گداگری کی لعنت کو انوری نے تقدیر کا لکھا مان کر قبول کرلیا تھا۔ شوہر کی موت میں اس کو رب کی مر ضی نظر آئی، لیکن جب اس نے اپنے بیٹے سلیم کو معذور بنائے جانے کا سنا تو وہ ہار گئی۔
رشید البیلا— چھہ فٹ کا قد، بھاری جسم، سیاہ فام چہرہ، سرخ بڑی بڑی آنکھیں، سفیدشلوار قمیص پہنے، گردن پر لال رومال ڈالے، پائوں میں کشمیری سینڈل پہنے، منہ میں پان دابے ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھا، سامنے میز پر روپے پیسوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ برابر میں رکھی ہوئی کر سی پرایک رجسٹر لیے رحمت بیٹھا تھا جو سب کے لیے زحمت تھا۔ بھکاری آتے جاتے اپنی دن بھر کی کمائی ہوئی پونجی میزپر رکھتے جاتے۔ رحمت کاپی میں ہر ایک کے نام کے ساتھ ان کی دی ہوئی رقم بھی لکھتا جاتا اور ان پیسوںمیں سے تھوڑے سے پیسے ان کے ہاتھ میں رکھ دیتا۔
’’یہ کیا؟‘‘ اپنی چھوٹی چھوٹی، گول گول آنکھیں نکال کر اس نے پیسوں والا ہاتھ انوری کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ جو سب سے آخر میںاپنی کمائی دینے آئی تھی۔
وہ خاموش کھڑی رہی۔
رحمت، رشیدالبیلا کو متوجہ کرتے ہوئے بولا ’’صرف سو روپے۔‘‘
’’کیا کرتی رہی پورا دن؟‘‘ رشید البیلا زور دار آواز میں گرجا۔
’’صاب جی میں تو تمام دن ہاتھ پھیلائے اِدھر سے اُدھربھاگتی رہی، مگر میرے نصیب…..‘‘
’’یہ نصیب وصیب کچھ نہیں ہوتے— آج اس کو کچھ مت دو کل سے سالی خود زیادہ کماکر لائے گی۔‘‘ رشید البیلا نے پیک تھوکنے کے بعد اُگال دان رکھتے ہوئے کہا۔
’’صاب جی میرے پاس تو ایک پائی بھی نہیں ہے۔ صبح سے میں بھوکی ہوں۔ اور وہ میرا بیٹا بھی…..‘‘ انوری کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
’’ارے ہاں! اب تو تیرا بیٹا بھی بھیک مانگنے کے قابل ہوگیا ہوگا۔ رشید البیلا نے اپنی کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ صاب جی میرے بیٹے کو معاف کردو میں اسے پڑھانا چاہتی ہوں۔ اسے اس دھندے سے دور رکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ انوری نے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے رشید البیلا کی کشمیری جوتی پر اپنا سر رکھ دیا۔‘‘
’’کل سے اسے اڈّے پر بٹھا دینا۔‘‘ رشید البیلا نے رحمت کی طرف دیکھ کر کہا، اور ہاں— اس سے دور۔‘‘ انوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور دس روپے اس نے انوری کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
رحمت نے شرارتی نگاہیں انوری کے بدن پر ڈالتے ہوئے اپنی گردن رشید البیلا کی جانب موڑی اور بڑے بڑے پیلے دانت نکوس کر بولا، ’’با لکل دادا! آپ فکر ہی نہ کریں۔‘‘
