشر نے بہت ہی سخت لہجے میں مہرین سے سوال کیا۔ وہ بغیر جواب دیئے اوپر جانے لگی تو وہ مزید چڑ گیا۔
”کیا گونگی ہونے کا روزہ رکھا ہوا ہے آپ نے؟ ” وہ ایک بار پھر اس کے سامنے آگیا۔
” باہر تھی۔“ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
“مہرین یہ گھر ہے میرا کوئى ہوٹل نہیں جب دل چاہا منہ اٹھا کر نکل گئے جب چاہا واپس آگئے۔” اس نے غصے سے مہرین کے چہرے کو دیکھا۔
” تم اب حد سے بڑھ رہے ہو۔ تمیز کے دائرے میں رہو۔” مہرین سے بھی عاشر کا تلخ لہجہ برداشت نہیں ہوا۔
“تمیز سے ہی بات کر رہا ہوں میں اب تک۔ ورنہ آپ جیسی عورت کو تو میں ایک سیکنڈ بھی برداشت نہ کروں۔” اس نے انگلی اٹھا کر کہا۔ وہ مزید کچھ بولے بغیر وہاں سے چلی گئی اور عاشر پیر پٹخ کر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔
**********
وہ شام کی چاۓ پی رہا تھا جب اس کے فون پر شیزہ کی کال آئی۔ وہ اس سے بات کرنے کے لئے لان میں آگیا۔ مہرین لان میں بیٹھی کوئی ناول پڑھ رہی تھی مگر عاشر کو آتا دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
“ہاں ٹھیک ہے شیزہ جو بھی مسئلہ ہو تم کل میرے پاس وہ فائل لے کر آجانا۔” مہرین نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بس اتنا سنا تھا۔ مہرین کا دل بوجھل ہونے لگا اور وہ غم سے نڈھال ہو کر اپنے وجود میں کمی محسوس کر رہی تھی۔ وہ آج کل دن رات شیزہ کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا۔ یہ بات وہ جان چکی تھی کے شیزہ اس کی زندگی میں واپس آگئی ہے۔ عاشر مہرین سے اور بدظن ہونے لگا تھا اور دوریاں اتنی بڑھ چکی تھیں کے ان دونوں کے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔
مہرین جان گئی تھی کے عاشر کی زندگی شیزہ ہے۔ وہ اس کی زندگی کا حاصل ہے۔ زبردستی کئے گئے رشتے کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتے یہ بات وہ جان چکی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کے وہ عاشر سے خود کہہ دے گی کے وہ شیزہ کو اپنا لے اور اس سے شادی کر لے۔ جہاں خوشیاں نہ ملیں وہاں خوشیاں ڈھونڈی جاتی ہیں۔
*******
مہرین نے ایک مندر کا sculpture بنایا تھا۔ مگر اس میں کوئی بھی چیز نفاست اور خوبصورتی اجاگر نہیں کر رہی تھی اس لئے اس دن شام کو اس نے زریاب کو اپنے گھر چائے پر دعوت دی۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے زریاب کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈور بیل بجتے ہی وہ دوڑ کر دروازہ کھولنے گئ۔ زریاب کو پا کر اس نے بہت گرم جوشی اور محبت بھرے انداز میں اس کا استقبال کیا۔
”کیا حال ہیں جناب؟“ زریاب نے ایک بہت ہی حسين اور خوشبودار گل دستہ مہرین کو تھماتے ہوئے کہا۔ مہرین نے اس سے وہ گل دستہ لیا اور پھر اس کی خوشبو کو اپنے اندر محسوس کیا۔ اس نے زریاب کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ زریاب کافی حیرانی سے چاروں سمت اس کے گھر کی سجاوٹ کو دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ عاشر کا گھر ہے۔ کہاں تو وہ بابا جان کے ٹکڑوں اور مہرین کی نفرتوں میں پلا بڑھا تھا اور کہاں اب وہ اتنے بڑے گھر کا مالک بن گیا ہے۔
