وہ دس دنوں میں کئ جگہ پر جاب کے لئے اپلائی کر چکی تھی مگر اسے اب تک جاب نہیں ملی تھی ۔۔
اور دوسری طرف حاشر ہر اس جگہ پر جاکر اسکی جاب رکوا دیتا تھا جہاں اسے جاب ملنے کے چانسز لگتے تھے ۔۔
اور اب اگر تیسری جانب آؤ تو باس اس وقت اپنے آفس میں کافی پی رہے تھے۔۔۔ آنکھوں میں ایک سوچ تھی ۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد کافی کا خالی کپ رکھ کر اس نے انٹرکام اٹھایا تھا ۔۔
’’ سارا کو اندر بھیجو ’’ انٹر کام کو واپس رکھ کر اب وہ سنجیدہ ہوکر ایک فائیل کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ ناک ہوا تھا ۔۔۔
’’ کم ان ’’ اندر آنے کی اجازت دی تھی ۔۔ ایک لڑکی انکے سامنے آکر کھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ سر آپنے بلایا ’’ اس نے باس کو فائیل کی طرف متوجہ دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ جی مس سارا پلیز ہیو آ سیٹ ’’ باس نے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنےکا کہا تھا ۔۔ سارا وہاں بیٹھ چکی تھی۔۔
’’ مس سارا آپ کتنے ٹائم سے یہاں جاب کر رہیں ہیں ؟ ’’ باس نے سنجیدگی سے اس لڑکی سے پوچھا تھا جوکہ میک اپ سے لبریز چمکتے چہرے کے ساتھ اسکے سامنے بیٹھی تھیں ۔۔
’’ دو سال سے ’’ اس نے مسکرا کر باس کو جواب دیا تھا ۔۔
’’ دو سال سے آپ یہاں ہیں اور اب تک آپ کچھ بھی سیکھ نہیں سکیں ’’ باس نے کرسی سے ٹھیک لگا کر اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ سارا حیران ہوئی تھی ۔۔
’’ میں سمجھی نہیں ۔۔ کوئی غلطی ہوگئ کیا مجھ سے ؟ ’’ سارا نے پوچھا تھا ۔۔
’’ غلطی نہیں۔۔۔ غلطیاں ۔ اور آپ جانتی ہیں کہ مجھے بار بار غلطیاں کرنے والے لوگ نہیں پسند ’’
’’ سوری سر آپ مجھے بتا دیں میں ٹھیک کر لیتی ہوں ’’ سارا جانتی تھی باس سے کوئی بحث کرنے کا مطلب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہے۔۔
’’ آپ اپنی غلطی صرف ایک ہی طریقے سے ٹھیک کر سکتی ہیں ’’
’’ کیسے ؟ ’’ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔ آْج اسے لگ رہا تھا کہ باس اسے کوئی بری خبر سنانے والے تھے۔۔
’’ یہ آپ کے لئے ’’ باس نے ایک لفافہ اسکی طرف بڑھایا تھا ۔۔ اس نے لفافہ لیا اور اسے کھول کر اندر رکھا پیپر نکالا تھا۔۔ وہ حیران ہوگئ تھی ۔۔
’’ سر یہ کیا ہے ؟ ’’
’’ آپکاٹرمینیشن لیٹر ۔۔ آپ جاسکتی ہیں ’’ باس اس سے کہہ کر اپنے سامنے رکھی فائیل کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔۔
’’ سر آپ پلیز مجھے میری غلطی تو بتائیں ’’ اس نے کہا۔۔ مگر سامنے بیٹھا شخص مکمل طور پر فائیل کی طرف متوجہ تھا ۔۔ وہ سمجھ گئ تھی کہ اب ان سےکوئی بات کرنا فضول تھا ۔۔ وہ اپنا فیصلہ سنا چکے تھے اور یہ شخص اپنے فیصلے بدلا نہیں کرتا تھا ۔۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور آفس سے باہر نکلی تھی ۔۔ سامنے ہی اسے حاشر نظر آیا تھا جو شاید باس کے پاس ہی جانے لگا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا سارا ؟ باس سے ڈانٹ پڑی ہے کیا ؟ ’’ سارا کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ انہوں نے مجھے ٹرمنیٹ کر دیا ہے ’’ سارا کی بات پر حاشر چونکا تھا ۔۔
’’ ٹرمینیٹ ؟؟ مگر کیوں ؟ ’’
’’ میں نہیں جانتی ۔۔ اب میں کیا کروں گی حاشر مجھے نوکری کی بہت ضرورت ہے ’’ سارا کو اب نوکری کی فکر لگی تھی۔۔
’’ تم پریشان مت ہو ۔۔ میں تمہاری ایک اور جگہ بات کرتا ہوں ۔۔ نوکری لگ جائیگی ’’
’’ تھینک یو ’’ سارا نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ اچھا اب تم جاؤ۔۔ مجھے باس نے بلایا ہے ’’ وہ اس سے کہہ کر آفس کی جانب بڑھا تھا ۔۔ اور سارا باہر نکل گئ تھی ۔۔
اس نے آفس کا دروازہ ناک کیا تھا ۔۔ باس کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد اس نے اندر قدم رکھا تھا ۔۔ باس اپنی کرسی پر موجود تھے ۔۔ وہ اسکے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ بیٹھو ’’ باس نے اسے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا کہا تھا ۔۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گیا مگر وہ کنفیوز تھا ۔۔ اسے اتنا تو سمجھ آچکا تھا کہ باس کے دماغ میں کچھ چل رہا ہے ۔۔ مگر کیا ؟ یہ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا ۔۔
’’ یہ پکڑو ۔۔ اور جو میں کہہ رہا ہوں وہ لکھو ’’ باس نے اسکے آگے ایک پیپر اور پین کیا تھا ۔۔ حاشر نے سر ہلا کر پین اٹھایا ۔۔ اب وہ باس کی کہی ہوئی باتیں لکھنا شروع کر رہا تھا ۔۔ باس اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے تھے اور پھر سامنے شیشے کی وال کے پاس دائیں بائیں چکر لگا کر کہہ رہے تھے ۔۔
’’ ہماری کمپنی کے سی۔ای۔او کو ایک پرسنل سیکریٹری کی ضرورت ہے ۔۔ جسے کمپیوٹر کی بیسک معلومات ہو، کافیڈنٹ ہو ، تعلیم کم از کم انٹر ہو ’’ باس کی اس بات پر حاشر نے حیران ہوکر انہیں دیکھا تھا ۔۔
’’ انٹر ؟ ’’ اس نے کنفرم کرنا چاہا تھا ۔ وہ حیران تھا کہ باس ایک انٹر پاس لڑکی کو کیسے جاب پر رکھ سکتے تھے ؟
’’ کیا مجھے اپنی بات بار بار ریپیٹ کرنی ہوگی ؟ ’’ باس کی سنجیدہ آواز پر وہ گڑبڑایا تھا ۔۔
’’ سوری ’’ وہ دوبارہ لکھنے کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔
’’ غیر تجربےکار لڑکیاں بھی اپلائی کر سکتی ہیں ۔۔شروع کے تین مہینے انکا انٹرنشپ پیرینڈ ہوگا۔۔ اس دوران کمپنی انہیں پچیس ہزار سیلری اور تعلیم کے اخراجات بھی اٹھائے گی ’’ ایک بار پھر حاشر چونکا تھا ۔۔