انوری پر تو جیسے بجلی گر پڑی۔ اس کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے جب جھونپڑی میں پہنچی تو سلیم سو چکا تھا۔ وہ جانتی تھی رحمت نے یہ سب کچھ کیوں کیا ہے۔ اس کے شوہر کی موت کے ساتھ ہی وہ انوری کے گرد منڈلانے لگا تھا۔ جب زیادہ تنگ کرنے لگا تو انوری نے دھمکی دی کہ وہ رشید البیلا سے اس کی شکایت کر دے گی۔ رشید البیلا کے نظامِ حکومت میں عورتوں سے جنسی بیگار لینے کی اجازت نہیں تھی۔ عورتوں اور لڑکوں سے بھیک منگوانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں لیا جاتا۔ عورتیں اور لڑکے بڑی حد تک محفوظ تھے۔ بھکاری بھی نکاح پڑھوائے بغیر ایک دوسرے سے جنسی تعلقات نہیں رکھ سکتے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرتے ہوئے پکڑا جا تا تو سخت سزا کو پہنچتا۔ رحمت شادی شدہ تھا انوری اس کے لیے شجرِ ممنوعہ تھی۔ پھر بھی وہ اس کو گھیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید اس کو اس بات کا گھمنڈ تھا کہ وہ رشید البیلا کے کیمپ کا منشی، منتظم اور سب کچھ تھا۔ اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔
دوسرے ہی دن صبح سویرے رحمت انوری کی جھونپڑی پر آپہنچا اور دانت نکالتے ہوئے بولا، ’’سلیم کو باہر بھیج۔‘‘
’’ابھی تو اس نے روٹی بھی نہیں کھائی۔‘‘ انوری بولی۔
’’تو فکر نہ کر۔‘‘ رحمت نے سلیم کا ہاتھ پکڑا اور اس کو لے کر چلتا بنا۔ جاتے جاتے بولا، ’’رات دادا کے اڈّے سے لے لینا اپنے بیٹے کو۔‘‘
انوری کی آ نکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس وقت وہ اپنے آ پ کو کتنا بے بس محسوس کر رہی تھی۔ اس نے کیا کیا سوچا تھا۔ سلیم کو پڑھائے گی اور جب وہ نوکری کے قابل ہو جائے گا تو خود بھی بھیک مانگنا چھوڑ دے گی۔ اور ماں بیٹے کسی ایسی جگہ جہاں نہ رحمت ہو اور نہ رشید البیلا، دونوں عزت سے رہیں گے۔
رات جب وہ اڈّے پر پہنچی، سلیم وہاں موجود تھا۔ انوری کو دیکھتے ہی وہ اس سے لپٹ گیا۔
’’پہلے ہی دن تیرے بیٹے نے تین سو کمائے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر رحمت نے بیڑی کا کش لیا۔
’’اگر اس کے ہاتھ پیر توڑ دیے جائیں تب تو یہ اور زیادہ کمائے گا۔‘‘ رشید البیلا سلیم کی طرف دیکھتے ہو ئے بولا۔
’’نہیں نہیں! خدا کے لیے میرے بیٹے کے ساتھ ایسا کچھ نہ کرنا۔‘‘ و ہ روتی ہوئی ہاتھ جوڑ کر رشید البیلا کی کرسی کے سامنے بیٹھ گئی۔
’’اچھا چھا— جا اپنے بیٹے کو لے کر جا۔‘‘رشید البیلا بولا۔
انوری نے اپنے آ نسو پونچھے اور سلیم کو ساتھ لے کر چلی گئی۔ اس نے ان آنسوئوں کو بھی نہیں دیکھاجو ماں کی بے بسی پر بیٹے کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔
گداگری کے خلاف حکومتی قوانین موجود تھے۔ میڈیا اور اخباروں کے لیے بھی ’’گدا گری‘‘ گرم موضوع تھا۔ ان حالات میں گداگری کا اڈّا چلانا آسان نہیں تھا، لیکن اس میں پیسہ بہت تھا۔ اور پیسہ حاصل کرنے کے لیے رشید البیلا کو کئی چھوٹے بڑے منہ بند کرنے ہوتے۔
