شیخ جواد المسعودی اپنی نئی نویلی دلہن مرجانہ کے ساتھ دیوان خانے میں بیٹھے قہوہ نوش فرما رہے تھے وہ بڑی محبت سے ننھے ننھے فنجان بھر کے انہیں پیش کرتی اور شیخ صاحب خود اپنے باغ کی تازہ رس بھری کھجوروں کے ساتھ قہوہ کی ہلکی ہلکی چسکیاں لیتے۔ ٹھنڈے کھجوروں کی مٹھاس اور گرم قہوہ کی تلخی نے ماحول کو نہایت خوشگوار بنا دیا تھا کہ ننھا ریحان روتا ہوا وہاں آ پہنچا۔ اس کی نئی ماں مرجانہ نے لپک کر اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ اور زور زور سے رونے لگا۔ مرجانہ نے بڑے پیار سے پوچھا۔
کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟
آج پھر صفوان نے مارا۔ ریحان بولا۔
اچھا۔ مرجانہ نے کہا۔ کیسے مارا اس نے آپ کو؟ ‘
لاٹھی سے۔
اسی لاٹھی سے جس سے وہ بکریاں ہانکتا ہے۔
مرجانہ نے ریحان کو پیار سے ڈانٹا بیٹے کتنی بار سمجھایا ہے کہ اس کے پاس نہ جایا کرو پھر آپ اس کے پاس کیوں گئے؟
میں اس کے پاس کب گیا؟ ریحان نے جواب دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اپنی بکریوں کے پاس گیا تھا وہی وہاں آ دھمکا۔
شیخ صاحب بولے۔ بیٹے وہ تو وہاں آئے گا ہی۔ اس کا تو کام ہی بکریوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔
مرجانہ نے اب شیخ صاحب کا رُخ کیا اور بولی۔ آپ چپ کریں آپ کے لاڈ پیار نے ہی صفوان کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کا کام بھیڑ بکریوں کی دیکھ ریکھ کرنا ہے یا بچوں کو مار پیٹ کرنا۔ کل اس نے اپنی بہن صفیہ کا سر پھوڑ دیا تھا آج اس نے ریحان کی پٹائی کر دی۔ اگر یہی سلسلہ دراز رہا تو ایک دن اس کی لاٹھی کی زد میں ہم لوگ بھی آ جائیں گے۔
شیخ صاحب کو مرجانہ کی بچکانہ بات پر ہنسی آ گئی۔ انہوں نے کہا۔ کیا اناپ شناپ بک رہی ہو تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔
مرجانہ نے جھٹ کہا۔ میرا دماغ تو ٹھیک ہے لیکن صفوان کا دماغ درست کرنا ہی ہو گا۔ ایسا کرو اس کی لاٹھی اس سے چھین لو۔
شیخ جواد بولے۔ لاٹھی سے اسے کیونکر محروم کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ بکریاں چرانے کے لیے لاٹھی کا استعمال لازمی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو صفوان کو بکریاں چرانے کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش کرنا ہو گا۔
مرجانہ چونک کر بولی۔ نانا بابا نا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہماری ان بکریوں کا کیا ہو گا؟
ریحان بیچ میں بول پڑا۔ میں چراؤں گا۔ مجھے یہ کام بہت اچھا لگتا ہے۔
نہیں بیٹے نہیں۔ مرجانہ بولی۔ یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ تم کہاں دشت و صحرا میں بکریاں چراتے پھرو گے۔
تو کیا میں صفوان کی لاٹھی سے مار کھاتا رہوں گا۔ ریحان نے معصومیت سے پوچھا۔
نہیں۔ جاؤ صفوان کو یہاں بلاؤ میں اسی کی لاٹھی سے اس کی کھال ادھیڑتی ہوں۔
یہ سن کر ریحان کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ دوڑتا ہوا صفوان کے پاس جا پہنچا اور کہا۔ چلو جلدی چلو۔ تمہیں نئی امّی بلا رہی ہیں۔
کیوں؟ صفوان کا سوال تھا۔
ریحان سکتہ میں آ گیا حقیقت بتانے کی ہمت اس کے اندر نہیں تھی۔ صفوان نے غرا کر پھر پوچھا۔ بول کیوں بلا رہی ہیں؟ بولتا کیوں نہیں؟ چپ کیوں ہے؟
اب ریحان کانپ رہا تھا۔ صفوان نے کہا۔ میں سمجھ گیا تم نے جا کر میری چغلی کی ہے۔ جاؤ ان سے کہو میں نہیں آتا۔
ریحان زور دے کر بولا۔ کیسے نہیں چلو گے تمہیں چلنا ہی ہو گا۔
اچھا۔ صفوان آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے ایک لاٹھی ریحان کی پیٹھ پر جمادی۔ ریحان روتا بلبلاتا پھر مرجانہ کے پاس آ گیا۔ امّی اس نے مجھے پھر مارا وہ کہتا ہے کہ وہ نہیں آئے گا۔
اچھا اب تو پانی سر سے اوپر ہو گیا۔ مرجانہ بولی۔ اب کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ یہ کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی اور صفوان کی جانب جیسے ہی قدم بڑھایا سامنے اس کی سوتن اور ریحان کی سگی ماں سلطانہ کھڑی تھی۔ اس نے پوچھا۔
اتنے غصہ سے کہاں جا رہی ہو دلہن؟
مرجانہ بولی۔ آپ بیٹھیں میں ابھی آئی۔
سلطانہ نے کہا تم بھی بیٹھو۔ غصہ نہ کرو۔ بچوں کے جھگڑے میں بڑوں کو نہ پڑنا چاہئے۔ مار پیٹ سے بچے سدھرتے نہیں بگڑ جاتے ہیں۔ صفوان کو میں سمجھاؤں گی۔ ریحان بیٹے جاؤ صفوان کو بلا لاؤ اس سے کہو میں اسے بلا رہی ہوں اور میرے پاس اس کے لیے مٹھائی ہے۔
ریحان دوبارہ دروازے کی جانب دوڑ پڑا۔ مرجانہ نے کہا۔ باجی یہ جھوٹ ہے۔
نہیں دلہن یہ جھوٹ نہیں ہے۔ سلطانہ بولی۔ اچھی نصیحت کی مٹھاس تمام مٹھائیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
مرجانہ زچ ہو گئی۔ اس نے کہا باجی آپ کی باتیں ویسے تو کھجور سے زیادہ میٹھی ہیں پھر بھی لیجئے انہیں نوش فرمائیے۔ میں آپ کے لیے قہوہ نکالتی ہوں۔
سلطانہ نے شکریہ ادا کیا ہی تھا کہ ریحان واپس آ پہنچا۔ سلطانہ نے پوچھا۔ صفوان کہاں ہے؟
ریحان بولا۔ وہ کہتا ہے میں نہیں آتا۔ بڑی امی جھوٹ بولتی ہیں ان کے پاس مٹھائی نہیں ہے اور میں ان کی نصیحتوں سے اوب چکا ہوں۔
مرجانہ نے کہا۔ دیکھا باجی سنا آپ نے صفوان کا جواب۔
کوئی بات نہیں ذہین بچہ ہے ہماری چال سمجھ گیا میں اسے بعد میں سمجھا دوں گی۔
لیکن اس نے ریحان کے ساتھ جو پے در پے زیادتیاں کی ہیں اس کا کیا؟
دیر سے خاموش تماشائی بنے ہوئے شیخ جواد بیچ میں بول پڑے۔ میں اس کی سزا صفوان کو دوں گا۔ انہوں نے ریحان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بیٹے ریحان جاؤ۔ صفوان کو بلاؤ اس سے کہنا ہم بلا رہے ہیں۔‘
ریحان پھر دوڑتا ہوا صفوان کے پاس پہنچا اور کہا۔ بابا بلا رہے ہیں فوراً چلو ورنہ۰۰
صفوان نے بیچ ہی میں لپک لیا۔ ورنہ کیا میری کھال کھینچ لیں گے جا اور ان سے کہہ میں نہیں ڈرتا جو مرضی آئے کر لیں میں نہیں آتا۔
ریحان جب یہ بات اپنے بابا کو بتلا رہا تھا اذان شروع ہو گئی۔ شیخ جواد شکست خوردگی کا احساس لیے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے وضو خانے کی جانب بوجھل قدموں کے ساتھ ہو لیے۔ جب وہ وضو سے فارغ ہو کر نکلے تو دیکھا مرجانہ اور سلطانہ خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور فلپائنی دایا ہیلری کی گود میں ریحان آنکھیں موندے لیٹا ہے اور وہ بڑے پیار سے اس کی پیٹھ سہلا رہی ہے۔ جواد سوچنے لگے مرجانہ صفوان کو سزا دینے کی فکر میں ریحان کی پیٹھ سہلانا بھول گئی اور بالآخر یہ سعادت ہیلری کے حصہ میں آئی۔