”چائے۔“ مہرین نے کپ زریاب کو تھماتے ہوئے کہا۔
” تم اور چائے بنانے لگی ہو؟ interesting “ زریاب نے مذاقیہ کہا۔
” کیوں میں نہیں بنا سکتی کیا؟“ زریاب کی بات پر وہ غصہ ہو گئی۔ زریاب کی تو ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
” مذاق کر رہا ہوں نا۔“ اس نے بات پلٹتے ہوئے کہا۔
”یار میں نے sculpture بنایا ہے مگر اس میں کوئی چیز خوبصورتی نمایاں نہیں کر رہی۔ یہ میں نے ایک مندر بنایا ہے مگر دیکھو اس کی دیواریں ٹیرھی ہیں اور سارا کا سارا sculpture ہی بے کار ہے۔“ اس نے سامنے رکھے مٹی سے بنے مندر کی طرف اشارہ کیا۔زریاب نے آگے بڑھ کر اس کے sculpture کو غور سے دیکھا۔ مہرین بلکل ٹھیک تھی اتنے سالوں اس نے پریکٹس نہ کرکے غلطی کی تھی۔ اور اب یوں دوبارہ کام شروع کرنا اس کے لیئے دشوار ہو رہا تھا۔
”میرے خیال سے تمہيں پریکٹس کی شدید ضرورت ہے۔ اور کس طرح کس حساب سے ہر چیز کو بنانا ہے یہ بھی سیکھنا ہے۔“ اس کے کام میں خامیاں نکالتے ہوئے وہ بولا۔
”میں نے تم سے کہا تھا نا زریاب مجھ سے نہیں ہو گا یہ سب۔“ اس نے افسردگی سے سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔
”ارے! ہوجائے گا تم کل میرے اسٹوڈیو آنا میں تمہیں سکھا دوں گا۔“ اس نے مہرین کو تسلی دی تو وہ سکون کا سانس لے سکی۔
”چلو اب بتاؤ کہ کیا کرتی ہو سارا دن؟ انکل آنٹی سے بات ہوتی ہے؟“ زریاب نے مہرین سے دریافت کیا۔
”کچھ نہیں کرتی بس گھر کا کام اگر ہو تو کر لیتی ہوں ورنہ کوئی ٹی وی شو لگا لیتی ہو۔ ہاں بابا جان ماما جان ٹھیک ہیں۔ ہر روز فون آتا ہے ان کا۔” اس نے اپنا حال احوال زریاب کو بتایا۔ زریاب اس سے عاشر کے بارے ميں جاننا چاہتا تھا اور اس سے ارحم کے بارے میں بھی سوالات کرنا چاہ رہا تھا مگر اسے لگا تھا کہ یہ وقت ابھی نا مناسب ہے۔ ابھی مہرین اس سے بات کر ہی رہی تھی کہ اس کے فون پر ایک بار پھر کسی اجنبى نمبر سے کال آئى۔ اس نے نمبر دیکھا اور پھر فون واپس رکھ دیا۔
”اٹھا لو فون۔” زریاب نے تنگ آ کر کہا۔
”پتا نہیں کون منحوس مجھے پچھلے ایک مہینے سے فون کر رہا ہے۔ پتا نہیں لوگوں کے پاس اتنا فضول وقت کیسے آتا ہے۔“ وہ برہم ہو کر بولی۔
“تو سیدھا جا کر رپورٹ کروا دو یہ نمبر۔” زریاب نے اسے حل بتایا۔
”نہیں ایک نمبر کرواؤں گی تو دوسرے پر کال کرنا شروع ہو جائے گا وہ۔“
”چلو خیر اگنور کرو۔“ زریاب نے کہا پھر چائے پی کر وہ اٹھنے لگا تو مہرین نے اسے روک لیا۔
”مجھے تمہيں ایک چیز دیکھانی ہے آؤ میرے ساتھ۔“ اس نے زریاب کو اشارہ کرتے ہوئے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ لوگ مین ٹی وی لاؤنج کے بیچ میں کھڑے تھے۔
