ارے بھئی افطار کا وقت ہورہا ہے کہاں ہیں سب کے سب ؟؟؟؟
داجی نے کلائی میں بندھی قدیم گھڑی کی جانب دیکھ کر فکر مندی سے ہانک لگائی ۔۔۔۔
"بس اباجی سب تیار ہے صغراں جلدی جلدی لاکر رکھو ۔۔۔”
مائرہ( مدثر کی بیوی) نے بوکھلاتے ہوئے بیک وقت داجی اور ملازمہ سے کہا :
سلام داجی !!!
سب سے بڑے منیر احمد نے ڈائنگ ہال میں قدم رکھ کر با آوازِ بلند سلام کیا …
وعلیکم سلام معیز اور ریحان کدھر ہیں ؟؟؟
"داجی وہ آہی رہے ہیں نماز عصر ادا کررہے تھے ۔۔۔۔”
حد ہوتی ہے لاپرواہی کی عصر کا قضا وقت شروع ہورہا ہے اور اب ادا کررہا ہے کون سے اتنے اہم کام تھے اس کے جسے نپٹاتے اسے نماز کا خیال نہیں رہا ؟؟؟
داجی شروع سے ہی نماز کے پابند تھے اور سب گھر والوں کو نماز پرھنے کی تاکید کرنا ان کا اہم فریضہ تھا ۔۔۔ بیٹے اور بہو تو خاصے فرمانبردار ثابت ہوئے تھے لیکن ان کی اولادیں اتنی ہی نماز کی چور تھیں ۔۔۔
سلام داجی !!!
"وعلیکم سلام وہیں کھڑے رہو دونوں ۔۔۔۔”
داجی کے غضب ناکی سے کہنے پر وہ دونوں ایک دوسرےکی شکل دیکھنے لگے۔۔۔۔
"کیوں داجی ہم سے کون سا گناہ سرزد ہوگیا جس کی سزا میں آپ نے ہمیں ڈائنگ ٹیبل سے دور کردیا ۔۔۔۔ ”
ریحان نے مختلف افسام کی اشیاء خردو نوش ٹیبل پر رکھی دیکھ کر ندیدے پن سے کہا ؛
"منہ بند کرو ریحان دیکھ نہیں رہے داجی کتنے غصہ میں ہیں ۔۔”
معیز جس کا مزاج صلح پسند تھا تین سال بڑھا ہونے کا رعب جماتا اسے تنبیہہ کرنے لگا۔۔۔۔
"کوئی نئی بات بتاو جانی!!! داجی کب غصہ میں نہیں ہوتے ۔۔”
ریحان نے گویا ناک سے مکھی اڑائی ۔۔۔
تم دونوں اپنی چونچیں بعد میں لڑانا پہلے جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو ۔۔۔؟
داجی نے دونوں کو کھسر پھسر کرتے دیکھا تو گھرکنے لگے :
"جی داجی ہم ہمہ تن گوش ہیں فرمائیے ۔۔۔”
ریحان نے چہرہ ترچھا کر کے معیز کو انکھ مارتے ہوئے بھرپور سنجیدگی سے کہا :
ایسا کون سا کام آن پڑا تھا جو تم نے نماز عصر ادا کرنے میں کوتاہی کی ۔۔۔؟
دونوں نے گھور کر منیر احمد کو دیکھا جو ایسے ظاہر کررہا تھا جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو ۔۔۔
"گدھوں اُسے کیا دیکھ رہے ہو مجھے دیکھ کر جواب دو ۔۔۔”
"داجی روز ہی وقت پر ادا کرتے ہیں آج روزہ لگ رہا تھا اسی لئے خاصی تاخیر ہوئی پڑھنے میں ۔۔۔”
ریحان کی بجائے جواب معیز کی جانب سے آیا تھا نرم لہجہ جس میں احترام کا عنصر پہناں تھا ۔۔۔۔
"چلو بیٹھ جاو آئندہ خیال رکھنا ۔۔۔”