نماز سے فارغ ہو کر جب شیخ جواد لوٹے تو کیا دیکھتے ہیں لان میں ہیلری بیٹھی ہے۔ صفوان اور ریحان دونوں اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ دیوان خانے میں داخل ہوئے تو دیکھا سلطانہ ان کے لیے کھانا پروس رہی ہے۔
شیخ جواد مرنجان مرنج شخصیت کے حامل تھے ایک نہایت متمول اور دیندار گھرانے میں انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ والدین نے حصول تعلیم کے لیے انہیں یوروپ بھیجا وہاں سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کر کے واپس لوٹے تو ان کا اپنی روایات سے رشتہ مزید گہرا ہو چکا تھا۔ مغرب کے نمائشی کھوکھلے پن نے انہیں اپنی اقدار کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ کچھ عرصہ تعلیم تدریس کے بعد خاندانی تجارت کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔
ان کے آبائی گاؤں آبھا میں ان کی شاندار کوٹھی تھی جس میں وہ اپنی دو بیویوں سلطانہ اور مرجانہ کے ساتھ رہتے تھے۔ یہاں ان کے پاس بھیڑ بکریاں اونٹ اور مرغیاں کھیت کھلیان سب کچھ تھا۔ شرافت اور صاف گوئی کے باعث گاؤں والے ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ شیخ صاحب کی سخاوت کے چرچے دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ آبھا سے قریب ہی خمیس مشیط نامی پہاڑی پر سال بھر موسم خوشگوار رہتا تھا۔ سردیوں میں تو برف باری تک ہو جاتی تھی۔ خمیس مشیط کی وادی میں شیخ صاحب کا ایک مزرع (فارم ہاؤس) تھا۔ جس میں کھجوروں کا بہترین باغ تھا اور اعلیٰ نسل کے عربی گھوڑوں کا اصطبل بھی تھا۔
اس مزرع میں ان کی بیوی نذرانہ اپنے سوتیلے بیٹے عرفان کے ساتھ رہتی تھی۔ نذرانہ کی دونوں بیٹیاں دردانہ اور افسانہ بیاہی جا چکی تھیں۔ شیخ صاحب کا کاروبار قریب کے شہر جیزان میں جما ہوا تھا وہاں ان کی آڑھت تھی۔ پٹرول پمپ تھا۔ ہوٹل اور نہ جانے کیا کیا۔ جیزان میں شیخ صاحب کی سب سے تیز طرار بیوی رخسانہ اپنے بیٹے رضوان کے ساتھ رہتی تھی صفوان در اصل رضوان کا سگا بھائی تھا لیکن وہ جیزان کے بجائے خمیس میں رہتا تھا۔
شیخ صاحب کا معمول یہ تھا کہ وہ ہر مہینہ کے دو ہفتہ اپنے آبائی گاؤں آبھا میں گذارتے نیز ایک ہفتہ خمیس اور ایک ہفتہ جیزان میں حالانکہ مصروفیات کا تقاضا تو یہ تھا زیادہ وقت جیزان میں گذارا جاتا لیکن اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کو وہ کاروباری ضرورتوں پر ترجیح دیتے تھے۔ بازار میں شیخ صاحب ایک اچھے تاجر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اس لیے کہ اس طویل عرصہ میں ایک بھی بد عہدی یا بددیانتی کا کلنک ان کے معاملات پر نہ لگا تھا۔
ریحان سلطانہ سے تھا۔ صفوان کی ماں شبانہ کو انہوں نے چند ماہ قبل طلاق دے دی تھی اور بڑے مال و اسباب کے ساتھ روانہ کیا تھا تاکہ مرجانہ سے نکاح کیا جا سکے۔ اس واقعہ نے صفوان کے ذہن پر منفی اثرات مرتب کیے تھے اسے ایسا لگتا تھا جیسے مرجانہ نے اسے اپنی حقیقی ماں سے محروم کر دیا ہے۔ سلطانہ کو اس حقیقت کا احساس تھا اس لیے وہ صفوان کا خاص خیال رکھتی تھی۔ لیکن اس کا گھاؤ بھرنے کا نام نہ لیتا تھا۔
ہیلری کی کوششوں سے وہ وقتی طور پر بہل جاتا لیکن تنہائی میں وہ پھر غصہ سے بھر جاتا۔ ایسے میں اس کے پاس بکریاں ہوتیں یا ریحان۔ بکریوں کو وہ اپنی طرح مظلوم سمجھتا تھا اس لیے ان کے تئیں انسیت محسوس کرتا تھا لیکن ریحان کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ تھی اس لیے وہ گاہے بگاہے صفوان کے غم و غصہ کا شکار ہوتا رہتا تھا۔
حسب معمول مہینہ کے دوسرے ہفتہ جمعہ کے دن جب شیخ جواد جیزان اپنی حویلی میں پہنچے تو دیکھا ان کا بیٹا رضوان گھر پر موجود ہے۔ والد کی آہٹ سن کر وہ دوڑا دوڑا دروازے تک آیا۔ شیخ جواد نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے بڑے احترام سے ہاتھ پر بوسہ دیا۔ شیخ صاحب نے بیٹے کی پیشانی کا بوسہ لے کر پوچھا کب آئے؟
اس سے پہلے کہ رضوان کچھ بولتا اس کی ماں رخسانہ بول پڑی۔ کل رات آیا ہے اور صبح تک بیسیوں مرتبہ آپ کے بارے میں پوچھ چکا ہے۔ بابا آئیں گے نا؟ بابا کب آئیں گے؟ بابا ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ میں انہیں کے ساتھ ناشتہ کروں گا۔ یہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ آپ ایسا کریں جلدی سے ہاتھ منہ دھولیں میں ناشتہ لگاتی ہوں۔
شیخ جواد نے جھلّاتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے ذرا دم تو لے لینے دو ابھی تو ہم نے ایک دوسرے کی خیریت بھی دریافت نہیں کی اور تم کھانے کھلانے میں لگ گئیں۔ تم عورتوں کو تو بس۔
بس! رخسانہ نے درمیان میں جملہ اُچک لیا۔ خیریت ناشتہ کے دوران بھی پوچھی جا سکتی ہے۔ چلو جلدی سے دسترخوان پر آؤ۔ شیخ جواد نے ناشتہ کے دوران عطا کردہ آزادی پر شکریہ ادا کیا اور نہایت سعادت مندی سے حمام کی جانب چل دیئے۔
رضوان نے کہا۔ امی آپ تو…
رخسانہ نے اس کی بات بھی کاٹ دی۔ ہاں میں جانتی ہوں تم دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے کے بڑے ہمدرد و غم خوار ہو۔ لیکن میں بھی تمہاری دشمن نہیں ہوں۔ چلو تم بھی جلدی سے دسترخوان پر چلو۔ اب وہ تینوں ناشتہ کر رہے تھے کہ شیخ جواد نے پوچھا۔ بیٹے امتحانات کب سے ہیں؟
رخسانہ رضوان سے پہلے بول پڑی۔ یہ لو۔ ان شفیق باپ کو دیکھو جنھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ امتحانات ختم ہو چکے ہیں اور شاید آپ کو یہ بھی یاد نہ ہو گا کہ یہ اس کے آخری سال کے امتحانات تھے۔ ان میں کامیابی کے بعد ان شاء اللہ میرا بیٹا انجینئر بن جائے گا۔ المسعودی خاندان کا پہلا مہندس (انجینئر)۔
ہاں ہاں میں جانتا ہوں۔ اچھا تو بیٹے آپ کے نتائج کب تک ظاہر ہو جائیں گے؟
رخسانہ نے پھرٹوکا۔ تعجب ہے آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ ایک مہینہ کے اندر نتائج ظاہر کر دیئے جاتے ہیں آئندہ ماہ جب آپ تشریف لائیں تو مٹھائی کا ٹوکرا اپنے ساتھ ضرور لانا۔ میں اپنے بیٹے کے انجینئر بن جانے کی خوشی میں سارے محلے کو مٹھائی کھلاؤں گی.
ہاں ہاں ضرور کھلانا۔ شیخ صاحب بولے۔ سارے محلے کو کیوں سارے شہر کو مٹھائی کھلانا، ننگارے بجوانا کہ تمہارا بیٹا انجینئر ہو گیا۔ گویا انجینئر ہونے والا یہ دنیا میں پہلا فرد ہے۔
رخسانہ جل بھن کر بولی۔ آپ کیوں جلی کٹی سنانے لگے ساری دنیا میں نہ سہی تو کیا…
شیخ جواد نے جملے کاٹ دیا۔ المسعودی خاندان میں …
فوراً رخسانہ نے پھر جملہ لپک لیا۔ نہ صرف المسعودی خاندان بلکہ میرے جنیدی خاندان میں بھی یہ پہلا مہندس ہے۔
بس کرو اپنے بیٹے کی تعریف میں خوب جانتا ہوں المسعودی اور جنیدی خاندان کو۔
کیوں بس کروں۔ میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے۔ میں اس کی تعریف نہ کروں گی تو کون کرے گا؟
رضوان بڑی دلچسپی سے اپنے ماں باپ کی نوک جھونک دیکھ رہا تھا۔ ہاسٹل کی زندگی میں وہ ان لمحات کو ترس جاتا تھا وہ خوش تھا کہ اسے اقامت گاہ کی بے لطف زندگی سے نجات حاصل ہو گئی تھی۔ ناشتہ کے بعد شیخ جواد بازار کی طرف نکل گئے اپنے کاروباری معاملات میں وہ نہایت سنجیدہ طبیعت کے حامل تھے۔ ہر کام میں خود دلچسپی لیتے اور خوش اسلوبی سے اس کا حق ادا کرتے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ تعلیم ختم کرنے کے بعد ان کا بڑا بیٹا رضوان کاروبار کی ذمہ داریاں سنبھال لے لیکن رضوان کو اس خرید و فروخت کے کام میں دلچسپی نہ تھی وہ صنعت کار بننا چاہتا تھا۔ صنعت قائم کرنے کے لیے شیخ جواد کے پاس ذرائع و وسائل کی کمی نہیں تھی لیکن جس طرح کی صنعت رضوان قائم کرنا چاہتا تھا اس کے لیے جیزان شہر موزوں نہیں تھا۔ اپنی پسند کی صنعت کے لیے اس کا جبیل، ینبع، جدہ یا ریاض منتقل ہونا ضروری تھا۔
ہفتہ کے خاتمہ پر جب شیخ جواد نے خمیس مشیط میں واقع مزرع کی جانب رخت سفر باندھا تو رضوان کو بھی اپنے ساتھ چلنے کے لیے تیار کر لیا۔ ان کی خواہش تھی کہ رضوان چند روز مزرع میں گذارے۔ آب و ہوا بھی تبدیل ہو جائے اور بھائی عرفان سے ملاقات بھی ہو جائے۔ رخسانہ کو جیسے ہی اس منصوبے کا پتہ چلا وہ خود بھی تیار ہو گئی۔ رضوان کو اگر اپنے بھائی سے ملنا تھا تو اسے بھی اپنے بیٹے سے ملنے کی خواہش ستا رہی تھی۔ شیخ جواد نے رخسانہ کی فرمائش قبول تو کر لی لیکن اسے سمجھایا کہ دیکھو ذرا اپنی زبان پر لگام رکھنا اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا ورنہ اس بے چارے کی چھٹیاں خراب ہو جائیں گی۔
دیکھو جی۔ رخسانہ بولی۔ ویسے یہ اب چھٹی پر نہیں آیا ہے بلکہ کالج کی چھٹی کر کے آیا ہے اور پھر میں غلط بات برداشت نہیں کر سکتی۔ چاہے وہ غلط بات آپ کہیں یا آپ کی چہیتی نذرانہ کہے۔ مجھ سے نہیں سہا جائے گا کیا سمجھے؟
شیخ جواد بولے۔ میں کب کہتا ہوں کہ تم غلط بات کو برداشت کرو لیکن تمہارا مسئلہ یہ کہ تم صحیح اور غلط کا فیصلہ اپنی پسند اور ناپسند سے کرتی ہو اور اس کسوٹی کے مطابق جو بات تمہیں غلط معلوم ہوتی ہے اس پر غلط انداز میں گرفت کرتی ہو اسی سے بات بگڑ جاتی ہے۔
رخسانہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہاں میں جانتی ہوں کہ میری پسند بھی غلط ہے اور گرفت بھی۔ اسی لیے میں نے آپ کو پسند کر لیا اور آپ کی گرفت میں آ گئی۔
شیخ جواد مسکرائے انہوں نے کہا۔ تم میری گرفت میں ہو یا… وہ رک گئے۔
رخسانہ نے کہا۔ یا کیا؟ آپ میری گرفت میں ہیں یہی نا؟ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ایک ہی بات ہے۔ رخسانہ کی اس بات پر تینوں ہنسنے لگے۔
جمعہ کی نماز سے قبل جب یہ قافلہ مزرع میں پہنچا سبھی لوگ شاد ماں ہو گئے۔ رضوان اور عرفان ایک دوسرے سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور بات چیت میں مصروف ہو گئے۔ نذرانہ اور رخسانہ کا بھی یہی حال تھا وہ دونوں بھی گفت و شنید میں محو ہو گئیں۔ شیخ جواد اپنی دو بیویوں اور دو بیٹوں کی موجودگی میں بالکل تنہا ہو گئے۔ کچھ دیر دالان میں خاموش بیٹھنے کے بعد وہ باہر باغ میں آ گئے۔
کھجور کے دراز قد پیڑوں نے ان کی تنہائی دور کر دی۔ ان درختوں سے شیخ صاحب کو بے حد انسیت تھی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جن کے درمیان انہوں نے اپنا لڑکپن گذارا تھا اور کچھ ایسے تھے جنہیں خود شیخ جواد نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اور نہایت محنت سے سینچ کر بڑا کیا تھا۔ شیخ جواد جب ان درختوں میں آتے تو انہیں ایسا لگتا گویا وہ ان کے اپنوں میں آ گئے ہیں۔ وہ اس بے زبان مخلوق سے گھنٹوں باتیں کرتے ان کو اپنی سناتے اور ان کی سنتے۔ ان کی یہ بات چیت کوئی اور نہ سنتا۔
دیر تک پیڑوں سے محو گفتگو رہنے کے بعد جب وہ کسی آواز کی جانب متوجہ ہوئے تو وہ اذان کی آواز تھی۔ مؤذن نماز جمعہ کے لیے مصلیان کو مسجد میں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد پانچوں ایک ساتھ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔
پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہی رضوان نے نذرانہ سے کہا۔ امّی میں تو دعا کرتا ہوں کہ جنت میں بھی مجھے آپ کے ہاتھ کا کھانا نصیب ہو۔
عرفان نے کہا۔ لیکن بھائی کیا بہشت میں بھی بڑی امی کو کھانا بنانے کی مشقت سے نجات نہیں ملے گی؟
شیخ جواد بولے۔ جنت میں انہیں زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت وہاں تو فرشتے جیسا چاہیں گے کھانا بنا کر تیار کر دیں گے۔
رخسانہ نے کہا۔ فرشتے یا حوریں؟
شیخ جواد نے کہا۔ فرشتے یا حوریں ایک ہی بات ہے۔ تم بال کی کھال نہ نکالو۔
رضوان بولا۔ لیکن بابا کیا فرشتے بڑی امی جیسا ذائقہ دار کھانا بنا سکیں گے؟
یہ سن کر سب چپ ہو گئے تو نذرانہ نے کہا۔ آپ لوگ بلا وجہ فرشتوں اور حوروں تک پہنچ گئے ان دونوں کے لیے دو اچھی اچھی بیویاں لے آؤ میں ان کو ایسا کھانا بنانا سکھلا دوں گی کہ یہ میرے ہاتھ کا ذائقہ بھول جائیں گے۔
شیخ جواد نے تائید کی۔ ہاں جیسے میں بھول گیا۔
کھانے کے بعد نذرانہ اور رخسانہ باورچی خانے میں مصروف ہو گئے۔ جواد آرام کے لیے چلے گئے اور رضوان اپنے بھائی عرفان کے ساتھ باغ میں آ کر بیٹھ گیا۔ وہ ابھی ایک دوسرے کی خیریت ہی معلوم کر رہے تھے کہ نذرانہ ایک خوبصورت سی طشتری میں تازہ کھجوریں اور قہوہ کا تھرماس لے آئی اور ان کے درمیان رکھ کر خود رخسانہ کے پاس آرام کرنے چلی گئی۔ رضوان نے کھجور کھاتے ہوئے پوچھا۔
بھیا کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے باغ کی کھجوریں اتنی میٹھی کیوں ہیں؟
عرفان بولا۔ کھجوریں تو سبھی باغات کی میٹھی ہوتی ہیں لیکن ہمیں اپنے باغ کی کھجوریں اچھی لگتی ہیں اس لیے کہ وہ ہماری اپنی ہیں۔
ایک بات بتاؤں آپ تو واقعی فلسفی ہیں آپ کی اکثر باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔
کیا مذاق کرتے ہو۔ عرفان بولا۔ تم نے ملک کے سب سے نامور تعلیم گاہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہو کہ مجھ جیسے گنوار کی بات تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو۔
رضوان نے نفی میں سرہلایا اور کہا۔ نہیں ایسی بات نہیں۔ ہم نے انجینئرنگ کی تعلیم ضرور حاصل کی لیکن وہاں ہمیں فلسفہ کی تعلیم نہیں دی گئی اور علم کلام کی جن کتابوں کا آپ مطالعہ کرتے ہیں انہیں سمجھنا تو درکنار ان کا مطالعہ بھی میرے لیے محال ہے۔
سچ؟ عرفان نے حیرت سے پوچھا
رضوان نے تائید کی بے شک۔ یہ ذوق سلیم بھی بہت بڑی نعمت ہے۔