”یہ پینٹنگ یاد ہے تمہيں؟“ مہرین نے سامنے لگی پینٹنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ زریاب کچھ دیر تک گم سم کھڑا اس پینٹنگ کو یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر چند لمحوں بعد ہی اس کی یاداشت میں وہ دن آیا جب مہرین کی سالگرہ تھی اور اس دن صرف وہ مہرین اور شرمین تھے۔ مہرین بہت رو رہی تھی۔ اس کو چپ کراتے ہی اس نے یہ خوبصورت پینٹنگ اسے دی تھی جس پر وہ اس دن اس پینٹنگ پر فدا ہو گئی۔
” ہاں یاد ہے مجھے۔“ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر کہا اور پھر اپنے بازو بے تکلفی سے اس کے کندھے پر رکھ دیئے۔ پھر وہ دونوں اس دن کی باتیں یاد کرنے لگے ہی تھے کہ کسی نے اپنے قدم ٹی وی لاؤنج میں رکھے۔ زریاب اور مہرین نے سر اٹھا کر دیکھا تو عاشر سامنے کھڑے ہو کر ان دونوں کو بہت ہی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
زریاب نے عاشر کو دیکھ کر اپنا ہاتھ مہرین کے کندھے سے ہٹا دیا۔
”ارے عاشر! اتنے سالوں بعد ملاقات ہو رہی ہے۔“
گفتگو کا آغاز زریاب نے کیا۔
”اسلام وعليکم! زریاب کیسے ہیں آپ؟“ اس نے ایک زہر خندہ نظر مہرین کے چہرے پر ڈالی۔
”وعليکم السلام! میں ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ بھئی ماشاءاللہ بہت ترقی کر لی تم نے۔“ اس نے عاشر کو داد دی۔
”بس اللہ کا کرم ہے۔“ وہ بس اتنا کہہ سکا۔ مہرین اس کے چہرے کے رنگ کو سمجھ نہ سکی۔ وہ اس وقت کافی غصے میں لگ رہا تھا۔ مہرین نے اپنی نگاہیں دوسری سمت کر لیں۔
”ارے آؤ بیٹھو تھوڑی بات چیت کرتے ہیں۔“ زریاب کے لہجے میں اپنائیت تھی۔
“نہیں پھر کبھی آپ مہرین کو کمپنی دیں وہ دن رات آپ کے فراق میں پاگل رہتی ہیں۔” ایک چبتی ہوئی نظر اس نے مہرین کے چہرے پر ڈالی اور پھر وہاں سے چلا گیا۔ زریاب اس کی اس بات پر ایک دم شاک میں چلا گیا۔
”یہ اسے کیا ہوا ہے؟“ زریاب نے پوچھا۔
”پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے اسے۔“ مہرین نے شانے اچکا کر کہا جس پر زریاب ہنس دیا۔ زریاب کو عاشر کا لہجہ بہت توہین آمیز لگا تھا اس لیے وہ کوئى بہانہ بنا کر وہاں سے فرار ہو گیا۔ عاشر اپنے کمرے میں آتے ہی آگ کی طرح برس پڑا۔ اس کے تن من میں آگ لگ گئی تھی زریاب کا ہاتھ مہرین کے کندھے پر دیکھ کر اسے شدید غصہ آیا تھا۔
وہ کیوں غصہ ہو رہا تھا یہ بات وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ اس کے دماغ میں اس وقت شعلے اٹھ رہے تھے۔
“تو مہرین زریاب کے ساتھ انولو ہے؟” وہ خود سے کہنے لگا۔ خود پر جبر کرتے ہوئے اس نے سامنے رکھے گلاس کو اُٹھایا اور اس میں جگ سے پانی ڈال کر پیا۔ کچھ دیر کے لئے وہ ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ پھر اس نے اپنی کیفیت پر غور کیا۔ آخر کیوں وہ اس طرح محسوس کر رہا تھا۔ پہلے بھی تو ہمیشہ مہرین یوں ہی زریاب کے ساتھ ہوا کرتی تھی مگر آج کیوں اسے زریاب کے اتنا قريب دیکھ کر وہ یوں بھڑک اٹھا۔ اس نے اپنا سر جھٹکا اور پھر لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگا۔
مہرین کو عاشر کی بدتمیزی سخت ناگوار گزری تھی۔ اسے عاشر سے اس قدر بد لحاظی اور بدتمیزی کی توقع نہیں تھی۔