’’ باس یہ بہت زیادہ نہیں ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا اور باس نے ایک سخت نظر اس پر ڈالی تھی۔۔
’’ سوری ’’ ایک بار وہ اپنے کام میں لگا تھا ۔۔
’’ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت کے ساتھ ساتھ انٹرنشپ کے بعد کمپنی میں انکی باقاعدہ جاب سٹارٹ ہوگی اور اسی کے ساتھ انکی سیلری میں تیس فیصد اضافہ کیا جائیگا ’’
’’تیس فیصد ؟ ’’ حاشر کے منہ نے ایک بار پھر حرکت کی تھی ۔۔۔ مگر اس بار باس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ کیا خیال ہے ؟ کیا ایسی آفر کو کوئی نظر انداز کر سکے گا ؟ ’’ باس نے ایک معنی خیز انداز میں اس سے پوچھا تھا۔۔۔
’’ ناممکن ! کوئی بھی نہیں کرے گا ۔۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہاں لڑکیوں کی سیویز کا ٹھیر لگ جانا ہے’’ حاشر نے ایکسائیٹمنت میں کہا تھا ۔۔
’’ ہمیں ٹھیر نہیں چاہیئے ’’ باس اب اسکے سامنے آئے تھے ۔۔ پھر دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر تھوڑا اسکی طرف جھکے تھے ’’ ہمیں صرف ایک سی وی چاہئے ۔۔ صرف ایک ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور اب وہ سمجھ چکا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔۔
کافی دن گزر گئے تھے مگر اسے اب تک جاب نہیں ملی تھی ۔۔ آج بھی وہ ایک ویب سائیڈ پر جاب ڈھونڈ رہی تھی۔۔ اسے جو جو جاب سمجھ آرہی تھی وہ اپنی سی وی میل کرتی جارہی تھی ۔۔ ابھی وہ اسی کام میں لگی تھی کہ اسے ایک ای میل ملی تھی ۔۔۔ اس نے دیکھا ایک ویپ سائیڈ پر نئ جابز کی اپ ڈیٹ آئی تھی ۔۔ اس نے ای میل پر موجود لسٹ آن کی تھی اور وہ پہلی جاب دیکھ کر ہی حیران رہ گئ تھی ۔۔۔
’’ A.K JEWELS”
کمپنی کے نام کے نیچے ہی کمپنی کی ریکوارمنٹس لکھی تھیں ۔۔۔ جیسے جیسے وہ پڑھ رہی تھی اسکی آنکھیں حیرت سے کھل رہی تھیں۔۔۔
’’ ایک پرسنل سیکریٹری کی نیڈ تھی ۔۔ جسے کمپنی انٹرنشپ کے ساتھ ساتھ پچیس ہزار سیلری اور تعلیم کاخرچ بھی دے رہی تھی ۔۔۔ پک اینڈ ڈراب بھی اور جاب شروع ہونے کے بعد سیلری میں تیس فیصد اضافہ ؟ ’’
’’ واٹ ! ’’ حیرت سے ارسا کے منہ سے نکلا تھا ۔۔
’’ یہ سی۔ای۔او پاگل تو نہیں ہوگیا ہے ؟ ایک معمولی سی سیکریٹری کو کون اتنا سب دیتا ہے ؟ آئی کانڈ بیلیو دس’’ وہ شدید حیران تھی ۔۔
’’کیا کروں ؟ آفر تو بہت اچھی ہے مگر یہ کمپنی اتنا سب کیوں دے رہی ایک سکیریٹری کو ؟ ’’ وہ اب کنفیوز ہوگئ تھی ۔۔
’’ محد سے پوچھتی ہوں ’’ اسے اب محد کا ہی خیال آیا تھا ۔۔ اس نے اپنا موبائیل اٹھا کر محد کو کال کی تھی ۔۔ تیسری بیل پر اس نے کال ریسیو کرلی تھی۔۔
’’ ہیلو محد کہا ہو تم ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔
’’ ایک فرینڈ کی طرف ہوں کمبائین سٹڈی کے لئے ’’
’’ اچھا سنو میں ایک ای میل کر رہی ہوں تمہیں۔۔۔ ذرا جلدی سے چیک کر کے بتاؤ کہ کیا مجھے یہاں اپلائی کرنا چاہئے؟ کیونکہ مجھے یہ بہت عجیب لگ رہا ہے ’’ اس نے سامنے کھلی ای میل کو دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ اچھا سینڈکرو میں دیکھتا ہوں ’’
’’ اوک ’’ اس نے کہہ کر کال کٹ کی تھی اور وہ ای میل محد کو سینٹ کر دی تھی ۔ اب وہ محد کے جواب کا انتظار کر رہی تھی ۔۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد محد کی کال آئی تھی ۔۔
’’ ہاں محد بولو ’’ اس نے فوراً سے پوچھا تھا ۔۔
’’ تم صحیح کہہ رہی ہو یہ بہت عجیب ہے کہ ایک سیکریٹری کو اتنی فیسیلٹیز دی جارہی ہیں مگر میں نے اپنے ایک فرینڈ سے اس کمپنی کے بارے میں پوچھا ہے ’’ محد اسے بتا رہا تھا ۔۔
پھر کیا بتایا اس نے ؟ ’’
’’ اے۔کے جویلز ۔۔ اس شہر کی سب سےبہترین اور سب سے ایسپنسو جیولری ڈیزائنز بتاتی ہیں۔۔۔ اور انکی چار مزید برانچز باقی شہروں میں بھی ہیں۔۔۔ اور اس کے علاوہ دبئی میں بھی انکی ایک برانچ بہت جلد اوپن ہونے والی ہے ’’ محد اسے بتا رہا تھا ۔۔ اور وہ سامنے کھلی ای میل پر نظر رکھے محد کو سن رہی تھی ۔۔
’’ اتنی بڑی کمپنی ایک ان ایسپیرینس لڑکی کو کیوں رکھنا چاہتی ہے ؟ ’’ ارسا نے پوچھا تھا ۔۔
’’ یہ بات تو میں نہیں جانتا لیکن ہاں اس کمپنی کا پورا سٹاف ایجوکیٹڈ ہے ۔۔ ماحول بھی بلکل پروفیشل ہے اور کمپنی میں کام کرنے والے لوگ بھی بہت خوش ہیں ان سب ہی کی سیلیریز بہت اچھی ہیں ۔۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کمپنی دن بہ دن ترقی کر رہی ہے اور اسی ترقی کی وجہ سے سٹاف بھی ترقی کر رہی ہیں ’’ محد تھوڑی دیر رکا تھا ۔۔
’’ اب جہاں تک بات اس جاب کی ہے ۔۔ تو ہو سکتا ہے کہ کمپنی کو ارجنٹلی نیڈ ہو اور ویسے بھی یہ سب ہمیں زیادہ لگ رہا تھا ۔۔ کمپنی کے لئے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے ’’ محد نے اپنا اندازہ بتایا تھا ۔۔
’’ تو پھر میں اپلائی کر رہی ہوں ’’ ارسا نے فیصلہ کیا تھا ۔۔
’’ ضرور کرو ۔۔ ویسے یہ بھی ایک معجزہ ہی ہوگا کہ تمہیں اس کمپنی میں جاب مل جائے ’’ محد کی اگلی بات پر وہ چونکی تھی ۔۔
’’وہ کیوں ؟ ’’ ارسا نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ کیونکہ اس کمپنی پر جاب حاصل کرنےکےلے پورے شہر کی لڑکیاں تیار ہونگی اور اب تک تو آدھیوں نے سی وی بھی بھیج دی ہوگی ’’
’’ تو پھر میں بھی سی وی بھیج دیتی ہوں ۔۔۔ ویسے تو میں جانتی ہوں کہ قسمت آج کل میرے ساتھ نہیں ہے مگر میں اسے بار بار آزمانہ چاہتی ہوں ’’ ارسا کی بات پر محد مسکرایا تھا ۔۔
