انشائیہ کیا ہے؟ … بادی النظر میں انشائیہ یا پرسنل ایسے کی حدود کو متعین کرنا ایک خاصا کٹھن کام ہے۔ کیونکہ نہ صرف تاریخی اعتبارسے انشائیہ کے مفہوم اور ہیئت میں کئی انقلابی تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں بلکہ ہر انشائیہ کیا بہ لحاظ مواد اور کیا بہ لحاظ تکنیک ایک جداگانہ کیفیت کا حامل ہے۔ تاریخی اعتبار سے بیکن، لیمب، چسٹرٹن کے طریق کار میں اتنا تفاوت ہے کہ ان کے لکھے ہوئے مضامین کو ایک ہی زمرے میں شامل کرتے ہوئے سخت ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح دور جدید کے بیشتر لکھنے والوں نے انشائیہ کے سلسلے میں کافی سے زیادہ آزادی سے کام لیا ہے اور ناقد کے لیے انشائیہ کے مقتضیات اور امتیازی محاسن کو علیحدہ کر کے دکھانا مشکل ہو گیا ہے۔ تاہم غائر نظر سے دیکھنے پر انشائیہ کی متنوع کیفیات اور ابلاغ و اظہار کے مختلف سانچوں کے پس پشت ایک علاحدہ صنف ادب کے نقوش واضح طور پر ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ہم ذرا کوشش سے انشائیہ کی حدود کو متعین اور محاسن کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔
ایک چیز جو انشائیہ کو دوسری اصناف ادب سے ممیز کرتی ہے، اس کا غیر رسمی طریق کار ہے۔ در اصل انشائیہ کے خالق کے پیش نظر کوئی ایسامقصد نہیں ہوتا جس کی تکمیل کے لیے وہ دلائل و براہین سے کام لے اور ناظر کے ذہن میں رد و قبول کے میلانات کو تحریک دینے کی سعی کرے۔ اس کا کام محض یہ ہے کہ چند لمحوں کے لیے زندگی کی سنجیدگی اور گہماگہمی سے قطع نظر کر کے ایک غیر رسمی طریق کار اختیار کرے اور اپنے شخصی رد عمل کے اظہار سے ناظر کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کر لے۔ دوسرے لفظوں میں تنقید یا تفسیر کا خالق اس افسر کی طرح ہے جو چست اور تنگ سا لباس زیب تن کیے دفتری قواعد و ضوابط کے تحت اپنی کرسی پر بیٹھا، احتساب اور تجزیے کے تمام مراحل سے گزرتا ہے اور انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفترسے چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے، چست اور تنگ سالباس اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ موڑھے پر نیم دراز ہو کر اور حقہ کی نے ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے مصروف گفتگو ہو جاتا ہے۔ انشائیہ کی صنف اسی شگفتہ موڈ کی پیداوار ہے اور اس کے تحت انشائیہ کا خالق نہ صرف رسمی طریق کار کی بجائے ایک غیر رسمی طریق کار اختیار کرتا ہے بلکہ غیر شخصی موضوعات پر نقد و تبصرے سے کام لینے کی بجائے اپنی روح کے کسی گوشے کو بے نقاب اور اپنے شخصی رد عمل کے کسی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ انشائیہ کے خالق کے پاس کئی ایک ایسی کہنے کی باتیں ہوتی ہیں جنھیں وہ آپ تک پہچانے کی سعی کرتا ہے … اس طور کہ آپ فی الفور اس کے دائرۂ احباب میں شامل ہو جاتے اور اس کے دل تک رسائی پا لیتے ہیں۔ شاید اسے کوئی واقعہ بیان کرنا ہوتا ہے یا کسی ’ذہنی کیفیت‘ پرسے نقاب اٹھانا یا محض زندگی کے مظاہر کو ایک نئے زاویے سے پیش کرنا ہوتا ہے اور وہ اس صنف ادب کا سہارا لے کر اپنی شخصیت یا ذات کے کسی نہ کسی گوشے کو عریاں کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ بنیادی طور پر انشائیہ کے خالق کا کام ناظر کو مسرت بہم پہچانا ہے۔ اس کے لیے وہ طنز سے کچھ زیادہ کام نہیں لیتا۔ کیونکہ طنز ایک سنجیدہ مقصد لے کر برآمد ہوتی ہے اور اس کے عمل میں نشتریت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک اچھے انشائیہ میں طنز کبھی بھی مقصود بالذات نہیں ہوتی۔ بلکہ محض ایک ’سہارے‘ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح انشائیہ کا خالق محض مزاح تک اپنی سعی کو محدود نہیں رکھتا۔ کیونکہ محض مزاح سے سطحیت پیدا ہوتی ہے اور بات قہقہہ لگانے اور ہنسنے ہنسانے سے آگے نہیں بڑھتی … اس کے برعکس ایک اچھا انشائیہ پڑھنے کے دوران میں آپ شاید حظ، مزاح، طنز، تعجب، اکتساب علم اور تخیل کی سبک روی، ایسے بہت سے مراحل سے روشناس ہوں لیکن انشائیہ کے خاتمے پر آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ نے زندگی کے کسی مخفی گوشے پر روشنی کا ایک نیا پرتو دیکھا ہے اور آپ زندگی کی عام سطح سے اوپر اٹھ آئے ہیں۔ کشادگی اور رفعت کا یہ احساس ایک ایسا متاع گراں بہا ہے جو نہ صرف آپ کو مسرت بہم پہنچاتا ہے بلکہ آپ کی شخصیت میں بھی کشادگی اور رفعت پیدا کر دیتا ہے۔
انشائیہ کی ایک اور امتیازی خصوصیت اس کی ’عدم تکمیل‘ ہے۔ ایک مقالہ لکھتے وقت جہاں یہ ضروری ہے کہ موضوع پر بحث کے تمام تر پہلوؤں پرسیرحاصل تبصرہ کیا جائے اور تحلیل، تجزیہ اور دلیل سے اپنے نقطہ نظر کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ مقالہ ایک مکمل و اکمل صورت اختیار کر لے وہاں انشائیہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موضوع کی مرکزیت تو قائم رہتی ہے لیکن اس مرکزیت کا سہارا لے کر بہت سی ایسی باتیں بھی کہہ دی جاتی ہیں، جن کا بظاہر موضوع سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ایک مقالے کی بہ نسبت انشائیہ کا ڈھانچہ کہیں زیادہ لچکیلا (Loose) ہوتا ہے اور اس میں مقالے کی سنگلاخی کیفیت موجود نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ انشائیہ میں ایک مرکزی خیال کے با وصف دلائل کا کوئی منضبط سلسلہ قائم نہیں کیا جاتا اور انشائیہ کے مطالعہ کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ انشائیہ لکھنے والے نے موضوع کے صرف ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جو اس کے شخصی رد عمل سے اثرپذیر تھے اور جن کی نکیلی کیفیت اس بات کی متقاضی تھی کہ مصنف ان کو ناظر تک پہچانے کی سعی کرتا۔ اس مقام پر ایک انشائیہ اور غزل کے ایک شعر میں گہری مماثلت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ غزل کے شعر کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ایک نکتہ کو اجاگر تو کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے تمام تر پہلوؤں کو ناظر کے فکر و ادراک کے لیے نامکمل صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی حال ایک انشائیہ کا ہے کہ اس میں موضوع کے صرف چند ایک انوکھے پہلوؤں کو پیش کر دیا جاتا ہے اور اس کے بہت سے دوسرے پہلو تشنہ اور نامکمل حالت میں رہ جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر انشائیہ لکھنے والے کا مقصد آپ کی سوچ بچار کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔ بے شک وہ اپنے موضوع کے بیان میں صرف شخصی واردات اور تجربات اور اپنے ذاتی رد عمل کے اظہار تک ہی اپنی مساعی کو محدود رکھتا ہے۔ تاہم اس کے پیش نظر مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ کو سوچنے پر مائل کرے۔ چنانچہ ایک اچھے انشائیہ کی پہچان یہ ہے کہ آپ اس کے مطالعہ کے بعد کتاب کو چند لمحوں کے لیے بند کر دیں گے اور انشائیہ میں بکھرے ہوئے بہت سے اشارات کا سہارا لے کر خود بھی سوچتے اور محظوظ ہوتے چلے جائیں گے۔