لیکن والد محترم کواس نعمت کا ادراک نہیں وہ چاہتے ہیں کہ میں شہر میں جا کر کاروبار کروں۔ میں نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ میں شہر نہیں جانا چاہتا میں یہیں رہ کر باغات کی دیکھ ریکھ کرنا چاہتا ہوں اور اپنا مطالعہ جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ میں جیزان جا کر پٹرول پمپ کی نگرانی کروں بلکہ انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ آئندہ ماہ سے پٹرول پمپ کا کام کاج کو سنبھال لوں اس لئے کہ اسے چلانے کے لیے جسے دیا گیا تھا اس کرایہ دار کی میعاد کار ختم ہونے والی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں آپ کا تعاون حاصل کروں لیکن میں یہ نہیں چاہتا۔ اب تمہیں بتاؤ میں کیا کروں؟
رضوان نے جواب دیا۔ میرے بھائی اس معاملے میں میری حالت تم سے مختلف نہیں۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں آگے چل کر ایک بڑا صنعت کار بنوں گا لیکن والد صاحب چاہتے ہیں میں جیزان میں ہوٹل چلاؤں۔ یہ تو اَن پڑھ لوگوں کا کاروبار ہے اس میں میری پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا کوئی استعمال نہیں ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر مجھ سے یہی کرانا تھا تو مجھے اتنی دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیوں بھیجا گیا۔ یہ کام تو میں بغیر انجینئرنگ کی مشقت طلب تعلیم کے بھی کر سکتا تھا۔
لیکن آپ جیزان کے ہوٹل کے بجائے صنعت کیوں قائم نہیں کرتے؟
رضوان بولا۔ میں جس طرح کی صنعت قائم کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے جیزان موزوں نہیں ہے جو شہر اس کاروبار کے لیے مناسب ہیں وہاں امی بابا مجھے بھیجنا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے بہت ہو چکی گھر سے دوری اب یہیں جیزان میں رہ کر کاروبار دیکھو۔
دونوں بھائی فکر مند ہو گئے۔ دیر تک خاموش رہے پھر رضوان بولا۔ بھائی میں نے سوچ لیا کہ میں اپنی زندگی اپنے طریقے سے گذاروں گا۔
لیکن امی بابا؟ ‘عرفان نے پوچھا۔
میں انہیں سمجھاؤں گا‘ رضوان بولا۔ کہ وہ ہمیں اپنی زندگی جینے دیں اپنی مرضی ہم پر تھوپ کر ہماری خوشیاں نہ چھینیں۔
عرفان نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس گفتگو کے بعد دونوں بھائی والدین کے مقابلے اپنے آپ کو زیادہ طاقتور محسوس کر رہے تھے۔ ایک ہفتہ دیکھتے دیکھتے گذر گیا۔ شیخ جواد کو اب اپنے آبائی وطن آبھا روانہ ہونا تھا نیز رضوان اور رخسانہ کو جیزان۔ نکلنے سے پہلے شیخ جواد نے عرفان کو پاس بلایا اور جلد از جلد پٹرول پمپ کا کاروبار سنبھال لینے کی تلقین کی۔ رضوان کو ہوٹل کی تیاری کا مشورہ دیا اور دونوں کو ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی نصیحت کر کے اپنی راہ لی۔ دونوں بھائیوں میں سے کسی نے بھی ایک لفظ تک نہ کہا۔ سبھی خاموش رہے اور ان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا گیا۔
دونوں بھائی اپنی امی رخسانہ کے ساتھ جیزان تو آ گئے لیکن کاروبار کی طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔ درمیان میں ایک دن جواد نے عرفان کو فون پر سخت سست کہا اور اسے کاہلی چھوڑ کر جلد از جلد پٹرول پمپ چلانے والے سے ملنے کا حکم دیا۔ دوسرے دن دونوں بھائی با دلِ ناخواستہ حکم کی تعمیل میں پٹرول پمپ جا پہنچے۔ کرایہ دار نہایت خلیق انسان تھا۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے دونوں بھائیوں کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنا دکھڑا کہہ سنایا۔
اس نے کہا آج سے دو سال قبل یہ پٹرول پمپ قائم کیا گیا اور اسی وقت اس نے کرایہ پر لے لیا تقریباً ڈیڑھ سال تو یہ کاروبار گھاٹے میں چلتا رہا اس لئے کہ لوگوں کو پتہ چلنے میں اور گاہکوں کے آنے میں تھوڑا بہت وقت لگتا ہی ہے ابھی گذشتہ چھ ماہ سے کچھ آمدنی شروع ہوئی ہے لیکن پرانے نقصان کی پوری طرح بھرپائی بھی نہ ہو سکی کہ معاہدہ کی میعاد ختم ہو گئی۔ اس نے شیخ جواد کو لاکھ سمجھایا کہ معاہدے کی توسیع کر دی جائے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ اس کرایہ دار نے اب اپنی درخواست عرفان اور رضوان کے سامنے رکھ دی۔
عرفان کا دل پسیج گیا اس نے کرایہ میں معمولی اضافہ کے ساتھ معاہدہ کی مدت مزید دوسال کے لیے بڑھا دی۔ کرایہ دار خوشی سے جھوم اٹھا۔ عرفان بھی خوش تھا وہ واپس خمیس مشیط اپنے مزرع پر آ گیا۔ شیخ جواد کو جب عرفان کی اس حرکت کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے چونکہ وہ پٹرول پمپ چلانے کے اختیارات عرفان کو دے چکے تھے اس لیے انہوں نے اس میں مداخلت سے کسی طرح اپنے آپ کو روک لیا لیکن اپنی ناراضگی نہ چھپا سکے ان کے خاندان میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اولاد نے والدین کی نافرمانی کی ہو اور پھر عرفان جیسی متقی و پرہیز گار اولاد جس پر شیخ جواد ناز کرتے اور جان چھڑکتے تھے۔ اس کی نافرمانی نے شیخ جواد کو غم گین کر دیا تھا۔
شیخ جواد اپنے آبائی مکان میں بیٹھے سلطانہ کے ساتھ قہوہ پی رہے تھے کہ اچانک سلطانہ کو کوئی بات یاد آئی وہ اٹھی اور دوسرے کمرے کی جانب چلی گئی۔ جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ریحان کے ششماہی نتائج تھے۔ سلطانہ نے بتلایا کہ ریحان ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گیا ہے نیز استانی کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو اسے تیسرا سال بھی اسی درجہ میں گذارنا ہو گا۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا تم اس کی تعلیم کی جانب توجہ نہیں دیتیں؟
نہیں ایسی بات نہیں میں تو میں مرجانہ بھی اس کی تعلیم کی جانب پوری طرح متوجہ ہیں۔ لیکن کیا کریں اس کا دل ہی نہیں لگتا۔
اچھا۔ جواد نے کہا۔ تو آخر کس کام میں اس کا دل لگتا ہے؟
سلطانہ چند لمحہ خاموش رہی اور پھر اس نے کہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مویشیوں میں اس کا دل خوب لگتا ہے ان کو چرانا ان کی دیکھ بھال کرنا اسی میں وہ لگا رہتا ہے۔ جب ہم زبردستی اسے کتاب پکڑاتے ہیں تو وہ رونے لگتا ہے یا سو جاتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو کیوں نہ ہم اسے اسی کام میں لگا دیں۔
سلطانہ کا پارہ چڑھ گیا وہ بولی۔ کیا بات کرتے ہیں آپ؟ اگر میں ہاں کہہ دوں تو آپ کل سے ریحان کو مویشیوں کے حوالے کر کے صفوان کو اسکول روانہ کر دیں گے۔
شیخ جواد مسکرائے اور کہا۔ ریحان کو مویشیوں کے حوالے کرنے والا بھلا میں کون ہوتا ہوں وہ تو خود ہی ان میں مست رہتا ہے اور جو دوسری بات تم نے کہی وہ بھی ٹھیک ہی ہے صفوان جب اسکول جاتا تھا اس وقت تک کبھی بھی فیل نہیں ہوا۔ کچھ مضامین میں تو وہ امتیازی نمبر حاصل کرتا تھا اور اس تبدیلی کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ صفوان اور ریحان کے درمیان ہونے والے لڑائی جھگڑے کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
شیخ جواد کی تجاویز سے سلطانہ چراغ پا ہو گئی اور بولی۔ آپ ان کی لڑائی ختم کرا کے مجھ سے لڑنا چاہتے ہیں۔ میں سب جانتی ہوں آج بھی آپ شبانہ اور اس کے بیٹے صفوان کو مجھ سے اور ریحان سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اسے گھر سے نکالنے کے لیے میں نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔ مرجانہ کو اس کی جگہ اپنے گھر لائی لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اس منہ جلی کو آپ کے دل سے نہ نکال سکی۔ اب تو آپ اس کے بیٹے کو اسکول میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ نیز میرے بیٹے ریحان سے بکریاں چروانا چاہتے ہیں یہ تو حد ہو گئی۔