داجی نے کہا تو دونوں اپنی اپنی کرسی پر جا بیٹھے ۔۔۔ یکے بعد دیگرے فرد بھی اپنی اپنی کرسی پہ براجمان ہوئے۔۔۔۔
ہارن کی آواز پر افطار کی گئی پھر نماز مغرب کیلئے مسجد کا رخ کیا ۔۔ یوں بیس واں روزہ باخیریت اپنے اختتام کو پہنچا ۔۔۔۔
"ہم لڑکیوں کو اکیس توپوں کی سلامی دینی چاہیئے روزانہ!!! قسم سے یار برتن دھونا بھی کسی بارڈر پر حملہ کرنے سے کم نہیں ہے ۔۔۔ اس وقت ہاتھ پاوں ایسے ڈھیلے ہورہے ہوتے ہیں جیسے نجانے کتنے ہل جوت کر تھک گئے ہو۔۔۔۔ ”
رابعہ کی برتن کی اٹخ پٹخ کے ساتھ آہ و بقا بھی عروج پر تھی ۔۔۔۔
"افففف ایک دن کے بعد کی باری ہے تمہاری اس میں بھی تم رونا ڈالتی ہو ۔۔۔۔”
عروج نے اس کی آہ و بقا پر گھور کر کہا ؛
"یار بھئی مجھ سے نہیں ہوتے آج بھی تم دھولو میں چائے بنادیتی ہوں قسم سے ایسا لگ رہا ہے جیسے ابھئ چکر اجائیں گے ۔۔۔۔”
وہ نل۔بند کرکے سر تھام کر اسٹول پر جا بیٹھی ۔۔۔
"ٹھیک ہے میں کردیتی ہوں لیکن اگلے دو دن تم یہ برتن دھو گی ۔۔۔”
عروج نے احسان کرنے والے انداز میں کہا ۔۔۔۔
"ہاں ٹھیک ہے ابھی تو دھو دو ۔۔۔”
عروج برتن دھونے کھڑی ہوئی تو رابعہ مطمئن سی دبے قدموں کچن سے نکل گئی ۔۔۔
رابعہ داجی کے بڑے بیٹے مدثر احمد کی دوسرے نمبر کی بیٹئ تھی منیر آحمد پہلا بیٹا اور گھر کا بڑا بیٹا خاصہ سنجیدہ مذاج شخصیت کا حامل تھا ۔۔۔۔۔
داجی کے دوسرے بیٹے موحد احمد جن کے دو بیٹے ریحان اور معیز تھے ۔۔۔۔
تیسرے نمبر پر آتی ہے ان کی بیٹی جو کہ دادو میں اپنے تین بچوں سمیت سسرال میں رہتیں تھیں
سب میں چھوٹے بیٹے منور احمد کی ایک صاحبزادی عروج تھیں جو کہ امن پسند اور سیدھی سادھی واقع ہوئی تھی ۔۔۔۔
رابعہ اس سے کئی سال بڑی تھی لیکن دونوں کی دوستی نے اس فرق کو ختم کردیا تھا ۔۔۔۔
یہ نوک جھوک تو آئے دن کی بات تھی۔۔۔۔۔
عروج چائے کی ٹرے لئے لاونج میں آئی جہاں سب افراد بیٹھے رمضان ٹرانمشن دیکھنے کے ساتھ ساتھ بچی ہوئی افطاری سے انصاف کرنے لگے ۔۔۔
‘منیر کل تم اسٹیشن چلے جانا سمیرا آرہی ہے ۔۔۔۔’
داجی نے چائے کا سپ لیتے منیر سے کہا جس کے چہرے کا رنگ یکلخت تبدیل ہوا جبکہ ریحان ، معیز ، اور رابعہ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ در آئی ۔۔۔ جو منیر کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکی ۔۔۔
یاہو !!!! پھپو آرہی ہیں اور کون کون آرہا ہے ؟؟؟
عروج کی بے صبری پر داجی مسکرائے ۔۔۔
"سب ہی آرہے ہیں شاہد اور سمیرا کا آنے کا مقصد دوسرا بھی ہے ۔۔۔”
انہوں نے منیر اور مدثر کو بیک وقت مخاطب کرکے کہا :