انشائیہ کی اس روش کا نتیجہ انشائیہ کی وہ مخصوص صورت بھی ہے جو اسے دوسری اصناف ادب سے ممیز کرتی ہے۔ یعنی ایک انشائیہ نثر کی دوسری اصناف سے اپنے اختصار کے باعث علیحدہ نظر آتا ہے۔ سانیٹ کی طرح انشائیہ کا بھی ایک مختصر سامیدان ہے جس کے اندر انشائیہ لکھنے والا آپ کو تصویر کا ایک مخصوص رخ دکھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک وہ جذبات، احساسات اور تخیلات میں کاٹ چھانٹ اور کفایت Economy کا قائل نہ ہو، اس کے لیے چند لفظوں میں موضوع کی سب سے نکیلی کیفیات کو پیش کرنا مشکل ہو گا، لیکن اختصار کی یہ خصوصیت اس بات کے تابع ہے کہ انشائیہ کا پس منظر کس قدر شاداب یا بے آب و گیا ہے۔ چنانچہ بقول ہڈسن اگر انشائیہ لکھنے والے نے اس لیے اختصار سے کام لیا ہے کہ اس کے پاس کہنے کی باتیں ہی گنتی میں کم ہیں اور اس کے تجربات اور محسوسات تعداد اور شدت میں نہ ہونے کے برابر ہیں تو اس کا لکھا ہوا انشائیہ یقیناً انشائیے کے معیار پر پورا نہیں اترے گا۔ اس کے برعکس اگر انشائیہ لکھنے والے کا ذہن زرخیز ہے اور اس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ لیکن اس نے انشائیہ کی محدود سی دنیا میں اپنے احساسات اور تخیلات کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی ہے تو اس کا یہ انشائیہ یقیناً ایک قابل قدر چیز ہو گا اور ناظرین کو وہ تمام کیفیات مہیا کرے گا جو انشائیہ سے مخصوص ہیں۔
ایک آخری چیز جسے انشائیہ کا امتیازی وصف سمجھنا چاہیے۔ اس کی ’تازگی‘ ہے۔ یوں تو تازگی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے بغیر کوئی بھی صنف ادب فن کے اعلیٰ مدارج تک نہیں پہنچ سکتی۔ تاہم شاید انشائیہ ہی ایک ایسی صنف ادب ہے جس میں نہ صرف تازگی کا سب سے زیادہ مظاہرہ ہوتا ہے، بلکہ جس کی ذراسی کمی بھی انشائیہ کو اس کے فنی مقام سے نیچے گرا دیتی ہے۔ تازگی سے مراد محض اظہار و ابلاغ کی تازگی نہیں۔ کیونکہ یہ چیز تو بہرحال انشائیہ میں موجود ہونی چاہیے۔ تازگی سے مراد موضوع اور نقطہ نظر کا وہ انوکھا پن بھی ہے جو ناظر کو زندگی کی یکسانیت اور ٹھہراؤ سے اوپر اٹھا کر ماحول کا از سر نو جائزہ لینے پر مائل کرتا ہے۔ عام طور پر ہم سب زندگی کے مظاہر کو ہر روز دیکھتے دیکھتے ان کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ ہمیں ان کے بہت سے نکیلے کنارے نظر ہی نہیں آتے اور زندگی ہمارے لیے ایک کھلی ہوئی کتاب کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب محض ہمارے رد عمل کا قصور ہے ورنہ زندگی کے دامن میں نئے پہلوؤں کے قحط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انشائیہ لکھنے والے کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیں ایک لحظہ کے لیے روک کر زندگی کے عام مظاہر کے ایسے تازہ پہلو دکھاتا ہے، جنھیں ہماری نظروں نے اپنی گرفت میں نہیں لیا تھا اور جو ہمارے لیے گویا موجود ہی نہیں تھے۔ اس مقام پر ایک انشائیہ لکھنے والے اور ایک غیر ملکی سیاح کے رجحان میں قریبی مماثلت بھی دکھائی دیتی ہے کہ جس طرح ایک سیاح کو کسی نئے ملک کی بہت سی ایسی انوکھی باتیں فوراً معلوم ہو جاتی ہیں جو اہل وطن کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایک انشائیہ لکھنے والا زندگی کے عام مظاہر کے ان تازہ پہلوؤں کو دیکھ لیتا ہے جو زندگی میں سطحی دلچسپی کے باعث ایک عام انسان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