بات بگڑتی دیکھ شیخ جواد نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی اور بولے۔ دیکھو سلطانہ بات کا بتنگڑ نہ بناؤ۔ ریحان کی ناکامی پر فکر مندی کا اظہار تم نے کیا۔ اسے مویشیوں سے انسیت ہے یہ بات تم نے بتلائی۔ صفوان پڑھنے لکھنے میں اچھا ہے اس حقیقت سے تم خوب واقف ہو۔ ان دونوں کو ساتھ ساتھ مویشیوں کی دیکھ ریکھ پر نہیں لگایا جا سکتا اس لیے کہ ان میں آپس میں بنتی نہیں ہے اب ان تمام مسائل کا کیا حل ہے؟ تمہیں بتاؤ میں مان لوں گا۔
وہ دونوں نہیں لڑتے صفوان لڑتا ہے۔ جس طرح آپ مجھ سے لڑ رہے ہیں میں تو صفوان اور اس کے باپ دونوں سے پریشان ہوں۔
نہیں سلطانہ نہیں۔ تمہاری پریشانی کی وجہ نہ تو صفوان ہے اور نہ میں ہوں بلکہ ریحان اور اس کی ناکامی ہے لیکن تم اصل مسئلہ سے نظریں ہٹا کر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہو۔ اگر ریحان بار بار ناکام نہ ہوتا تو یہ بکھیڑا ہی کھڑا نہ ہوتا۔ لیکن تم ان حقائق سے آنکھیں چرانا چاہتی ہو اس لیے کہ ریحان تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
سلطانہ نے لپک کر کہا۔ ہاں ضرور ہے کیوں نہ ہو؟ آپ کو بچوں سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں۔ اور میرے ریحان سے تو خدا واسطے کا بیر ہے۔ بس صفوان کو اسکول بھیجنے کی فکر ستاتی رہتی ہے تو ٹھیک ہے کل سے یہی ہو گا صفوان کو اسکول روانہ کیا جائے گا اور ریحان کو جانوروں کے ساتھ ان کے باڑے میں جھونک دیا جائے گا۔ اگر آپ اسی سے خوش ہیں تو ایسا ہی ہو گا۔
شیخ جواد نے بالآخر سپر ڈال دی اور کہنے لگے دیکھو سلطانہ بلاوجہ غصہ نہ کرو ریحان کو مویشیوں میں رکھنا یہ میری نہیں اس کی اپنی خواہش ہے۔ لیکن پھر بھی تم ایک اور کوشش کرو کہ اس کا دل پڑھائی میں لگ جائے۔ میں نے کب منع کیا ہے بلکہ میں تو ہر طرح سے اپنا تعاون پیش کرتا ہوں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں؟
سلطانہ بھی نرم پڑی اور بولی۔ ریحان بچہ ہے وہ اپنے مستقبل کا فائدہ نقصان نہیں جانتا لیکن ہم تو جانتے ہیں وہ سوچ نہیں سکتا تو کیا ہوا ہم تو سوچ سکتے ہیں۔ ایسے میں ہم اسے مویشیوں کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں؟
جی ہاں سلطانہ تم سچ کہتی ہو۔ شیخ جواد نے تائید کی اور بولے۔ لیکن یاد رکھو ریحان ہی کی طرح صفوان بھی بچہ ہے وہ بھی ہماری اولاد ہے اور اس کا بھی مستقبل ہے۔ سلطانہ کے پاس شیخ جواد کی اس بے بسی کا کوئی جواب نہ تھا۔
اگلی مرتبہ جب شیخ جواد نے جیزان کی جانب رختِ سفر باندھا تو مرجانہ بھی تیار ہو گئی۔ کئی دنوں سے رخسانہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی رضوان گھر آیا ہے اس سے بھی ملنا تھا۔ شیخ جواد نے مرجانہ کو ساتھ لے لیا۔ مرجانہ اور رخسانہ ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ رضوان کے ساتھ مرجانہ کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ مرجانہ نے تعلیم کے بارے میں پوچھا اور یہ پتہ چلنے پر کہ آخری سال کا امتحان ہو چکا مستقبل کا منصوبہ دریافت کیا۔
اس سوال نے رضوان کو افسردہ کر دیا وہ بولا۔ چھوٹی امّی تعلیم ختم کرنے کے بعد میں صنعت کار بننا چاہتا ہوں جیزان شہر میں اس کے امکانات ناپید ہیں۔ میں اس کے لیے ینبع جانا چاہتا ہوں لیکن امی منع کرتی ہیں وہ کہتی ہیں گھر سے دوری بہت ہو چکی اب یہیں رہو کاروبار کرو اور گھر بساؤ۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا۔
مرجانہ نے پوچھا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس بارے میں آپ کے بابا کیا کہتے ہیں؟
بابا کیا کہیں گے آپ تو میری امی سے واقف ہیں ان کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ بابا کی بھی نہیں۔ انہوں نے امی کی تائید کرتے ہوئے مجھے ہوٹل کا کاروبار کرنے کا حکم دیا ہے۔
مطعم؟ مرجانہ نے تعجب کا اظہار کیا۔
جی نہیں رہائشی ہوٹل بشمول مطعم۔ رضوان نے کہا۔ جیزان میں سیر و تفریح کے لیے دنیا بھر سے سیلانی آتے ہیں بابا کا خیال ہے کہ یہاں ہوٹل کا کاروبار خوب چل سکتا ہے۔
لیکن تمہاری انجینئرنگ؟ مرجانہ نے پوچھا۔
وہی تو میں کہتا ہوں اگر یہی جاہلوں والا کام کرنا تھا تو مجھے پڑھایا لکھایا کیوں گیا۔ کیوں انجینئر بنایا گیا۔ امی آپ نہیں جانتیں میں نے ہر سال امتحانات میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے میں کالج میں ایک ہونہار طالب علم کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں۔ اگر میرے اساتذہ یا دوستوں کو پتہ چلے گا تو کوئی غمگین ہو گا کوئی ہنسے گا۔
کیا تمہاری امی اس بات سے واقف نہیں؟ مرجانہ نے پوچھا۔
وہ خوب جانتی ہیں لیکن ان کے لیے میری تعلیمی لیاقت محض خاندان والوں اور محلے والوں پر فخر جتانے کی شئے ہے اور وہ اس کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ لیکن میرے مستقبل میری پسند اور ناپسند کے بارے میں نہیں سوچتیں۔
مرجانہ خود جدید تعلیم سے آراستہ تھی۔ اس کا تعلق بھی رضوان کی نسل سے تھا۔ اس لیے وہ رضوان کے کرب کو محسوس کرتی تھی۔ مرجانہ نے رضوان کو یقین دلایا کہ وہ اس بارے میں شیخ جواد سے بات چیت کرے گی اور انہیں رضوان کا موقف سمجھانے کی کوشش کرے گی۔
مرجانہ کی یقین دہانی سے رضوان عارضی طور پر خوش ہو گیا۔ لیکن اس کا دل کہتا تھا کہ جہاں رخسانہ جیسی دبنگ شخصیت موجود ہو اور بڑوں کی بات نہ ماننا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہو مرجانہ بے چاری کر بھی کیا سکتی ہے؟ پھر بھی اُمید کا ایک ٹمٹماتا چراغ ضرور روشن ہوا تھا۔
دیکھتے دیکھتے ہفتہ گذر گیا۔ مرجانہ کو رضوان کے بارے میں گفتگو کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ جیزان سے خمیس مشیط کے راستے ہی میں مرجانہ کا میکہ تھا۔ اس نے درخواست کی کہ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے ایک ہفتے کے لیے اپنے ماں باپ کے پاس چھوڑ دیں اور واپسی میں اپنے ساتھ لیتے جائیں۔
شیخ جواد نے مرجانہ کی تائید کی اور دوپہر تک اس کے میکے جا پہنچے۔ کھانے کے بعد مرجانہ کو رضوان کے بارے میں بات کرنے کا موقع مل گیا۔ مرجانہ بولی۔ رضوان کو ہوٹل کے کاروبار میں ڈالنا سراسر زیادتی ہے۔ اس نے جو تعلیم حاصل کی ہے اس کے ساتھ مذاق ہے۔ وہ اس کاروبار میں کبھی بھی خوش نہ رہ سکے گا۔
جواد متفکر انداز میں بولے۔ شاید تم سچ کہتی ہو لیکن تم نہیں جانتیں رضوان جس طرح کی صنعت قائم کرنا چاہتا ہے وہ جیزان میں ممکن نہیں اور اس کی ماں رخسانہ اُسے کسی صنعتی شہر بھیجنے کے حق میں نہیں ہے۔ ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟
مرجانہ نے پوچھا۔ وہ اُسے اب کیوں نہیں بھیجنا چاہتیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو پہلے کیوں بھیجا؟ یہیں رہتا کنویں کے مینڈک کی طرح۔ اُسے پتہ ہی نہ چلتا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اور وہ کیا کچھ کر سکتا ہے؟