’’ مجھے یقین ہے تم کامیاب ہوجاؤگی ’’
’’ تھینک یو ۔۔ چلو اب تم پڑھائی کرو بعد میں بات ہوتی ہے ’’ ارسا نے بھی مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ اوک ، اللہ حافظ ’’ محد نے کہہ کر کال کٹ کر دی تھی ۔۔
اب ارسا لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی تھی ۔۔ اور اس نے اپنی سی وی اس کمپنی کو میل کر دی تھی ۔۔۔
ایک گہری سانس لے کر وہ کھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ پتہ نہیں میرا دل کیوں ایسا کہہ رہا ہے کہ یہ جاب مجھے ہی لے گی ’’ اس نے اپنے آپ سے کہا تھا ۔۔
’’ پاگل ہوگئ ہو تم ارسا ۔۔ اتنی ٹیلینٹڈ لڑکیوں کو چھوڑ کر یہ کمپنی تمہیں کیوں موقع دے گی ؟ ’’ اس نے اپنے آپکو جھڑکا تھا ۔۔
’’ ویسے کمپنی کا نام بہت یونیک ہے ۔۔۔ اے ۔ کے جویلز ’’ اس نے کمپنی کے لوگو کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ لیکن اس اے۔کے کا کیا مطلب ہے ؟ ’’ اب اسکی نظر اس اے۔کے پر اٹکی تھی ۔۔۔ اسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کیوں اس نام پر اتنی دلچسپی لے رہی تھی ؟ لیکن بس اسکا دماغ اور دل چاہ تھا کہ وہ اس نام کا فل فارم جانے ۔۔ اور اب اسکے ہاتھ لیپ ٹال پر چل رہے تھے ۔۔۔ وہ اس اے۔کے کی فل فارم جاننا چاہتی تھی۔۔ اور پھر ۔۔۔ اس ’’ اے ۔ کے ’’ کا فل فارم اسکے لیپ ٹال کی سکرین پر آیا تھا ۔۔ ارسا نے پڑھا:
’’ عفان خالد ’’
وہ اس وقت ایک میٹنگ سے فارغ ہوکر اپنےآفس میں آکر بیٹھا تھا۔۔ جب اسکا موبائیل بجا تھا ۔۔ اس نے دیکھا حاشر کی کال تھی۔
’’ ہاں حاشر بولو ’’ اس نے ایک ہاتھ سے موبائیل کان سے لگا کر دوسرے ہاتھ سے ماتھا دباکر کرسی سے ٹھیک لگاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ باس وہ میل آگئ ہے ’’ حاشر نے کہا تھا ۔۔
’’ کونسی میل ؟ ’’ عفان کچھ سمجھا نہیں تھا ۔۔
’’ باس وہ ارسا میڈم کی جاب اپلائے کی میل آگئ ہے ’’ حاشر کی بات پر وہ فوراً چونک کر سیدھا ہوا تھا ۔۔
’’ سچ میں؟ ’’ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اسے اتنی حیرانی کیوں ہورہی ہے ؟ جبکہ وہ جانتا تھا کہ میل ضرور آئیگی۔
’’ یس باس ۔۔ اب آگے کیا کرنا ہے ؟ ’’ حاشر نے اب اس سے آگے کا پوچھا تھا ۔۔
’’ مجھے وہ میل فارورڈ کرو۔۔ اور اسے کل انٹرویوں کے لئے بلاؤ ۔۔ اور ہاں ’’ وہ رکا تھا ’’ اس کے ساتھ تقریباً بیس مزید لڑکیوں کو کل انٹرویوں کے لئے بلانا ’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ بیس لڑکیوں کو ؟ ’’ دوسری طرف حاشر حیران ہوا تھا ۔۔ جب رکھنا ارسا کو تھا ۔۔تو پھر بیس لڑکیوں کاکیا کام ؟
’’ تمہیں کوئی اعتراض ہے حاشر ؟’’ عفان نے سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔
’’ نہیں تو ۔۔ مجھے کیوں اعتراض ہوگا ۔۔ جیسا آپ کہیں ’’ حاشر نے گھبرا کر کہا تھا۔۔
’’ گڈ ۔۔ اب مجھے میل بھیج دو ’’ عفان نے کہہ کر کال کاٹ دی تھی ۔۔ دوسری طرف حاشر اب باس کو میل سینڈ کر رہا تھا ۔۔ اس کے بعد اسے بیس اور لڑکیوں کو بھی انٹرویوں کے لئے بلانا تھا ۔۔۔ وہ اپنے باس کو سمجھ نہیں پارہا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد اس کے لیپ ٹاپ پر ایک ای میل آئی تھی ۔۔ جس میں ارسا ساجد کی سی وی موجود تھی ۔۔ اس نے سی وی کھول کر دیکھی تھی اور ایک معنی خیز مسکراہٹ اسکےچہرے پر آئی تھی ۔۔
’’ ارسا ساجد ۔۔ اٹس ٹائم ٹو میٹ یو ’’ ایک بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اس نے ارسا ساجد کے نام کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
ارسا اس وقت یونیورسٹی سے آئی تھی ۔۔ کھانا بنانے ، کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنے لئے ایک کپ چائے بنائی ۔۔ چائے کا کپ لے کر وہ اب اپنے کمرے ساتھ موجود ٹیرس پر آگر بیٹھی تھی ۔۔ موسم آج اچھا تھا اس لئے وہ کھلے آسمان کے نیچے آکر بیٹھی تھی ۔۔ ویسے بھی یہ سردی کے شروع کے دن تھے اور اسلام آباد میں تو ویسے بھی سردیوں میں موسم خوشگوار ہوتا تھا اور پھر بارش بھی ہوجائے تو مانو موسم کو چار چاند لگ گئے ہوں ۔۔ اسے بچپن سے ہی سردیوں کے یہ دن بہت پسند تھے اور ایسے دنوں میں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر چائے یا کافی پینے کا تو مزا ہی الگ تھا ۔۔ اس لئے اب بھی وہ اس وقت ٹیرس پر آکر بیٹھی تھی ۔۔ جہاں دوکرسیاں ، آمنے سامنے رکھی ہوئی اور درمیان میں ایک میز تھی ۔۔اس نے اپنا لیپ ٹاپ میز پر رکھا تھا اور چائے کا کپ بھی ساتھ رکھ کر اب وہ اپنی ای میلز چیک کر رہی تھی ۔۔ وہ پھر اسکی نظر ایک ای میل پر پڑی ۔۔۔ اسکی آنکھیں حیرت سے کھلیں تھیں ۔۔ اس نے تھوڑا آگے جھک کر غور سے اس ای میل کو دیکھا تھا ۔۔ اور پھر اسکی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ ایک روشنی آئی تھی۔۔ خوشی کی روشنی ۔۔۔
’’ اہ مائی گاڈ ’’ اس نے حیرت اور خوشی کے تعصورات سے کہا تھا اور پھر اپنا موبائیل اٹھا کر فوراً سے ایک نمبر ڈائیل کیا تھا ۔۔
’’ ہیلو محد ’’ اس نے ایکسائیٹمنڈ میں اسکا نام لیا تھا ۔۔
’’ خیریت ہے آج آواز بہت چہک رہی ہے ’’ محد نے اسکی چہکتی ہوئی آواز سن کر کہا تھا ۔
’’ بلکل چہکے گی آخر بات ہی ایسی ہے ’’ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ارے واہ کیا بات ہے ۔۔ اب مجھے بھی بتاؤ ؟ میں بھی تھوڑا چہک جاؤں ’’ محد اس کی چہکتی آواز سن کر خوش ہوا تھا ۔۔ بہت عرصے بعد اس نے ارساکو خوش دیکھا تھا ۔۔