"جی ابا جی سمیرا سے میری کل ہی بات ہوئی تھی اس نے آنے کا مقصد واضح کیا ہے ۔۔۔۔”
"اچھی بات ہے تم باپ ہو منیر کے اور ویسے بھی جتنی جلدی ہو اس نیک کام میں دیری نہیں کرنی چاہیئے۔۔۔۔”
داجی کی بات پر مدثر نے ان کی تائید کی ۔۔۔۔
ہاں بھئی برخوردا تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے ؟؟
داجی کے براہ راست پوچھنے پر وہ گڑبڑا گیا ۔۔۔۔
اگر میں اعتراض کروں تو کیا گارنٹی ہے کہ میری اعتراض کو خاطر میں لایا جائے گا ؟؟؟
وہ کبھی اتنا گستاخ نہیں ہوا تھا نجانے کیوں اس لمحے وہ بھول گیا کہ یہ بات داجی کیلئے کتنی حساس ثابت ہوسکتی ہے ۔۔۔
منیر یہ کس انداز میں بات کی ہے تم نے اباجی سے ؟؟؟
مدثر کو بیٹے کا لہجہ ناگوار گزرا ۔۔۔
ماحول کی سگینی کو محسوس کرکے ینگ پارٹی بنا آہٹ کئے وہاں سے کھسکنے لگی ۔۔۔ ظاہری بات تھی پتلی گردن تو ان میں سے کسی کی ہی ہونی تھئ جسے دبانے میں لمحہ نہ لگنا تھا۔۔۔۔
"میں معافی چاہتا ہوں بابا جان لیکن میں اس رشتے کے حق میں نہیں ہوں مجھے تو رہ رہ کر افسوس ہورہا ہے ویل یجوکیٹڈ ہونے کہ باوجود سطحی نظریہ کو اپنائے ہوئے ہیں آپ لوگ ۔۔۔۔”
ہاں اب تم ہمیں بتاو گے کہ تم ہم سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو اپنے پاس رکھو یہ فلسفہ اور ناپسندیدگی کی وجہ بتاو ؟؟؟
مدثر کا لہجہ کسی بھی نرمی سے عاری تھا ۔۔۔۔
وہ انتہائی اکھڑ اور بد اخلاق لڑکی ہے میرا اس کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے بابا !!!
منیر کے احتجاج پر داجی نے اسے گہری نظروں سے دیکھا اور پھر یک دم ہی مسکرا دیئے ۔۔۔
موحد اور منور نے بھی ہنستے ہوئے سر جھٹکا ۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ منیر نے خفگی سے ان سب کو دیکھا اور اٹھ کر چل پڑا ۔۔۔
"میں تو اسے سمجھدار اور پروقار سمجھتا تھا کیا بودی دلیل دی ہے اس نے ۔۔۔۔ ”
داجی کے ہسنے پر مدثر کا چہرہ مطمئن نظر آنے لگا ورنہ بیٹے کی بدتمیزی پر وہ بھی گھبرا گئے تھے داجی کی طبعیت پہلے ہی ٹھیک نہیں رہتی وہ تو مضبوط اعصاب کے مالک تھے کہ دل کے مرض کے باوجود وہ رمضان کے روزے رکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
بارہا مدثر نے انھیں سمجھایا بھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان کا ایک روزہ بھی بلاعذر شرعی ( سفر اور مرض کے بغیر ) پھر مدت العمر اس کی تلافی کے روزے رکھے ، تب بھی ایک روزے کی کمی پوری نہ ہوگی ۔۔۔۔ ”
"بے شک ابا جی لیکن آپ دل کے مریض ہیں آپ کو دوائیں بھی کھانی ہوتی ہیں ۔۔۔”