زندگی کی ان انوکھی اور تازہ کیفیات کا احساس دلانے کے لیے انشائیہ کا خالق کئی ایک طریق اختیار کرنا جانتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ بلندی پرسے زندگی کے بظاہر اعلیٰ اور بلند مظاہر کی پستی کا ایک تصور قائم کرتا ہے یا ایک شریر آئینے میں سے ماحول کا بگڑا ہوا منظر دکھاتا ہے یا پھر زندگی کے تسلیم شدہ قواعد و ضوابط پر نظر ثانی سے ہمیں چونکانے لگتا ہے۔ بہرصورت اس کا کام تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا ہے اور ہمیں عادت اور تکرار کے حصار سے لحظہ بھرکے لیے نجات دلانا ہے تاکہ ہم غیر جانبدارانہ طریق سے زندگی کے روشن اور تاریک رخ کا جائزہ لے سکیں۔ واضح رہے کہ انشائیہ کا خالق کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتا اور ورنہ مشورہ ہی دیتا ہے اس کے علاوہ وہ کوئی مکمل نقطہ نظر پیش کرنے، اصلاح دینے یا اپنے شدید جذباتی رد عمل سے آپ کو متاثر کرنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ اس کا کام محض ایک عام چیز کے کسی انوکھے اور تازہ پہلو کی طرف آپ کو متوجہ کرنا ہے اور آپ کو ایک مخصوص انداز سے سوچنے کی ترغیب دینا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی انشائیوں کے عنوانات دیکھئے کہ کس طرح انشائیہ لکھنے والے نے زندگی کی عام ڈگرسے ہٹ کر زندگی کے دیوانہ وار بڑھتے ہوئے قافلے پر ایک نظر ڈالی ہے اور ایک انوکھی صنف ادب کا سہارا لے کر ناظر کو بھی اپنے تجربے میں شامل کر لیا ہے۔ عنوانات ہیں:
٭ In Praise of Mistakes (Robert Lynd)
٭ On the Pleasure of No Longer Being Young (G. K. Chesterton)
٭ Why Distant Objects (P lee Hazlitt)
٭ On the Ignorance of the Learned (Hazlitt)
یہ عنوانات اس بات پر دال ہیں کہ انشائیہ کا خالق اپنے موضوع کے انتخاب میں جدت سے کام لیتا ہے۔ تاہم بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ انشائیہ کے مطالعہ کے بعد ناظر کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ چند لمحوں میں حظ، تعجب اور مسرت کی بہت سی منازل طے کر آیا ہے۔ انشائیہ کی امتیازی صورت ایک بڑی حد تک اسی ’خوشگوار تازگی‘ کی رہین منت ہے۔
انشائیہ کے بنیادی محاسن کو اجاگر کرنے کے بعد قدرتی طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اردو میں انشائیہ کی صنف کے بارے میں تحقیق کی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اردو انشائیہ نے اب تک کیا ترقی کی ہے اور مستقبل میں اس کے فروغ و ارتقا کے کیا امکانات ہیں۔ لیکن جب اردو انشائیہ کا جائزہ لیا جائے تومایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ناقدین ادب نے اردو انشائیہ کے تاریخی اور تدریجی ارتقا کو مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو میں انشائیہ کے وجود کو ثابت کرنے کی دھن میں انھوں نے کسی قابل قدر تحقیقی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہرقسم کے طنزیہ مضامین یا غیر شخصی سنجیدہ نگارشات کو انشائیہ کا نام دے کر محض خود کو تسلی دینے کی سعی کی ہے۔ فی الواقع اردو میں تا حال انشائیہ کی صنف بطور ایک تحریک کے معرض وجود میں نہیں آئی۔ کہیں ایک آدھ چیزایسی مل جاتی ہے جسے ایک لحظہ کے لیے انشائیہ کے تحت شمار کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن پھر فوراً ہی بعض نقائص کے پیش نظریہ ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔ سرسیداحمد خاں کے بعض مضامین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں انشائیہ کے تحت شمار کر سکتے ہیں۔ لیکن میری دانست میں ایسا کرنا درست نہیں۔ کیونکہ سرسید کے بیشتر مضامین میں ایک تو سنجیدہ مباحث کا انداز ملتا ہے، جو انشائیہ میں نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے انداز بیان میں وہ تخلیقی تازگی نہیں جو انشائیہ کا بنیادی وصف ہے۔ تیسرے ان مضامین میں سرسید نے اپنی ذات کے کسی نامعلوم گوشے کو عریاں کرنے کی بجائے خارجی زندگی کے واقعات اور مسائل کو نمایاں کیا ہے۔ چنانچہ ہم ان مضامین کو انشائیہ کے زمرے میں شامل نہیں کر سکتے۔ سرسید کے بعد انشائیہ کے ضمن میں سجاد حیدر یلدرم اور خواجہ حسن نظامی کے نام عام طور سے پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اہل قلم نے انشائیہ نویسی کی صلاحیت کے با وصف، اس صنف ادب کا کوئی صحیح نمونہ پیش نہیں کیا۔
سجاد حیدر یلدرم کا مضمون ’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘ کا ذکر ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ یہ مضمون اور یجنل نہیں بلکہ ماخوذ ہے۔ سجاد حیدر یلدرم کے بعض دوسرے مضامین میں کہیں کہیں انشائیہ نویسی کے تیور ضرور ملتے ہیں لیکن ان میں سے شاید ایک مضمون بھی ایسانہیں ہے جسے ’انشائیہ‘ کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ خواجہ حسن نظامی کے ہاں بھی انشائیہ نویسی کا رجحان تھا اور وہ ایک انشائیہ نویس کی طرح زندگی کے بظاہر غیر اہم موضوعات پر قلم اٹھانے پربھی مائل تھے۔ (مثلاً مچھر وغیرہ پر ان کے مضامین) لیکن ان تمام مضامین میں انشائیہ کی دو اہم خصوصیات کا فقدان ہے۔ ایک تو ان مضامین کا لہجہ انشائیہ کے لہجے سے ہم آہنگ نہیں۔ دوسرے ان میں مصنف کی اپنی ذات یا شخصیت اجاگر نہیں ہوئی۔ چنانچہ یہ مضامین انشائیہ کے تحت شمار نہیں ہو سکتے۔ فرحت اللّٰہ بیگ کے ہاں وہ بہت سی باتیں ملتی ہیں، جو انشائیہ کا امتیازی وصف قرار پا چکی ہیں۔ مثلاً شگفتہ انداز نگارش اور موضوع سے مصنف کا گہرا تعلق وغیرہ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ فرحت اللّٰہ بیگ کے ہاں بھی دوسرے کرداروں کی عکاسی یا واقعات کا بیان ہی انشا کا غالب ترین عنصر ہے اور اسی لیے وہ بھی اپنی ذات کے کسی گوشے کو عریاں نہیں کرتے۔ ’نذیر احمد کہانی‘ اور ’پھول والوں کی سیر‘ اردو ادب میں زندہ رہنے والی تخلیقات ضرور ہیں لیکن انہیں انشائیہ کے طور پر پیش کرنا بے حد مشکل ہے۔