’’ مجھے اے۔کے جویلرز سے انٹرویوں کال آئی ہے ’’ اس نے ٹیرس کی چھوٹی دیوار پر اپنا چائے کا کپ رکھ کر اسکے ساتھ ٹھیک لگا کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ واٹ ! ’’ دوسری طرف محد بھی چونکا تھا ’’ سچ میں ؟ ’’ محد نے بے یقینی سے پوچھا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا کہ ارسا کی سی وی بہت ویک ہے اس لئے اسے اتنی اچھی کمپنی کی طرف سے انٹرویوں کال آنا بھی مشکل تھا ۔۔ اور اب جب ایسا ہوا تھا تو وہ واقعی چونک گیا تھا ۔۔
’’ بلکل سچ۔۔۔ کل صبح میرا انٹرویو ہے محد۔۔۔ مگر میرے پاس تو کوئی ڈھنگ کا ڈریس بھی نہیں ہے ’’ اب اسے اپنے ڈریس کی فکر لگ گئ تھی ۔۔۔
’’ اتنے اچھے اچھے کپڑے توہیں تمہارے پاس ’’ محد اسکی بات سن کر حیران ہوا تھا ۔۔
’’ بلکل ہیں مگر وہ پرانے اور نارمل روٹین کے ہیں نا ۔۔ اب انٹرویوں اور جاب کے لئے میرے پاس اسی لحاظ سے ڈریس ہونا چایئے نا ’’ ارسا تو واقعی بہت سیریس ہوگئ تھی ۔۔
’’ اوہ میڈم ابھی صرف انٹرویو کال آئی ہے ۔۔ جاب نہیں لگی ۔۔ زیادہ ہواؤں میں اڑنے کی ضرورت نہیں ہے ’’ محد نے اب اسے چھیڑا تھا۔۔
’’ جاب بھی لگ جائے گی ۔۔ جانے کیوں میرا دل کہہ رہا ہے کہ یہ جاب صرف میری ہے ’’ ارسا نے آسمان کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔ وہ واقعی اس جاب کے معاملے میں بہت سیریس تھی ۔۔
’’ دل کو تو رہنے دو ۔۔ دل تو پاگل ہوتا ہے کچھ بھی بولتا رہتا ہے ’’ محد کے پاس بھی جواب موجود تھے ۔۔
’’ پاگل صرف تم اور تمہارا دل ہے ۔۔ میرا بلکل ٹھیک ہے ’’ ارسا نے بھی چپ کہا ہونا تھا ۔۔ آج اتنے عرصے بعد اسے کوئی اچھی خبر ملی تھی ۔۔
’’ اور اس دل کو پاگل کس نے کیا ؟ ’’ محد نے اب اپنا ٹریک بدلا تھا ۔۔
’’ افوو محد ۔۔ تم یہ بتاؤ کہ شام کو کب تک آرہے ہو ؟ ’’ ارسا نے اسے دوسری طرف جاتے دیکھ کر بات کا رخ بدلا تھا ۔۔
’’ کیوں کیا کرنا ہے تم نے شام میں ؟ پہلے تو کبھی تم نے ایسے نہیں بلایا مجھے ’’ محد نے اب بھی کہاں سدھرنا تھا ۔۔
’’ پہلے تم خود جو منہ اٹھا کر آجاتے تھے ۔۔ اب آدھے گھنٹے میں پہنچو ہم نے شاپنگ پر جانا ہے ’’ ارسا سے جیسے اسے حکم دیا تھا ۔۔
’’ اوک میڈم جیسا آپ کہیں ۔۔ ابھی حاضر ہوتا ہوں ’’ محد نے کہہ کر کال کٹ کی تھی ۔۔۔ ارسا نے کال کٹ کر کے چائے کا کپ اٹھایا تھا ۔۔
’’ اہو ۔۔ ٹھنڈی ہوگئ ہے تو ’’ چائے کا ایک گھونٹ لے کر اس نے کپ واپس رکھا تھا ۔۔ پھر اس نے آسمان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جہاں آہستہ آہستہ اندھیرا پھیل رہا تھا ۔۔
’’ یااللہ پلیز یہ جاب لگوا دینا ۔۔ پلیز ’’ وہ خدا سے دعا کر رہی تھی۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ دعا قبول ہوچکی تھی۔۔ اور اب یہی دعا اسے زندگی اس موڑ کی طرف لے جانے والی تھی ۔۔ جہاں سب بدل جانا تھا ۔۔
اگلے صبح وہ اس شاندار بلڈنگ کے سامنے کھڑی تھی ۔۔ جس کے تقریباً چھ فلورز تھے ۔۔ شیشے سے بنی اس بلڈنگ کے ٹاپ پر
کا لوگو لگا تھا ۔۔ جو کہ سلور رنگ سے چمک رہا تھا ۔۔ وہ اس بلڈنگ کو دیکھ کر کنفیوز ہوگئ تھی ۔۔ A.K JEWELS
’’ اب مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ مجھے یہاں کبھی جاب نہیں مل سکتی ؟ ’’ ارسا نے اپنے آپ سے کہا تھا ۔۔
’’ کیا ہوگیا ارسا ۔خود پر یقین رکھو ۔۔ چلو اب ’’ خود کو کمپوز کر کے اب وہ اس بلڈنگ کے اندر جانے کے لئے بڑھی تھی ۔۔
اورنج کلر کی ٹاپ ، بلیک کلر کی جینس ، کھلے ہوئے بال ، گلے پر لپیٹے ہوئے دوپٹے اور میک کے نام پر صرف آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر لائیٹ کلر کی لپ سٹک کے ساتھ وہ خوبصورت اور پرکشش لگ رہی تھی ۔۔
وہ اندر آکر ریسپشن پر پر گئ تھی ۔۔
’’ ایکسکیوزمی ۔۔ میں ارسا ساجد ہوں ۔۔ مجھے انٹرویوں کے لئے بلایا گیا تھا ’’
’’ آپ سکینڈ فلور پر چلی جائیں ’’ ریپشن پر موجود لڑکے نے اس سے کہا تھا اور اب وہ لفٹ کی جانب بڑھی تھی ۔۔
سکینڈ فلور پر لفٹ کھلتے ہی وہ سامنے موجود ریسپشن کی جانب گئ تھی ۔۔
’’ ہیلو میں یہاں انٹرویو کے لئے آئی ہوں ’’ اس نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی تھی ۔۔
’’ یس ، آپ بیٹھ جائیں ۔۔ تھوڑی دیر بعد آپکا نام کال کیا جائیگا’’ ارسا سر ہلا کر پلٹی تھی اور پھر حیرت سے اسکا منہ کھل گیا تھا ۔۔ اس نے آنکھوں سے گنتی کی تھی ۔۔
’’ اٹھارہ لڑکیاں ؟ ’’ وہ حیرت سے ایک خالی کرسی پر بیٹھ کر سوچ رہی تھی ۔۔
’’ اتنی ساری لڑکیاں اور وہ بھی اتنی ایجوکیٹڈ ۔۔ اف ارسا ! تمہارا کوئی چانس نہیں ہے ’’ وہ اب مایوسی سے منہ بنا کر بیٹھ گئ تھی۔۔ ایک کے بعد ایک لڑکی انٹرویو کے لئے جارہی تھی ۔۔ اور وہ ان سب کو جاتا اور آتا دیکھ رہی تھی ۔۔ کیونکہ وہ سب سے آخر میں آئی تھی اس لئے اب اس نے جانا بھی آخر میں تھا ۔۔ وہ آرام سے بیٹھ چکی تھی ۔۔ ویسے بھی اب وہ مایوس تو ہو ہی چکی تھی اسلئے یہ انٹرویو بھی اسے ایک خانہ پوری ہی لگ رہا تھا۔۔۔
تقریباً دو گھنٹے بعد اسکا نمبر آیا تھا اورتب تک اسے اچھا خاصا غصہ بھی آچکا تھا ۔۔ ظاہر ہے اب دو گھنٹے تک کسی کو ویٹ کروایا جائے تو غصہ تو بنتا ہے ۔۔ لال سرخ چہرے کے ساتھ وہ کھڑی ہوکر ریسپشن کے جانب آئی تھی جہاں ایک شخص کھڑا تھا ۔۔
’’ ہیلو مس ارسا ۔۔ سوری آپکو ویٹ کرنا پڑا ’’ حاشر نے اس سے معذرت خواہ لہجے میں کہا تھا ۔۔
’’ اٹس اوک ۔۔ویسے بھی اب تو میرا ٹائم ویسٹ ہوچکا ہے ’’ اس کا موڈ اچھا خاصا خراب ہوچکا تھا اور وہ یہ جتانا بھولی نہیں تھی ۔۔