******†* *
زریاب اپنے سارے اسٹوڈنٹس کو لے کر ایک خوبصورت سے گارڈن میں آیا تھا۔ وہاں پر پھولوں اور پرندوں کی آوازوں نے زریاب کے پریشان ذہن کو سکون ديا تھا۔ باقی سارے اسٹوڈنٹس ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ مگر صرف عروسہ وہ واحد تھی جو سب سے الگ تھلگ کھڑے ہو کر زریاب کی طرف دیکھ رہی تھی۔ زریاب کو لگا تھا کہ یہ فقت اس کا وہم ہے کہ عروسہ اس کی طرف بار بار دیکھتی ہے مگر یہ وہم نہیں ایک حقیقت تھی کہ عروسہ اکثر خالی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی ہے۔ زریاب نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں چرا کر اپنا منہ موڑ لیا۔ وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔ اسے قریب آتا دیکھ کر عروسہ گھبراہٹ کا شکار ہو گئی۔ اس کو لگا اس کی دل کی دھڑکن بہت تیز ہورہی اور اس کا ذہن اس وقت کام نہیں کر پا رہا ہے۔
”آپ یہاں اکیلی کیوں ہیں؟“ زریاب نے اس کو اکیلا پا کر پوچھا وہ جو اپنا منہ پیچھے کری ہوئی تھی اس کی طرف دیکھنے لگی۔
”بس یوں ہی۔“ اس نے کندھے اچکا کر کہا۔ زریاب کو محسوس ہوا جیسے وہ غمگین ہے۔
” یوں ہی؟ کیا کسی نے آپ سے کچھ کہا ہے؟ “ اس کی پیشانی پر بل صاف نمایاں ہوئے۔
”آپ اتنا کچھ کہہ دیتے ہیں کہ کسی اور کو سنانے کا موقع نہیں ملتا۔“ اس نے لب بھینچ لیئے۔
”اور میں نے کب سنائی آپ کو؟ “ اس نے گھبرا کر کہا۔
”ہر وقت تو ڈانٹتے رہتے ہیں مجھے۔“ اس نے خفگی سے کہا تو زریاب کا دل پگھلنے لگا۔
”وہ آپ کے اپنے بھلے کے لیئے اگر آپ کو اتنا برا لگتا ہے تو نہیں کہوں گا اب کچھ۔“
“میں تو مذاق کر رہی تھی۔” اس نے بات کا رخ موڑنا چاہا۔ پھر ایک خاموشی کی لہر چھا گئی۔ عروسہ زریاب کی گہری نظروں میں جھانک کر دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ اسے اپنی طرح غم سے دوچار لگتا تھا۔ جب ان دونوں میں سے کوئى کچھ نہ بولا تو عروسہ نے بات کو آگے بڑھانا چاہا۔
”کچھ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ ان کی زندگى میں ہر چیز نارمل ہوتی ہے انہيں ہر چیز بنا مانگے مل جاتی ہے۔“ اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں واقعی رشک آتا ہے ان لوگوں پر۔ کیا تمہارى زندگى میں بھی کمی ہے؟“ اس نے آج پہلی بار عروسہ کو تم کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
”میری تو زندگى ہی نامکمل ہے شاید مجھ جیسے لوگ خوشیوں کے حقدار نہیں ہوتے۔“ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
” کیوں؟ اگر تم برا نہ مانو تو مجھ سے شیئر کر سکتی ہو۔“ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ دھیرے سے بولا تو عروسہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
” میں اکیلی ہوں بتاؤں کیوں؟ کیونکہ میرے ساتھ کوئی نہیں! سب کو کھو دیا میں نے۔” اس نے سرد لہجے میں کہا۔
“کیا؟ کیسے؟ آپ اکیلی کیوں ہیں؟ فیملی کہاں ہے آپ کی؟” اس نے سوال کیا۔
