موجودہ دور میں دیکھتے ہی دیکھتے اردو میں انشائیہ کی صنف کو جو استحکام حاصل ہوا ہے وہ ہر لحاظ سے لائقِ ستائش ہے۔ اردو کا دامن رنگا رنگ پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہماری بعض اصناف عرب و ایران سے ماخوذ ہیں تو بعض مغربی اقوام سے، ناول و افسانہ کی طرح انشائیہ بھی مغرب سے در آمدہ ہے۔ انگریزی ادب کی شاید ہی کوئی ایسی انتھا لوجی ہو جو انشائیوں سے خالی ہو کیونکہ انشائیہ وہ صنف ہے جو شاعری اور نثر کی سر حد پر جنم لیتی ہے۔ یہ ایک طرح سے عطر مجموعہ ہے جس میں نہ صرف کئی اصناف بلکہ معاشرے کی روح بھی کھنچ کر آ جاتی ہے۔ نشاۃ الثانیہ کے فوراً بعد تو ہمارے یہاں اس کا کچھ چرچا ہوا، پھر بیچ میں یہ کڑی ٹوٹ سی گئی۔ جدید عہد میں انشائیہ نگاری کو ایک تحریک کی شکل دینے اور پاکستان اور ہندوستان کے بہت سے لکھنے والوں کو انشائیہ کی طرف راغب کرنے میں اگر کسی واحد شخصیت کا ہاتھ ہے تو وہ ڈاکٹر وزیر آغا ہیں۔ ان کے رسالہ اوراق نے اس باب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
…گوپی چند نارنگ
٭٭
طنزیہ مزاحیہ مضامین انشائیہ نگاری کے مختلف اسالیب نہیں بلکہ قطعاً الگ قسم کی تحریریں ہیں اور یہ فرق محض لہجہ اور انداز کا فرق نہیں مزاج کا فرق بھی ہے۔ مثلاً غور کیجئے کہ ایک مزاحیہ مضمون کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں فاضل جذبہ خارج ہو جاتا ہے جب کہ انشائیہ میں جذبہ صرف ہوتا ہے۔
…وزیر آغا
٭٭
انشائیہ صرف منطق پر آکر رک نہیں جاتا وہ اس سے بھی آگے جانا چاہتا ہے اور جاتا بھی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم زندگی کی صداقتوں کو محض منطق کے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتے۔ سچائی کی راہ میں منطق ہمیں ایک خاص منزل پر لا کر خود آگے چلنے سے انکار کر دیتی ہے۔ کسی ایک صداقت کے بہت سے رخ آپ کو ایک انشائیہ میں نظر آ سکتے ہیں۔ شاید اس کا ایک ہزارواں حصہ بھی منطق میں نظر نہیں آ سکتا اور یوں انشائیہ کی منطقی صورت خالی پھیکی منطق کی صورت سے کہیں بڑھ کر صداقت ساماں اور صداقت افروز ہو تی ہے۔
…مشکور حسین یاد
٭٭
انشائیہ کے اسلوب میں جو لچک ملتی ہے اس کی بنا پر دیگر اصناف کے اسلوب سے بھی بقدرِظرف استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن سلیقہ اور احتیاط کے ساتھ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذراسی بے احتیاطی یا فنّی چوک کے نتیجے میں انشائیہ کا اسلوب اس رس سے محروم ہو جائے گا جو اس کا جوہر سمجھا جا تا ہے اور جس کے بغیر انشائیہ محض ایک روکھا پھیکا نثر پارہ بن کر رہ جاتا ہے۔
…ڈاکٹر سلیم اختر
٭٭
برصغیر میں انشائیہ کی تحریک کا آغازڈاکٹر وزیر آغاکی ان شگفتہ تحریروں سے اردو ادب میں بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ہوا تھا۔ جو بعد میں کتابی شکل میں ’خیال پارے‘ کے نام سے شائع ہوئی تھیں۔ اس سلسلے میں ’ادب لطیف‘ لاہور اور ’ادبی دنیا‘ لاہور میں اردو ادب کی اس نوزائیدہ صنف کے لیے خاصی بحث وتمحیص کے بعد اس کا نام ’انشائیہ‘ قرارپایا تھا۔ جو فوراً ہی ہرخاص وعام کی زبان پر چڑھ گیا۔