دیکھو مرجانہ شیخ جواد بولے۔ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ رخسانہ نے سارے خاندان کو قائل کر دیا ہے کہ اس کا بیٹا سب سے زیادہ ہونہار ہے۔ اب وہ اس کا گھر بسانا چاہتی ہے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ اسی لیے میں درمیان کا راستہ نکالتے ہوئے اُسے ہوٹل کے کاروبار کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ وہ اپنی امی کے پاس شاد و باد رہے۔
لیکن یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ وہ خوش رہے گا۔ مرجانہ بولی۔ وہ تو برباد ہو جائے گا۔ احساس زیاں اس کے لیے ناسور بن جائے گا۔ اور اس کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے۔
لفظ رد عمل پر شیخ جواد چونک پڑے۔ کیسا رد عمل؟ کیا بات کرتی ہو مرجانہ۔
مرجانہ نے سنبھل کر کہا۔ میں آپ کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتی لیکن آپ کو حقائق سے آگاہ کر دینا ضروری سمجھتی ہوں ہمارے اس طرح کے رویہ سے نوجوان نسل میں بغاوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور بغاوت کو کچلنے والی ہماری کوششیں ان کے رد عمل میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ ایسے میں کبھی کبھار حالات قابو سے باہر بھی ہو جاتے ہیں۔
شیخ جواد نے تائید کی اور کہا۔ مرجانہ تم سچ کہتی ہو۔ حالات بتدریج قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ عرفان نے میری مرضی کے خلاف کرایہ دار کی مدت میں توسیع کر دی اور مزرع میں روانہ ہو گیا۔ رضوان بھی اسی کے نقش قدم پر رواں دواں ہے۔ صفوان پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ جانوروں کے ساتھ رہتے رہتے انسانوں سے بھی جانوروں کی طرح پیش آنے لگا ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟ افسوس کی بات ہے میری کوئی بھی شریک حیات ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید اُلجھا دیتی ہیں۔
نہیں ایسی بات نہیں۔ مرجانہ بولی۔
شیخ جواد نے کہا۔ تم ٹھیک کہتی ہو حالانکہ تم ان سب سے کم سن اور نا تجربہ کار ہو لیکن مجھے خوشی ہے کہ تمہیں ان خاندانی اُلجھنوں کا ادراک ہے اور تم اس معاملے میں فکر مند ہو۔
مرجانہ بولی۔ زہے نصیب۔ یہ میرا فرض ہے۔ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ہمارے محلے میں ایک بزرگ حکیم عبداللہ الشمری رہتے ہیں وہ نفسیاتی اُلجھنوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان سے رجوع فرمائیں۔ شیخ جواد راضی ہو گئے۔
بعد نماز جمعہ جب شیخ جواد حکیم عبداللہ الشمری کی خدمت میں پہنچے تو وہ تسبیح و تحلیل میں مصروف تھے۔ جیسے ہی انہوں نے قدموں کی آہٹ سنی اس جانب متوجہ ہو گئے۔ جب تعارف ہوا اور مرجانہ سے رشتے کا پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے اور آنے کا سبب دریافت کیا۔
شیخ جواد نے حکیم صاحب کے سامنے اپنی زندگی کی کتاب کھول کر رکھ دی۔ وہ بڑی توجہ سے سب کچھ سنتے رہے۔ جب شیخ جواد خاموش ہو گئے تو نہایت شفقت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ان کی ڈھارس بندھائی۔ دعا کی اور یوں گویا ہوئے۔ تمہارے مسائل کی بنیادی وجہ خود پسندی اور زور زبردستی ہے۔ آپ لوگ مخاطب کے جذبات و احساسات کا خیال کیے بغیر ان کی پسند یا ناپسند معلوم کیے بغیر اپنی مرضی مسلط کر دینا چاہتے ہیں۔
جو بچہ مویشی چرانا چاہتا ہے آپ اسے اسکول بھیجتے ہیں جو پڑھنا چاہتا ہے اسے مویشیوں کے حوالے کر دیتے ہیں نتیجتاً ایک ناکام اور دوسرا منہ زور ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں آپ لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ آپ کی اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اسی طرح جو صنعت کار بننا چاہتا ہے اس سے آپ ہوٹل چلوانا چاہتے ہیں جو باغات کی دیکھ بھال کرنے اور پڑھنے لکھنے کا خواہش مند ہے اسے آپ مزرع سے نکال کر پٹرول پمپ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ ہر کسی کو اس کی مرضی کے خلاف لے جانے کی کوشش ہی بغاوت کا بنیادی سبب ہے۔
لیکن حکیم صاحب ہم ان کے والدین ہیں۔ شیخ جو اد بولے۔ کیا ہمیں ان کی خیر خواہی کا حق حاصل نہیں ہے؟ کیا ہم ان کا بھلا نہیں چاہ سکتے؟
حکیم صاحب بولے۔ یقیناً تمہیں اس کا حق ہے۔ لیکن خیرخواہی کا تقاضا مخاطب کے نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی توہے۔ اس پر اپنا حکم تھوپنے کے بجائے اس کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہے اور اگر اس میں ناکامی ہو جائے تو اس کی بات کو تسلیم کر لینا ہی دانش مندی ہے۔ اگر تم سب باہم محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کے جذبات کا احترام سیکھو۔ بغاوت و انتشار کی کیفیت اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔
لیکن ہمارے لیے ان کی باتوں کو مان لینا بہت مشکل ہے۔ شیخ جواد بولے۔
حکیم صاحب نے کہا۔ اور ان کے لیے بھی آپ لوگوں کی بات کو تسلیم کرنا ویسا ہی مشکل کام ہے۔ دیکھو جواد اس مشکل کا حل اعتماد باہم میں پوشیدہ ہے۔
لیکن وہ کیسے پیدا ہو گا؟ شیخ جواد کا سوال تھا۔ اور جواب میں حکیم صاحب بولے۔
باہم محبت سے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان بچوں کے اور تمہارے درمیان والدین اور اولاد کا رشتہ ضرور قائم ہے لیکن محبت و شفقت کا فقدان ہے۔
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ شیخ جواد نے پوچھا۔
یہ نہایت آسان کلیہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی خوشی اور ناراضگی کا خیال کرتا ہے۔ لیکن آپ لوگ والدین کی حیثیت سے ایسا نہیں کرتے۔
جواد نے اثبات میں سرہلایا۔ حکیم الشمری نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ شاید تم خود اپنی بیویوں سے دلی محبت نہیں کرتے۔ اس کے باعث وہ بھی تم سے قلبی لگاؤ نہیں رکھتیں اور تمہارے بچوں سے بھی ویسی محبت نہیں کرتیں جیسی کہ ہونی چاہئے۔
آپ کی ہر بات بجا ہے لیکن خدارا یہ بتلائیں کہ اب مجھے کرنا کیا پڑے گا؟
حکیم صاحب بولے۔ میری تشخیص میں ہی علاج پوشیدہ ہے پھر بھی میں اسے واضح کیے دیتا ہوں۔ ابتداء تم سے ہو گی جب تم اپنی بیویوں سے محبت کرو گے تو جواباً وہ بھی تم سے اور تمہارے بچوں سے محبت کرنے لگیں گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بچوں کے دلوں میں والدین کی محبت اور احترام جنم لے گا۔ جب ایسا ہو گا توسب ایک دوسرے کی پسند و ناپسند کا خیال کریں گے۔ خوشنودی اور ناراضگی کا لحاظ کریں گے۔ دوسروں کی خوشی کو اپنی مرضی پر ترجیح دیں گے۔ اپنی خواہشات کو دوسروں کی مسرت کیلئے قربان کر کے خوش ہوں گے۔ اس طرح تمام مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے چلے جائیں گے۔
حکیم عبداللہ الشمری سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ شیخ جواد نے بڑی عقیدت کے ساتھ ان سے اجازت طلب کی اور معانقہ کر کے واپس آ گئے۔
راستہ بھر حکیم صاحب کے الفاظ ان کے ذہن میں گونجتے رہے۔ ان کے ہر ہر لفظ سے سچائی کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ سوچنے لگے اگر رضوان کو ینبع جانے کی اجازت دے دی جائے تو ہو سکتا ہے رخسانہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ہجرت کر جائے لیکن اس کے باوجود خود انہیں تو جیزان آتے جاتے رہنا ہی ہو گا۔ لمبا چوڑا کاروبار جو ہے۔ عرفان تو خمیس مشیط سے وہاں آ کر اسے سنبھالنے سے رہا۔