“میری پوری فیملی جرمنی ہوا کرتی تھی۔ ہم وہاں رہا کرتے تھے۔ میں وہیں پلی بڑی ہوں مگر یہاں اسلام آباد میں اکثر دادی سے ملنے آیا کرتی تھی۔ چند سال قبل پہلے جب میں یہاں آئی تو میں اپنی خالہ کے ہمراہ تھی اور میری باقی پوری فیملی جرمنی میں تھی۔ یہ ایک دن کا واقعہ تھا جب گھر پر فون آیا کہ وہاں کسی شہر پر حملہ ہوا ہے۔ اس میں میری سارى فیملی شامل تھی۔ میرا پورا ہستا بستا گھر اجڑ گیا اور میں رو بھی نہ سکی۔۔۔۔“ یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔
” آئى ایم سوری۔۔سو سوری that’s a tragedy“
زریاب نے افسوس سے کہا۔
” کوئى بات نہیں۔“ یہ بول کر اس نے اپنے آنسو پونچھے اور وہاں سے چلی گئی۔
******
آج رات اسے آفس میں بہت دیر ہوگئی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں نکل پا رہا تھا۔ اس نے بے حد کوشش کی تھی کے آفس کا کام نمٹا لے مگر اس کے باوجود کچھ فائلز ادھوری رہ گئی تھیں۔
“عاشر؟ میں اندر آجاؤں؟” شیزہ نے اسکے آفس کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہا۔
“آجاؤ شیزہ۔” اس نے سارا کام چھوڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
“مجھے یہ کام سمجھ نہیں آرہا پلیز آپ بتا دینگے؟” اس نے فائلز سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ وہ پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکا تھا مگر اب شیزہ کے اندر آتے ہی وہ رک گیا۔ وہ اسے منع بھی نہیں کر سکتا تھا۔ شیزہ کے ساتھ وقت بتا کر اسے سکون حاصل ہوتا تھا۔ وہ اس وقت وہ واحد ہستی تھی جسے دیکھ کر اس کے غم میں اضافہ نہیں ہوتا تھا۔
“ہاں آجاؤ بتا دیتا ہوں۔” اس نے اس کی رکھی ہوئی فائلکو اٹھا کر کہا۔
“شکریہ۔”
شیزہ کو وہ اب بدلہ ہوا لگا تھا۔ اس کی باتوں میں سنجیدگی تھی اور چہرے پر عجیب سی ناگواری جس سے ظاہر تھا کے وہ اپنی زندگی میں خوش نہیں ہے۔ اتنا تو شیزہ بھی جان گئی تھی کے بابا جان نے ضرور زبردستی عاشر کی شادی مہرین سے کروائی ہے ورنہ وہ دونوں تو ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے تھے۔ مہرین جیسی لڑکی سے شادی تو دور کی بات اس کے وجود تک سے عاشر کو نفرت تھی۔
“یہ اسے یہاں پر لگاؤ گی تو کوئی ایرر نہیں آئے گا۔” وہ اس کے قریب جھک کر اسے بتا رہا تھا۔ شیزہ فائل سے زیادہ عاشر کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہی خوبصورت بڑی آنکھیں، دھیما لہجہ اور اپنے حصار میں جکیڑ دینے والی خوشبو وہ کبھی نہیں بھولی تھی۔ وہ ٹک ٹک باندھی اسے دکھے جارہی تھی۔
“آگیا سمجھ؟” اس نے شیزہ سے دوسری بار پوچھا تو وہ چونک گئی۔
“جی آگیا سمجھ۔” اس نے سر ہلا کر کہا۔
“تھنکس اب میں چلتی ہوں۔” اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
“کیسے جاؤ گی؟ بہت دیر ہو چکی ہے؟” اس نے شیزہ سے تجسس سے پوچھا جس پر وہ گھبرا گئی۔
“میں خود چلی جاؤں گی کوئی cab بک کروا کر۔” اس نے بتانا چاہا۔ عاشر نے اس کے اس جواب پر پہلے تو اسے گھورا پھر گھڑی کو دیکھا جس میں رات کے بارہ بج رہے تھے۔
“میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔”
“نہیں میں چلی جاؤں گی۔” اس نے انکار کیا۔