انوری کھلی اور بند آنکھوں سے اپنے بیٹے کو معذور ہوتا ہوا دیکھنے لگی تھی۔ وہ دیکھتی سلیم لنگڑا، لولا، اپاہج بنا کسی گداگری کی گا ڑی میں لیٹا یا کسی اڈّے پر پڑا آتے جاتے لوگوں کے دلوں کے نرم گوشوں کو متأثر کرکے رشید البیلا کے لیے ’’سونے کی چڑیا‘‘ کا کام انجام دے رہا ہے۔ اور اس سب کے پیچھے اسے رحمت کی شرارتی شخصیت ہی نظر آتی۔ رحمت جو رشید البیلا کے سخت احکامات کے باوجود انوری کے پیچھے پڑا ہو ا تھا۔ انوری کے لاکھ دھتکارنے کے باوجود وہ کسی بھوکے کتے کی طرح اس پر جھپٹے مارتا رہتا۔ انوری اسے دھتکارتی جاتی، لیکن اب حالات نے انوری کو بے بس کر دیا تھا۔ اور بالآخر اس نے وہ کچھ کیا جو وہ ہرگز نہیں کرنا چا ہتی تھی۔ اسی گناہ سے وہ زندگی بھر بچتی رہی تھی۔ اس سے بچنے کے لیے اس نے بڑے پاپڑ بیلے تھے، بہت کچھ سہا تھا اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ اتنے جتن سے محفو ظ رکھا ہو ا بدن اس طرح پا مال ہو گا۔ وہ بھی رحمت جیسے بھوکے بھیڑیے کے ہا تھوں۔ رحمت نے قسم کھا کر اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سلیم کو معذور نہیں بننے دے گا۔ انوری ٹوٹ گئی، لیکن یہ ٹوٹنا اس کے بدن پر بھی ٹوٹا— وہ دن بہ دن گھلتی جا رہی تھی۔
سلیم معذور ہو نے سے محفوظ رہا، لیکن رشید البیلا نے رحمت کی ایک ٹانگ کٹواکر اسے شہر کی جامع مسجدکے باہر پلانٹ کر دیا تھا۔ رحمت نے اپنے منشی ہونے، اپنے کرتا دھرتا ہو نے کے زعم میں رشید البیلا کے سخت ترین قانون کو نظر انداز کرنے کی غلطی کی تھی۔ یہ غلطی کب تک چھپی رہتی، چناںچہ وہ اپنی سزا کو پہنچ گیا۔ رشید البیلا نے انوری کو بلا کر اس کے جرم کا اعتراف کروایا اور اس سے پوچھا کہ وہ خود بتائے کہ اس کو کیا سزا دی جا ئے۔ انوری رشید البیلا کے قد موں پر گر کر رونے لگی اور کہنے لگی، ’’رب سائیں نے تو مجھے پہلے ہی اس گھنائونے گناہ کی سزا دے دی ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ زندگی ختم ہونے کو ہے—تھوڑے ہی دنوں کی باقی ہے۔‘‘
رشید البیلا نے اسے ہلکی سی ایک ٹھوکر ماری اور بولا، ’’ گناہ گار تو میں بھی ہوں اورتو بھی ہے، کیوںکہ بھیک مانگنے کو پیشہ بنانا بھی اللہ سائیں کے نزدیک گناہِ کبیرہ ہے۔ رب سا ئیں تجھے بھی معاف کرے اور مجھے بھی معاف کرے۔ اس کی رحمت بہت بڑی ہے، لیکن تو نے جو گناہ کیا ہے وہ ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ تجھے اللہ سائیں نے سزا بھی دے دی ہے۔ اب تو جانے اور ربِ کریم جانے۔ میں تجھے اس کے سپرد کر تا ہوں۔ اب دفع ہو جا۔ میری نماز کا وقت ہو رہا ہے۔‘‘
انوری کا بہت علاج ہوا، بہت دوا دارو کی گئی، مگر مرض کا پتا نہ چل سکا— اور پھر ایک دن سلیم اپنی محبت کرنے والی ماں سے محروم ہوگیا۔
اب سلیم بڑا ہوچکا تھا اور پکا بھکاری بن چکا تھا۔ وہ دن بھر بھیک مانگتا، مارا مارا پھرتا۔ واپسی میں کسی سستے سے ہو ٹل میں کھانا کھاتا۔ گھر آکر اپنی ماں کو یاد کرتا ہوا سو جاتا۔ ایک دن وہ اڈّے سے اپنے گھر جا رہا تھا، اچانک اس کے کانوں نے کوئی آواز سنی، ’’کیا یہاں کوئی مزار ہے جہاں عرس ہو رہا ہے؟‘‘
اس نے چونک کر دیکھا۔
دبلی پتلی نازک سی لڑکی، گورا رنگ، کاجل بھری بڑی بڑی روشن آنکھیں، گھاگرا اور چولی پہنے ہوئے، بڑا سا دوپٹہ لپیٹے، کچھ پریشان پریشان سی اس کے برابر کھڑی تھی۔