مدثر نے دوسرا مدعہ ان کے سامنے رکھا جس پر وہ سر جھٹک گئے ۔۔۔۔
"ارے چھوڑو میاں زندگی اور موت دینے والا رب ہے یہ دوائیں تو محض اسباب کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ جتنی زندگی بچی ہے اللہ کیلئے وقف کردوں ۔۔۔ کیا پتا کب حیات کا سورج ڈوب جائے اور میں خالی ہاتھ رہ جاوں ۔۔۔۔”
مدثر احمد نے خاموشی اختیار کرلی تھی جانتا تھا کہ باپ کے دلائل کے اگے اس کی بات بے معنی ہے ۔۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
میں اندر آسکتا ہوں ؟؟؟؟
وہ سیگریٹ کے کش لے کر دھواں ہوا میں تحلیل کررہا تھا نزدیک رکھا مخصوص چائے کا مگ ٹھنڈا ہوچکا تھا ایسا تب ہی ہوتا تھا جب وہ کسی گہری پریشانی میں مبتلا ہو ۔۔۔۔۔۔
اندر آکر اجازت لینے کا کیا مقصد بھلا ۔۔ ؟
منیر نے اس کے کمرے کی چھوکھٹ سے دس قدم اندر کھڑے ہونے پر چوٹ کی ۔۔۔۔۔
"اپنا اپنا اسٹائل ہے منیر جانی ۔۔۔”
ریحان نے آنکھیں نچاتے ہوئے کہا :
"ویسے یار مدحت باجی اتنی بری بھی نہین ہے جتنا تمہارا ریکشن سامنے آیا ہے ۔۔۔۔۔۔”
ریحان کی بات پر منیر نے سپاٹ نگاہوں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
"اوہ تو تم یہاں اپنی باجی کی حمایت کیلئے آئے ہو گڈ ۔۔۔”
کہہ سکتے ہو لیکن میں یہاں آپ کیلئے بھی آیا ہوں ؟؟
"تمہاری بات سے لگ تو نہیں رہا ۔۔۔ ”
خیر کہو کیا کہنے آئے ہو ؟؟؟
"آپ نہیں جانا چاہتے اسٹیشن تو میں چلا جاتا ہوں ۔۔۔”
منیر ایش ٹرے میں سگریٹ مسل کر سیدھا ہوا اور اس کی بات پر بغور اس کا چہرہ دیکھا۔۔۔۔
اور تمھیں ایسا کیوں لگا کہ میں نہیں جارہا ؟؟؟
گھنی ابرو تلے سیاہ آنکھیں کسی احساس سے چمکیں ۔۔۔۔
"لو تو آپ نے ہی تو برا ملا ان کی آمد پر ناگواری کا اظہار کیا تھا ۔۔۔۔۔”
"تصیح کرلو ریحان احمد ان کی آمد پر نہیں صرف اس رشتے پر ۔۔۔”
منیر نے چائے کے مگ کو ہاتھ لگا اس کا درجہ حرارت محسوس کیا جو نا ہونے کہ برابر تھا۔۔۔
تو کیا آپ جاو گے ۔۔۔؟
ریحان کے چہرے کی چمک مانند پڑگئی۔۔۔
"ہاں ظاہری بات ہے مدحت سے کتنے ہی اختلافات سہی پھپو سے تو پیار ہے نہ ۔۔۔”
"ہممم صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔۔”
پہلے والی گرم جوشی مقصود تھی اب کہ ؛
لیکن تم بھی چل سکتے ہو لیکن ایک شرط پر ؟؟؟
کیا واقعی ؟؟؟
ہاں بلکل اپنے جانے کا مقصد بتاو ا
"اس کے بعد ہی تم جاسکتے ہو ۔۔۔”
منیر نے ٹچ موبائل کا اسکرین لاک کھولتے ہوئے کہا :
"پھپو کی وجہ سے ۔۔۔۔”
ریحان نے ارد گرد دیکھتے کہا :
"نہیں جانا چاہتے تو مرضی ہے تمہاری ۔۔۔۔”
منیر نے ابرو اچکا کر کہا تو ریحان نے گھور کر اسے دیکھا ؛
"آپ پاپا کو تو نہیں بتائیں گے دیکھیں میں اپنا راز بتارہا ہوں اپکو۔۔۔۔۔”
"بے فکر رہو کسی کو کچھ نہیں بتاوں گا ۔۔۔”
منیر کی بات پر وہ مطمئن سا اسے بتانے لگا۔۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح کا سورج طلوع ہوا تو گھر کے مکین بھی نیند سے بیدار ہوئے چونکہ رات کے تہائی حصہ میں وہ لوگ ٹرین میں بیٹھے تھے تو صبح گیارہ بجے تک اسٹیشن پر ٹرین کو آنا تھا ۔۔۔۔
پھپو کی آمد کی خوشی میں سب ہی جلدی آٹھ کر گھر کے کام نبٹانے لگے ۔۔۔۔۔
"بھائی ایسا لگ رہا ہے آدھا شہر یہاں اگیا ہو رش دیکھیں ذرا ۔۔۔”
ریحان نے آتے جاتے سامان سے لدے پھندے مسافروں کو دیکھا جنھیں اپنے پیاروں سے ملنے کا تجسس اور خوشی جلد بازی کرنے پر مجبور کررہی تھی ۔۔۔
بھائی وہ رہیں پھپھو !!!
ریحان کی نظر پڑی تو استیاق کے مارے چیخ اٹھا۔۔۔
"دھیرے بولو لڑکے بغل میں ہی کھڑا ہوں ۔۔۔”
وہ ریحان کو کہنے کے ساتھ بڑے بڑے قدم اٹھا کر ان کے ڈبے کی جانب پہنچا جہاں سے وہ اپنا سفری بیگ اتار کر زمین پر رکھ رہے تھے ۔۔۔
"واہ آپی یہ منیر بھیا ہیں کتنے اسٹائلش اور ہینڈ سم ۔۔۔۔۔”
نجمہ کے مائل ہونے والے انداز پر مدحت نے گردن گھما کر دیکھا :
آنکھوں پہ براوں شیڈڈ لگائے چال میں شان بے نیازی نفاست سے سیٹ کئے بال تھوڑی کے اطراف میں ہلکی ہلکی گھنی داڑھی اس کی شخصیت میں چار چاند لگا گئی۔۔۔۔۔
منیر کا ہر اٹھتا قدم مدحت کو اپنے دل پر پڑا محسوس ہوا۔۔۔ وہ اس کی مردانہ وجاہت میں کھو گئی۔۔
ارے مدحت باجی کہاں کھوگئیں؟؟؟
ریحان سب سے مل کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔
"آں ہاں یہیں ہوں واہ بھئی لڑکے ترقی شرقی کرلی ۔۔۔۔”
مدحت کی باریک آواز پر منیر نے نگاہ کی نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔
سفید رنگت جو سورج کی ٹمٹماہٹ سے سرخ ہوئے جارہی تھی کمر تک لہراتے بالوں میں اٹکا گلاسس وہ سادہ تھی لیکن تیکھے نقوش اس کی خوبصورتی کو نمایاں کئے دے رہے تھے ۔ سر پر ڈوپٹہ۔ جو پھسل پھسل جاتا اسے بار بار ٹھیک کرتی ہوئی وہ خاصی الجھی ہوئی نظر آئی۔۔۔ ۔۔
حد ہوتی ہے پبلک پلیس پر اتنی بے احتیاطی منیر کی سوچوں میں ناگواریت در آئی ۔۔۔۔
وہ بڑی خوبصورتی سے اپنی نگاہوں کا زاویہ بدل گیا ۔۔۔۔
حال احوال پوچھنے کے بعد وہ لوگ پراڈو میں بیٹھ کر گھر کی طرف رخت سفر ہوئے ۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...