“ارے اکیلے کیسے جاؤ گی؟ میں چھوڑ دیتا ہوں!” اس نے دوبارہ کہا تو اس نے جواب میں مجبورً سر ہلا دیا۔
*******
مہرین کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اسے بہت تیز بخار ہورہا تھا اور عجیب گھبراہٹ سے دوچار وہ لیٹ نہیں پا رہی تھی۔ بانو اس وقت گہری نیند سو رہی تھیں اس لئے انہیں لکھ جگانے پر بھی وہ نہیں اٹھ رہی تھیں۔
“بابا جان!” بے ساختہ اس کے لبوں سے چیخ نکلی تھی اور اس کا پورا بدن کمزوری کی وجہ سے کانپنے لگا۔ عاشر اب تک گھر نہیں لوٹا تھا اور بہت کال کرنے پر بھی اس نے کال نہیں اٹھائی۔ مہرین کو لگا جیسے وہ ابھی مر جائے گی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندیھرا چھانے لگا اور آخر کار جب اسے کچھ سمجھ نا آئی تو اس نے زریاب کو کال ملائی۔ اس وقت رات کے 11 بج رہے تھے مگر مہرین کی حالت ایسی نہ تھی کے وہ مزید اکیلے رہتی۔
“ہیلو! خیریت؟” زریاب نے فون اٹھاتے ہی پوچھا۔
“زریاب پلیز جلدی سے گھر آؤ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔” اس نے بہت ہی مشکل سے وہ جملے ادا کئیے۔ اس کی آواز سن کر زریاب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
“میں آرہا ہوں بس ابھی۔” وہ یہ کہہ کر مہرین کے گھر کے لئے روانہ ہوا۔ اس نے گھر میں رکھی ساری دوائیاں رکھیں اور نکل گیا۔
اس کے گھر پہنچتے ہی اس نے دروازہ پیٹا جس پر مہرین فوراً باہر آگئی۔ دروازہ کھولتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے اندیھرا چاھنے لگا۔ وہ ابھی لڑکھڑاتے ہوئے گرنے والی تھی جب زریاب آگے بڑھا۔
“مہرین!” اس نے ایک دم مہرین کو کندھے سے سہارا دیا اور پھر اسے پکڑ کر صوفے پر لٹایا۔ اس نے جلدی بخار کی دوا اسے دی اور پھر ایک چادر لا کر اسے اڑھائی۔ وہ اس کے قریب بیٹھا اس کے سر پر ٹھنڈی پٹیاں رکھ رہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد اس کا بخار کم ہوا تو مہرین نے آنکھیں کھولیں۔
“کیسی ہو اب؟ عاشر کہاں ہے اس وقت؟ یہ کونسا طریقہ ہے بیوی کو یوں اس حال میں چھوڑ کر خود باہر رہنا۔” زریاب برہم ہوا اسے اس وقت شدید غصہ آرہا تھا۔
“بابا جان۔” مہرین نے آہ بھر کر بس اتنا بولا تھا۔ وہ ابھی تک پٹیاں اس کے ماتھے پر لگا رہا تھا جب ایک دم دروازہ کھولا تھا اور عاشر اندر آیا۔ زریاب کو وہاں دیکھ کر اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اس نے غصے کے عالم میں اپنے دانتوں سے ہونٹوں کو دبایا۔
“عاشر یہاں آؤ!” زریاب نے تیکھے لہجے میں کہا۔
“جی خیریت آپ رات کے اس وقت یہاں؟” اس نے ایک چبتی نظر صوفہ پر پڑی مہرین پر ڈالی جس نے ابھی ابھی آنکھیں کھولی تھیں۔
“ہاں اس وقت یہاں اس لئے کیونکہ تمہارا بیوی اس وقت رات کو اکیلی تھی اور بخار میں پھک رہی تھی۔ اس نے مجھے بلایا ہے کیونکہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔” زریاب نے تلملا کر جواب دیا۔ عاشر کو زریاب کا لہجہ سخت ناگوار گزرا تھا۔ وہ رات کو اس وقت اس کی غیرموجودگی میں وہاں کیوں تھا۔