’’ سوری میم آپ اس طرف آجائیں ۔۔ باس کا آفس اس طرف ہے ’’ حاشر نے اس سے پھر سے معذرت کی تھی ۔۔ اب وہ اسے باس کے آفس کے پاس لے کر آیا تھا اور خود دروازے پر ہی رک گیا تھا ۔۔
’’ آپ اندر جائیں ’’ حاشر نے دروازہ ناک کرتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔ ارسا نے سر ہلایا تھا ۔۔
’’ کم ان ’’ اندر سے ایک آواز آئی تھی ۔۔ اور جانے کیوں ارسا کو اس آواز میں کچھ عجیب سا لگا تھا ۔۔ مگر فلوقت وہ ہر چیز کو اگنور کرکے باس کے آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی ۔۔
وہ لیپ ٹاپ پر نظریں ٹکائے ہوئے بیٹھا تھا ۔۔ اسکے ہاتھ تیزی سے لیپ ٹاپ پر ایک ای میل ٹائپ کر رہے تھے ۔۔جب دروازہ کھول کر وہ اندر آئی تھی اور اسکے ساتھ ہی لیذیز پرفیوم کی خوشبو اسکے آفس میں پھیل گئ تھی ۔۔۔
’’ پلیز ہیو آسیٹ مس ارسا ’’ عفان نے نظر اٹھائے بنا کہا تھا ۔۔ ارسا سامنے ہی ایک کرسی پر بیٹھ گئ تھی ۔۔ وہ اب بھی لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔۔ ہاتھ اب بھی تیزی سے چل رہے تھے ۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے ارسا کی یہاں موجودگی کا علم ہی ناہو ۔۔ ارسا کو اب کوفت ہونے لگی تھی ۔۔ ایک تو باہر دو گھنٹے اسے انتظار کرنا پڑا اور اب یہ انسان اسے مزید انتظار کروا رہاہے ۔۔ ارسا اب اکتائی ہوئی نظروں سے اسکا آفس دیکھ رہی تھی ۔۔سامنے شیشے کی وال سے آسمان اور سامنے کا منظر صاف نظر آرہا تھا ۔۔ دائیں طرف دیوار پر ایک ایکویرئیم رکھا تھا جس پر کئ رنگ کی مچھلیاں موجود تھی ۔۔ بائیں طرف ایک کبرڈ تھا جس میں کچھ کتابیں اور فائیلز رکھی تھیں ۔۔ اسکے علاوہ اسکی میز کے بلکل سامنے ایک بڑا اور دو چھوٹے صوفے رکھے تھے، اس آفس کے اندر ایک اور دروازہ بھی تھا جس کے پیچھے شاید ایک اور روم تھا ، بلیک اور وائٹ کامبنیشن کا یہ آفس بہت ہی یونیک تھا ۔۔ جس کی ایک ایک چیز قیمتی تھی ۔۔ آفس پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر اس نے اب اپنے سامنے بیٹھے عفان خالد کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔ بلیک سوٹ پہنے، ہلکی بئیرڈ ، ماتھے تک آتے کالے بال، ڈارک براؤن آنکھیں اور ان آنکھوں میں بھری سنجیدگی، مغرور سی اٹھی ہوئی ناک ، صاف رنگت اور چوڑے کاندھوں والا یہ انسان واقعی بے حد پر کشش تھا ۔۔ اس خراب موڈ اور اکتائی ہوئی نظروں میں بھی اس نے سامنے بیٹھے شخص کی وجاہت کی دل سے تعریف کی تھی ۔۔ تقریباً دن منٹ کے بعد جاکر اس نے اپنی لیپ ٹاپ پر چلتی انگلیوں کو روکا تھا ۔۔
’’ سو مس ارسا ’’ اس نے لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا اور اسکی نظریں رک گئیں تھی۔۔ صرف چند پل کے لئے ہی سہی مگر عفان خالد رک سا گیا تھا ۔۔ وہ اورنج رنگ کی سادی سی ٹاپ اور بلیک جینس اور دوپٹے میں ، صرف آنکھوں پر کاجل اور ہونٹوں پر ہلکی سی لپ سٹک لگائے ، میک اپ سے بےنیاز چہرے ، کھلے ہوئے کاندھوں سے نیچے آتے بالوں کے ساتھ اسکے سامنے بیٹھی تھی ۔۔ اس سادہ حلیے میں بھی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔ عفان خالد کے دل نے اسکی تعریف کی تھی ۔۔ اور اسی دل سے ڈر کر اس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا تھا ۔۔
’’ سو آپکی سی وی ہمیں ریسیو ہوئی تھی ۔۔ آپ شاید ابھی گریجوئیشن کر رہی ہیں’’ اس نے اسکی فائیل کھولتے ہوئے پروفیشنل انداز میں اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ یس ’’ ارسا نے مختصر سا جواب دیا تھا ۔۔
’’ جیولری ڈیزائینز کے بارے میں کوئی آئیڈیا ہے آپکو ؟ ’’ اس نے اب اسے عام سی نظروں سے دیکھتے ہوئے اگلا سوال پوچھا تھا۔۔
’’ نہیں ۔۔ یہ میرا سبجیکٹ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اس میں دلچسپی ہے ’’ ارسا نے صاف انداز میں کہا تھا ۔۔ ایک بھرپور مسکراہٹ عفان کے ہونٹوں پر آئی تھی ۔۔۔
’’ تو آپکو اس میں انٹرسٹ نہیں ہے؟ ’’ عفان نے اب فائیل ایک طرف رکھ کر دونوں ہاتھ میز پر ٹکا کر تھوڑا جھکتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ نہیں ’’ اس نے ایک اور بار جواب دیا تھا ۔۔
’’ تو پھرآپ یہاں کیا کرنے آئیں ہیں ؟ ’’ عفان نے اسکی طرف غور سے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ جاب کے لئے انٹرویو دینے ’’ ارسا نے بھی سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ مگر ہماری کمپنی جیولری ڈیزائن کرتی ہے جس میں آپکو کوئی دلچسپی نہیں ہے تو پھر آپنے یہاں اپلائے کیوں کیا ؟ ’’ عفان نے اب اس سے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ کیونکہ آپکی آفر مجھے اچھی لگی تھی ۔۔ تو سوچا ایک بار قسمت آزما لیتی ہوں ’’ ارسا نے بلکل عام سے انداز میں سچ کہا تھا۔
’’ اور ہماری اس آفر میں آپکو سب سے اچھی کیا بات لگی ؟ ’’ عفان نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔ وہ لڑکی بھرپور کانفیڈنٹ کے ساتھ اسکے ہر سوال کا جواب دے رہی تھی ۔۔ اسے ارسا ساجد کی یہ بات اچھی لگی تھی ۔۔
’’ مجھے دو باتیں اچھی لگیں ’’ ارسا نے اسکے سوال کو درست کیا تھا ۔۔
’’ اور وہ کونسی ؟ ’’ اسے اب اس سے بات کرنے میں مزا آرہا تھا ۔۔
’’ ایک تو یہ کہ آپ کی کمپنی تعلیم میں ہیلپ کر رہی ہے اور دوسری یہ کہ آپ انٹرنشپ سیلری کے ساتھ کروا رہے ہیں جس سے مجھے دو فائدے ہوسکتے ہیں ۔۔ ایک یہ کہ مجھے سیلری ملتی رہے گی اور دوسری یہ کہ مجھے جیولری ڈیزائینز میں دلچسپی پیدا ہوجائے گی ’’ ارسا نے عام سے انداز میں کہا تھا ۔۔ اور سامنے بیٹھا عفان خالد اسکی بات پر حیران ہوگیا تھا ۔۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت سی لڑکیاں دیکھیں تھی مگر کوئی بھی اسے ایسی نہیں ملی تھی۔۔۔ جو اس طرح صاف الفاظوں میں سچ بولتی ہو ۔۔
’’ آپ کل سے جوائن کر سکتی ہیں ارسا ساجد ’’ اس نے اسے اسی طرح دیکھتے ہوئے کہا تھا اور سامنے بیٹھی ارسا کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا ۔۔
’’ کیا ؟ ’’ ارسا نے حیران ہوکر پوچھا تھا ۔۔
’’ میں نے کہا ۔۔ آپ کل سے جوائن کر سکتی ہیں ’’ عفان نے سنجیدہ ہوتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔۔ یہ اسکی عادت تھی اسے ایک بات کو دوبارہ کہنا پسند نہیں تھا ۔۔
’’ تھینک یو سر ’’ ارسا سے تو خوشی سنبھالی نہیں جارہی تھی ۔۔ اور اسکا چہرہ اسکی خوشی کا گواہ تھا جسے عفان بھی دیکھ چکا تھا ۔۔
’’ مگر اس سے پہلے آپکو ایک ایگریمنٹ سائن کرنا ہوگا ’’ عفان نے اسکے سامنے ایک فائیل رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ ارسا نے فائیل کو کھولتے ہوئے پوچھا تھا مگر سامنے سے کوئی جواب نہیں آیا تھا ۔۔ اس نے اب اس ایگریمنٹ کو پڑھنا شروع کیا تھا ۔۔
’’ ایک سال ؟ ’’ تھوڑی دیر بعد ارسا ساجد نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ جی ۔۔ ایک سال ’’ عفان نے سر ہلا کر کہا تھا ۔۔
’’ کیا اسے ابھی سائن کرنا ضروری ہے ؟’’ ارسا نے ایک اور سوال کیا تھا
’’ بلکل ۔۔ کیونکہ مجھے سیکریٹری کی ارجنٹ نیڈ ہے اور جیسا کہ آپنے دیکھا ہمارے پاس بہت سی چوائسز ہیں اس لئے آپکو اسی وقت فیصلہ کرنا ہوگا ’’ عفان نے کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
ارسا اب کنفیوز تھی مگر وہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔
’’ میں ایک کال کرسکتی ہوں ؟ ’’ اس نے تھوڑی دیر بعد عفان کو دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔ اس کی بات وہ تھوڑا چونکا تھا مگر وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا ۔
’’ شیور ’’ اس نے سنجیدگی سےکہا تھا ۔۔ ارسا کرسی سے اٹھی اور پھر سامنے رکھے صوفے کی جانب گئ تھی ۔۔ تھوڑا آگے جانے کے بعد اس نے موبائیل نکال کر محد کا نمبر ڈائیل کیا تھا ۔۔ عفان کی نظریں مسلسل اسی پر تھیں۔۔
’’ ہیلو محد تم سے ایک ایڈوائس لینی تھی ’’ اس نے دھیمی آواز میں کہا تھا مگر آواز اتنی دھیمی نہیں تھی کہ عفان کے کانوں تک نا پہنچتی ۔۔
’’ ہاں بولو ۔۔ تمہارا تو انٹرویو تھا نا ۔۔ کیا ہوا ؟ ’’ دوسرف طرف سے محد نے اس سے کہا تھا ۔
’’ انٹرویو تو اچھا ہوا ہے ۔۔ میں سیلیکٹ بھی ہوگئ ہوں ۔۔ مگر ایک مسئلہ ہے ’’
’’ کیسا مسئلہ ؟ ’’ محد نے پوچھا تھا ۔۔
’’ ایک ایگریمنٹ سائین کرنا ہوگا اس کے لئے۔۔ جس کے مطابق میں ایک سال تک جاب نہیں چھوڑ سکتی ’’
’’ اور اگر کسی وجہ سے چھوڑ دی تو ؟ ’’
’’ تو مجھے ایک سال کی سیلری کمپنی کو دینی ہوگی ’’
’’ ایک سال ؟ ’’ محد نے چونک کر پوچھا تھا۔
’’ ہاں ۔۔ اور ایک سال کا مطلب ہے کئ لاکھ ’’ ارسا نے ایگریمنٹ کے پیج پر دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ تم کیا چاہتی ہو ؟ ’’ محد اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ جاب اچھی ہے محد ۔۔ میں اسے کرنا چاہتی ہوں اور پھر اب تو مجھے شاید پوری زندگی ہی جاب کرنی ہوگی ’’ ارسا کےلہجے میں مایوسی آئی تھی ۔۔
’’ تم جو چاہتی ہو ارسا تم وہ کرو ’’ محد صرف اتنا ہی تو چاہتا تھا کہ وہ خوش ہو ۔۔
’’ لیکن میں وہ کرنا چاہتی ہوں جس میں تم بھی میرے ساتھ ہو ’’ ارسا کی بات پر محد کے ہونٹوں پر ایک بھرپور مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ میں ہر لمحہ تمہارے ساتھ ہوں ۔۔ تم ایک کام کرو ایگریمنٹ سائن کرلو ۔۔ ایک سال کا تو ویسے بھی پتا نہیں چلتا اور اگر آگے کچھ ہوا بھی تو میں ہوں نا ’’ محد کی بات پر ارسا دل سے مسکرائی تھی ۔۔
’’ تھینک یو ’’ اس نے دھیمے لہجے میں کہا تھا ۔۔
’’ ٹریٹ کے ساتھ کہنا ’’ محد نے اب اپنا ٹریک بدلا تھا ۔۔
’’ ہاہا ضرور ۔۔ اچھا بائے ’’ ہلکی سے ہنسی کے ساتھ اس نے کال بند کی تھی ۔۔ ایگریمنٹ ساتھ میں لے کر وہ پلٹی تو تھوڑی دیر کے لئے وہ چونک سی گئ تھی ۔۔
عفان اسکے سامنے کھڑا چہرے پر سنجیدگی اور غصہ لئے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
وہ دیکھ رہا تھا کہ محد سے بات کرتے وقت وہ کتنی خوش ہوتی تھی ۔۔ اس کے چہرے سے مسکراہٹ ایک سیکینڈ کے لئے بھی دور نہیں ہوئی تھی۔۔ عفان خالد کو اسکی مسکراہٹ اچھی نہیں لگی تھی ۔۔۔
’’ آپ ۔۔یہاں ؟ ’’ وہ اسے اس طرح اپنے پیچھے دیکھ کر گھبرا سی گئ تھی ۔۔
’’ کیوں ؟ میں یہاں نہیں ہوسکتا ؟ ’’ سنجیدگی سے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ بلکل ہوسکتے ہیں ۔۔۔ وہ میں کانٹریکٹ سائن کرنے کو تیار ہوں ’’ ارسا نے اب اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
ارسا کی بات پر اس نے کہا کچھ نہیں تھا ۔۔ وہ پلٹ کر دوبارہ اپنی میز کی جانب گیا تھا ۔۔ارسا بھی اسکے پیچھے آئی تھی ۔۔ میز پر رکھا پین اٹھا کر اس نے ارسا کی جانب بڑھایا تھا ۔۔ وہ سخت نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ ارسا کو اسکا دیکھنا عجیب لگ رہا تھا مگر اس نے اسے اگنور کر کے اب کانٹریکٹ میز پر رکھا تھا ۔۔ ایک اور نظر اس کانٹریکٹ پر ڈال کر اس نے اس پر سائن کئے تھے ۔۔ پھر اس نے فائیل بند کر کے سامنے کھڑے اس شخص کی طرف دیکھا تھا ۔۔