اس صورت حال کا حل یہی ہے کہ رخسانہ کو طلاق دے کر جیزان میں نیا نکاح کر لیا جائے لیکن ایسا کرنے میں رخسانہ کی محبت آڑے آتی تھی اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اس سے دلی محبت نہ کی جائے اور تمام بیویوں سے انصاف کا تقاضا ہے کہ رخسانہ کی طرح کسی بیوی سے بھی قلبی تعلق نہ رکھا جائے۔ مزرع پر پہنچنے تک انہوں نے حکیم صاحب کے حل کو اپنے طور سے رد تو کر دیا تھا لیکن ہنوز بغاوت کا مسئلہ اپنی جگہ باقی تھا۔
مزرع پہنچنے پر نذرانہ نے ان کا خیر مقدم کیا۔ کافی وقت گذر جانے کے بعد بھی جب عرفان ملنے نہ آیا تو انہوں نے استفسار کیا۔ برخوردار کہاں ہیں؟ خیریت تو ہے؟
نذرانہ نے بتلایا۔ عرفان گھر ہی میں ہے لیکن نہایت غمزدہ ہے۔ جب سے وہ جیزان سے واپس آیا ہے کھویا کھویا سا رہتا ہے۔ پہلے کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا وہ سلسلہ بھی بند ہے۔ بلکہ اب تو کھانا پینا بھی کم ہو گیا ہے۔ اسے آپ کی نافرمانی کا بے حد قلق ہے۔ میں تو کہتی ہوں آپ ہی اسے سمجھائیں۔
ٹھیک ہے۔ جواد بولے۔
نذرانہ عرفان کو بلانے چل پڑی۔ پیچھے پیچھے جواد بھی ہو لیے۔ پہلے کمرے میں دیکھا وہاں ندارد پا کر باغ میں آ گئے۔ یہاں ایک پیڑ کے نیچے پتھر پر بیٹھا عرفان کچھ سوچ رہا تھا۔ جواد نے پیچھے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ عرفان چونک پڑا۔ باپ کو کھڑا دیکھ کر وہ فوراً ان سے لپٹ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔ نذرانہ کو محسوس ہوا ایک لمحے میں وقت کا پہیہ بیس سال پیچھے گھوم گیا۔ وہ ننھا سا عرفان جو کسی زمانے میں شیخ جواد کی انگلی پکڑ کر جیزان سے مزرع آیا کرتا تھا ذرا ذرا سی بات پر رو دیتا تھا اور ذرا سا بہلانے پر ہنس دیتا تھا اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ نہایت حساس شخصیت کا حامل یہ بچہ نذرانہ کو خوب بھاتا تھا۔
نذرانہ کی چونکہ دو لڑکیاں تھیں جنہیں ایک دن بیاہ کے بعد پرائے گھر جانا تھا اس لیے رخسانہ سے درخواست کر کے اس نے عرفان کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ عرفان کو جیزان سے زیادہ خمیس اور اپنی ماں رخسانہ سے زیادہ نذرانہ اچھی لگتی تھی۔ رضوان کے تعلیم کی غرض سے شہر جانے کے بعد وہ گھر میں تنہائی محسوس کرنے لگا تھا۔ یہاں آنے کے بعد اسے دو اچھی اچھی بہنیں مل گئیں۔ باغ جھرنا چرند پرند ہوائیں فضائیں سب کچھ اس کی طبیعت کے مطابق تھا۔ وہ یہاں کیا آیا کہ اس ماحول میں رچ بس گیا۔ اور ان سب کے بغیر اپنے آپ کو نامکمل محسوس کرنے لگا۔
ایک ماہ قبل جب والد صاحب نے جیزان جا کر پٹرول پمپ چلانے کا حکم سنایا تو اس کی ذات سے وابستہ یہ تمام تانے بانے بکھرنے لگے۔ کرایہ دار کی مدت بڑھا کر واپس آتے ہوئے وہ بہت خوش تھا لیکن جب نذرانہ نے اسے والد صاحب کی نافرمانی اور ناراضگی کا احساس دلایا تو وہ پھر اداس ہو گیا اور حزن و ملال بھی ایسا جیسے اس کے تمام دوست اس کے دشمن ہو گئے ہوں۔ اس کا احساس جرم کہتا تھا کہ انہیں اشیاء کی انسیت نے اسے اپنے والد کا نافرمان بنایا ہے۔ والد صاحب کے سینے سے لگ کر اس نے اپنا کھویا ہوا جہان پا لیا تھا۔
جب آنسووں کا سیلاب تھم گیا تو شیخ جواد نے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا۔ اس کی پیشانی کو چوما اور ہاتھ پکڑ کر اسے دیوان خانے میں لاتے ہوئے صرف یہ کہا۔ بیٹے تمہاری خوشی میں ہماری خوشی ہے۔
شیخ جواد کا یہ جملہ سن کر نذرانہ جھوم اٹھی۔ وہ دن اس کے لیے یومِ عید تھا۔
ناشتے سے فراغت کے بعد نذرانہ قہوہ لانے باورچی خانے میں گئی تو شیخ جواد اپنے مسائل میں اُلجھ گئے۔ وہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ حکیم الشمری کا نسخہ ان کے پاس تھا۔ اس پر اطمینان بھی تھا۔ پھر بھی طبیعت کی آمادگی نہیں ہو رہی تھی۔ اس ادھیڑ بن میں خود کلامی کا شکار ہو گئے۔ خود ہی سوال کرتے اور خود ان کا جواب بھی دیتے۔ نذرانہ دیر تک حیرت سے اس منظر کو دیکھتی رہی یہ سب اس کے لیے نہ صرف نیا بلکہ انوکھا بھی تھا۔
نذرانہ نے شیخ جواد کی اس کیفیت میں خلل اندازی مناسب نہ سمجھی۔ دم سادھے کھڑی رہی۔ یہاں تک کہ شیخ جواد خود ہی واپس لوٹ آئے۔ نذرانہ مسکرائی اور کہا۔ میرے سرتاج اس بیس سالہ طویل ازدواجی زندگی میں ایسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا ہے آپ کسی پریشانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے بھی اس میں شریک فرمائیں۔
شیخ جواد نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولے۔ کوئی خاص بات نہیں۔ پھر بھی تم سے کیا چھپانا۔ بچے وہ نہیں چاہتے جو ہم چاہتے ہیں اور ہم وہ نہیں چاہتے جو وہ چاہتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد شیخ جواد نے حکیم الشمری کی تمام گفتگو نذرانہ کے گوش گذار کر دی اور بولے۔ ان کی تجویز معقول ہے مگر مشکل ہے اس لیے میں اس کا متبادل چاہتا ہوں لیکن سجھائی نہیں دیتا۔
نذرانہ نے کہا۔ اچھا آپ کسی زمانے میں ڈاکٹر سائمن کا ذکر کیا کرتے تھے جو تعلیم کے دوران برلن میں آپ کے ساتھ تھے۔ کبھی کبھار اپنے ذاتی مسائل میں بھی ان سے صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ کیوں نہ پھر ان سے رجوع کیا جائے۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسا حل تجویز فرمائیں جس پر عمل درآمد آپ کے لیے آسان تر ہو اور یہ معاملہ سلجھ جائے۔
شیخ جواد خوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا بھئی تم نے نہایت معقول مشورہ دیا ہے۔ میں ڈاکٹر سائمن سے رابطہ کروں گا وہ بہت بڑا ماہر نفسیات ہے اس لیے ضرور میرا مسائل حل کر دے گا۔
شیخ جواد نے اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر سائمن کو اپنا پرانا وعدہ یاد دلایا جس کے مطابق اسے چھٹیاں گذارنے کیلئے کم از کم ایک باران کے پاس آنا تھا۔ شیخ جواد نے سائمن کو یہ بھی بتلا دیا کہ وہ اس دوران کچھ خانگی مسائل پر بھی اس سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
تین چار ماہ بعد ڈاکٹر سائمن اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لے آئے اور ایک مہینے کا وقت شیخ جواد کے تینوں گھروں میں گذارا۔ چاروں بچوں سے فرداً فرداً بات چیت کی۔ بیوی کے ذریعے شیخ جواد کی بیویوں کے انداز فکر کا بھی اندازہ لگا یا اور اپنا نفسیاتی تجزیہ شیخ جواد کے سامنے پیش کر دیا۔ ڈاکٹر سائمن نے بتایا کہ ان تمام مسائل کا حل انتخابی آزادی میں ہے۔
آزادی؟ کیسی آزادی؟ شیخ جواد چونک پڑے۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اگر یہ لوگ آزاد ہو جائیں گے تو مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
سائمن ہنسا اور اس نے کہا۔ تم تو کچھ زیادہ ہی بے چین ہو رہے ہو۔ میں نے مجرد آزادی نہیں بلکہ انتخابی آزادی کہا۔ یہ مغرب کا آزمودہ نسخہ ہے جس میں لوگ اپنی مرضی سے غلامی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم نے اس کا خوبصورت نام جمہوریت رکھا ہے۔ اس نسخہ کے استعمال سے تم اپنے چاروں بیٹوں کو خود ان کی اپنی مرضی سے اپنا بندۂ بے دام بنا سکتے ہو۔
اچھا۔ وہ کیسے؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کبھی تم آزادی کہتے ہو اور کبھی غلامی کی بات کرتے ہو۔ یہ دونوں تو متضاد چیزیں ہیں۔
ڈاکٹر سائمن نے تائید کی۔ یقیناً یہ متضاد چیزیں ہیں۔ لیکن جس پر اس کو آزمایا جاتا ہے وہ اس کے تضاد سے واقف نہیں ہو پاتا وہ آزادی کے نشے میں اس قدر چور کر دیا جاتا ہے کہ اسے اپنے گلے میں پڑا ہوا طوق غلامی خوبصورت ہار دکھائی دینے لگتا ہے۔