دن ڈھلنے کو تھا، سو رج اپنا سفر ختم کر رہا تھا، رات آئی آئی تھی۔ ایسے سمے کسی جوان لڑکی کا ایسی ویران جگہ آپہنچنا سلیم کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں ملیں اور لڑکی پر ایک اور نظر ڈالی۔ یہ دوسری نظر تو قیامت ڈھاگئی۔ سلیم کو ایسا محسوس ہو ا جیسے اس کائنات کے آغاز سے ہی وہ لڑکی اس جگہ کھڑی ہے اور شا ید سلیم کا انتظار کر رہی ہے۔
’’ہاں! بابا زندہ ولی کا مزار ہے یہاں سے تھوڑی دور، لیکن اتنی شام کو تجھے مزار پر جانے کیا ضرورت پڑگئی جو رستے سے بھٹک کر اِدھر اُدھر پھر رہی ہے۔‘‘ سلیم نے لڑکی سے استفسار کیا۔
لڑکی نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے دائیں پائوں کے انگوٹھے سے زمین کو کریدنے لگی۔
’’کیا تو راستہ بھول گئی ہے۔‘‘ سلیم نے اس سے دوبارہ پوچھا۔
’’ ہاں۔ ہم پنجاب سے آئے ہیں مزار کے پا س ہمارا ڈیرا ہے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
’’چل میں تجھے چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنی رات تو اکیلے کیسے جائے گی۔‘‘ سلیم نے کہا۔
’’لڑکی پیچھے ہٹی اور سر سے پیر تک اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی۔‘‘
’’ڈر مت! میں تجھے بہ حفا ظت ڈیرے تک پہنچادوں گا۔ میرے پیچھے پیچھے چلی آ۔‘‘ سلیم نے ایک مر تبہ پھر سر سے پیر تک اس لڑکی پر نظر ڈالتے ہوئے کہااور خو د تیز تیز چلنے لگا۔
تھوڑی دورچل کر سلیم نے پیچھے مڑکر دیکھا لڑکی کافی پیچھے تھی۔ وہ رک گیا۔ لڑکی اس کے قریب آگئی۔ شاید لڑکی نے سلیم کے قریب آ نے کی ہمت جٹالی تھی یا پھر شاید اس کا اعتماد سلیم پر بڑھ گیا تھا۔
’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘ سلیم نے لڑکی سے پو چھا۔
’’ شبنم— اور تیرا۔‘‘ لڑ کی نے سلیم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔
سلیم نے دیکھا لڑکی کی آنکھیں بے انتہا خوب صو رت اور بڑی بڑی تھیں۔ اس کے کانوں میں لڑکی کی آواز آئی۔
’’سلیم۔‘‘ وہ بولا اور پھر چلنے لگا۔
اس کے بعد تمام راستے دونوں بات کرتے رہے۔ لڑکی زیادہ بول رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لڑکی کا ڈر بالکل ختم ہوگیا تھا۔
’’کہتے ہیں کہ عرس میں بہت لوگ آتے ہیں، بہت خیرات ملتی ہے۔ لڑکی معصومیت سے پوچھنے لگی۔
’’ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔‘‘ سلیم نے جواب دیا۔ کچھ دور دونوں اسی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ جیسے ہی ایک چھوٹی سی چٹان سے مڑ کر اونچی سی منڈیر پر چڑھے تو شام کے دھندلکوں میں ایک جانب دھوئیں کے مرغولے آسمان کی طرف جاتے نظر آئے۔ ایسے مقامات پر دھواں ہی آبادی کی نشان دہی کرتا ہے۔ لڑکی نے اپنی بڑی بڑی آ نکھیں پھاڑ کر خوشی سے کہا۔
’’ وہ رہا ہما را ڈیرہ۔‘‘ کچھ ہی دیر بعددونوں ڈیرے کے قریب پہنچ گئے۔ سلیم ایک جگہ کھڑا رہ گیا، شبنم تیز تیز ڈیرے کی طرف بڑھ گئی۔
اپنی جھونپڑی کے واپسی کے سارے راستے سلیم شبنم کے متعلق سوچتا رہا۔
دوسرے دن سلیم کی زندگی کے معمولات میں وہ جہاں بھی رہا اور جوکچھ بھی کرتا رہا کل والی لڑکی کی پرچھائیںسی اس کے آس پاس موجود رہی۔ اور خاص طور پراس لڑکی کی بڑی بڑی روشن آنکھیں۔ شام کے وقت جب وہ اپنی جھگی کی طرف لوٹ رہا تھا تو اسے شبنم نظر آئی۔ شبنم کا نظرآنا اس کے لیے خلافِ توقع تھا۔ اس کو ایسا لگا جیسے کوئی قیمتی چیز جو گم ہوگئی تھی مل گئی۔ شبنم سلیم کو دیکھ کر خود اس کے پاس آئی اور ہنستے ہوئے بولی، ’’آج میں راستہ نہیں بھولی ہوں۔ تجھ سے ملنے آئی ہوں۔‘‘
وہ دونوں اسی اکناف میں بھٹکتے سے پھرے، شبنم مسلسل بولتی رہی اور سلیم سنتا رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ شبنم اپنی پوری زندگی کی رُودادِ سلیم کو سنا دینا چاہتی ہے۔ شام تیزی سے رات کی طرف جانے لگی۔ شبنم کو اس کا احساس بھی نہیں ہوا۔سلیم نے شبنم کو یہ احساس دلایا اور بولا، ’’اب تو اپنے ڈیرے جا۔ رات آ پڑی ہے۔‘‘
شبنم کو جیسے احساس ہوگیا وہ جانے کے لیے کھڑی ہوگئی۔ جاتے جاتے اس نے سلیم کو مڑ کر دیکھا۔ سلیم بت بنا اپنی جگہ کھڑ اس کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
’’کل شام اسی وقت، اسی جگہ۔‘‘ شبنم کی آواز سلیم کے کانوں تک پہنچی۔
اب تو ان کا روز کا معمول یہ ہوگیا تھا کہ دونوں مزار پر ملتے اور ایسی جگہ بیٹھتے جہاں لوگوں کی نظروں میں آنے کا کم سے کم امکان ہوتا۔ دیر تک آ پس میں باتیں کرتے۔ کیا باتیں کرتے یہ ان سے پوچھا جاتا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوسکتا تھا۔کبھی وہ کھانے کے لیے کچھ لیتا آتا اور دونوں ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔واپسی میں سلیم اپنی جھونپڑی میں آکرلیٹ جاتا اور اس کا خیا ل کرتا ہوا سو جاتا۔ سلیم ماں کے جانے کے بعد با لکل تنہا ہوگیا تھا۔ شبنم کے آنے سے اس کی زندگی میںرونق سی آگئی تھی۔
ایک دن شبنم اس سے ملنے آئی تو اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ سلیم نے دیکھتے ہی اس تبدیلی کو محسوس کر لیااور پوچھا، ’’کیا بات ہے شبنم! آج ڈیرے میں ایسی ویسی بات ہوگئی جس کا خیال تو دل سے نکال نہیں پا رہی ہے۔‘‘
’’چار دن بعد ہمارا یہاں سے کوچ ہے۔‘‘ شبنم اداس لہجے میں بولی۔
’’بابا نے یہ بھی تو بتایا ہوگا کہ ڈیرے کو یہاں سے بڑھا کر کہاں لے جائیں گے۔‘‘ سلیم نے پو چھا۔
’’پنجاب ہی واپسی ہوسکتی ہے زیادہ امکان ملتان کا ہے۔ میں نے ٹھیک سے سنا نہیں۔‘‘
’’سلیم میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتی۔‘‘ شبنم روتے ہوئے بولی۔
’’میں بھی تیرے بنا نہیں رہ سکتا۔تجھے پتا ہے تیرے جانے کے بعد سے ہی میں تیرا انتظار شروع کر دیتا ہوں۔ میں تجھے نہیں جانے دوں گا۔ سلیم نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا۔
’’ وہ کیسے!‘‘ اس نے حیران ہو تے ہوئے پوچھا۔
’’وہ ایسے کہ میں کل ڈیرے پر آئوں گا اور تیر ے بابا سے تجھے مانگ لوں گا۔‘‘
’’سچ۔‘‘ وہ خوشی سے اچھل پڑی۔ بھر بولی ’’تو سچ کہہ رہا ہے تو ڈیرے پرآئے گا۔‘‘
دوسرے دن سلیم رشید البیلا کے اڈّے سے سیدھا شبنم کے ڈیرے پر پہنچا، اس کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگنے۔