“ہاں آپ ہی تو ہیں ان کے خیرخواہ۔۔۔ ایک کام کیوں نہیں کرتے اپنے ساتھ ہی لے جائیں اپنی سابقہ محبوبہ کو ان کا بھی بہت دل ہے طلاق لینے کا۔” اس نے زہر خندہ لہجے میں زریاب کو کہا تو اس کا بھی پارہ ہائی ہوگیا۔
“یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟ شرم نہیں آرہی تمہیں اس طرح کی بات کہتے ہوئے؟ میں تو تمہیں بہت ہی سمجھدار اور سلجھا ہوا انسان سمجھتا تھا۔” اس نے غصے سے ہنکار بھرا۔
“ہاں یہی غلطی ہوئی ہے آپ سے کے آپ مجھے شریف سمجھ بیٹھے۔ ساری عمر جس نے زخم جھیلے ہوں، ہر مقام پر ذلت سے اٹھائی ہو، ہر چیز کو حاصل کرتے کرتے کھویا ہو اس شخص سے آپ شرافت اور سمجھداری کی امید رکھتے ہیں؟ جانتے ہیں آپ یہ مہرین قاتل ہیں میری خوشیوں کی! اگر یہ مر بھی جائیں تب بھی مجھے پروا نہیں ہے ان کی! اور ایک اور بات آیندہ میرے گھر آنے کی زحمت مت کرے گا۔ چاہیں تو اپنی محبوبہ کو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔” وہ کسی شعلے کیطرح برس پڑا۔ غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا وہ مزید کچھ اور کہے بغیر وہاں سے اوپر چلا گیا۔ زریاب کو لگا جیسے کسی نے اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسا انڈیل دیا ہو۔ کیا یہ وہی عاشر تھا جس کا سر ہمیشہ جھکا رہتا تھا؟ جس کے چہرے پر بے بسی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج وہ کس قدر بدلا ہوا عاشر لگ رہا تھا جس کے چہرے اور دل میں صرف نفرت کی آگ دہک رہی تھی۔
“زریاب تم اس وقت جاؤ یہاں سے میں بات کرتی ہوں اس سے۔” مہرین نے بہت مشکل سے صوفے کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔ زریاب نے ایک دکھ بھری نظر سے مہرین کو دیکھا۔
“یہ کس طرح کی باتیں کر رہا ہے؟ تم خاموش کیوں ہو؟ تم تو ایسی نہیں تھی؟” زریاب نے پریشانی سے اسے دیکھا تو وہ متفکر سی نچلا لب دانتوں تلے دبا گئی۔
“تم جاؤ ابھی پلیز!” اس نے روتے ہوئے اس سے التجا کی تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے اٹھ گیا۔ وہ بوجھل دل لئے وہاں سے نکل کر گیٹ سے باہر چلا گیا۔ مہرین اس کی باتوں کی تاب نہ لا سکی اور رونے لگی۔
عاشر اپنے کمرے میں بند تھا اس کے جسم میں ہر بات کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی۔ اسے یاد آیا وہ دن جس دن مہرین نے اس کے کردار پر انگلی اٹھائی تھی۔ سب کے سامنے اسے ذلیل کرنا چاہا تھا وہ گھٹیا الزام جس نے اس کا سر بابا جان کے سامنے جھکا دیا۔ وہ غصے میں اپنے ہاتھوں سے بالوں کو نوچنے لگا اور کمرے کی ہر چیز اٹھا کر توڑ ڈالی یہاں تک کے ہر پرفیوم کی شیشی زمین پر توڑ ڈالی۔
“میں نہیں برداشت کر سکتا انہیں! وہ کیا سمجھتی ہیں انتقام ختم ہوگیا؟” وہ زور سے چلایا تھا کے آواز پورے گھر میں گونجی تھی۔
ٹی وی لاؤنج کا دروازہ کھلا تھا وہ بہت تیز قدموں کے ساتھ اندر آیا۔