وہ کیسے؟ شیخ جواد نے پوچھا۔
میں ابھی بتاتا ہوں۔ ڈاکٹر سائمن نے کہا۔ اطمینان رکھو۔ میں ایک ایک کر کے تمام مسائل کا حل تجویز کروں گا۔ آگے تمہاری مرضی۔
تمہارا بیٹا ریحان پڑھنا لکھنا نہیں چاہتا اس لیے کہ مویشی چرانا چاہتا ہے اس کے برخلاف تم چاہتے ہو کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ ٹھیک ہے؟
شیخ جواد نے کہا۔ بالکل ٹھیک ہے۔
اس کا مطلب ہے جب تک اس کی دلچسپی مویشیوں سے ختم نہیں ہو جاتی وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔
یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس کی دلچسپی کیسے ختم کی جائے؟ شیخ جواد نے پوچھا۔
سائمن بولے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے سامنے ایک تیسرا متبادل رکھ دیا جائے۔
اچھا وہ تیسرا متبادل کیا ہے؟
کھیل کود۔
لیکن اگر اس نے کھیل کود میں بھی دلچسپی نہ لی تو کیا ہو گا؟
نہیں ایسا نہ ہو گا۔ تم اس کے سامنے کئی کھیلوں کے متبادل رکھ دو اس سے کہو کہ وہ فٹ بال کھیلے یا والی بال میدان میں اتر کر کھیلے اگر اسے وہ ناپسند ہو تو کمپیوٹر پر کھیلے یا ٹی وی کے پردے پر وہ کھیل تماشے دیکھے۔ اسے آزادی دو کہ وہ جس کا چاہے انتخاب کرے۔ لیکن کھیلنا تو پڑے گا ہی۔ اگر اس نے مؤخر الذکر دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا تو تمہارا کام اور بھی آسان ہو جائے گا۔
وہ کیسے؟
در اصل اس کے باعث اس کی طبیعت میں سہل پسندی اس قدر گھر کر لے گی کہ وہ مویشی چرانے کی سخت کوشی سے خود ہی دور بھاگے گا لیکن اگر وہ فٹ بال یا والی بال بھی کھیلنے لگے تب بھی اس قدر تھک کر لوٹے گا کہ مویشیوں سے اس کی دلچسپی ختم ہو ہی جائے گی۔ لیکن تمہیں اس کے انتخاب کا احترام کرتے ہوئے اس کی پسند کے کھیل کی تمام سہولیات مہیا کرنی ہو گی تاکہ وہ خوش ہو کر اس میں مگن ہو جائے گا۔ بعد میں ممکن ہے پڑھنے لکھنے بھی لگے۔
شیخ جواد نے پوچھا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو؟
سائمن بولا۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر تعلیم نہ بھی حاصل کرے تو مویشی تو نہیں چرائے گا۔ تمہارا آدھا کام تو ہو ہی گیا۔
جی ہاں ریحان کا مویشیوں سے رکنا تعلیم کے حصول سے زیادہ ضروری ہے۔
تب تو تمہارا اہم کام ہو گیا۔ سائمن نے خوش ہو کر کہا۔
اچھا اب یہ بتلاؤ کہ عرفان کا کیا کیا جائے؟
اس کے لیے میرا مشورہ ریحان جیسا ہی ہے۔
کیا مطلب؟
اس کی شادی کر دو۔
شیخ جواد کو ہنسی آ گئی وہ بولے۔ کہاں شادی اور کہاں کھیل کود۔ کیا دونوں یکساں ہیں؟
سائمن بولا۔ بظاہر تو نہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ بچے بے جان کھلونوں سے کھیلتے ہیں اور بڑے جاندار کھلونوں سے۔ ہاں ایک فرق ضرور ہے۔
وہ کیا؟
بڑے جن کھلونوں سے کھیلتے ہیں وہ کھلونے بھی ان سے کھیلتے ہیں۔ اسے شادی کا کھیل کہتے ہیں اس کی اہلیہ اس سے وہ تمام کام بآسانی کرا لے گی جو آپ لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں کرا سکتے۔
لیکن اگر وہ شادی کے لیے راضی نہ ہوا تو کیا کریں گے؟
نہیں اس کی آزادی اسے نہیں ہے۔ شادی تو کرنی ہی پڑے گی۔ ہاں شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب کی آزادی اسے ضرور حاصل ہو گی۔ اس کے سامنے کئی لڑکیوں کا متبادل رکھا جائے ان میں سے جس سے چاہے اپنی مرضی سے شادی کرے۔ ایک مرتبہ نکاح ہو گیا تو اسے اپنی اہلیہ کے ناز نخرے اٹھانے ہی پڑیں گے۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو تمہیں اس کو موردِ الزام ٹھہرانے کا پورا پورا حق حاصل ہو گا۔ بس اس کے بعد سمجھو کہ تمہارا کام ہو گیا وہ نہ صرف مزرع چھوڑ کر جیزان آ جائے گا بلکہ پٹرول پمپ کے ساتھ دوسرے کاروبار بھی چلانے لگے گا۔ پڑھنے لکھنے کا شوق ہوا ہو جائے گا۔
اس بیچ چائے آ گئی۔ چائے کے بعد رضوان کا مسئلہ زیر بحث آیا تو سائمن نے کہا۔
دیکھو تم سب سے پہلے رضوان کو یہ سمجھاؤ کہ ہوٹل بھی اپنے آپ میں ایک جدید صنعت ہے اور اس کا انتظام و انصرام کرنے والا بھی صنعت کار ہی ہوتا ہے۔
لیکن یہ تو غلط بات ہے۔ شیخ جواد بولے۔
اگر غلط ہے تو ہوا کرے اس سے کیا فرق پڑتا ہے تمہارا کام نکل جائے یہ کافی ہے۔ سائمن نے بات آگے بڑھائی۔ تم اس کے سامنے کئی متبادل رکھو مثلاً پانچ ستارہ ہو یا چار ستارہ اس کا انتخاب وہ خود کر سکتا ہے۔ اس کے مطعم میں انگریزی کھانے کھلائے جائیں یا چینی اس کا فیصلہ بھی اسی پر چھوڑ دو بلکہ اس سے کہو کہ وہ گاہکوں کا خیال کر کے عربی یا ہندوستانی طرز کے کھانے بھی بنوا سکتا ہے۔ اس کی اسے مکمل آزادی ہے لیکن بہرحال کاروبار تو ہوٹل ہی کا کرنا پڑے گا۔ اسی کے ساتھ اسے اس بات کی بھی آزادی دو کہ ہوٹل کا جو چاہے نام رکھے جیسا چاہے فرنیچر منتخب کرے۔ رنگ و روغن وغیرہ ہر چیز وہ اپنی مرضی سے طے کرے۔
لیکن اس سے ہو گا کیا؟ شیخ جواد نے سوال کیا۔
اس سے یہ ہو گا کہ ان تمام مصنوعی آزادیوں میں حقیقی پابندی چھپ جائے گی اور وہ اس ادھیڑ بن میں گرفتار ہو جائے گا کہ کس قسم کا ہوٹل زیادہ چلے گا، کس میں منافع زیادہ ملے گا وغیرہ وغیرہ اور جیسے جیسے وہ ان سوالات میں الجھتا جائے گا تمہارا مسئلہ سلجھتا جائے گا۔
بہت خوب۔ شیخ جواد نے کہا۔ اب صفوان کے بارے میں کچھ بتاؤ میں اس کے بارے میں بہت ہی زیادہ فکر مند ہوں۔ وہ تیزی کے ساتھ باغی ہوتا جا رہا ہے۔
سائمن نے تائید کی۔ یہ تو حسب توقع ہے تم نے اسے جن جائز حقوق سے محروم کر رکھا ہے انہیں بحال کرنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں رد عمل تو لازمی ہے اس لئے قوت کا استعمال ناگزیر ہے مگر خطرہ یہ ہے ایسا کرنے سے دوسروں کے دل میں اس کے تئیں ہمدردی پیدا ہو جائے جو تمہاری بدنامی کا سبب بنے۔
شیخ جواد بولے۔ وہ تو ہو رہی ہے۔
سائمن نے کہا۔ اس بدنامی کا ازالہ یوں ممکن ہے کہ تم سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکا ؤ اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کی خاطر اسے ظالم قرار دو ساتھ اس کے سامنے تعذیب کے مختلف متبادل رکھو مثلاً اسے مارنے کی خاطر چھڑی، ڈنڈا، چابک اور ہنٹر جیسی چیزوں کا اہتمام کرو اور جب بھی وہ سرتابی کرے اس کو اس بات کی آزادی دو کہ وہ ان میں سے خود اپنے خلاف استعمال ہونے والے اسلحہ کا انتخاب کرے وہ خود بتلائے کہ اسے چھڑی سے مارا جائے یا ڈنڈے سے۔ اس پر ہنٹر برسایا جائے یا چابک سے اس کی کھال ادھیڑی جائے۔ اس طرح تم اسے سزا اس کی مرضی کے مطابق دو گے یہی انتخابی آزادی ہے۔
شیخ جواد یہ سن کر اچنبھے میں پڑ گئے اور کہا۔ یہ تو عجیب آزادی ہے۔
سائمن بولا۔ آزادی کی اس نیلم پری کا آج کل ساری دنیا میں بول بالا ہے۔ دنیا بھرکو اسی جمہوریت کی مدد سے غلام بنایا جا رہا ہے۔
جواد نے کہا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے دوست سائمن اس دن کیا ہو گا جب صفوان اس ہنٹر کو میرے ہاتھوں سے چھین لے گا؟
سائمن مسکرا کر بولا اچھا سوال ہے۔ اس دن کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ہنٹر چھین لینے کے بعد وہ بھی انتخاب کی آزادی دیتے ہوئے پوچھے گا’ ہنٹر، چابک، چھڑی یا ڈنڈا۔ شیخ جواد چکرا گئے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا گویا چہار جانب سے بیک وقت ان پر ہنٹر، لاٹھی، ڈنڈا اور چابک سے ہلّا بول دیا گیا ہے اور دور کھڑا سائمن ان کی حالت زار پر مسکرا رہا ہے۔
٭٭٭