’’ ویلکم ٹو اے۔کے جویلرز ’’ عفان نے اسکی جانب ہاتھ بڑھا کرکہا تھا ۔۔۔
’’ سوری سر میں شیک ہینڈ نہیں کرتی ’’ ارسا نے اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ اوہ’’ عفان نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے افسوس سے کہا تھا ۔۔
’’ تھینک یو سر ’’ ارسا نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ مس ارسا ’’ عفان میز کی دوسری جانب اپنی کرسی کی طرف آیا تھا ۔۔ کرسی کے پیچھے کھڑے ہوکر اس نے ارسا کو پکارا تھا ۔۔ ارسا جو جانے کے لئے کھڑی تھی اسکی آواز پر اسکی جانب متوجہ ہوئی تھی ۔۔
’’ آر یو میریڈ ؟ ’’ ایک سوال تھا جو سامنے کھڑے اس شخص نے غور سے اسکی آنکھوں کودیکھتے ہوئے کیا تھا ۔۔ اور یہی ایک سوال تھا جس نے ارسا ساجد کو کچھ پل کے لئے ساکت کر دیا تھا ۔۔ وہ رک گئ تھی۔۔ سامنے کھڑا شخص اب بھی اسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔ ارسا ساجد کی نظریں بھی اسی پر تھیں ۔۔ مگر نظروں کے سامنے وہ نہیں تھا ۔۔ اسےوہ لمھہ یاد آیا تھا۔۔ جب اس سے بند آنکھوں کے ساتھ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر سائن کئے تھے ۔۔ اسے یاد آیا کہ اس ایک لمحے نے اسکی زندگی بدل کر رکھ دی تھی ۔۔
’’ کیا میں نے کوئی مشکل سوال کر دیا ؟ ’’ سامنے کھڑے اس شخص نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ وہ جیسے اسکے کہنے پر ہوش میں آئی تھی ۔۔۔
’’ شاید ’’ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی تھی ۔۔ مگر اب وہ ہوش میں آگئ تھی۔۔
’’ نہیں ۔۔ آئی ایم ناٹ میریڈ ’’ سنجیدہ چہرے کے ساتھ اس نے اسے جواب دیا تھا ۔۔
’’ اوک ۔۔ اللہ حافظ ’’ عفان نے اسکے چہرے کے سخت تعصورات دیکھے تھے ۔۔ وہ اب اسے مزید یہاں نہیں روک سکتا تھا ۔۔ وہ ارسا ساجد کی آنکھوں میں نفرت کی وہ چنگاری دیکھ چکا تھا ۔۔ جو کسی کو جلا بھی سکتی تھی ۔۔ ارسا ساجد اسکے آفس سے جاچکی تھی ۔۔ مگر اسے لگا ۔۔وہ یہاں سے جاکر بھی یہی تھی ۔۔ اس نے اپنا موبائیل اٹھا کر حاشر کو اندر بلایا تھا ۔۔
اب وہ شیشے کی وال کے سامنے جاکھڑا ہوا تھا ۔۔جہاں سے اسے وہ لڑکی اپنے آفس سے نکل کر ایک کار میں بیٹھتی نظر آئی تھی ۔۔ وہ یہاں سے بھی دیکھ سکتا تھا ۔۔ اسکے چہرے کی سنجیدگی ، اسکی آنکھوں کے پتھریلا پن ۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر جاچکی تھی ۔۔
دروازہ ناک کر کے حاشر اندر آیا تھا ۔۔۔ مگر عفان پلٹا نہیں تھا ۔۔ وہ اب بھی سامنے جاتی اس گاڑی کو دیکھ رہا تھا۔
’’ آپ نے بلایا باس ؟ ’’ حاشر اسے خاموش دیکھ کر بولا تھا ۔۔
’’ تمہیں وہ کیسی لگی حاشر ؟ ’’ اس نے پلٹے بنا اس سے پوچھا تھا ۔۔ حاشر اس سوال پر چونکا تھا ۔۔
’’ کون سر ؟ ’’
’’ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں ’’ عفان نے سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔
’’ سر وہ ۔۔۔’’ حاشر اس سوال کا جواب دینے میں کنفیوز ہورہا تھا ۔۔
’’ بے فکر ہوکر کہو حاشر ۔۔ میں صرف سچ سننا چاہتا ہوں ’’ عفان نے پلٹ کر اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ وہ ایک سچی لڑکی ہیں سر ۔۔ اپنے دل کی باتیں چپانا انہیں نہیں آتیں ۔۔ اور وہ کچھ چپانا بھی نہیں چاہتی ’’ حاشر نے سچائی سے سر جھکا کر کہا تھا ۔۔ اسے ڈر تھا کہ عفان کو اسکی بات بری لگ سکتی تھی ۔۔
’’ مجھے بھی ایسا ہی لگا ۔۔ وہ اپنا دل اپنی آنکھوں میں لے کر گھومتی ہے ۔ اسکی آنکھیں بہت خطرناک ہیں ‘’ عفان نے کرسی پر بیٹھے ہوئے کہا تھا ۔۔ حاشر نے اسکی بات پر چونک کر سر اٹھایا تھا ۔
’’ یہ سامنے والا روم اسکے لئے ریڈی کرو حاشر وہ کل سے وہاں بیٹھے گی ۔۔ میری نظروں کے سامنے ’’ اس نے سامنے اس کمرے کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو شیشے کی وال کی وجہ سے اسے نظر آرہا تھا ۔۔ اسکے آفس اور اس روم کے درمیان کی دیوار شیشے کی تھی ۔۔ جس سے با آسانی سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جاسکتا تھا ۔۔
’’ اوک سر ’’ حاشر کہہ کر آفس سے باہر جاچکا تھا ۔۔ جبکہ عفان نے اب لیپ ٹاپ پر ارسا اور محد کی اس تصویر کو آن کیا تھا جو حاشر نے ریسٹورینٹ میں لی تھی ۔۔ عفان کی آنکھوں کا فوکس ان دو ہاتھوں پر تھا جنہوں نے ایک دوسرے کو تھام رکھا تھا ۔۔
’’ تم شیک ہینڈ نہیں کرتی مسز عفان ۔۔ تمہیں یہ یاد رکھنا چاہئے ’’ آنکھوں میں سختی لئے اس نے کہا تھا ۔۔
وہ شام کو ارسا کی طرف آگیا تھا ۔۔ اس وقت دونوں بیٹھے کھانا کھارہے تھے ۔۔ ساتھ ساتھ وہ ارسا کی جاب کے بارے میں بھی بات کر رہے تھے ۔۔
’’ تو پھر کل سے تم جوائن کر رہی ہو ؟ ’’ محد نے بریانی کا یک چمچ منہ میں رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ کل صبح سے جانا ہے ’’ ارسا بھی کھانے کی طرف متوجہ تھی ۔۔
’’ ویسے تمہیں اس نے پہلے انٹرویو میں ہی سیلیکٹ کرلیا ۔۔ یہ عجیب بات نہیں ہے ؟ ’’ محد کو واقعی اتنی جلدی یہ سب عجیب لگا تھا ۔۔
’’ ہاں عجیب تو ہے ۔۔مگر وہ بندہ اس ٹائپ کا نہیں ہے کہ میں اس پر شک کروں ’’ ارسا نے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ اور پہلی ملاقات میں تمہیں اسکی ٹائپ کیسے معلوم ہوگئ ؟ یہ امیر نواب زادے اکثر بگڑےہوئے ہوتے ہیں’’ محد نے اسے پانی کا گلاس اٹھا کر سنجیدگی سےکہا تھا ۔۔