“واہ! میں آپ کو داد دیتا ہوں آپ کی جرات پر! تو اب طلاق لینے کے لئے اس حد تک گزر سکتی ہیں۔۔۔ کے اپنے پرانے عاشق کے ساتھ افیئر چلائیں۔ لگتا ہے بہت شوق ہے آپ کو طلاق کے بعد شادیاں رچانے کا۔” وہ بہت ہی بے رحمی سے اس کے نازک دل کے ٹکڑے کر رہا تھا۔
“تم ہوش میں ہو عاشر؟ یہ کس قسم کا گھٹیا الزام لگا رہے ہو تم مجھ پر!” مہرین سے رہا نہ گیا اور وہ اپنے حق میں بول پڑی۔
“تو میں نے کچھ غلط کہا ہے کیا؟ کیوں چوٹ لگ رہی ہے سچائی کا سامنا کریں۔۔۔ بولیں کیا وہ آج بھی آپ سے عشق نہیں کرتا؟ کیا آپ دونوں اکیلے ایک ساتھ نہیں ہوتے؟” وہ لفظوں کی گولہ باری مہرین کے کردار پر کر رہا تھا۔
“تم بچپن سے جانتے ہو میرا اور اس کا رشتہ مگر پھر بھی تم میرے کردار پر الزام لگا رہے ہو؟” وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی اور رونے لگی۔
“مہرین الزام اور میں؟ یہ میرا نہیں آپ کا شیوا ہے دوسروں کے کردار پر کیچڑ اچھالنا انہیں بے عزت کرنا یہ میں نے آپ سے ہی سیکھا ہے مگر فرق بس اتنا ہے کے میں بہتان نہیں لگتا اور آپ؟ آپ کا تو کام ہی بہتان لگانا ہے۔” وہ ایک کے بعد دوسرا تیر اس کے دل میں پیوست کر رہا تھا۔
“جایئے جا کر دیں اپنے وجود کی گواہی بابا جان کو۔ آپ جیسی بد کردار عورت کو میں اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتا۔” اس نے مہرین کے صبر کی آزمائش لی تھی۔
“بس عاشر! ایک لفظ اور نہیں! بہت سن لی میں نے! مگر تم بھی سنتے جاؤ کے مہرین حسن دنیا کا ہر گناہ کا دعوا کر سکتی ہے مگر بدکرداری تو دور دور تک مجھے چھو کر نہیں گزر سکتی۔ میں سمجھی تھی کے شاید اپنا سب کچھ کھو کرمیں تمہیں حاصل کروں گی مگر تم نے تو مجھ سے میری زندگی جینے کا سکون ہی چھین لیا۔ میں خود آج ابھی یہاں سے جارہی ہوں ہمیشہ کے لئے تمہاری زندگی سے دور۔۔۔۔ تمہیں تمہاری زندگی مبارک ہو۔” وہ یہ کہتے ہوے آگے بڑھی تو وہ یہی بول سکا۔
“شوق سے جائیے اور بہت احسان ہوگا کے واپس کبھی یہاں قدم نہ رکھے گا۔” اس نے دانتوں سے ہونٹوں کو دبا کر زور سے کہا۔
اس کی اس بات پر اسے محسوس ہوا تھا کے جیسے کسی نے اس کے دل کو پیروں تلے روند دیا ہو۔ وہ اس قدر سنگ دل ہوسکتا ہے اسے اندازہ نہیں تھا۔ وہ رات کے اس اندھیرے میں کہا جائے گی کیسے جائے گی عاشر کو اتنی بھی پروا نہیں تھی۔ وہ بخار سے نڈھال ہورہی تھی اور اس حالت میں وہ اسے اپنی زندگی سے الگ کر رہا تھا۔ اس نے کبھی کسی سے بھیک نہیں مانگی تو آج وہ کیوں اس سے رحم کی بھیک مانگتی اب بات بہت آگے بڑھ چکی تھی بات اب انا کی تھی۔ اس نے سارا سامان نکالا اور جلد ہی پیکنگ کر کے اس نے زریاب کو کال ملائی۔
“ہیلو کیا ہوا مہرین؟” وہ ابھی ڈرائیو کر کے تھوڑا ہی آگے گیا تھا۔
“زریاب!” وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
“مہرین کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟” زریاب نے گھبرا کر پوچھا۔
“میں اپنے گھر کے باہر کھڑی ہوں پلیز مجھے لینے آجاؤ ابھی۔” اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ آگے اس نے کوئی بات نہیں کی اور فون بند کردیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...