مبارکہ کی ایک سہیلی یہیں جرمنی میں مقیم ہے۔ ایک بار مبارکہ سے کہنے لگی یہاں اتنے اچھے اور سستے ریڈیو ملتے ہیں میرا جی کرتا تھا ایک دو سیٹ لے کر پاکستان بھجوا دوں لیکن پھر یہ سوچ کر رُک گئی کہ یہاںکے ریڈیو سیٹ پر جرمن زبان کے پروگرام آتے ہیں ۔ پاکستان والے تو انہیں سمجھ ہی نہیں سکیں گے۔ بظاہر یہ لطیفہ سا لگتا ہے لیکن میں اسے انسانی معصومیت اور بھولپن سمجھتا ہوں ۔ ’’سلطانہ مہر کے دس سوالوں کے جواب‘‘۔کتاب انٹرویوز ،سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نذر خلیق:’’ میری محبتیں‘‘ آپ کے خاکوں کا مجموعہ ہے اس کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے افسانہ نگار حیدر قریشی کوئی اور ہے اور خاکہ نگار حیدر قریشی کوئی اور ہے یہاں آپ کا اسلوب افسانوی اسلوب سے بالکل مختلف ہے ایسا کیوں ہے ؟
حیدر قریشی:اس سوال کا جواب دو جمع دو چار کی طرح تو نہیں دے سکتا۔اس کے جواب کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں ایسے پہلو بھی جو ایک دوسرے سے متصادم ہوں۔آپ کے سوال کے بعد غور کرتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ میری بالکل ابتدائی کہانی مامتا اور اب تک کی آخری کہانی مسکراہٹ کا عکس ،یہ دونوں کہانیاں براہِ راست ہمارے گھر کی کہانیاں ہیں۔ مامتا میں ،میں نے اپنی بیوی کے دکھ کو محسوس کیا تھا اور اس کی کہانی کو خود میں محسوس کرکے لکھا تھا۔ادبی زندگی میں یہ پہلی کہانی تھی جسے لکھنے کے بعد میں سچ مچ رویا تھا۔دوسری کہانی خود میرا اپنا نفسی تجربہ تھا جو یہاں جرمنی میں مجھے پیش آیا۔اسے آپ سوتی جاگتی حالت کا تجربہ کہہ سکتے ہیں۔اس تجربہ کے دوران مجھے جو کچھ پیش آیا وہی کچھ مجھے اس کہانی کو لکھنے کے بعد پیش آیا۔یعنی میں جی بھر کر رویا۔تو میرے بھائی میری کہانیوں میں تو میری زندگی کے کئی کردار آئے ہیں۔خاکہ نگاری اور افسانے کی اپنی اپنی حدود ہیں۔لیکن مسکراہٹ کا عکس میں تو جیسے یہ حدود ایک دوسرے سے مل گئی ہیں۔
’’انٹرنیٹ کے ذریعے مکالمہ‘‘۔کتاب انٹرویوز ،سے اقتباس
سوال:پہلا افسانہ کونسا تھا؟
جواب:اوراق لاہور کے خاص نمبر(اوراق کے پینتیس سال)،شمارہ جنوری،فروری ۲۰۰۰ء کے صفحہ نمبر ۲۷۲پر میرے پہلے افسانے کی اشاعت کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ شمارہ وہاں سے کسی طرح حاصل کریں۔ مزے کی کہانی درج ہے۔اوراق کا مذکورہ اقتباس یہاں درج کر رہا ہوں:
’’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ۱۹۷۹ء کے آخری شمارہ کے ذریعے میری’’اوراق‘‘میں انٹری ہوئی تھی۔ میری غزل اوراق میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔غزل کا مطلع تھا:
اک یاد کا منظر سا خلاؤں پہ لکھا تھا
جب ٹوٹتے تاروں سے کوئی جھانک رہا تھا
پھر میرے نام سے میرا پہلا افسانہ’’مامتا‘‘اوراق کے ۱۹۸۰ء کے پہلے شمارہ میں شائع ہوا۔یوں یہ میرا پہلا افسانہ ہوا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے میں افسانہ ’’اندھی روشنی‘‘ لکھ چکا تھااور یہ افسانہ’’جدید ادب ‘‘خانپورکے ۱۹۷۸ء کے کسی شمارہ میں اپنی بیوی(مبارکہ شوکت)کے نام سے چھاپ چکا تھا۔تب رشید امجد اور بعض دیگر جدید افسانہ نگاروں نے چونکتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ مبارکہ شوکت کون ہیں؟،تو مجھے اپنے افسانہ لکھنے پر اعتماد سا ہونے لگا۔چنانچہ میں نے افسانہ ’’مامتا‘‘ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ ڈاکٹر انور سدید کو بھیجا۔ڈاکٹر انور سدید کے ساتھ وہ افسانہ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی دیکھ لیا اور وہ افسانہ میرے نام سے چھپنے والا میرا پہلا افسانہ ’’اوراق‘‘ کے ۱۹۸۰ء کے پہلے شمارہ میں شائع ہو گیا‘‘(تاثرات بعنوان ’’اوراق اور میں‘‘مطبوعہ اوراق لاہور،پینتیس سالہ نمبرشمارہ جنوری،فروری ۲۰۰۰ء)