’’ میری اس سے بیس منٹ کی ملاقات ہوئی ہے ۔۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ میں اسے جان گئ ہوں ۔۔ مگر میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ وہ ایک باکردار انسان ہے ۔۔ کیونکہ مجھے اسکی آنکھوں میں سب نظر آیا سوائے بدکرداری ہے ’’ ارسا نے عام سے انداز میں کہہ کر اپنی پلیٹ اٹھائی تھی۔۔
ڈیبل کا سامان کچن میں رکھنے کے بعد اس نے دونوں کےلئے چائے بنائی تھی ۔۔۔ محد اس پورے ٹائم میں خاموش تھا ۔
’’ تم اتنے چپ کیوں ہوگئے ہو ؟ ’’ ارسا نے چائے کا کپ اسکی جانب بڑھا کر پوچھا تھا ۔۔
’’ کچھ سوچ رہا تھا ’’ وہ سنجیدہ اور کسی سوچ میں گم نظر آرہا تھا ۔
’’ کیا ؟ ’’ ارسا نے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ تم نے اس شخص کی آنکھوں پر اتنا غور کر کیسے لیا ؟ ’’ محد کی بات پر ارسا نے الجھ کر اسکی طرف دیکھا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟’’ ارسا نے پوچھا تھا ۔۔ محد نےغور سے ارسا کی طرف دیکھا اور کچھ دیر دیکھتا رہا ۔۔
’’ مطلب یہ کہ تم نے اسکی آنکھوں کو اتنا غور سے کیسے دیکھ لیا ؟ ’’ محد نے عجیب انداز میں اس سے کہا تھا ۔
’’ ظاہر ہے وہ میرے سامنے تھا ۔۔ تو آنکھیں تو نظر آئیں گی نا ؟ ’’ ارسا اسکی بات سمجھ نہیں پارہی تھی اس لئے عام انداز میں جواب دیا تھا ۔۔
’’ نہیں ارسا ۔۔ آپ کسی شخص کی آنکھوں میں صرف اس وقت جھانکتے ہو جب آپکو کوئی کشش ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔۔ اور جانتی ہو وہ کیا کشش ہوتی ہے ؟؟ ’’ محد نےاسکی جانب جھک کر اسکی آنکھوں میں جھانک کرکہا تھا ۔۔
’’ کیا ؟ ’’ ارسا نے اسے دیکھتے پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ پسندیدگی کی کشش ہوتی ہے ۔۔ تمہیں وہ پسند آگیا ہے ’’ محد نے جیسے اسے فیصلہ سنایا تھا۔۔ ارسا ایک پل کے لئے حیران ہوئی تھی ۔۔پر دوسرے ہی پل وہ کھل کر ہنسی تھی ۔۔
’’ محد تم بھی نا پاگل ہو۔۔ بھئ وہ میرے باس ہیں اور میں مانتی ہوں کے وہ ایک پرکشش انسان ہے اور اگر یہ کہاجائے کہ میں اسے پسند کرتی ہو تو غلط نہیں ہے مگر یہ کوئی کشش نہیں ہے ۔۔ مجھے اسکی آنکھوں میں پاکیزکی نظر آئی اور پاکیزگی کو تو سب پسند کرتے ہیں نا ؟ ’’ ارسا نے جیسے اسکی بات کو انجوائے کیا تھا ۔۔
’’ ہاں سب پسند کرتے ہیں ۔۔ مگرایک بات تو بتاؤ ’’
’’ کیا بات ؟ ’’ ارسا کی بات پر محد تھوڑا آگے کو جھکا تھا اسکی نظریں مسلسل اسکے چہرے پر تھیں۔۔
’’ تم نے کبھی میری آنکھوں کو اتنا غور سے کیوں نہیں دیکھا ؟ ’’ سوال میں جانے کیا تھا کہ ارسا تھوڑا چونکی تھی ۔۔ اس نے محد کی جانب دیکھا۔۔ وہ بہت غور سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔
’’تم بھی نا ۔۔ چلو اٹھو گھر جاؤ اب ’’ وہ دونوں کپ اٹھا کر کچن کی جانب گئ تھی ۔۔۔ اب وہ کپ کو واش کر رہی تھی ۔۔ محد نے ایک گہری سانس لی اور پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ ویسے مجھے حیرانگی ہے کہ بیس منٹ کی ملاقات میں تم نےاسکی آنکھوں میں جھانک لیا جبکہ یہ کام ایک سال میں ایک بار بھی تم نے میری آنکھوں کے معاملے میں نہیں کیا ’’ محد نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ ارسا وہی کھڑی رہ گئ تھی ۔۔ اسے محد کا رئیکشن سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔ اسے آخر کیا برا لگا تھا ؟ وہ کچن کا سامان سمیٹ کر اب اپنے کمرے کی اندر موجود ٹیرس پر آئی تھی ۔۔ اندھیرا پھیل چکا تھا سامنے چاند اور آس پاس کچھ ستارے چمک رہے تھے ۔۔ مگر وہ ان دونوں کو نہیں بلکہ وہ تو آسمان کے اندھیرے کو دیکھ رہی تھے ۔۔ جانے کیوں اسے اندھیرا دیکھنا ہی اچھا لگتا تھا ؟
جب زندگی میں اندھیرا ہو تو انسان کو بعض اوقات اسکی اتنی عادت ہوجاتی ہے کہ وہ اندھیرے میں ہی سکون ڈھونڈتا ہے۔۔ اور ارسا ساجد بھی یہی کر رہی تھی ۔۔
وہ سکون میں نہیں تھی مگر اس اندھیرے میں وہ سکون ڈھونڈنا چاہتی تھی ۔۔ محد نے سچ ہی تو کہا تھا ۔۔ وہ ہمیشہ سے جانتی تھی کہ وہ اسے پسند کرتا ہے ۔۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس سےمحبت کرتاہے مگر اس کے باوجود اس نے کبھی اسکی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔۔ وہ کبھی اسکی آنکھوں میں دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔۔ اس نے محد کو ہمیشہ اپنا ایک اچھا دوست مانا تھا ۔۔
وہ محد کے انداز پر الجھ گئ تھی ۔۔ محد کو ناجانے کیا برا لگا تھا ۔۔ اسکا عفان کی تعریف کرنا ؟ یا اسکا اسکی آنکھوں کو پڑھنا ؟
وہ کافی دیر اس بارے میں سوچنے کے بعد اپنےکمرے میں واپس آئی تھی ۔۔ بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنا موبائیل اٹھایا تھا۔۔ اس نے محد کو ایک مسیج کیا ۔۔
’’ تمہاری آنکھوں میں تو تب جھانکتی نہ محد ۔۔ جب تمہارے دل میں نا جھانکا ہوتا ’’
محد جو اس وقت اپنے بیڈ پر بیٹھا ارسا ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔ موبائیل کی آواز پر اس نے مسیج کھول کر دیکھا تھا۔
اس نے مسیج پڑھا اور اس کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ اس نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ مسیج سینڈ کیا اور موبائیل واپس رکھا ۔۔
ارسا کا موبائیل بجا تھا اور اس نے دیکھا محد کامسیج تھا ۔۔
’’ بہت چالاک ہو تم ۔۔دل میں جھانکنے آئی اور وہی ڈیرے جما لئے ’’ ایک دلکش مسکراہٹ ارسا کے ہونٹوں پر پھیلی تھی۔۔ اس نے موبائیل سائیڈ پر رکھا اور سونے کے لئے لیٹ گئی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...