شبنم مزار کے پاس کھڑی اس کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کو دیکھ کر اس کی طرف آئی اور بولی، ’’کیا کہا بابا نے؟‘‘
’’ایک ہزارمانگے ہیں اور ایک مہینے کا وقت دیا ہے۔‘‘ سلیم بولا۔
’’تو کیا بابا میرا سودا کر رہا ہے؟‘‘ شبنم غصے سے بولی۔
’’نہیں! شاید وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میں تجھے خوش رکھ سکتا ہوں یا نہیں۔‘‘
’’مگر ڈیرہ تو چار دن کے بعد جا رہا ہے تجھے ایک مہینے کا وقت کیسے دیا ہے۔‘‘
’’تیرے بابا نے مجھے پتا دیا ہے۔‘‘ اس نے کا غذدکھاتے ہوئے کہا۔
’’ میں ایک ایک پل تیرا انتظار کروں گی۔‘‘ اس کی خوب صورت آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
شبنم پہلی بار اپنے بابا کے سامنے جاتے ہوئے شر ما رہی تھی۔ بابا ہی اس کا سب کچھ تھا۔ ماں کے مرنے کے بعد اس نے شادی نہیں کی تھی۔ بابا کو اکیلا دیکھ کر اس نے کچھ کہنا چاہا تو بابا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا، ’’تجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ سلیم چھورے نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ دیکھ بیٹا میری بات سن لڑ کا مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے، لیکن وہ ہماری برادری کا نہیں ہے۔ ہم پہلے بنجارے ہیں بعد میں گداگر۔ سلیم اور اس کے لوگ شہر کے رہنے والے ہیں اور ایک ہی ٹھکانے والے ہیں ان کا ہمارا کیا جوڑ۔‘‘
اتنا سنتے ہی شبنم نے رونا شروع کر دیا اور تھوڑی ہی دیر میں سسکیاں لینے لگی۔ بابا نے ٹھوڑی پکڑ کر اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا اور بولا، ’’میں نے یہ کب کہا کہ میں تم دونوں کو ایک نہیں ہونے دوں گا۔ جا! اسے بتا دے جیسا میں نے کہا ہے ویسے ہی کرے، مگر یاد رکھ اپنی لاج کی حفاظت کرنا۔‘‘
دوسرے دن وہ سلیم سے ملنے گئی اوراس نے اپنی اور بابا کے ساتھ جو بھی بات ہوئی تھی وہ سب بتا دی۔ وہ بہت خوش تھی۔
ایک مہینے میں ایک ہزار میں کیسے جمع کر پائوں گا— اگر رشید البیلا کو کم دوں گا تو وہ مجھ پر شک کر نے لگے گا۔ وہ فکرمند تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا کرے۔
سلیم دن میں بھیک مانگ کر پیسے رشید البیلاکو دیتا۔ جو پیسے رشید البیلا اسے دیتا اس میں سے بھی زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کرتا اور رات کو بہت کم سوتا، رونق والے اڈّوں پر اپنے آپ کو چھپاکربھیک مانگتا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہیں رشید البیلا کو اس کی خبر نہ ہو جائے۔
ایک مہینے میں ابھی چار دن باقی تھے۔ اس نے چٹائی کے نیچے ز مین میں گاڑے ہوئے ڈبے کو کھود کر نکالا۔ اور پیسے گننے لگا۔
’’ایک ہزار چھہ۔‘‘ وہ خوشی سے اُچھل پڑا۔ پیسے ڈبے میں ڈال کر اس کو اچھی طرح بند کیا اور گڈھے میںدباکر اوپر سے چٹائی بچھا دی۔ اس دن وہ ر شید البیلا کواپنی دن بھر کی کما ئی دینے کے بعد بولا۔
’’دادا! دو دن کی چھٹی چاہیے۔‘‘
’’دو دن کی کمائی کا کیا ہوگا۔‘‘ ر شید البیلا بولا۔