عملی تنقید کی عدم صلاحیت، اسلوبی مطالعے اور تحریر کی انفرادی شناخت کی عدم قوت کے نتیجے میں سنجیدہ مضامین، طنزیہ مزاحیہ مضامین اور نصابی ضروریات پوری کرنے والے ہر قسم کے مضامین کو انشائیہ کے نام سے یاد کیا جائے لگا۔
…احمد جمال پاشا
ماخوذ: اوراق، انشائیہ نمبر اپریل مئی ۱۹۸۵
٭٭
میرے نزدیک انشائیہ کسی خاص موضوع کے بارے میں ادیب کی سوچ کا عکس ہوتا ہے۔ اس صنف کی کوئی معین صورت نہیں ہے۔ ہر ادیب کا سلسلۂ خیال دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں حکمت کی گہرائی اور زندگی کی شگفتگی، مسائلِ حیات کی متانت اور ساتھ ہی ان کی ہلکی پھلکی ہئتیں، سبھی کچھ سما سکتا ہے۔ اسی لیے میں انشائیہ پر کسی بھی ہیئت کی چھاپ لگانے کا مخالف ہوں۔
…احمد ندیم قاسمی
ماخوذ: انشائیہ کی بنیاد۔ ڈاکٹر سلیم اختر
٭٭
صنف انشائیہEssay اردو کی اور کئی اصناف کی طرح مغرب سے مستعار ہے لہٰذا اسلوب انشائیہ کے سلسلے میں وہی موقف ہونا چاہئے جو مغرب میں برتا گیا ہے۔
…سجاد باقر رضوی
ماخوذ: انشائیہ کی بنیاد۔ ڈاکٹر سلیم اختر
٭٭
انشائیہ میں کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے منطقی دلائل کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ شاعرانہ دلائل سے بات کی جاتی ہے لہٰذا انشائیہ کی نثر میں شاعری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ انشائیہ ہلکا پھلکا ہوتا ہے اور مقالے یا مضمون کی سنجیدگی اسے بور بنا دیتی ہے چنانچہ اکثر اوقات مصنف مزاح سے دلچسپی کو بر قرار رکھتا ہے لیکن اگر کسی چیز کے بارے میں سراسر مزاحیہ انداز اختیار کیا جائے تو انشائیہ نہ رہے گا بلکہ مزاحیہ مضمون بن جائے گا۔
…ڈاکٹر حسن اختر
ماخوذ: انشائیہ کی بنیاد۔ ڈاکٹر سلیم اختر
٭٭
آزاد نظم اور انشائیہ دونوں اصناف ادب مغرب سے مستعار ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں اصناف ادب کو شدید رد و قبول کے مراحل سے گزرنا پڑا اور درجہ قبولیت کو پہنچنے میں خاصا وقت لگا۔ اگرچہ بعض احباب نے تو انہیں شجر ممنوعہ قرار دیتے ہوئے ہاتھ نہ لگانے تک کا مشورہ دیا لیکن وقت نے ان کی توقعات کے برعکس فیصلہ کیا اور یہ دونوں اصناف ادب ایسی سخت جان ثابت ہوئیں کہ بیسویں سے اکیسویں صدی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ آزاد نظم کے بعد غالباً انشائیہ ہی ایسی صنف نثر ہے جو محققین اور ناقدین کی توجہ کا باعث ٹھہری…چند نثری تحریروں کی پیشانی پر لفظ ’انشائیہ‘ کا تحریر ہونا تھا کہ بحث و تمحیص کے ایک طویل سلسلے نے جنم لیا اور ہر اس صنف کے مقتضیات کو بہ قدر ظرف سمجھانے لگا جس کے نتیجے میں دو متضاد مکاتب فکر منظر عام پر آ گئے کہ جن کے مابین اتفاق واتصال کی صورت مفقود رہی۔
…قمر علوی
٭٭٭
تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تندیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید