پروفیسر سید زوار حسین شاہ (بہاول پور)
نیند سے کسی بندہ بشر کو مفر نہیں ۔آپ حسبِ معمول دفتر سے بھاگ سکتے ہیں ،کتابوں کو ہاتھ لگانا ترک کرسکتے ہیں ،ملائے مسجد کو سات سلام کر سکتے ہیں (اگرچہ آسان نہیں )رات کا کھانا اور دن کا ظہرانہ حکم حاکم پر چھوڑ سکتے ہیں ،بھاگتے چور کی لنگوٹی کو کھینچ سکتے ہیں ،مگر نیند سے بے زاری کا اظہار نہیں کر سکتے ۔نیند سے اگرچہ آپ نے دوستی کر لی ہے تو سفر ہو یا حضر ،ِدفتر ہو یا گھر ،خلوت ہو یا جلوت ،نیند آپ کے جلو میں ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔مگر اسے آپ گاڑی کے چلنے اور دماغ کے چل بچل ہونے سے تعبیر نہیں کرسکتے۔آپ لاکھ چاہیں کہ نیند سے چھٹکارہ ملے مگر امکان کے در آنکھوں کی طرح بند ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔پھر نیند سے نفرت کیسی؟کہ یہ بے کاری کا بہترین مشغلہ ہے اور مشغلہ بھی ایسا کہ جس میں جان ومال کی قربانی نہیں دینا پڑتی ،محنت درکار نہیں ،سوچنا نہیں پڑتااور عمل نہیں کرنا پڑتا۔ادب سے دلچسپی کے لیے کلاسیک کیا کچھ بھی نہیں پڑھنا پڑتا،مذہب سے لَو نہیں لگانا پڑتی۔دوستوں کو اکٹھا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔نیند اور بندہ تنہائی میں ہی راز ونیاز کی باتیں کر لیتے ہیں ۔دشمنوں سے بچاؤ کے منصوبے نہیں بنائے جاتے یعنی یہ نیند ہی ہے جو دین ودنیا کے معاملات سے آزاد کرتی ہے ۔نیند کوئی خطرناک قسم کا مشغلہ نہیں جس میں ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا پڑے۔قلعے تعمیر نہیں کرنا پڑتے۔حتیٰ کہ ہوائی قلعوں کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔نیند ہے کہ بندے کو فکر و فقر سے آزادی عطا کرتی ہے۔کچھ صرف نہیں کرنا پڑتا۔سوائے وقت کے ۔اور وقت ہر امیر غریب کے پاس یکساں ہے۔جو نہ علم کی طرح حاصل کرنا پڑتا ہے نہ رزق کی طرح کمانا پڑتا ہے۔
کہتے ہیں کہ نیند سولی پر بھی آجا تی ہے۔اس کہاوت میں اتنی ترمیم کی ضرورت ہے کہ نیند آتی ہی سولی پر ہے۔بلکہ ابدی وازلی نیند کے ذائقوں سے تو سولی پر چڑھنے والا ہی لطف اندوز ہوسکتا ہے یہ اور بات ہے کہ نیند سے پیار کرنے والا ابدی نیند سے دور بھاگتے ہیں اور بھاگتاوہی ہے جس کے پاس مقابلے کی قوت نہ ہو۔مگر ایسے شکست خوردہ کا نیند تعاقب کرتی ہے۔اور جب بھی موقع ملتا ہے دبوچ لیتی ہے کسی آسان اور کمزور شکار کی طرح۔یوں تو عمومی زندگی میں نیند اور نحوست کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔نیند آتی ہے تو نحوست اس کے ہم رکاب ہوتی ہے یا کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ نحوست پہلے آتی ہے اور نیند بن بلائے مہمان کی طرح بعد میں آتی ہے۔اور بن بلایا مہمان تو آپ جانتے ہی ہیں نہ آتا آپ کی مرضی سے ہے نہ جاتا آپ کی مرضی سے ہے۔نیند اور نحوست جہاں رین بسیرا کر لیں وہاں سے بیداری اور بخت کوچ کرجاتے ہیں ۔جیسے تیسری دنیا کے غریب ممالک سے اہلِ علم اور ہنرمند افراد یورپ اور افریقہ سفر کرجاتے ہیں ۔