’’میں پوری کردوں گا۔‘‘ سلیم بولا۔
رشید البیلا جانتا تھا سلیم کے لیے یہ مشکل کام نہیں ہے۔ اس نے چھٹی دے دی۔
دوسرے دن اس نے ٹرین پکڑی اور شبنم کے باپ کے دیے ہوئے پتے پر روانہ ہوگیا۔ راستے بھر وہ شبنم کے ساتھ زندگی گزارنے کے خوب صورت سپنے دیکھتا رہا۔ اسٹیشن پر اُتر کر وہ بتائے ہوئے پتے پر خانہ بدوشوں کے ڈیرے کی طرف چلا۔ وہاں تو میدان خالی تھا البتہ ڈیروں کے اکھاڑنے کے نشانات جگہ جگہ موجود تھے۔
’’ابھی تو شبنم کے باپ کی دی ہوئی تاریخ کے مطابق دو دن باقی ہیں۔ شاید میں غلط جگہ آگیا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا۔ سامنے اسے ایک ڈھابا نظر آیا اور اس کے ساتھ پان کی دکان۔ وہاں جاکر معلوم کیا ’’پتا تو صحیح ہے۔ کل ہی ان لوگوں نے یہاں سے ڈیرے اٹھائے ہیں۔‘‘ پان کی دکان کے مالک نے کہا۔
’’کہاں گئے ہیں کچھ معلوم ہے۔‘‘ سلیم نے پوچھا۔
’’یہ تو آزاد پنچھی ہیں آج یہاں توکل وہاں۔ دکان کامالک ہنستے ہوئے بولا۔ کل ان کے ڈیرے پر ایک لڑکی کی شادی بھی ہوئی تھی صبح شادی ہوئی دوپہر تک سب چلے گئے۔
وہ اجڑے ہو ئے میدان کی طرف چلا، اس کی دنیا اجڑ چکی تھی، اس کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ اس نے تھیلی میں رکھے ہوئے سارے پیسے ہوا میں اڑا دیے۔ اور خود زمین پر بیٹھ کر زور زور سے رونے لگا۔
اچانک اپنے کاند ھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کرکے وہ پلٹا، دیکھا تو شبنم کھڑی تھی۔ وہ روتے ہوئے بولی، ’’ہمیں جلدازجلد ایسی جگہ چلنا چاہیے جہاں وہ ہمیں ڈھونڈ نہ سکیں— پھر بولی تجھ سے تو ایک ہزار کا معاملہ طے کیا تھا۔ باہر سے آکر ایک آدمی نے بابا کو پانچ ہزار دیے تو بابا نے فوراً میری شادی اس سے کردی اور خود ڈیرے سمیت کہیں اور چلا گیا۔ مجھے بھی نہیں بتایا۔ میں اس آدمی کے پاس سے بھاگ کر آئی ہوں۔ مجھے یقین تھا تو ضرور آئے گا۔‘‘ شبنم ایک ہی سانس میں جلدی جلدی بول گئی۔
’’وہ آدمی جس سے تیرے بابا نے پیسے لیے وہ اور اس کے آدمی تجھے تلاش کر رہے ہوں گے۔‘‘ سلیم نے کہا۔
’’ہاں! اور اگر بابا کو پتا چل گیا ہوگا تو اس کے آدمی بھی مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔‘‘ شبنم بولی ۔
’’اور اگر میں دو دن میں واپس نہیں پہنچا تو رشیدالبیلا کے لوگ میری تلاش شروع کر دیں گے۔ اور شاید پولیس بھی— سلیم کو خود اپنی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
اس نے جلدی جلدی بکھرے ہوئے پیسوں کو سمیٹا اور شبنم کو ساتھ لے کر وہ ایک سمت چل پڑا۔ شبنم نے اپنے آپ کو ایک بڑی سی رلّی میں لپیٹا ہوا تھا۔ اور ہاتھ میں ایک لاٹھی سی تھی اور اس طرح چل رہی تھی جیسے بوڑھی ہو۔ سلیم بس کے اڈّے اور اسٹیشن کا رخ بھی نہیں کر نا چاہتا تھا۔ وہاں ان دونوں کا پکڑا جانا یقینی تھا۔
رات بھر وہ دونوں چلتے رہے۔ صبح کی روشنی کی پہلی کرن کے ساتھ وہ ایک چٹان کے سہارے گھنی جھاڑیوں کے در میان چھپ کر بیٹھ گئے۔ دن میں وہ چھپتے چھپاتے رہتے۔ اور رات بھر چلتے رہتے۔ شاید آج بھی چل رہے ہوں گے۔