جدید دور میں مولانا ابو الکلام آزاد کی تصنیف ’غبار خاطر‘ کے بعض ٹکڑے انشائیہ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چڑیوں کے سلسلے میں مولانا موصوف کے تجربات یا قہوہ کے بارے میں ان کا مخصوص رد عمل۔ ان ٹکڑوں میں پر شکوہ اسلوب نگارش کی بجائے مولانا نے ایک ایسا ہلکا پھلکا اور شگفتہ سٹائل اختیار کیا ہے جو انشائیہ کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ افسوس ہے کہ مولانا نے اپنے اس مخصوص انداز میں کچھ زیادہ چیزیں تحریر نہیں کیں۔ اگر وہ اس صنف کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوتے اور اپنی تحریروں سے انکشاف ذات کا کام بھی لیتے تو یقیناً انہیں انشائیہ کے ضمن میں ایک مقام امتیاز حاصل ہوتا … جدید دور میں مضمون نگاری کو بے شک اہمیت ملی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انشائیہ کی بجائے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ چنانچہ پطرس کے سارے مضامین مزاحیہ ہیں اور کنہیا لال کپور کے بیشتر مضامین طنزیہ ہیں۔ لیکن ان دونوں کے ہاں شاید ایک مضمون بھی ایسانہیں جسے انشائیہ کے مزاج کا حامل کہا جا سکے۔ رشید احمد صدیقی کے ہاں اگرچہ طنزیہ انداز غالب ہے اور ان کے مزاح کی اساس ایک حد تک لفظی الٹ پھیر پربھی قائم ہے۔ تاہم ان کے مضامین میں کہیں کہیں انشائیہ کے تیور ضرور مل جاتے ہیں پھر بھی ہم انہیں ’انشائیہ نویس‘ تو یقیناً نہیں کہہ سکتے۔ کرشن چندر کی کتاب ’ہوائی قلعے‘ کے بعض مضامین انشائیہ سے قریب ہیں لیکن شاید یہ زمانہ ہی طنزواحتساب کا زمانہ تھا کہ کرشن چندر نے خود کو اپنی ذات کی بجائے خارجی ناہمواریوں کی طرف متوجہ کیا اور اسی لیے انشائیہ تخلیق نہیں کر پائے۔ ان کے مقابلے میں فلک پیما کے ہاں انکشاف ذات کا عنصر نسبتاً زیادہ ہے اور ان پر انگریزی انشائیہ کا اثر بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے فلک پیما کے بیشتر مضامین مختصر نوٹس Notes کی صورت اختیار کر گئے ہیں یا مکالمے کے انداز میں ڈھل گئے ہیں۔ چنانچہ ان مضامین کو بھی ہم انشائیہ نہیں کہہ سکتے۔
جدید ترین دور میں انشائیہ کی طرف سنجیدگی سے توجہ ہونے لگی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کی بعض تحریروں بالخصوص ’لمحے‘ اور ’چمن آرائی‘ کو ہم انشائیہ کا نام دے سکتے ہیں دوسرے مضامین میں ڈاکٹر صاحب نے غواصی کی بجائے بیان اور مشاہدے پرنسبتاً زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ پچھلے دنوں مشکور حسین یاد نے انشائیہ لکھنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن دو تین ہی مضامین کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔ ان مضامین میں مشکور حسین یاد نے انشائیہ کے بنیادی محاسن کو پیش نظر ضرور رکھا تھا۔ لیکن وہ اپنے خیالات کے اظہار میں ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھے۔ دوسرے ان کے ہاں کہیں کہیں اصلاحی رنگ بھی آ گیا تھا۔ یہ دونوں باتیں انشائیہ کے لیے مضر ہیں۔
تو یہ ہے اردو زبان میں انشائیہ کی مختصرسی داستان۔ در اصل انشائیہ کا پورے طور سے تجزیہ کیے بغیر ہر قسم کی مزاحیہ یا نیم مزاحیہ تخلیق کو انشائیہ کا نام دے کر پیش کرنے کی جو روش ہمارے یہاں قائم ہوئی ہے، انشائیہ کے فروغ و ارتقا کے لیے مضر ہے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پہلے سنجیدگی سے انشائیہ کا مطالعہ کریں، اس کی حدود کا تعین کریں اور پھر اس میزان پرہراس ادبی تخلیق کو تولنے کی کوشش کریں۔ جسے بطور انشائیہ پیش کیا جائے۔ میری دانست میں انشائیہ کو فروغ دینے کا یہی ایک احسن طریق ہے۔
(ماخوذ: انشائیہ کے خد و خال، وزیر آغا، لاہور، ۱۹۹۰ء)
٭٭٭