نیند اور بیداری دو مختلف مزاجوں کے مہمان ہیں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ان کے تعلقات نہایت کشیدہ ہوتے ہیں کسی روایتی ساس اور بہو کی طرح۔نیند کو گھر کی بہو اور بیداری کو ساس کہہ دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ساس سمجھتی ہے کہ بہو گھر میں معزز مہمان یا مالک مکان بن کر نہ رہے بلکہ خادم بن کر رہے مگر بہو ہے کہ ساس کی ایک نہیں سنتی۔یہی حال نیند کا ہے کہ عادت سے مجبور ہوکر گھر کی مالک بن بیٹھتی ہے۔عادات پر قبضہ ،اعصاب پر قبضہ ،دماغ پر قبضہ ،دن پر قبضہ ،رات پر قبضہ،غرض یہ کہ نیند بندے کو بے بس کردیتی ہے ۔اس کے برعکس بیداری کو دیکھو ساری صفات معزز و محترم مہمان کی طرح رکھتی ہے کہ ذرا میزبان نے التفات میں کمی کی،ذرا میزبان کے ماتھے پر بل آیا ۔ذرا یہ دیکھا کہ میزبان کاہلی اور سستی کا شکار ہورہا ہے،بیداری نے کوچ کا اعلان کر دیا ۔نیند کی طرح قابض اور غاصب کا روپ ہرگز نہیں دھارتی ۔نیند ہے کہ میزبان کا سارا کاروبار ہی اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔آپ لاکھ کوشش کریں نیند سے نجات ملے مگر کیا مجال نیند آپ کو آزادی کا سانس لینے دے۔آپ بیوی اور برہمن سے معذرت کر سکتے ہیں مگر نیند سے ہرگز نہیں۔
نیند باطل کی طرح حق کا لباس پہن لیتی ہے۔شعور کو شرارت کا نام دیتی ہے۔،اپنے شکار کو تھپکتی ہے ،لوری دیتی ہے کہ سو رہو ابھی کچھ نہیں ہوا ۔نیند کے ماتوں کے لبوں پر مہر سکوت لگا دیتی ہے ۔اس کا شکار کوئی قوم ہو یا کوئی فرد واحد،خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں مگر جیسے ہی کوئی اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوا ‘معاشی طور پر بدحال ہوا ‘ذہنی طور پر مفلوج ہوا،نیند کسی ہولے درجے کے خوشامدی اور چاپلوس کی طرح غائب ہوجاتی ہے۔اسی کیفیت کو حکماء نے نیند اُڑنے سے تعبیر کیا ہے۔نیند جب اپنے ماتے کی ساری قوتیں سلب کرلیتی ہے تو کسی بھرے پُرے گھر کا رُخ کرتی ہے کسی مغربی سرمایہ کار یا سفارت کار کی۔مغربی سفارت کاریا سرمایہ کار بھی عجیب ہوتے ہیں جس ملک یا قوم کا رُخ کرتے ہیں وہاں کے ہوش مند طبقے کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں اور جن کی نیندیں حرام ہوجائیں دنیا کا کوئی مذہب یا مذہبی پیشوا انہیں حلال قرار نہیں دے سکتا ۔کیونکہ حلال کو حرام قرار دینے کی ہر کوشش اور خواہش حرام ہوتی ہے۔چاہے حرمِ کعبہ کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔
نیند کو معمولی اوزار یا اعزاز نہ سمجھنا یہ پل بھر میں غریب سے غریب آدمی کے لیے عیش وعشرت کے سارے سامان مہیا کر دیتی ہے۔آسمانوں کی سیر ،زمین کی تسخیر،انواع واقسام کے میوہ جات،جدید سازو سامان سے آراستہ وپیراستہ گھر ،تابع فرمان غلام وخدام ،لچکتی مٹکتی لونڈیاں ،حسیناؤں کا جھرمٹ،اس جھرمٹ میں آپ یہ سب کچھ جاگتی آنکھوں سے ممکن نہیں ۔نیند یہ سب کچھ آپ کا کوئی پائی پیسہ خرچ کرائے دیتی ہے۔سوائے خدا کے کوئی اتنی بڑی عنایت کا روادار نہیں ہوسکتا ۔نیند ہی نیند میں دنیا کے سارے کھیل آپ کھیل سکتے ہیں ۔بہت سے کھیلوں سے تو آپ متعارف ہی نیند کے ذریعے ہوتے ہیں ۔امریکہ ویورپ کی پسپائی،رقیبوں کی رسوائی ،ہاکی ،کرکٹ،جمناسٹک سمیت تمام گفتہ ونا گفتہ بہ کھیلوں اور کھلاڑیوں سے ہماری آشنائی کامنظر نامہ صرف نیند کے ذریعے ممکن ہے۔یہ نیند ہی ہے جو طالب علم سے کتاب چھین کر اُس پر آرام وآسودگی کے در وا کرتی ہے۔
اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی فکر کے مصداق کوئی نیند کو تنہائی اور رسوائی کا ساتھی کہتا ہے تو کوئی اسے بلائے بے درماں کے لقب سے نوازتا ہے ۔نیند کے ستائے ہوئے کی روداد سنو تو کہتا ہے!یاوری قسمت سے صدرِ محفل بناؤنیند کی دیوی کو منظور نہ تھا۔نیند کی دیوی کا نزول ہوا ۔میں نے سر کو جھٹکے دئیے۔ڈراؤنے خیالات وتصورات کو ذہن میں جگہ دی ،تصور ہی تصور میں دیکھا کہ سانپ میرے بالکل قریب آگیا ہے ۔مگر آنکھیں نہ کھلیں ۔پھر سوچاچلو شیش ناگ یا مقامی پولیس انسپکٹر کا خیال ذہن میں لاؤ ں مگر کچھ اثر نہ ہوا۔میں نے خود کو ہلکے ہلکے چپت بھی لگائے دوسروں کی نظر بچا کے۔اپنے بال نوچے ۔پھر میں نے سوچا سیکرٹری پر غلط تلفظ کی پاداش میں اچانک انڈوں کی بارش ہونے لگی ہے۔یا پھر یہ کہ میرا لاڈلا بیٹا کنویں میں گر گیا ہے،ہمسائے کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ،ہڈی پسلی ایک ہوگئی ہے۔میری لاٹری نکل آئی ہے۔آزاد نظم اور نثری نظم لکھنے پر دنیا بھر میں پابندی لگا دی گئی ہے۔میرے دشمنوں پر آگ اور مجھ پر ہُن برسنا شروع ہوگیا ہے۔پہاڑوں نے اپنے خزانے اُگل دئیے ہیں ۔عوام نے بھی اہلِ محفل کی طرح مجھے اپنا صدر منتخب کر لیا ہے ۔یہ اور اس جیسے تصورات میری نیند کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
پھر واقعات کو یون ذہن میں لایا:’’ہائے اللہ توبہ اُس نے بندریا کو کتنا نچایا کہ ہلکان ہوگئی صرف روٹی کے واسطے۔غریب کے ساتھ یہ ناروا سلوک۔ارے بندریا اور بندہ کس قدر چیخ رہے تھے ۔مگر بندریا کو ناچنے پر مجبور کیا جارہاتھا۔بندے کو ذرا بھی تو ترس نہیں آرہا تھا،حیوانوں پر ظلم کرتے ہیں اُن پر کوئی آفت بھی تو نہیں آتی ۔اللہ توبہ یہ بھی کوئی زندگی ہے،ایک کا حق مار لیادوسرے سے رقم بٹور لی۔تیسرے کو دھوکہ دے دیا۔اللہ توبہ!لوگ بھی کس قدر رجعت پسند ہوگئے ہیں ۔فیض جیسے عظیم شاعر کو ابھی سے بھلا دیا ہے۔غزل و نظم کا یکساں بڑا شاعر ہے۔مگر غالب کی بات ہی کچھ اور ہے۔فیض کو غالب پر فوقیت دینے کا کوئی جواز نہیں ۔اقبال بھی تو کچھ کم نہیں خواہ مخواہ مغرب زدہ طبقہ انہیں رگیدتا ہے۔‘‘
مگر سب حربے ناکام ہوئے اور میں ناکام صدر ثابت ہوا۔
اس سے پہلے کہ نیند کی دیوی کا نزول ہو اور میں بھی میٹھی نیند سوجاؤں یا پھر کوئی بندۂ خدامیری نیند چرانے اور نیت میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے کیوں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ آپ میری نیت اور اپنی ذہنی صحت پر شبہ نہ کریں گے ۔میں آپ کو نیند اور نیت کے حوالے کرتا ہوں ۔