اس میں اتنا اضافہ کروں گا کہ میرے سب سے پہلے لکھے گئے افسانہ ’’ اندھی روشنی‘‘کو معیار دہلی کے پاکستانی افسانہ نگار نمبر(نیا پاکستانی افسانہ،نئے دستخط مطبوعہ ۱۹۸۲) میں میرے نام کے ساتھ شائع کیا گیا تھا جو اپنی ابتدائی عمر میں میرے لئے بڑی کامیابی تھی۔
’’عبدالرب استاد کے سوال اور حیدر قریشی کے جواب‘‘۔انٹرویوز،انٹرنیٹ ایڈیشن سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :افسانے میں دو عورتیں موجود ہیں۔ایک تو وہ جو گھوڑی بنی ہوئی ہے،دوسری وہ جو خاندانی منصوبہ بندی میں برابر کی شریک ہے۔سوال یہ ہے کہ آپ نے عورت کا کوئی خاص نظریہ پیش کرنا چاہا ہے یا یہ افسانے کی ضرورت تھی؟
جواب:عورت کا کوئی خاص نظریہ پیش کرنا کبھی بھی میرے پیش نظر نہیں رہا۔پہلے والے سوال کے جواب کو دہرانا پڑ رہا ہے۔گھروں کے مسائل موجود تھے۔۔۔کچھ میرے اردگرد تھا،جس میں گھوڑی کی طرح جتی ہوئی عورت بھی تھی،اورخاندانی منصوبہ بندی میں شریک عورت بھی تھی۔ ویسے آپ کو سچی بات بتاوٗں،یہ منصوبہ بندی والا حصہ میری اور میری اہلیہ کی داستان ہے۔تب سات سال کے وقفہ کے بعدچوتھی اولاد اور میرا تیسرا بیٹاپیدا ہوا تھا۔البتہ کھنڈر سے کھوپڑی ملنے والی بات کا میری ذاتی جاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ کہانی کا اپنا کیا دھرا ہے۔
سوال:آپ نے اپنے افسانوں میں خوبصورت عورت کو استعار ہ بنا کر پیش کیا ہے ۔کوئی خاص وجہ؟
جواب:عورت کے کئی روپ ہیں جو میرے افسانوں میں آئے ہیں۔ان میں ماں، بہن، بیوی، بیٹی تک کے رشتے موجود ہیں۔انتہائی مظلوم عورت(شناخت)کاکردار بھی موجود ہے۔گویادیگر کئی روپ میں عورت موجود ہے۔ مقدس رشتوں میں بھی یہ روپ خوبصورت ہی ہیں۔بلکہ یاد آیا مجھے کتابی چہرے اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ میری والدہ کا چہرہ کتابی تھا اور میری اہلیہ بھی ان کی بھتیجی ہونے کی وجہ سے ان سے مشابہت رکھتی ہیں۔سومیرے لیے عورت کی خوبصورتی کا محور میری ماں اورانہیں کے حوالے سے میری بیوی ہیں۔اب اس بات کو دوسری سطح پر بھی دیکھ لیتے ہیں۔ خوبصورت عورت کا ذکرخوبصورت ہی لگتا ہے۔تاہم میرے ایک افسانے (آپ بیتی)میں میری ’’ ایک بہت اچھی دوست ‘‘کا ذکر ہے۔دراصل اسے کچھ تنگ کرنے کے لیے بھی میں نے ایک بار دانستہ ایک بہت خوبصورت لڑکی کا ذکر کیا تھا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اُس اچھی دوست نے جب بھی اس لڑکی کا ذکر کیا ہمیشہ کچھ یوں کہا’’آپ کے افسانے کی ہیروئن کا کیا حال ہے؟‘‘ ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ’’اچھی دوست‘‘ اُس ہیروئن سے زیادہ خوبصورت تھی(ہے)۔ اور دونوں ہی کتابی چہرے والیاں تھیں۔
’’رضینہ خان کے سوال۔حیدر قریشی کے جواب‘‘۔انٹرویوز،انٹرنیٹ ایڈیشن سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